السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ! !!!!
ایک بھائی نے بہت زور دیتے ہوئے سوال کیا ہیں میں سوال پوچھنا نہیں چاہتا تھا لیکن بھائی نے بہت زور دیا اس لیے پوچھ رہا ہوں.
کیا ویڈنگ پلاننگ کا کام کرنا صحیح ہے اس کام میں گانا بجانا بھی شامل ہیں.
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
رزقِ حلال کی اہمیت اور فضیلت
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
کسب حلال
’’کسب ِحلال‘‘ دوالفاظ سے مرکب ہے جس کے معنی ہیں ’’حلال کمانا‘‘۔ اسلامی اصطلاح میں اس سے مرادمسلمان کاحلال اورجائز ذرائع اور معروف طریقے سے محنت ومشقت یا تجارت کے ذریعے روزی کمانا کسب حلال کہلاتا ہے۔اگرمال ودولت ناجائز ذرائع مثلاً سود، رشوت، چوری و ڈکیتی، بلیک مار کیٹنگ اور اسمگلنگ اور دیگر غلط ذرائع (جنہیں اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے) سے حاصل کیا گیا ہے تو وہ اسلام کی نظر میں پاکیزہ نہیں ہے بلکہ وہ مال ناجائز اور حرام ہے۔
اسلام یہ تاکید فرماتاہے کہ تمہارا کھانا پینا نہ صرف ظاہری طور پر بھی پاک و صاف ہو بلکہ باطنی طور پر بھی وہ پاک و صاف اور طیب و حلال ہو۔
قرآن پاک میں حلال روزی کھانے کے بارے میں اﷲتبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (168) إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (169)’’اے لوگو! زمین کی ان چیزوں میں سے کھاؤ جو حلال اور طیب ہیں اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہا را کھلا ہو ادشمن ہے، شیطان تو تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کی ترغیب ہی دیتا ہے، اور اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ تم اللہ کے نام وہ باتیں کہو جن کا تمہیں علم نہیں‘‘۔(القرآن)
٭رزق حلال کی اہمیت اور فلسفہ:
حصول ِ رزق ِ حلال عین عبادت ہے…… یعنی جب کسی کا کھانا، پینا اور پہننا اور سب کسب ِحلال سے ہوگا تو اس کا کھانا، پینا اور پہننا سب کچھ عبادت میں شمار ہوگا۔ قرآن پاک میں حلال روزی کھانے کے بارے میں اﷲتبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (172)’’اے ایمان والو! ان پاک چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرتے رہو، اگر تم خاص اس کی عبادت کرتے ہو‘‘۔(سورۃ البقرہ : 172)
اس میں کوئی شک نہیں کہ جائز روزی کمانا کسی بھی انسان کے لیے مشکل یا ناممکن نہیں ہے، کیوں کہ پروردگار عالم نے ایک طرف انسان کو تخلیق فرمایا تو ساتھ ہی اس کی روزی کے وسائل بھی پیدا فرمادیے اور اس کے لیے ایسی سہولیات مہیا کردیں کہ انسان عملی کوشش کرکے اس دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔
راتوں رات دولت مند بن جانے کی دوڑ نے انسان سے اس کا سکون چھین لیا ہے۔ آج آپ دیکھیے کہ اس بے قراری اور دوسروں سے آگے نکل جانے کی خواہ مخواہ کی خواہش نے لوگوں کی آمدنیوں اور ان کی روزیوں میں سے برکت ختم کردی ہے۔ کیا یہ کھلی ناسمجھی نہیں ہے کہ انسان نے اپنی اچھی خاصی اور پرسکون زندگی کو اپنی حرکتوں کی وجہ سے بے سکون کردیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔
نبی کریم ﷺنے رزقِ حلال کے بے پناہ فضائل بیان فرمائے ہیں اور ساتھ ہی رزقِ حرام کی برائیاں اور ان کے نقصانات سے بھی آگاہ فرمایا ہے۔ذیل میں چنداحادیث پیشِ خدمت ہیں :
عَنِ المِقْدَامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ، خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ»
صحیح بُخاری شریف میں مقدام بن معدیکر ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حضور اقدس ﷺنے فرمایا:" اُس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کیا ہے اور بے شک اللہ کے نبی داؤد علیہ الصلاۃ والسّلام اپنی دستکاری سے کھاتے تھے۔"
صحیح مسلم شریف میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ :
عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [المؤمنون: 51] وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [البقرة: 172] ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟ "
پیارے نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :"اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کو بھی اُسی کاحُکم دیا ہے جس کا رسولوںکو حکم دیا اُس نے رسولوں سے فرمایا ۔
یٰاَیُّھَاالرُّسُلُ کُلُوْمِنَ الطِّیّبٰت ِ وَاعْمَلُوْا صٰلِحًا۔ اے رسولو! پاک چیزوں سے کھاؤ اور اچھے کام کرو۔ اور مؤ منین سے فرمایا۔یٰایُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُلُوْ مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنَکُم!اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تم کو دیا اُ ن میں پاک چیزوں سے کھاؤ۔پھر بیان فرمایا کہ ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال پریشان ہیں اور بدن گرد آلود ہے ( یعنی اُ س کی حالت ایسی ہے کہ جو دُعا کرے وہ قبول ہو)وہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھاکر یارب یارب کہتا ہے ( دُعا کرتا ہے ) مگر حالت یہ ہے کہ اُس کا کھانا حرام پینا حرام لباس حرام اور غذا حرام پھر اُس کی دُعا کیونکر مقبول ہو۔ ( یعنی اگر قبول کی خواہش ہو توکسب حلال اختیار کرو کہ بغیر اس کے قبول دُعا کے اسباب بیکار ہیں)۔"
صحیح بُخاری شریف میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لاَ يُبَالِي المَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ، أَمِنَ الحَلاَلِ أَمْ مِنَ الحَرَامِ»
(2059)رسول اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ آدمی پر واہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیاہے حلال سے یا حرام سے ۔
ترمذی ونسائی و ابن ماجہ ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لاَ يُبَالِي المَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ، أَمِنَ الحَلاَلِ أَمْ مِنَ الحَرَامِ»
ترمذی 1358) پیارے مصطفی ﷺ نے فرمایا جو تم کھاتے ہو اُن میں سب سے زیادہ پاکیزہ وہ ہے جو تمھارے کسب سے حاصل ہے اور تمھاری اولاد بھی منجملہ کسب کے ہے ۔( یعنی بوقت حاجت اولاد کی کمائی سے کھاسکتا ہے ) ابو داؤد و دارمی کی روایت بھی اسی کی مثل ہے ۔
امام احمد نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
ولا يكسب عبد مالا من حرام، فينفق منه فيبارك له فيه، ولا يتصدق به فيقبل منه، ولا يترك (3) خلف ظهره إلا كان زاده إلى النار، إن الله عز وجل لا يمحو السيئ بالسيئ، ولكن يمحو السيئ بالحسن، إن الخبيث لا يمحو الخبيث " (4)
مسند احمد 3672 جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے۔اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لئے اُ س میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے ( یعنی مال کی تین حالتیں ہیں اور حرام مال کی تینوں حالیتں خراب)اللہ تعالیٰ بُرائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے بُرائی کو محو فرماتا ہے بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔
امام احمد و دارمی و بیہقی جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی ہیں کہ حضورانور ﷺ نے فرمایا:
(يَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ، إِنَّهُ لَا يَرْبُو لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ إِلَّا كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ» جو گوشت حرام سے اُگاہے جنت میں داخل نہ ہوگا( یعنی ابتداء ً) اور جو گوشت حرام سے اُگا ہے اُس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے ۔سیدنا جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جنت میں وہ گوشت داخل نہیں ہوگا جو حرام کھانے سے بڑھا ہو ا ہو اور ہر وہ گوشت جو حرام خوری سے بڑھا ہو دوزخ اس کے ساتھ زیادہ لائق ہے ۔
ــــــــــــــــــ