وہ توحید جو انسانیت سے مطلوب ہے
شیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں وہ توحید جو (انسانیت سے ) مطلوب ہے وہ توحید الوہیت ہے، اور اسی لئے تمام انبیاءکرام ؑ نے اپنی دعوت کا آغاز اپنی قوم کو یہ کہتے ہوئے کیا:
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ
’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو تمھارا اس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘
الاعراف :59
انہوں نے توحید الوہیت کی طرف دعوت دی جیسا کہ قرآن کریم نے ان سے متعلق یہ بیان کیا کیونکہ یہ توحید الوہیت ہی تھی کہ جس کا انسانیت نے انکار کیا اور شیاطین نے اسی کے متعلق گمراہ کیا۔
جبکہ توحید ربوبیت تو ایک حاصل شدہ، موجودہ اور دلوں میں راسخ چیز ہے ۔لہذا اسی پر اقتصار و اکتفاءکرنا بندے کو نجات نہیں دلا سکتا، اور نہ ہی اسے موحدین مومنین کے زمرے میں داخل کر سکتا ہے ۔ اسی بناءپر رسول اللہ ﷺ نے کفارِ قریش سے قتال کیا، حالا نکہ وہ اس بات کے اقراری تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق، رازق، مدبر، اور محیی و ممیت (زندگی و موت کا مالک) ہے۔ پس آپ نے ان سے قتال کیا اور ان کے خون کو حلال جانا جب تک کہ انہوں نے توحید الوہیت کا اقرار نہ کر لیا ۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
’’امرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا : لا إلہ إلا اللہ ، فإذا قالوھا عصموا منی دماء ھم وأموالھم إلا بحقھا‘‘
( مجھے [اللہ تعالیٰ کی طرف سے] حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ ا لا اللہ کا اقرار کریں اور اگر وہ اس کا اقرار کر لیں تو وہ مجھ سے اپنی جانیں اور مال بچا لیں گے مگر [جو] اس کا حق [بنتا ہو اس]کے ساتھ، اور ان کا باقی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے)
اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مخلوق سے جو سب بڑا مطلوب ہے وہ توحید الوہیت ہے، اسی وجہ سے آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات کااقرا کریں کہاللہ تعالیٰ ہی خالق، رازق اور محیی وممیت ہے کیونکہ وہ تو اس بات کے پہلے ہی معترف تھے، بلکہ آپﷺ نے فرمایا:’’یہاں تک کہ وہ لا ا لہ الا اللہ کا اقرار کر لیں“ یا ” اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں‘‘
یہ اور اس کے علاوہ موجودہ دور میں دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ توحید کی ایک نئی تفسیر بیان کرتے ہیں، اور وہ ہے (توحید الحاکمیت) (توحید حاکمیت)، لہٰذا انہوں نے ( لا ا لٰہ الا اللہ) کا مطلب یہ لیا کہ (کسی کی حاکمیت نہیں سوائے اللہ کے) اور انہوں نے سلف صالحین کی تفاسیر پر غور ہی نہیں کیااس عظیم الشان گواہی کے بارے میں ، جسے انہوں نے صرف حاکمیت تک محدود کر دیا ہے۔اور ہم یقینا اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ (کسی کی حاکمیت نہیں سوائے اللہ کے)لیکن حاکمیت کا معاملہ توحید کے اندر داخل ہے۔
لہٰذاان کی تفاسیر سے جس میں انہوں نے توحید کو حاکمیت تک محدود کر دیا یہ بات لازم آئی کہ ان کو یہ کہنا پڑا کہ شرک القصور(بادشاہوں کے محلات اور حکومتی پارلیمنٹ کا شرک)کے خلاف لڑنا ضروری ہے! جبکہ شرک القبور (قبر پرستی کے شرک) کو انہوں نے پس پشت ڈال دیا!، بلکہ شرک القبور کو (الشرک البرائی) اور (الشرک الشازج)(قدیم اور بلکل سادہ سے شرک) سے تعبیر کیا گیا ، تو ان لوگوں نے اس شرک سے کنارہ کشی اختیارکی اور اپنے آپ کو (شرک القصور) میں مشغول کر لیا ! جسے وہ آج الشرک السیاسی (سیاسی شرک)بھی کہتے ہیں !!
جب علامہ صالح الفوزان سے (لا اِ لہٰ اِلا اللہ) کا مطلب دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
’’نبیﷺ نے یہ بات بیان کر دی ہے کہ (لا اِ لہٰ اِلا اللہ) کا مطلب یہ ہے کہ محض حاکمیت سے نہیں بلکہ تمام ترعبادات صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ادا کی جائیں، لہٰذا( (لا اِ لہٰ اِلا اللہ)کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے ، اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ عبادت کو صرت ایک اللہ کے لیے خالص کیا جائے، اور اس میں شریعت کے مطابق فیصلے کرنا بھی شامل ہے، اور (لا اِ لہٰ اِلا اللہ) کا مطلب اس سے بھی زیادہ عام ہے، اور اس سے زیادہ اہم ہے کہ شریعت کو اختلافی اور متنازع معاملات میں حاکم بنایا جائے، ان تمام باتوں سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ زمین کو شرک سے پاک کیا جائے، اور تمام تر عبادت خالصتاً اللہ کے لئے ادا کی جائے۔
ثابت یہ ہوا کہ یہ ہے اس کلمہ ظیبہ کی صحیح تفسیر، لہٰذا اس کی حاکمیت سے تفسیر، کرنا اور حاکمیت تک محدود رکھنا ایک ناقص تفسیر ہے جو در حقیقت (لا اِ لہٰ اِلا اللہ) کا صحیح تصوّر اور مفہوم نہیں پیش کرتی ، اور اس کی یہ تفسیر کہ کلمہ ظیبہ کا مطلب یہ ہے کہ (کوئی پیدا کرنے والا نہیں سوائے اللہ کے) محض ناقص نہیں بلکہ باطل تفسیر ہے۔
توحید کی تین اقسام کا بیان قرآن حکیم سے
شیخ فوزان مزید فرماتے ہیں: جن آیات سے توحید کی تینوں اقسام (ربوبیت، الوہیت اور اسماءوصفات)اخذ کی جاتی ہیں وہ بہت سی ہیں جیسے سورة جو کہ مصحف قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے اس میں توحید کی تینوں اقسام کا بیان ہے: پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
(الحمد للہ رب العالمین)
(تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو رب العالمین ہے)
(الفاتحہ: 2)
اس میں توحید ربوبیت کا بیان ہے کیونکہ یہ آیت تمام جہانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کو ثابت کرتی ہے ۔ العالمین کا معنی اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز اور رب یعنی مالک ومدبر۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا:
(الرحمٰن الرحیم o مالک یومِ الدین)
(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)
( الفاتحہ:5)
اس میں توحید الوہیت کا بیان ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کو عبادت و استعانت میں اکیلا ماننے کے وجوب پر دلالت پائی جاتی ہے۔
اسی طرح سورة الناس جو کہ مصحف کی سب سے آخری سورت ہے اس میں بھی توحید کی انہی تینوں اقسام کا بیان ہے:
پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
(قل اعوذبرب ا لناس)
(کہو! میں لوگوں کے رب کی پناہ چاہتا ہوں)
(الناس:1)
یہ توحید ربوبیت ہے۔
مَلِكِ النَّاسِ Ąۙ
(لوگوں کے شہنشاہ کی)
(الناس:2)
یہ توحید اسماءو سفات ہے۔
اِلٰهِ النَّاسِ Ǽۙ
(لوگوں کے معبود حقیقی کی)
(الناس: 3)
یہ توحید الوہیت ہے۔
اسی طرح مصحف میں جو سب سے پہلی نداءو پکار ہے(یا ام و حکم ہے )وہ توحید کی دو اقسام پر مبنی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 21ۙالَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً ۠ وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 22 (سورہ البقرہ)
(اے لوگو ! عبادت کرو اپنے رب کی جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تا کہ تم متقی بن جاﺅ یا عذاب سے بچ جاﺅ۔ جس نے تمھارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیداکر کے تمہیں روزی دی ، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو)۔
( البقرۃ:21-22)
کیا یہ اللہ تعالیٰ کے افعال نہیں ؟ یہ توحید ربوبیت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے توحید الوہیت پر بطور دلیل وبرہان پیش کیا کہ جس طرح وہ اکیلا ان کاموں کو کرتا ہے اسی طرح اس اکیلے کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ، بلکہ یہ خالصتاً اسی سبحانہ و تعالیٰ کا حق ہے۔اس آیت میں توحید کی دو اقسام کا بیان ہے: توحید الوہیت: کیونکہ یہی سب سے بڑا مقصود ہے، اور توحید ربوبیت کو اس توحید الوہیت پر دلیل اور اسے مستلزم ہونے کے طور پر بیان کیا گیا ۔ اس بات کا حکم تمام بنی نوع انسان کو دیا گیا جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 56
(میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا )
(الذاریات:56)
پس خبر دی کہ ان دو عظیم عالموں ( عالم جن و انس)کو وجود بخشا ہی نہیں گیا مگر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اسے اس عبادت میں تنہا تسلیم کرنے اور اسے اس کی الوہیت میں واحد ماننے کے لئے۔ پھر اس کے آخر میں شرک سے منع کیا گیا چناچہ فرمایا:
فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 22
(خبر دار !باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو)
(البقرہ:22)
اندادا یعنی: شرکاء، کہ تم اپنی عبادت کے کچھ امور ان کے لئے بجا لاتے ہو جبکہ تم جانتے بھی ہو کہ اس کی ربوبیت میں کوئی شریک نہیں جو ان امور میں اس کی شراکت کرتا ہو:
۱- زمین آسمان کے پیدا کرنے،
۲- بارش کے نازل کرنے،
۳- نباتات کے اگانے میں۔
تم جانتے بھی ہو کہ ان امور میں کوئی اللہ کا شریک نہیں پھر کس طرح تم اس کے ساتھ غیروں کو اس عبادت میں شریک کرتے ہو؟!
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ ١٦٣ۧ
(اور تمہارا الہ تو ایک الہ ہے جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، وہ بہت رحم کرنے والا بڑا مہربان ہے)
(البقرہ:163)
اس میں توحیدالوہیت کا بیان ہے اور الہ کا معنی ہوتا ہے: معبود او ر ”الوہیت“ کا معنی ہوتا ہے: عبادت و محبت۔
اس آیت کا معنی ہے تمھارا معبود ہے، جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، یعنی : ”لا معبود بحق سواة“ (اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں)۔
اور اس کا یہ فرمان ” الرحمن الرحیم“ تو یہ توحید اسماءو صفات میں داخل ہے: کیونکہ اس میں اللہ کے دو اسماءاور صفت رحمت کا اثبات ہے۔
اور اس کا یہ فرمان:
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۠ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ١٦٤
(آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوںکا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا ، آسمان سے پانی اتار کر، مردہ زمین کو زندہ کر دینا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا ، ہواﺅں کے رخ بدلنا، اور بادل ، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں )
البقرہ:164
اس میں توحید ربوبیت کا بیان ہے جسے اللہ نے توحید الوہیت کی بطور دلیل و برہان ذکر کیا اسے لئے آخر میں فرمایا اس میں آیات (نشانیاں ہیں یعنی اللہ کی عبادت کے برحق ہونے اور غیر اللہ کی عبادت کے باطل ہونے کے دلائل و براہین ہیں۔
چناچہ اس آیت میں توحیدکی تینوںاقسام کا بیان ہے، اور آپ انہیں پورے قرآن کریم میں اسی طرح ساتھ ساتھ پائیں گے۔