عورت کےلیے با جماعت نماز ادا کرنے کا حکم
محترم حافظ اخترعلی حفظہ اللہ
ہمارے ہاں عورت کا مسجد میں جاکر نماز باجماعت اداکرنے کے بارے میں مختلف لوگوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں لہذا ان تمام آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کے دلائل کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے غیرجانبدرانہ موقف کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہذا درخواست یہ ہے کہ اس کوشش کو تقلیدی ذہن یا تعصب کی وجہ سے رد کرنے کی بجائے سوچ وبچار کی اگر زحمت کی جائے گی تو ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔
عورتوں کے لیے با جماعت نمازکی ادائیگی کے حوالے سے دو مسئلے سامنے آتے ہیں :
1- عورتوں کا مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کا حکم
2- عورتوں کا گھرمیں نمازکی ادائیگی کے لیے جماعت کا حکم
عورتوں کا مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کا حکم
عورتوں کاجامع مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کے لیے گھروں سے نکلنے کےبارے میں جائز ناجائزکاحکم لگانے سے پہلےفقہائے کرام کی رائے اور ان کے نقطۂِ نظر کا اجمالی خاکہ پیش خدمت ہے:
فقہائے کرام کی ایک جماعت عورت کی عمر کو مد نظر رکھتے ہوے یہ تفریق کرتی ہے کہ عورت بوڑھی عمر رسیدہ ہے یا جواں سال اور اگر بوڑھی ہےتوفقہاء کی ایک جماعت اسے با جماعت نمازکی ادائیگی کے لیے مسجد جانے کی اجازت دیتی ہے۔ اور اگر جوان ہے تو اسے جانے کی اجازت نہیں۔ بلکہ بعض فقہاء نے تو بوڑھی عورت کو بھی مسجد جانے کی اجازت نہیں دیتے۔اور فقہائے کرام کی ایک جماعت عورتوں کو مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کی حجاب اور آداب شریعت کو مد نظر رکھ کر نکلنے سے مشروط اجازت دیتے ہیں ۔
در اصل اس اختلاف کے پیچھے عورت کے گھر سے نکلنے سے پیدا ہونے والے مفاسد کا انسداداور کسی فتنہ کے جنم لینے سے پہلے حفظ ماتقدم کا جذبہ کارفرماہے۔
فقہائے کرام کے نقطۂِ نظرکے اجمال کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلاقول: فقہائے احناف جوان عورت کوکلی طور پرمسجد جانے سےبالاتفاق منع کرتے ہیں ۔لیکن اگرعورت بوڑھی ہے تو صاحبین کے نزدیک تمام نمازیں اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک صرف نماز ظہر ،عصر اور جمعہ مسجدمیں ادا کرسکتی ہے ۔( )
دوسرا قول: فقہائے مالکیہ کہتے ہیں کہ بڑی عمرکی عورت جس میں مردوں کے لیےدلچسپی اور آرزو نہیں رہی وہ مسجد جا سکتی ہے، اگر مردوں کے لیے اس میں کوئی آرزو اور دلچسپی باقی ہے تو وہ وقتا فوقتا جاسکتی معمول نہیں بنا سکتی اور جوان عورت اگر زیب و زینت کا اظہارنہیں کرتی تو مسجد جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے اولی یہ ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھے اور اگروہ زیب و زینت کا اظہار کرتی تو اس کے لیےمسجد جانا جائزنہیں۔( )
تيسرا قول: فقہائے شوافع کہتے ہیں کہ عورتوں پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض ہے نہ فرض کفایہ لیکن بوڑھی عورتوں کے لیے مردوں کی جماعت کے ساتھ مسجدمیں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور نوجوان عورتوں کے لیے مکروہ ہے اور مزید اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں کہ عمررسیدہ اور ایسی عورتوں کے لیےمسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے جن کی شخصیت پر کشش نہ ہو کہ وہ مردوں کےلیےکسی میلان کا باعث بنیں ،لیکن اگر وہ کسی توجہ کا مرکز بنتی ہیں تو پھر ان کانماز کر لیے گھروں سے نکلنااور اس کو معمول بنا لینا مکروہ ہے ۔ ( )
بعض فقہاء عیدین کی نمازوں کے علاوہ بقیہ تمام نمازوں کے لیے نوجوان عورت کامسجد جانا مکروہ جانتے ہیں۔ ( )
چوتھا قول: اور فقہائے حنابلہ کے مشہور مذہب کے مطابق نوجوان عورت کے لیے مسجد میں با جماعت نماز پڑھنا مکروہ اور بوڑھی عورت کے لیے جائز ہے، ایک روایت کے مطابق بغیر کسی امتیاز اور تقسیم کے تمام عورتوں کے لیےمساجد میں با جماعت نماز پڑھنا مباح ہے ۔( )
عورتوں کا مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے بارے میں فقہاء کا درجہ بالا نقظۂِ نظرسے ایک چیز قدرے مشترک ہے کہ اگر عورت بوڑھی ہے تو اس کے لیے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد جانا جائز ہے اور اگر وہ جوان ہے تو اس کے لیے مسجد جانا مکروہ ہے۔فقہاء نے جن اپنے مذکورہ موقف کو جن دلائل سے استدلال کیا ہے،درج ذیل ہیں:
1-
عن ابن عُمَرَ رضي الله عنهما عن النبي صلي الله عليه وسلم قال إذا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إلى الْمَسْجِدِ فَأْذَنُوا لَهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رسو ل اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا : جب تم سے تمہاری عورتیں رات کے وقت مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انھیں اجازت دے دو۔‘‘
2-
عن أبي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ الله صلي الله عليه وسلم قال لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ الله مَسَاجِدَ الله وَلَكِنْ لِيَخْرُجْنَ وَهُنَّ تَفِلَاتٌ( )
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺے فرمایا: اللہ کی لونڈیوں کو مسجدوں سے نہ روکو لیکن انہیں چاہیے کہ وہ خوشبو کے بغیر نکلیں۔‘‘
3-
عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَتْ قَالَ لَنَا رَسُولُ الله -صلى الله عليه وسلم- « إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلاَ تَمَسَّ طِيبًا ( )
’’حضرت زینب زوجہ عبداللہ روایت کرتی ہیں کہ رسو ل اللہﷺنے ہم سےفرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجدآنے کا ارادہ کرے تو وہ خوشبو نہ لگائے ۔‘‘
4-
عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فلا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ ( )
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگائے وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں حاضر نہ ہو۔‘‘
5-
عن بن عُمَرَ رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمْ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا : اپنی عورتوں کو مسجدوں میں سے نہ روکو اور ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔‘‘
6-
عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رضي الله عنها زَوْجَ النَّبِىِّ تَقُولُ لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم رَأَى مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِى إِسْرَائِيلَ.قَالَ فَقُلْتُ لِعَمْرَةَ أَنِسَاءُ بَنِى إِسْرَائِيلَ مُنِعْنَ الْمَسْجِدَ قَالَتْ نَعَمْ. ( )
’’عمرہ بنت عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ سے سنا آپ فرماتی تھیں اگر رسو ل اللہ ﷺدیکھ لیتے جو عورتوں نے (زیب وزینت خوشبو اور زرق برق کپڑے )ایجاد کر لیے ہیں تو وہ ضرور ان کو مسجدوں سے منع کر دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ راوی کہتے ہیں ۔میں نے عمرہ سے کہا کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں سے روک دیا گیا تھاتو انھوں کہا: ہاں۔‘‘
7-
عن عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنِ النبي صلي الله عليه وسلم قال لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ الله مَسَاجِدَ الله وَلْيَخْرُجْنَ تَفِلاَتٍ قالت عَائِشَةُ : وَلَوْ رَأَى حَالَهُنَّ الْيَوْمَ مَنَعَهُنَّ( )
’’ام المومنین عائشہ نبی کریم ﷺسے بیان کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا : اللہ تعالی کی بندیوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکو، اور انہیں بھی چاہیے کہ وہ بغیر خوشبو کے (گھروں سے) نکلیں، حضرت عائشہ فرماتی ہیں: اگر رسول اللہ ﷺآج ان کا حال دیکھتے تو انہیں (مسجدوں میں جانے سے) منع فرماتے۔‘‘
8-
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلي الله عليه وسلم « لاَ تَمْنَعُوا النِّسَاءَ مِنَ الْخُرُوجِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ ». فَقَالَ ابْنٌ لِعَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ لاَ نَدَعُهُنَّ يَخْرُجْنَ فَيَتَّخِذْنَهُ دَغَلاً. قَالَ فَزَبَرَهُ ابْنُ عُمَرَ وَقَالَ أَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله صلي الله عليه وسلم وَتَقُولُ لاَ نَدَعُهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا : عورتوں کو رات کے وقت مسجدمیں جانے سے نہ روکو ۔ عبداللہ بن عمر کے بیٹے نے کہا کہ ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے کہ وہ نکلیں اور کو فتنہ فساد پیدا کریں۔راوی کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر نے ان کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ میں کہتا ہوں کہ رسو ل اللہ ﷺنے کہا اور تو کہتا ہے کہ ہم انھیں ضرور روکیں گے۔ ‘‘
درجہ بالا احاديث كو جمع اور تطبیق دی جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتی ہیں
1- عورتوں کے اولیاء اور ذمہ دران کو حکماً کہا گیاہے کہ جب خواتین سےکسی قسم کی خوشبو کی مہک محسوس نہ ہورہی تم انہیں مسجد جانے سے نہ روکویہاں تک کہ اگر وہ نمازعشاء کی ادائیگی کے لیے بھی جانا چاہیں تو تم انہیں منع نہ کرو۔
2- جہاں رسول اللہ ﷺنے خواتین کے ذمہ دران کو انہیں مسجد جانے سے منع کرنے سے روکا ہے وہاں خواتین کو بھی یہ ارشادکر دیا ہے (
وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ)کہ ان کا گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے ۔
اسی طرح اگر ایک طرف خواتین کے ذمہ دران کو انہیں مسجد جانے سے منع کرنے سے روکا ہے تو دوسری طرف خواتین کو بھی مسجد جانے کے آداب کی ہدایت اورتعلیمات دےدی ہیں کہ اگروہ مسجد جانا چاہیں تو خوشبواستعمال نہ کریں،اور اگر وہ خوشبو سےمعطر ہیں تو مسجد جانے سے گریزکریں ،لیکن اگر خوشبو استعمال کر چکی ہوں اور مسجد بھی جانا چاہتی ہوں تو ان پر واجب ہے کہ وہ غسل جنابت کی طرح کا غسل کرکے مسجد جائیں ۔
رسول اللہ ﷺکی رحلت کے کچھ عرصہ بعد جب مختلف فتنوں نے جنم لیا تو
ام المؤمنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر آج رسول اللہﷺ ہوتے تو جن اسباب(زیب وزینت ، خوشبو کا استعمال اور کپڑوں کی نمائش وغیرہ) کی وجہ سے بنی اسرائیل کی عورتوں کو مساجد جانے سے منع کیا گیا تھا ان کی بنا پر ہماری عورتوں کو بھی مسجد جانے سےمنع فرما دیتے ۔
اور شاید اسی وجہ سے حضرت بلال کا اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن عمر سے تکرار ہو گیا، حضرت عبد اللہ بن عمر نے چونکہ رسول اللہﷺ سے براہ راست کسب فیض کیا تھا ، رسول اللہ ﷺنے اگر کوئی عورت مسجد جاناچاہے تو اسے روکنے سےمنع فرمایا لیکن کچھ عرصہ بعدجب مختلف فتنوں نے سر اٹھایا تو حضرت بلال بن عبد اللہ نے حلفا کہا کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے۔
جہاں آپؐ سے عورتوں کے گھر میں نماز پڑھنے کی فضلیت ثابت ہے وہاں صحابیات کا رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھنا بھی ثابت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپؐ نے عورتوں کو مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے آنے جانے کے آداب کی تعلیم بھی ثابت ہے اور صحابہ کو ان کے مسجد آنے سے منع کرنے سے بھی روکا ہے۔
فقہائے کرام کا نقطۂِ نظر جاننے کے بعد جو چیز بطور خاص عیاں ہوتی ہے وہ فقہ اسلامی کا اصولی اور بنیادی قاعدہ ہے :
درء المفاسد أولی من جلب المصالح .مفاسد کا دفع کرنا مصلحت کے حصول سے اولی ہے۔
لہذا اگر کسی قسم کے فتنے کا ڈر ہو تو ان کا گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہے ۔ بصورت دیگر اگر وہ عام حالات میں مسجدجانا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے او ر انہیں بھی چاہیے کہ وہ زرق برق کپڑوں کی نمائش ، زیب و زینت کے اظہارخوشبواورزیورات یا اس کے علاوہ کوئی ایسی آواز جس کی وجہ سے ان کا راہ چلتے لوگوں کی توجہ کامرکز بننے کا اندیشہ ہو تو ان کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے ۔ اور اگر وہ مکمل شرعی آداب کا لحاظ رکھتے ہوے مسجد جاتی ہیں تو اجازت ہے۔
ملحوظہ :جہاں تک ام المومنین سیدہ عائشہ کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا تو اس کا سادہ سے جواب یہ ہے کہ شریعت میں نسخ کا اختیار نبی اکرم ﷺ کے پاس بھی نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سےآتا ہے تو جب نبی اپنی طرف سےنسخ یا تبدیلی احکام نہیں کر سکتا تو نعوذ باللہ بعد میں کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ شرعی احکام میں تبدیلی یا نسخ کا حکم جاری کر سکے۔اس لیے یہ سراسر حضرت عائشہ پر بہتان ہے کہ انہوں نے منسوخ کر دیا تھا اور جس نے بھی اس قول کا اظہار کیا ہے وہ بالکل شرعی علوم سے ناواقف معلوم ہوتا ہے ورنہ ایسی بات نہ کی جاتی۔
اللہ تعالی حق کو قبول کرنے توفیق دے اور پھر اس پر عمل کی بھی توفیق عنایت فرمائیں۔آمین
ِِِِ۔
( ) مختصر اختلاف العلماء ، الطحاوي 1/231، البحر الرائق 1/380، حاشية ابن العابدين 1/566
( ) شرح مختصر خليل 2/35، التمهيد 23/402، الاستذكار 2/469
( ) المجموع4 / 170،171، روضة 1 / 340.
( ) المجموع 4 /405 ،روضة 1لطالبین 1/ 340 ،مغنی المحتاج 1 / 230 ،الوسیط2 / 226.
( ) الإنصاف 2/212،
( ) صحيح بخاري كتاب الصلاة ‘ باب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالْغَلَسِ، حديث: (865)، صحيح مسلم، كتاب الصلاة، بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً، حديث (442)
( ) سنن ابی داؤد کتاب الصلاة بَاب ما جاء في خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسْجِدِ (565)، مسند احمد 2 / 438 (9643)
( ) صحيح مسلم‘كتاب الصلاة ‘بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً (444)،سنن النسائي : (5129) ، صحيح ابن حبان : (2215)
( ) صحيح مسلم‘كتاب الصلاة ‘بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً (444)،سنن ابي داؤد (4175).
( ) سنن ابو داؤد ، كتاب الصلاة ، باب ما جاء فى خروج النساء إلى المسجد ، (567)،مسند احمد 2 / 76 ، 77 (5471) ، المستدرك على الصحيحين ، 1 / 327 (755)
( ) متفق عليه صحيح بخاري كتاب الأذان ، باب انتظار الناس قيام الإمام العالم ، (869)،مسلم كتاب باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة وأنها لا تخرج مطيبة .(445)
( ) مسند احمد 6 / 69،70 (24910)
( ) متفق عليه صحيح بخاری کتاب الأذان ،باب خروج النساء إلی المساجد بالليل و الغلس ، (865)،مسلم کتاب الصلاة باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة وأنها لا تخرج مطيبة(442)
( ) جامع الترمذي، كتاب الحدود، بَاب ما جاء في الْمَرْأَةِ إذا اسْتُكْرِهَتْ على الزنى، حديث: (1454).سنن أبي داود، كتاب الحدود، بَاب في صَاحِبِ الْحَدِّ يَجِيءُ فَيُقِرُّ، حديث:(4379).
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،اس پر نہ ظلم کرے،نہ اسے ذلیل کرے،نہ اسے (غیروں کے)حوالے کرے
اورنہ اس کو حقیر سمجھے-اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ-
http://www.kitabosunnat.com
محدث فورم [Mohaddis Forum]
محدث فتویٰ (Mohaddis Fatwa)
محدث میگزین [Mohaddis Magazine] - ماہنامہ محدث | ملت اسلامیہ کا علمی اور اصلاحی مجلہ
حافظ اختر علی, مئی 5, 2009