• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پانی پر دم کرنے کا حکم

salafi.intek

مبتدی
شمولیت
نومبر 18، 2015
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
28
پانی کی اصل پینا ہی ہے ، کسی پانی کو نہ پینے والا قرار دینے کے لئے قرینہ صارفہ چاہئے ۔ کسی پانی میں نمک گھول دیا جائے تو اسے نہ پینے والا قرار دینا صحیح نہیں ہے ۔

جہاں تک آپ کا کہنا کہ نبی ﷺ نے پانی پر دم نہیں کیا ، پانی انڈیل کر دم کیا اس کا جواب یہ ہے کہ جو جگہ متاثر تھی وہاں پانی انڈیل کر اسی پانی کی جگہ آپ ﷺ دم کر رہے تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پانی پر دم کرنا جائز ہے ۔


جن لوگوں کو شبہ ہوتا ہے اس حدیث سے جس میں پھونکنا منع کیا گیا ہے ۔


اس شبہ کا رد یہ ہے کہ پانی پینے وقت پھونکنا منع ہے کیونکہ آج سائنسی علوم سے پتہ چلتا ہے کہ پھونک سے جراثیم خارج ہوتے ہیں جو انسان کے لئے نقصان دہ ہیں۔

مگر قرآن کریم یا مسنون اذکار پڑھنے سے ایک قسم کی تاثیر پیدا ہوتی ہے اسی لیے پھونک مریض کے لئے نفع بخش ہے ، اگر پڑھ کر پھونکنے سے بھی نقصان کا پہلو نکلتا تو مریض کو شفا نہ ملتی جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔ مریض کے جسم پر یا پانی پر دم کرکے مریض کو پلایا جائے فائدہ مند ہے ۔ یہ اللہ کی طرف سے بندوں پربہت بڑا احسان ہے ۔

اس لئے بغیر پڑھے پھونکنا اور وہ کتاب پڑھ کے پھونکنا جسے شفا قرار دیا گیا ہے دونوں میں بڑا واضح فرق ہے ۔

بنابریں یہ کہا جائے گا کہ پانی پر پڑھ کر دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پانی پیتے وقت بغیر پڑھے پھونکنا منع ہے ۔

اور سلف نے دم والی احادیث سے یہی مفہوم سمجھا ہے ، اس پر ان کا عمل بھی رہا ہے ، اور نصوص کو سمجھنے کے لئے سلف کی فہم مقدم ہے ۔
پیارے بھائیوں کے ملاحظہ کیلئے ایک فتوی پیش ہے ؛

السؤال :
ما حكم القراءة على الماء والزيت ، وقد سمعنا من يجوزها ولم يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا عن أصحابه أنهم قاموا بذلك ؟
الجواب :
الحمد لله وحده ، والصلاة والسلام على خاتم النبيين ، وآله وصحبه أجمعين،،،
وبعد :
فالقراءة على الماء ونحوه مشروعة وجائزة عند كثير من أهل العلم ، قديماوحديثا.
وأما قولك : إنه لم يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا عن أصحابه أنهم قاموا برقية في ماء أو زيت أو عسل أو غيره!! غير صحيح .
ولو قيدته بقولك: "فيما أعلم" ، لكان أصوب وأسلم .
فقد روى الطبراني في المعجم الصغير (ص 117) وأبو نعيم في أخبار أصبهان (2/ 223) وغيرهما : عن علي رضي الله عنه قال: لدغت النبي صلى الله عليه وسلم عقرب وهو يصلي ، فلما فرغ قال : " لعن الله العقرب ، لا تدع مصلياً ولا غيره ، ثم دعا بماءٍ وملحٍ ، وجعل يمسح عليها ويقرأ بـ (قل يا أيها الكافرون) و(قل أعوذ برب الفلق) و (قل أعوذ برب الناس).
وله شواهد ، فقد أخرجة الترمذي ( 2905 ) عن ابن مسعود رضي الله عنه وفيه : فجعل يضع موضع اللدغة في الماء والملح ، ويقرأ ( قل هوالله أحد ) والمعوذتين حتى سكنت .
وقد صححه العلامة الألباني رحمه الله في الصحيحة (548).
أفليس هذا من الرقية والقراءة على الماء ؟!
وقد ذكر الحديث الإمام ابن القيم رحمه الله في الطب النبوي من زاد المعاد (4/180) ثم قال : ففي هذا الحديث : العلاج بالدواء المركب من الأمرين : الطبيعي ، والإلهي ، فإن في سورة الإخلاص من كمال التوحيد العلمي الاعتقادي ،وإثبات الأحدية لله ، المستلزمة نفي كل شركة عنه ...
قال : وفي المعوذتين الاستعاذة من كل مكروه جملة وتفصيلا ، فإن الاستعاذة من شر ما خلق تعم كل شر يستعاذ منه ، سواء كان في الأجسام أو الأرواح ...
والسورة الثانية : تتضمن الاستعاذة منشر شياطين الإنس والجن .
فقد جمعت السورتان الاستعاذة من كل شر ، ولهما شأن عظيم في الاحتراس من الشرور قبل وقوعها ، ولهذا أوصى النبي صلى الله عليه وسلم عقبة بن عامر بقراءتهما عقب كل صلاة ... إلخ كلامه رحمه الله .
ثم قال:
وأما العلاج الطبيعي فيه ، فإن في الملح نفعاً لكثير من السُّموم ، ولا سيما لدغة العقرب ، كما ذكر الأطباء ، فقد قال صاحب "القانون" :
يُضمد به مع بزر الكتان للسع العقرب ،وذكره غيرهُ أيضاً.
وفي الملح من القوة الجاذبة المحلِّلة ما يَجذبُ السموم ويُحللها ، ولما كان في لسعها قوةٌ نارية تحتاج إلى تبريد وجذب وإخراج جمع بين الماء المبرد لنار اللسعة، والملح الذي فيه جذب وإخراج ، وهذا أتم ما يكون من العلاج وأيسره وأسهله، وفيه تنبيه على أن علاج هذا الداء بالتبريد والجذب والإخراج والله أعلم. انتهى.
ونقله الإمام ابن مفلح في الآداب الشرعية (3/ 98).
وأخرج البخاري ومسلم وأحمد : عن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اشتكى الإنسان الشيء منه ، أو كانت به قرحة أو وجع ، قال بأصبعه هكذا، ووضع سفيان سبابته بالأرض ثم رفعها ، وقال : " بسم الله ، تربة أرضنا ، بريقة بعضنا ، يشفى سقيمنا ، بإذن ربنا".
قال ابن مفلح : وهذا علاج مركب سهل ، فإن القروح والجراح يتبعها غالباً سوء مزاج ورطوبة رديئة وسيلان ، والتراب الخالص طبيعته باردة يابسة فوق برد كل دواء مفرد ، فتقابل برودته تلك الحرارة ، ويبسه تلك الرطوبة ، ويعدل مزاج العضو العليل فتقوى قوته المدبرة ، فتدفع ألمه بإذن الله تعالى ، وينضم مع ذلك ، هذا الكلام المتضمن لبركة اسم الله والتوكل عليه ، وتفويض الأمر إليه . انتهى (3/ 94).
وروى ابن ماجه (3548) : عن عثمان بن أبي العاص قال : لما استعملني رسول الله صلى الله عليه وسلم على الطائف ، جعل يعرض لي شيء في صلاتي ، حتى ما أدري ما أصلي ، فلما رأيت ذلك ، رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم . قال : " ابنُ أبي العاص ؟ " قلت : نعم يا رسول الله ، قال : " ما جاء بك ؟ " قلت : يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي ، حتى ما أدري ما أُصلي . قال: " ذاك الشيطانُ ، ادنه " فدنوت منه ،فجلست على صدور قدمي .
قال : فضرب صدري بيده ، وتفل في فمي ، وقال : " اخرُجْ عدُوَّ الله " ففعل ذلك ثلاث مرات .
ثم قال: " الْحَقْ بعَمَلِكَ ". وصححه العلامة الألباني في السنن .
وفي الصحيحين : أنه صلى الله عليه وسلم كان يعوذ بعض أهله فيمسح بيده اليمنى .
وكان إذا أوى إلى فراشه نفث بكفه بـ (قل هو الله أحد) وبالمعوذتين جميعاً ، ثم يمسح بهما وجهه وما بلغت يده من جسده .
فلا حرج من القراءة والنفث في الماء وعلى البدن وعلى المعيون ، كما روى مالك في الموطأ (2/938) حادثة سهل بن حنيف ، وأمر النبي صلى الله عليه وسلم عامر بن ربيعة أن يتوضأ له .
وغيرها كثير مما تبعه يطول ، لكن وجود بعض الناس الذين يجعلون ذلك تجارة ، هو خلاف هدي السلف ، ومما يذهب البركة من الرقية .
والله أعلم ،،،
وصلى الله على محمد وآله وصحبه وسلم.
الشيخ محمد الحمود النجدي.
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=159941
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فتاوٰی ابن تیمیہ 19/64،اور زارالمعاد 4/170.میں ھے کہ کسی برتن پر قرانی آیات زعفران وغیرہ یا پاکیزہ چیز سے لکھ کر انھیں پانی یا تیل سے دھو کر اس پانی کا استعمال روا ھے. کچھ علماء نے کاغذ پر لکھنا بھی اسی سے اخذ کیا ھے. واللہ اعلم
کیا یہ توہین قرآن نہیں ہے کہ قرآن مجید کو کسی پلیٹ یا برتن پر لکھ کر اس کا پانی استعمال کیا جایے ؟
اگر ابن تیمیہ رحمہ اللہ یا ابن القیم رحمہ اللہ نے دلیل کے بغیر لکھا ہے تو یہ قول مرجوح ہے وگرنہ بیان کردہ دلیل دیکھی جایے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
فلا حرج من القراءة والنفث في الماء وعلى البدن وعلى المعيون ،
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=159941
شیخ محترم آپ اور شیخ عدیل سلفی بھائی سے مجھے معلومات کے لئے کچھ چیزیں پوچھنی ہیں کیونکہ ابھی مجھے واضح موقف کی سمجھ نہیں آ رہی آپ راہنمائی کر دیں جزاکم اللہ خیرا
اوپر فتوی میں نفس فی الماء کی نص کہاں ہے یہ سمجھ نہیں آئی کیا اسکی دلیل قیاس ہے یا صحیح نص موجود ہے خصوصا جب اس میں پھونک مارنے کی ممانعت نص صحیح سے ثابت ہو
دوسرا یہ پوچھنا کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پانی سے شفاء کی جو نص آئی ہے اس میں خالی پانی یا خالی تلاوت سے شفاء ہی علت نہیں بلکہ پانی کی کوئی اور خصوصیت تھی جو ان نصوص میں علت بنیں
مثلا نمک زہر کے لئے بہتر ہوتا ہے یہ علت بنی اور سورتوں کی قرات علیحدہ فائد مند ہے اسکا پانی سے تعلق نہیں ہے
اسی طرح نظر لگنے میں بھی اسی آدمی کے پانی سے سحر کا اثر زائل ہونا وغیرہ جیسا کہ نیچے لولی بھائی نے کہا ہے اس پہ اشکال ہے

پانی میں نمک ملا کر اس کو دوا کے طور پر استمعال کیا گیا ہے نہ کہ اس کو دم کیا گیا ہے دم تو زخم کی جگہ کو ہی کیا گیا تھا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
شیخ محترم آپ اور شیخ عدیل سلفی بھائی سے مجھے معلومات کے لئے کچھ چیزیں پوچھنی ہیں کیونکہ ابھی مجھے واضح موقف کی سمجھ نہیں آ رہی آپ راہنمائی کر دیں جزاکم اللہ خیرا
اوپر فتوی میں نفس فی الماء کی نص کہاں ہے یہ سمجھ نہیں آئی کیا اسکی دلیل قیاس ہے یا صحیح نص موجود ہے خصوصا جب اس میں پھونک مارنے کی ممانعت نص صحیح سے ثابت ہو
دوسرا یہ پوچھنا کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پانی سے شفاء کی جو نص آئی ہے اس میں خالی پانی یا خالی تلاوت سے شفاء ہی علت نہیں بلکہ پانی کی کوئی اور خصوصیت تھی جو ان نصوص میں علت بنیں
مثلا نمک زہر کے لئے بہتر ہوتا ہے یہ علت بنی اور سورتوں کی قرات علیحدہ فائد مند ہے اسکا پانی سے تعلق نہیں ہے
اسی طرح نظر لگنے میں بھی اسی آدمی کے پانی سے سحر کا اثر زائل ہونا وغیرہ جیسا کہ نیچے لولی بھائی نے کہا ہے اس پہ اشکال ہے
محترم شیخ @اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جی بندہ تھوڑا مصروف تھا ، آج جمعہ کی نماز کے بعد فورم پر آنے کی فرصت ملی ، ان شاء اللہ جلد جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں ؛
اهلا و سهلا و مرحبا
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جی بندہ تھوڑا مصروف تھا ، آج جمعہ کی نماز کے بعد فورم پر آنے کی فرصت ملی ، ان شاء اللہ جلد جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں ؛
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ان شاء اللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
اوپر فتوی میں نفس فی الماء کی نص کہاں ہے یہ سمجھ نہیں آئی کیا اسکی دلیل قیاس ہے یا صحیح نص موجود ہے خصوصا جب اس میں پھونک مارنے کی ممانعت نص صحیح سے ثابت ہو
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس فتوی میں (نفس فی الماء ) کے الفاظ تو نہیں ، تاہم مفتی کا کہنا ہے کہ :
فقد روى الطبراني في المعجم الصغير (ص 117) وأبو نعيم في أخبار أصبهان (2/ 223) وغيرهما : عن علي رضي الله عنه قال: لدغت النبي صلى الله عليه وسلم عقرب وهو يصلي ، فلما فرغ قال : " لعن الله العقرب ، لا تدع مصلياً ولا غيره ، ثم دعا بماءٍ وملحٍ ، وجعل يمسح عليها ويقرأ بـ (قل يا أيها الكافرون) و(قل أعوذ برب الفلق) و (قل أعوذ برب الناس).
وله شواهد ، فقد أخرجة الترمذي ( 2905 ) عن ابن مسعود رضي الله عنه وفيه : فجعل يضع موضع اللدغة في الماء والملح ، ويقرأ ( قل هوالله أحد ) والمعوذتين حتى سكنت .
وقد صححه العلامة الألباني رحمه الله في الصحيحة (548).

ترجمہ :
جناب علی ؓسے مروی ہے انہوں نے کہاکہ نبیﷺ نماز ادا فرمارہے تھے ایک بچھو نے آپکو ڈنک ماردیا‘ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت کرے جو نہ نمازی کو نہ کسی دوسرے کو چھوڑتا ہے‘ پھر آپ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن طلب فرمایا جس میں نمک آمیز کیا ہوا تھا اور (اس پانی کو لے کر ) آپ اس ڈنک زدہ جگہ پر ہاتھ برابر پھیرتے رہے اور قل ھو اللہ احد اور معوذ تین پڑھ کر اس پر دم کرتے رہے یہاں تک کہ بالکل سکون ہوگیا“۔
اور سیدنا ابن مسعود ؓ کی روایت میں ہے کہ :
نمک ملا پانی متاثرہ جگہ پر لگاتے رہے ، اور آخری تینوں سورتیں پڑھتے رہے ،

اور سنن ابو دااود کی روایت میں ہے :

محمد بن يوسف بن ثابت بن قيس بن شماس عن أبيه، عن جده، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنه دخل على ثابت بن قيس -
قال: أحمد وهو مريض - فقال: «اكشف البأس رب الناس عن ثابت بن قيس بن شماس» ثم أخذ ترابا من بطحان فجعله في قدح ثم نفث عليه بماء وصبه
عليه قال أبو داود: «قال ابن السرح يوسف بن محمد وهو الصواب»

(سنن ابي داود 3885 )
ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، وہ بیمار تھے تو آپ نے فرمایا: «اكشف الباس رب
الناس ‏"‏ ‏.‏ عن ثابت بن قيس» ”لوگوں کے رب! اس بیماری کو ثابت بن قیس سے دور فرما دے“ پھر آپ نے وادی بطحان کی تھوڑی سی مٹی لی اور
اسے ایک پیالہ میں رکھا پھر اس میں تھوڑا سا پانی ڈال کر اس پر دم کیا اور اسے ان پر ڈال دیا۔

اور اسی حدیث کی بنیاد پر علامہ عبدالعزیز بن باز ؒ فرماتے ہیں :
وقال الشيخ ابن باز

لا حرج في الرقية بالماء ثم يشرب منه المريض أو يغتسل به، كل هذا لا بأس به، الرقى تكون على المريض بالنفث عليه، وتكون في ماء يشربه المريض أو يتروَّش به، كل هذا لا بأس به، فقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه رقى ثابت بن قيس بن شماس في ماء ثم صبه عليه، فإذا رقى الإنسان أخاه في ماء ثم شرب منه أو صبه عليه يرجى فيه العافية والشفاء، وإذا قرأ على نفسه على العضو المريض في يده أو رجله أو صدره ونفث عليه ودعا له بالشفاء هذا كله حسن.
http://www.binbaz.org.sa/noor/8858
کہ پانی کے ساتھ دم جسے مریض پی لے یا اس سے غسل کرلے اس میں کوئی حرج نہیں ،
دم براہ راست مریض پر پھونک کر بھی ہوتا ہے ، اور پانی پر دم بھی ہوتا ہے جو مریض کو پلایا جائے اس پر چھڑکا جائے اس میں کوئی مضائقہ نہیں
خود نبی مکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کیلئے پانی پر دم کیا اور پھر وہ پانی ان پر انڈیل دیا ۔
تو جب کوئی اپنے بھائی کو پانی میں دم کرے ، اور مریض اس کو پیئے ، یا وہ پانی اس پر ڈالا جائے ،تو اس طریقہ میں شفاء کی امید ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس حدیث میں پانی میں پھونک مارنے یا پینے کے برتن میں سانس لینے منع فرمایا ہے
تو وہ ممانعت صرف عام کھانے پینے کے دوران سمجھ آتی ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلاَ يَتَنَفَّسْ فِي الإِنَاءِ، (صحیح بخاری )
ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے ؛
اور سنن ترمذی میں ہے :

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يُتَنَفَّسَ فِي الإِنَاءِ أَوْ يُنْفَخَ فِيهِ»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے برتن میں سانس لینے اور پھونکنے سے منع فرمایا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ‘‘
اور اس کی شرح میں تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں :
قَوْلُهُ (نَهَى أَنْ يُتَنَفَّسَ) بِصِيغَةِ الْمَجْهُولِ أَيْ لِخَوْفِ بُرُوزِ شَيْءٍ مِنْ رِيقِهِ فَيَقَعُ فِي الْمَاءِ وَقَدْ يَكُونُ مُتَغَيِّرَ الْفَمِ فَتَعْلَقَ الرَّائِحَةُ بِالْمَاءِ لِرِقَّتِهِ وَلَطَافَتِهِ فَيَكُونُ الْأَحْسَنُ فِي الْأَدَبِ أَنْ يَتَنَفَّسَ بَعْدَ إِبَانَةِ الْإِنَاءِ عَنْ فَمِهِ وَأَنْ لَا يَتَنَفَّسَ فِيهِ (أَوْ يُنْفَخَ)
 
Last edited:
Top