ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
پانی کے نیچے بھی نماز ……
پانی کے نیچے بھی نماز ……
اللہ رب العزت نے تمام ساری زمین کو انسانوں کے لئے مسخر کر دیا ہے۔ اور زمین پر پائی جانے والی ہر چیز اللہ تعالیٰ کو ’’سجدہ‘‘ کرتی ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَلِلہِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًاوَّكَرْہًا وَّظِلٰلُہُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ (النحل49)
اب زیر آب بھی بےشمار ’’حیات‘‘ ہے۔ اُس میں مچھلی بھی ہے سانپ بھی، کیکڑا بھی ہے، جھینگا بھی۔ اس میں مونگے بھی ہیں لولو والمرجان بھی۔ ہیرے بھی ہیں موتی بھی۔ چٹانیں بھی ہیں۔ اور دلدل بھی۔ غرض یہ کہ ہر چیز اللہ رب العزت کو سجدہ کرتی ہے ۔ سجدہ کرنے کا معنی معروف ہے لیکن بعض چیزوں کے سجدہ کرنے کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ سچ ہے کہ ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔
اس تمہید کے بعد واضح ہو کہ انسانی زندگی بھی پانی کے اندر برقرار رہ سکتی ہے کچھ شرائط کے ساتھ۔ مثلاً سانس کے لئے ہوا اور جسم کے لئے خوراک تو لازمی چیزیں ہیں۔ اگر یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو انسانی صحت برقرار ہے۔
انسان بہت سے کام سرانجام دینے کے لئے پانی کے اندر جاتا ہے۔ مثلاً کسی ڈوبتے کی مدد کے لئے۔ کوئی قیمتی چیز پانی سے نکالنے کے لئے۔ وغیرہ وغیرہ۔
لہٰذا جب انسان زیادہ دیر تک پانی میںرہ سکتا ہے تو اس کے اوپر اللہ رب العالمین کے قوانین بھی لاگو ہوں گے۔
مثلاً تعمیری کام کرنا۔ بھلائی کے کام کرنا۔ منفعت والے کام کرنا۔ برائی سے بچنا۔ بھلائی کی طرف لپکنا۔
کچھ تعیری کام ایسے ہیں جیسے جہاز کے اُس حصے میں کوئی سوراخ ہو جائے جو پانی کے اندر واقع ہے تو اُس سوراخ کو ختم کرنا لازم ہے وگرنہ سب کی جانوں کو خطرہ ہے۔ لہٰذ کوئی لکڑی اس سوراخ میں پھنسانا یا اگر ممکن ہو تو ویلڈنگ وغیرہ کرنا۔ جیسا کہ تمام جہاز ران اس فن سے واقف ہیں۔
بعض اوقات ویلڈنگ میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ دن ہو یا رات۔ کسی بھی حالت میں جہاز اور جہاز پر سوار انسانوں کو بچانا فرض منصبی ہے۔
اسی طرح سے دشمن کی طرف سے بچھائی گئی مائنز وغیرہ کی صفائی، انہیںتلاش کرنا اورانہیں ناکارہ بنانا۔ اس میں کئی کئی دن اور رات صرف ہوتے ہیں۔
لہٰذا جب ایک ’’ایماندار‘‘ شخص ان تمام کاموں میں مصروف ہو تو اُس پر ’’رب العالمین‘‘ کا حق سب سے پہلے فرض ہوتا ہے کہ وہ اس ’’حالت‘‘ میں بھی اُس کی عبادت کرے۔
اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ جب کبھی بھی موقع ملے اور جہاں بھی موقع ملےنماز کے وقت پر نماز پڑھنا ہی فرض ہے۔
رہی یہ چیز کہ الفاظ کیسے ادا ہوتے ہیں؟؟
دراصل سانس لینے کے لئے پانی کے اندرجانے سے پہلے چہرے پر ماسک پہنا جاتا ہے جس کے ساتھ ایک سیلنڈر اٹیچ کر دیا جاتا ہے اور سیلنڈر انسان کی پشت پر ہوتا ہے۔ اُسی سے ہوا ’’ناک‘‘ میں داخل ہوتی ہے اور منہ سے باہر نکالی جاتی ہے۔ جیسے ہوا کا اخراج ممکن ہے تو انسان کچھ بھی بول سکتا ہے چاہے وہ قرآن کی تلاوت ہو یا نماز کی دیگر دعائیں وغیرہ۔
جہاں تک طہارت کا معاملہ ہے تو:
مفہوم حدیث کے مطابق تو سمندر میں پائی جانے والی ہر چیز حلال ہے۔ اسے کھایا جا سکتا ہے۔ (طبعی کراہت اور چیز ہے اس پر بحث نہیں)۔ سمندر کا پانی بھی پاک ہے۔ جب انسانی حاجات کا معاملہ ہوتا ہے تو اس کے زمینی احکامات ہی مرتب ہوتے ہیں لیکن طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً طہارت، وضو، وغیرہ وغیرہ۔
سائنسی تجربات ہیں کہ آواز ہوا کی نسبت پانی میں زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہے اور ہوا کی نسبت زیادہ بلند بھی ہوتی ہے۔ وقت نماز کے لئے گھڑیاں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ قبلہ رخ دیکھنے کے لئے دیگر آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔
اب بات ہے کہ زیر آب مسجد کی تعمیر کیسے ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو برکت سے نوازے۔ جیسا کہ لنگ ویڈیو میں ظاہر ہے اور وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ پلاسٹک پائپ کے اندر ریت ڈال کر انہیں وزنی بنا دیا گیا اور پھر زیر آب گارے کے اندر گاڑ دیا گیا۔ قبلہ کی سمت معلوم تھی اس لئے کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوا۔
ویسے ایک بات اور بھی بتاتا چلوں کہ عمان کے شاہی خاندان کے تمام محلات زیر آب بنائے گئے ہیں۔ وہ کیسے یہ ایک الگ سوال ہے۔ اور اس کا جواب بھی الگ ہے۔
آخری بات یہ کہ سعودی عرب کے کبار علما کا متفقہ فتوی ہے کہ جو شخص ایک نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دے وہ کفر میں چلا جاتا ہے (ہمارے پاکستان کے علماء کا اس سے اختلاف ہے جو نہایت ہی غلط ہے کیونکہ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
من ترک الصلوٰة متعمدا فقد کفر
اس لئے ہر مسلمان پر نماز وقت مقررہ پر فرض ہے۔
اِنَّ الصَّلٰوۃَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا (سورة النساء)
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
وَلِلہِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًاوَّكَرْہًا وَّظِلٰلُہُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ (النحل49)
اب زیر آب بھی بےشمار ’’حیات‘‘ ہے۔ اُس میں مچھلی بھی ہے سانپ بھی، کیکڑا بھی ہے، جھینگا بھی۔ اس میں مونگے بھی ہیں لولو والمرجان بھی۔ ہیرے بھی ہیں موتی بھی۔ چٹانیں بھی ہیں۔ اور دلدل بھی۔ غرض یہ کہ ہر چیز اللہ رب العزت کو سجدہ کرتی ہے ۔ سجدہ کرنے کا معنی معروف ہے لیکن بعض چیزوں کے سجدہ کرنے کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ سچ ہے کہ ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔
اس تمہید کے بعد واضح ہو کہ انسانی زندگی بھی پانی کے اندر برقرار رہ سکتی ہے کچھ شرائط کے ساتھ۔ مثلاً سانس کے لئے ہوا اور جسم کے لئے خوراک تو لازمی چیزیں ہیں۔ اگر یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو انسانی صحت برقرار ہے۔
انسان بہت سے کام سرانجام دینے کے لئے پانی کے اندر جاتا ہے۔ مثلاً کسی ڈوبتے کی مدد کے لئے۔ کوئی قیمتی چیز پانی سے نکالنے کے لئے۔ وغیرہ وغیرہ۔
لہٰذا جب انسان زیادہ دیر تک پانی میںرہ سکتا ہے تو اس کے اوپر اللہ رب العالمین کے قوانین بھی لاگو ہوں گے۔
مثلاً تعمیری کام کرنا۔ بھلائی کے کام کرنا۔ منفعت والے کام کرنا۔ برائی سے بچنا۔ بھلائی کی طرف لپکنا۔
کچھ تعیری کام ایسے ہیں جیسے جہاز کے اُس حصے میں کوئی سوراخ ہو جائے جو پانی کے اندر واقع ہے تو اُس سوراخ کو ختم کرنا لازم ہے وگرنہ سب کی جانوں کو خطرہ ہے۔ لہٰذ کوئی لکڑی اس سوراخ میں پھنسانا یا اگر ممکن ہو تو ویلڈنگ وغیرہ کرنا۔ جیسا کہ تمام جہاز ران اس فن سے واقف ہیں۔
بعض اوقات ویلڈنگ میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ دن ہو یا رات۔ کسی بھی حالت میں جہاز اور جہاز پر سوار انسانوں کو بچانا فرض منصبی ہے۔
اسی طرح سے دشمن کی طرف سے بچھائی گئی مائنز وغیرہ کی صفائی، انہیںتلاش کرنا اورانہیں ناکارہ بنانا۔ اس میں کئی کئی دن اور رات صرف ہوتے ہیں۔
لہٰذا جب ایک ’’ایماندار‘‘ شخص ان تمام کاموں میں مصروف ہو تو اُس پر ’’رب العالمین‘‘ کا حق سب سے پہلے فرض ہوتا ہے کہ وہ اس ’’حالت‘‘ میں بھی اُس کی عبادت کرے۔
اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ جب کبھی بھی موقع ملے اور جہاں بھی موقع ملےنماز کے وقت پر نماز پڑھنا ہی فرض ہے۔
رہی یہ چیز کہ الفاظ کیسے ادا ہوتے ہیں؟؟
دراصل سانس لینے کے لئے پانی کے اندرجانے سے پہلے چہرے پر ماسک پہنا جاتا ہے جس کے ساتھ ایک سیلنڈر اٹیچ کر دیا جاتا ہے اور سیلنڈر انسان کی پشت پر ہوتا ہے۔ اُسی سے ہوا ’’ناک‘‘ میں داخل ہوتی ہے اور منہ سے باہر نکالی جاتی ہے۔ جیسے ہوا کا اخراج ممکن ہے تو انسان کچھ بھی بول سکتا ہے چاہے وہ قرآن کی تلاوت ہو یا نماز کی دیگر دعائیں وغیرہ۔
جہاں تک طہارت کا معاملہ ہے تو:
مفہوم حدیث کے مطابق تو سمندر میں پائی جانے والی ہر چیز حلال ہے۔ اسے کھایا جا سکتا ہے۔ (طبعی کراہت اور چیز ہے اس پر بحث نہیں)۔ سمندر کا پانی بھی پاک ہے۔ جب انسانی حاجات کا معاملہ ہوتا ہے تو اس کے زمینی احکامات ہی مرتب ہوتے ہیں لیکن طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً طہارت، وضو، وغیرہ وغیرہ۔
سائنسی تجربات ہیں کہ آواز ہوا کی نسبت پانی میں زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہے اور ہوا کی نسبت زیادہ بلند بھی ہوتی ہے۔ وقت نماز کے لئے گھڑیاں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ قبلہ رخ دیکھنے کے لئے دیگر آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔
اب بات ہے کہ زیر آب مسجد کی تعمیر کیسے ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو برکت سے نوازے۔ جیسا کہ لنگ ویڈیو میں ظاہر ہے اور وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ پلاسٹک پائپ کے اندر ریت ڈال کر انہیں وزنی بنا دیا گیا اور پھر زیر آب گارے کے اندر گاڑ دیا گیا۔ قبلہ کی سمت معلوم تھی اس لئے کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوا۔
ویسے ایک بات اور بھی بتاتا چلوں کہ عمان کے شاہی خاندان کے تمام محلات زیر آب بنائے گئے ہیں۔ وہ کیسے یہ ایک الگ سوال ہے۔ اور اس کا جواب بھی الگ ہے۔
آخری بات یہ کہ سعودی عرب کے کبار علما کا متفقہ فتوی ہے کہ جو شخص ایک نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دے وہ کفر میں چلا جاتا ہے (ہمارے پاکستان کے علماء کا اس سے اختلاف ہے جو نہایت ہی غلط ہے کیونکہ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
من ترک الصلوٰة متعمدا فقد کفر
اس لئے ہر مسلمان پر نماز وقت مقررہ پر فرض ہے۔
اِنَّ الصَّلٰوۃَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا (سورة النساء)
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔