السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس فتوی میں
(نفس فی الماء ) کے الفاظ تو نہیں ، تاہم مفتی کا کہنا ہے کہ :
فقد روى الطبراني في المعجم الصغير (ص 117) وأبو نعيم في أخبار أصبهان (2/ 223) وغيرهما : عن علي رضي الله عنه قال: لدغت النبي صلى الله عليه وسلم عقرب وهو يصلي ، فلما فرغ قال : " لعن الله العقرب ، لا تدع مصلياً ولا غيره ، ثم دعا بماءٍ وملحٍ ، وجعل يمسح عليها ويقرأ بـ (قل يا أيها الكافرون) و(قل أعوذ برب الفلق) و (قل أعوذ برب الناس).
وله شواهد ، فقد أخرجة الترمذي ( 2905 ) عن ابن مسعود رضي الله عنه وفيه : فجعل يضع موضع اللدغة في الماء والملح ، ويقرأ ( قل هوالله أحد ) والمعوذتين حتى سكنت .
وقد صححه العلامة الألباني رحمه الله في الصحيحة (548).
ترجمہ :
جناب علی ؓسے مروی ہے انہوں نے کہاکہ نبیﷺ نماز ادا فرمارہے تھے ایک بچھو نے آپکو ڈنک ماردیا‘ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت کرے جو نہ نمازی کو نہ کسی دوسرے کو چھوڑتا ہے‘ پھر آپ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن طلب فرمایا جس میں نمک آمیز کیا ہوا تھا اور (اس پانی کو لے کر ) آپ اس ڈنک زدہ جگہ پر ہاتھ برابر پھیرتے رہے اور قل ھو اللہ احد اور معوذ تین پڑھ کر اس پر دم کرتے رہے یہاں تک کہ بالکل سکون ہوگیا“۔
اور سیدنا ابن مسعود ؓ کی روایت میں ہے کہ :
نمک ملا پانی متاثرہ جگہ پر لگاتے رہے ، اور آخری تینوں سورتیں پڑھتے رہے ،
اور سنن ابو دااود کی روایت میں ہے :
محمد بن يوسف بن ثابت بن قيس بن شماس عن أبيه، عن جده، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنه دخل على ثابت بن قيس -
قال: أحمد وهو مريض - فقال: «اكشف البأس رب الناس عن ثابت بن قيس بن شماس» ثم أخذ ترابا من بطحان فجعله في قدح ثم نفث عليه بماء وصبه
عليه قال أبو داود: «قال ابن السرح يوسف بن محمد وهو الصواب»
(
سنن ابي داود 3885 )
ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، وہ بیمار تھے تو آپ نے فرمایا: «اكشف الباس رب
الناس " . عن ثابت بن قيس» ”لوگوں کے رب! اس بیماری کو ثابت بن قیس سے دور فرما دے“ پھر آپ نے وادی بطحان کی تھوڑی سی مٹی لی اور
اسے ایک پیالہ میں رکھا پھر اس میں تھوڑا سا پانی ڈال کر اس پر دم کیا اور اسے ان پر ڈال دیا۔
اور اسی حدیث کی بنیاد پر علامہ عبدالعزیز بن باز ؒ فرماتے ہیں :
وقال الشيخ ابن باز
لا حرج في الرقية بالماء ثم يشرب منه المريض أو يغتسل به، كل هذا لا بأس به، الرقى تكون على المريض بالنفث عليه، وتكون في ماء يشربه المريض أو يتروَّش به، كل هذا لا بأس به، فقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه رقى ثابت بن قيس بن شماس في ماء ثم صبه عليه، فإذا رقى الإنسان أخاه في ماء ثم شرب منه أو صبه عليه يرجى فيه العافية والشفاء، وإذا قرأ على نفسه على العضو المريض في يده أو رجله أو صدره ونفث عليه ودعا له بالشفاء هذا كله حسن.
http://www.binbaz.org.sa/noor/8858
کہ پانی کے ساتھ دم جسے مریض پی لے یا اس سے غسل کرلے اس میں کوئی حرج نہیں ،
دم براہ راست مریض پر پھونک کر بھی ہوتا ہے ، اور پانی پر دم بھی ہوتا ہے جو مریض کو پلایا جائے اس پر چھڑکا جائے اس میں کوئی مضائقہ نہیں
خود نبی مکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کیلئے پانی پر دم کیا اور پھر وہ پانی ان پر انڈیل دیا ۔
تو جب کوئی اپنے بھائی کو پانی میں دم کرے ، اور مریض اس کو پیئے ، یا وہ پانی اس پر ڈالا جائے ،تو اس طریقہ میں شفاء کی امید ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس حدیث میں پانی میں پھونک مارنے یا پینے کے برتن میں سانس لینے منع فرمایا ہے
تو وہ ممانعت صرف عام کھانے پینے کے دوران سمجھ آتی ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلاَ يَتَنَفَّسْ فِي الإِنَاءِ، (صحیح بخاری )
ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے ؛
اور سنن ترمذی میں ہے :
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يُتَنَفَّسَ فِي الإِنَاءِ أَوْ يُنْفَخَ فِيهِ»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے برتن میں سانس لینے اور پھونکنے سے منع فرمایا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ‘‘
اور اس کی شرح میں تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں :
قَوْلُهُ (نَهَى أَنْ يُتَنَفَّسَ) بِصِيغَةِ الْمَجْهُولِ أَيْ لِخَوْفِ بُرُوزِ شَيْءٍ مِنْ رِيقِهِ فَيَقَعُ فِي الْمَاءِ وَقَدْ يَكُونُ مُتَغَيِّرَ الْفَمِ فَتَعْلَقَ الرَّائِحَةُ بِالْمَاءِ لِرِقَّتِهِ وَلَطَافَتِهِ فَيَكُونُ الْأَحْسَنُ فِي الْأَدَبِ أَنْ يَتَنَفَّسَ بَعْدَ إِبَانَةِ الْإِنَاءِ عَنْ فَمِهِ وَأَنْ لَا يَتَنَفَّسَ فِيهِ (أَوْ يُنْفَخَ)