عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
ٹیلیفون پرگفتگو کے آداب
محمد عمران اسلم
شریعت مطہرہ نے ہمارے لیے میل جول،ملاقات، دوسروں سے ہم کلام ہونے اور کسی کے پاس آنے جانے کے آداب بیان فرمائے ہیں۔عصرحاضرمیں ذریعہ اِبلاغ میں ٹیلیفون کو ایک اہمیت حاصل ہے۔ ابلاغی ملاقات کے آداب کو ملحوظ رکھنا ایک مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے اور موجودہ دور میں اِبلاغی ملاقاتوں کاغلط رجحان تبدیل کرنے اور اس کے فتنوں سے بچنے کے لئے اَزبس ضروری ہے کہ خواتین و حضرات ان آداب کااہتمام کریں۔چونکہ ٹیلیفون بھی بالمشافہ ملاقاتوں کی طرح ایک ملاقات کی صورت ہے، لہٰذااسی پر قیاس کرتے ہوئے ہم ٹیلیفون کے آداب بیان کریں گے۔اگر ہم کسی سے بات چیت اور ملاقات کرتے وقت شرعی آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں گے تو اس سے معاشرے میں باہمی الفت ومحبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہوگی۔کلام کے اندر لطف وشائستگی تب ہی پیدا ہو سکتی ہے جب ہمارا طرزِ تکلم حضور نبی کریم ﷺاور آپ کے بتائے ہوئے اَحکامات کے عین مطابق ہوگا۔
نبی اکرﷺنے فرمایا :
اسی طرح ایک روایت میں ہے(إنَّ الرِّفْقَ لَا يَکُوْنُ فِيْ شَيءٍ إِلَّا زَانَه وَلاَ يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَه) (صحیح مسلم:۲۵۹۴)
”نرمی جس چیزمیں بھی آئے گی اسے مزین کر دے گی اور جس چیز سے نرمی ولچک ختم ہو گی وہ عیب دار بن جائے گی۔“
ٹیلیفون کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا کال کرنے والے اور جس کو کال کی جا رہی ہو دونوں کے لیے ضروری ہے لیکن کال کرنے والے پرزیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان آداب کاخیال رکھے، کیونکہ وہ آغاز کرنے والا اور غرض مند ہے ذیل میں ہم فون پر گفتگو کرنے کے شرعی آداب ذکر کرتے ہیں:(مَنْ يُحْرَمُ الرِّفْقَ يُحْرَمُ الْخَيْرُ) (صحیح مسلم:۲۵۹۲)
”جو لطف وشفقت سے محروم کر دیا گیا ،وہ بہت بڑی بھلائی سے محروم کر دیا گیا۔“