السلام علیکم
محتر م بھائی آپ کی پوسٹ پڑی یقین جانئے خوشی ہوئی ۔آپ ایک سنجیدہ سائل محسوس ہوے ۔نہ ہی جذباتیت ہے اور نہ ہی الزام ترشی،مزید یہ کہ سوال کےاندرواقعی طلب پائی جاتی ہے اللہ آپ کو جزائےخیر دے میں دعاکرتاہوں کہ اس فورم کے تمام لوگوں کے اندر یہی رویہ پنپے۔
اب آتے ہیں آپ کے جوابات کی طرف ،برادرم آپ نےموانع التکفیر کے حوالے سے تین سوالا ت اٹھائے ہیں پہلایہ کہ جو مسلمان ضروری دینی علم سیکھنے سے کوتاہی برتے ہیں ان کے بارے میں کیاحکم لگایاجائے،دوسرایہ کہ تاریخ اسلامی میں تاویل و شبہ کے گرفتار جو فرق ضالہ گزرے ہیں محدثین نے ان کی تکفیر کی ہے تو آج ہم کیوں نہی کرسکتے؟آپکا تیسرا او رآخری سوال یہ ہے کہ حالات کی مجبوری کو معتبر سمجھاجاسکتاہے یانہیں؟
جواب دینے سے قبل میں صراحت کردوں کہ یہ کوئی فتوی نہیں ہے بس مسلےکاایک نظری حل ہے۔دیکھیں بھائی جان علمانے اس حوالے سے بڑی تفصیل سے بحث کی ہےکہ دین کا بنیادی علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے اور پھر یہ بھی وضاحت کی ہےکہ کتناعلم یاکون کونسے فرائض کاعلم حصل کرناہر ایک پر واجب ہے امام غزالی نے احیاالعلوم میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہےاس کے علاوہ دور جدید میں بھی منہاج المسلم وغیرہ جیسی کتابیں اسی ضرورت کے تحت لکھی گئیں ہےلیکن ان علما میں سے کسی نے بھی اس علم کی تحصیل میں کوتاہی کرنےوالے کو کافر نہیں کہاوہ فاسق ہوسکتاہےیااس طرح کا کوئی اؤرسخت حکم اس پر لاگو کیاہے علمانے لیکن کافرنہیں کہا۔
آپ کے دوسر ے سوال کےضمن میں عرض کرتاہوں کہ خلافت عباسی کےدور میں ایک وقت ایسا آیا تھا کہ جب کوئی ایک بھی مسلمان گروہ ایسا نہیں تھا جس کی کسی دوسر ےگروہ کی طرف سے تکفیر نہ کی جارہی ہو تو اسوقت سوال پیداہوا کہ آخر مسلمان کون ہے تو علمانے پھر اجماع کیا کہ جو بھی قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑتاہے وہ مسلمان ہوگا چاہے وہ کتناہی تاویل وشبہ میں گڑفتار ہوچناچہ اسے ہی امام ابوالعز حنفی نےشرح عقیدہ طحاوہ میں نقل کیاہے۔آپ نے دیکھانہیں کہ دورحاضرمیں مرزائیوں کوکافر کہنےمیں ایک سو سال علماکےدرمیان بحث مباحثہ ہوتارہاہے حتی کہ ابوالکلام جیسے لوگ ان کے بارےمیں کفر کاحکم نہیں لگاسکے
آپ کےآخری سوال کے ضمن میں عرض کرتاہوں کہ دیکھیں جی ہر وہ مجبوری مجبوری ہےیاہر وہ جبر ،جبرہےجسے شریعت جبر قرار دیتی ہےرہی یہ بات کہ شریعت کونسے جبر کو معتبر مانتی ہےتو اس کاتعین علمائے وقت یا مجتہدین وقت کرسکتے ہیں۔ہر کسی کے پاس یہ اتھارٹی نہیں کہ وہ اس کاتعین کرتےپھرے۔
والسلام
محترم بھائی السلامُ علیکم
آپ کی عزت افزائی کا بہت شکریہ مگر میں تو اپنے آپ کو یہاں ایک ادنا سا ممبر سمجھاتا ہوں.اور آپ لوگوں سے کچھ سیکھنے کے لئے ہی یہ فورم جوائن کیا ہے اور کچھ میرے اپنے نظریات ہیں جو اگر کسی کو پسند آئیں اور وہ قبول کر لے تو خوشی ہوگی -الله آپ کو جزا خیر عطا کرے (آ مین )-
آپ کے جوابات یا توجیہات کسی حد تک قابل قبول ہیں لیکن کچھ چیزیں میرے نزدیک اس معاملے میں ابھی بھی وضاحت طلب ہیں- میرے خیال میں اس موضو ع پہ بات کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے -کہ ہمارے اکثر لوگ جب کبھی تکفیر یا کفرکے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ اس کے لفظی معنی سے بھی نا واقف ہوتے ہیں (میں آپ جیسے اہل علم کی بات نہیں کر رہا ) بلکہ نام نہاد علما ء اور جاہل عوام کی بات کر رہا ہوں -یہی وجہ ہے کہ ایک طبقہ اس معاملے میں اتنا شدّت پسند ہے کہ بات بات پر اپنے مخالف نظریات رکھنے والوں پر کفر کے فتوے لگا دیتا ہے -اور دوسرا طبقہ وہ ہے جس کے سامنے اگر کوئی صریح کفر بھی کر گزرے تو کہنا شرو ع ہو جاتا ہے کہ کسی کو کافر کہنا بہت جہالت کی بات اور بہت بڑا گناہ ہے لہذا جو کوئی کفر کرتا ہے کرنے دو لیکن کافر نہ کہو -اس سے فتنہ بڑھے گا - جب کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم اور صحابہ رضوان الله اجمعین کے دور میں جو کوئی بھی الله کے احکامات سے جان بوجھ کر مونہ پھیرتا تھا اس کو نہ صرف کافر سمجھا جاتا تھا بلکہ کافر -کہا بھی جاتا تھا چاہے وہ کسی مسلمان گھرانے میں ہی کیوں نا پیدا ہوا ہو.
میری ناقص علم کے مطابق کفر کے عربی زبان میں لفظی معنی "کسی چمکتی چیز کو چھپانے کے ہیں" -اگر ہم دین کے لحاظ سے اس کے معنی کریں تو کفر کا مطلب ہو گا "حق کو چھپانا " اور جو کوئی بھی جان بوجھ کر جب کہ حق اس پر واضح ہو گیا ہو اور پھر بھی وہ اس سے پہلو تہی کرے تو وہ کافر ٹھہرے گا -چاہے وہ کوئی عام آدمی ہو عالم ہو مجتہد ہو یا حکمران ہو -اور اب قرآن کے احکامات اور نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی احدیث ہمارے سامنے موجود ہیں -ان احکامات کی پیروی نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی اسوہ اور صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی گزری زندگی کو مطابق ہونی چاہیے -
حق واضح ہے جیسا کہ الله نے قرآن میں فرمایا-
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا سورة الإسراء ٨١
اور کہہ دو کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا
وسلام