- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
اب آپکی پہلی پوسٹ کا جواب دیتا ہوں
آپ کو جس وکیل نے بتایا ہے کہ قرارداد مقاصد کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تو اس سے پوچھیں کہ کون سی شق کے تحت آپ یہ دعوی کر رہے ہیں
یہ بیچاری قرار داد مقاصد پہلے ۱۹۵۶ء کے دستور میں دیباچے کے طور پر شامل کی گئی،پھر ۱۹۶۲ء کے دستور میں بھی اسے دیباچہ قراردیا گیا اور اپریل ۱۹۷۲ء کے ہنگامی دستور اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی اسے دیباچے کی حیثیت دی گئی۔
پھر دفعہ۲ور دفعہ۲ الف کے ذریعے اس قرارداد کو دستور کا مستقل حصہ بنادیاگیا۔دستور کی دفعہ۲کہتی ہے کہ:
''ریاستِ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا''۔ اور دفعہ۲الف میں مذکور ہے کہ :
''قراردادِ مقاصد،جسے دستورکے ساتھ بطور ضمیمہ بھی ملحق کیا گیا ہے،میں درج اصول واحکام کو دستور کا مستقل حصہ قرار دیاجاتا ہےجو بعینہ من وعن مؤثر ہوں گے''
اصل عبارت یوں ہے:
اب اس شو 2 الف کو بھی کسی وقت ختم کیا جا سکتا ہے دستور کی دفعہ۲۳۸ واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ پارلیمان کو دستور میں ترامیم کا حق حاصل ہے ۔ جبکہ دفعہ ۲۳۹ میں آئینی ترمیم کے لئے دوتہائی اکثریت کی شرط لگائی گئی ہے۔ اسی دفعہ کے تحت پانچویں اور چھٹے بند میں دو انتہائی اہم باتیں نصاً مذکور ہیں:
پہلی یہ بات کہ کسی بھی آئینی ترمیم کے خلاف کسی سطح کی عدالت میں کسی بنیاد پر اعتراض کرنا ممکن نہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہر قسم کے شک کو رفع کرنے کے لیے یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ مجلسِ شوریٰ (یعنی پارلیمان)کو دستور کی دفعات میں ترمیم کا لا محدود اختیار حاصل ہے
اصل عبارت یہ ہے
دوسری بات یہ بھی ہے کہ اسی قرار داد مقاصد کے دیباچے میں کئی مرتبہ ''جمہوریت ''کا لفظ استعمال کیا گیاہے۔ اور ''جمہوریت''کی اصطلاح اسی معروف معنی اور معلوم صفات کی حامل ہے۔یہ معانی وصفات جمہوریت کا ایسا جزوِلاینفک ہیں کہ اگر انہیں اس سے الگ کردیاجائے تو جو کچھ باقی بچے گا وہ کسی طور بھی جمہوریت نہیں کہلائے گا۔انہی اساسی صفات میں سےایک یہ بھی ہے کہ قانون سازی اور حکمرانی کا حق عوام کی غالب اکثریت کے پاس ہو اور باقی تمام اقدار واخلاق اسی بنیاد پر طے ہوں ۔پس وہ حرام ہوگاجسے اکثریت حرام کہے اور حلال وہ ہوگا جسے اکثریت حلال قرار دے۔
اسی طرح دیباچے میں یہ بھی عبارت ملتی ہے کہ :''پاکستان عدلِ اجتماعی کے اصولوں پر قائم ایک جمہوری ریاست ہوگی''
دیباچے میں یہ عبارت بھی مذکور ہے کہ :''(ہم اس)جمہوریت کی حفاظت کا عزمِ مصمم کیے (ہوئے ہیں)جو ظلم واستبداد کے خلاف عوام کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے'' اب نجانے اس عبارت کےذریعے یہ 'اسلامی'دستور کس چیز کی حفاظت کا ذمہ لے رہا ہے؟پوری جمہوریت کی حفاظت کا؟اکثریت کے حقِ حکمرانی اور حقِ قانون سازی کے تحفظ کا؟آخر کس بات کا ؟پس یہ بات توبڑے واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ دستورِ پاکستان کی ابتدائی سطور سے ہی حق وباطل کی آمیزش کا اغاز ہوجاتاہے
قراردادِ مقاصد کے اسلامی احکامات
جہاں تک قراردادِ مقاصد میں موجود اسلامی ہدایات واحکامات کا تعلق ہے ،تو ان کی عبارتوں میں ایسا عموم پایاجاتا ہے کہ ان سے کوئی متعین حکم اخذکرنا ممکن نہیں،البتہ کچھ عمومی باتیں شاید اخذ کی جاسکیں۔
(۱)مثلاً یہ عبارت کہ:
''یہ بات اظہرمن الشّمس ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکمِ کل ہے اور پاکستان کے عوام کو جو اقتدار واختیار بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے کا احق حاصل ہے ،وہ ایک مقدس امانت ہے''۔
یہ ایک عمومی سی عبارت ہے جو نہ تو یہ بات صراحتاً کہتی ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ صرف شریعتِ اسلامی کی ہوگی اور نہ ہی اس بات پر دوٹوک دلالت کرتی ہے کہ شرعی احکامات کو ایک ایسے بلند وبرتر مصدر کی حیثیت حاصل ہوگی جس کے مقابل کوئی دوسری شریعت یا قانون قابل قبول نہ ہوں گے۔اسی طرح اس عبارت میں تصریح بھی نہیں کی گئی کہ شرعی احکامات کو عوامی اکثریت کی رائے پر بھی فوقیت دی جائے گی
(۲)اسی طرح یہ عبارت کہ:
''مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس قابل بنایاجائے گاکہ وہ اپنی زندگی قرآنِ پاک اور سنتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کردہ اسلامی تعلیمات ،تشریحات اور ضروریات کے حسبِ منشاء ترتیب دے سکیں''۔
یہ بھی محض ایک وعدہ ہے ،جو کہ ساٹھ سال گزرجانے کے بعد بھی پورانہیں ہوسکا۔
مزید اس بارے کوئی معلومات چاہئے ہوں تو حاضر ہوں
پس وہ صرف اعتراض تو کر سکتی ہے مگر مشوری کی حد تک ماننا نہ ماننا پارلیمنٹ کا کام ہے مگر پارلیمنٹ کو یہ مشوری بھی گوارہ نہیں جسکی خود اجازت دی ہوئی ہے اور فرحت اللہ بابر کا بیان اس بارے جنگ میں پڑھ لیں
باقی جواب اگلی فرصت میں انشاءاللہ
جی محترم بھائی میں نے آپ کو کہا تھا کہ آپ نئے ہیں جبکہ میں نے یونیورسٹی میں ایک خاص پہلو سے قانون پڑھایا ہے اسکی اصطلاحات اور فراڈ کو جانتا ہوںآپ نے فرمایا کہ پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کسی بھی قانونی شق کو تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ سوال میں نے ایک قانون دان سے کیا تھا تو اس نے کہا کہ قرارداد مقاصد قانون کے دیباچہ میں شامل ہے یعنی اس چیز پر جس پر قانون کی بنیاد ہے اس لیے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
آپ کو جس وکیل نے بتایا ہے کہ قرارداد مقاصد کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تو اس سے پوچھیں کہ کون سی شق کے تحت آپ یہ دعوی کر رہے ہیں
یہ بیچاری قرار داد مقاصد پہلے ۱۹۵۶ء کے دستور میں دیباچے کے طور پر شامل کی گئی،پھر ۱۹۶۲ء کے دستور میں بھی اسے دیباچہ قراردیا گیا اور اپریل ۱۹۷۲ء کے ہنگامی دستور اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی اسے دیباچے کی حیثیت دی گئی۔
پھر دفعہ۲ور دفعہ۲ الف کے ذریعے اس قرارداد کو دستور کا مستقل حصہ بنادیاگیا۔دستور کی دفعہ۲کہتی ہے کہ:
''ریاستِ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا''۔ اور دفعہ۲الف میں مذکور ہے کہ :
''قراردادِ مقاصد،جسے دستورکے ساتھ بطور ضمیمہ بھی ملحق کیا گیا ہے،میں درج اصول واحکام کو دستور کا مستقل حصہ قرار دیاجاتا ہےجو بعینہ من وعن مؤثر ہوں گے''
اصل عبارت یوں ہے:
Islam to be State religion
2. Islam shall be the State religion of Pakistan.
2A. The Objectives Resolution to form part of substantive provisions
2A. The principles and provisions set out in the Objectives Resolution reproduced in the Annex are hereby made substantive part of the Constitution and shall have effect accordingly. [PART I Introductory, Article 2].
2. Islam shall be the State religion of Pakistan.
2A. The Objectives Resolution to form part of substantive provisions
2A. The principles and provisions set out in the Objectives Resolution reproduced in the Annex are hereby made substantive part of the Constitution and shall have effect accordingly. [PART I Introductory, Article 2].
پس قرار داد مقاصد دستور میں شامل ایک شق 2 الف کی وجہ سے ہی حیثیت حاصل کر سکی ہے ورنہ پہلے اسکی کوئی حیثیت نہیں تھیاب اس شو 2 الف کو بھی کسی وقت ختم کیا جا سکتا ہے دستور کی دفعہ۲۳۸ واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ پارلیمان کو دستور میں ترامیم کا حق حاصل ہے ۔ جبکہ دفعہ ۲۳۹ میں آئینی ترمیم کے لئے دوتہائی اکثریت کی شرط لگائی گئی ہے۔ اسی دفعہ کے تحت پانچویں اور چھٹے بند میں دو انتہائی اہم باتیں نصاً مذکور ہیں:
پہلی یہ بات کہ کسی بھی آئینی ترمیم کے خلاف کسی سطح کی عدالت میں کسی بنیاد پر اعتراض کرنا ممکن نہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہر قسم کے شک کو رفع کرنے کے لیے یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ مجلسِ شوریٰ (یعنی پارلیمان)کو دستور کی دفعات میں ترمیم کا لا محدود اختیار حاصل ہے
اصل عبارت یہ ہے
"(5) No amendment of the Constitution shall be called in question in any court on any ground whatever.
(6) For the removal of doubt, it is hereby declared that there is no limitation whatever on the power of the Majilis-e-Shoora (Parliament) to amend any of the provisions of the Constitution" [CONSTITUTION OF PAKISTAN, PART XI Amendment of ConstitutionArticle 239].
(6) For the removal of doubt, it is hereby declared that there is no limitation whatever on the power of the Majilis-e-Shoora (Parliament) to amend any of the provisions of the Constitution" [CONSTITUTION OF PAKISTAN, PART XI Amendment of ConstitutionArticle 239].
دوسری بات یہ بھی ہے کہ اسی قرار داد مقاصد کے دیباچے میں کئی مرتبہ ''جمہوریت ''کا لفظ استعمال کیا گیاہے۔ اور ''جمہوریت''کی اصطلاح اسی معروف معنی اور معلوم صفات کی حامل ہے۔یہ معانی وصفات جمہوریت کا ایسا جزوِلاینفک ہیں کہ اگر انہیں اس سے الگ کردیاجائے تو جو کچھ باقی بچے گا وہ کسی طور بھی جمہوریت نہیں کہلائے گا۔انہی اساسی صفات میں سےایک یہ بھی ہے کہ قانون سازی اور حکمرانی کا حق عوام کی غالب اکثریت کے پاس ہو اور باقی تمام اقدار واخلاق اسی بنیاد پر طے ہوں ۔پس وہ حرام ہوگاجسے اکثریت حرام کہے اور حلال وہ ہوگا جسے اکثریت حلال قرار دے۔
اسی طرح دیباچے میں یہ بھی عبارت ملتی ہے کہ :''پاکستان عدلِ اجتماعی کے اصولوں پر قائم ایک جمہوری ریاست ہوگی''
دیباچے میں یہ عبارت بھی مذکور ہے کہ :''(ہم اس)جمہوریت کی حفاظت کا عزمِ مصمم کیے (ہوئے ہیں)جو ظلم واستبداد کے خلاف عوام کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے'' اب نجانے اس عبارت کےذریعے یہ 'اسلامی'دستور کس چیز کی حفاظت کا ذمہ لے رہا ہے؟پوری جمہوریت کی حفاظت کا؟اکثریت کے حقِ حکمرانی اور حقِ قانون سازی کے تحفظ کا؟آخر کس بات کا ؟پس یہ بات توبڑے واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ دستورِ پاکستان کی ابتدائی سطور سے ہی حق وباطل کی آمیزش کا اغاز ہوجاتاہے
قراردادِ مقاصد کے اسلامی احکامات
جہاں تک قراردادِ مقاصد میں موجود اسلامی ہدایات واحکامات کا تعلق ہے ،تو ان کی عبارتوں میں ایسا عموم پایاجاتا ہے کہ ان سے کوئی متعین حکم اخذکرنا ممکن نہیں،البتہ کچھ عمومی باتیں شاید اخذ کی جاسکیں۔
(۱)مثلاً یہ عبارت کہ:
''یہ بات اظہرمن الشّمس ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکمِ کل ہے اور پاکستان کے عوام کو جو اقتدار واختیار بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے کا احق حاصل ہے ،وہ ایک مقدس امانت ہے''۔
یہ ایک عمومی سی عبارت ہے جو نہ تو یہ بات صراحتاً کہتی ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ صرف شریعتِ اسلامی کی ہوگی اور نہ ہی اس بات پر دوٹوک دلالت کرتی ہے کہ شرعی احکامات کو ایک ایسے بلند وبرتر مصدر کی حیثیت حاصل ہوگی جس کے مقابل کوئی دوسری شریعت یا قانون قابل قبول نہ ہوں گے۔اسی طرح اس عبارت میں تصریح بھی نہیں کی گئی کہ شرعی احکامات کو عوامی اکثریت کی رائے پر بھی فوقیت دی جائے گی
(۲)اسی طرح یہ عبارت کہ:
''مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس قابل بنایاجائے گاکہ وہ اپنی زندگی قرآنِ پاک اور سنتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کردہ اسلامی تعلیمات ،تشریحات اور ضروریات کے حسبِ منشاء ترتیب دے سکیں''۔
یہ بھی محض ایک وعدہ ہے ،جو کہ ساٹھ سال گزرجانے کے بعد بھی پورانہیں ہوسکا۔
مزید اس بارے کوئی معلومات چاہئے ہوں تو حاضر ہوں
جی ہونا کیا تھا قانونی طور پر یہ بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی طرح کچھ نہیں کر سکتی آج کل نظریاتی کونسل کا کم عمری کی شادی پر مشوری دینے پر پارلیمنٹ والے جو حال کر رہے ہیں کہ تم لولی لنگڑی کو یہ کیسے جرات ہوئی کہ ہمارے بنائے قانون پر اعتراض کر سکوآپ نے وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں فرمایا۔ محترم بھائی اس فیصلے کا نتیجہ کیا ہوا میں نہیں جانتا۔ اگر آپ عرض کر دیں تو شکرگزار ہوں گا۔
پس وہ صرف اعتراض تو کر سکتی ہے مگر مشوری کی حد تک ماننا نہ ماننا پارلیمنٹ کا کام ہے مگر پارلیمنٹ کو یہ مشوری بھی گوارہ نہیں جسکی خود اجازت دی ہوئی ہے اور فرحت اللہ بابر کا بیان اس بارے جنگ میں پڑھ لیں
محترم بھائی میں نے اسکا ذکر اسلئے کیا تھا کہ شرعی معاملات کو صرف یہی دیکھ سکتی ہے خیر اس لولی لنگڑی کا تذکرہ کو چھوڑ دیتے ہیں جہاں تک سپریم کورٹ کے ججوں کا تعلق ہے تو وہ میں نے اوپر 239 کے تحت بتا دیا ہے کہ جو پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کہ دے وہ چیف جسٹس کا باپ بھی اعتراض تو کیا اس مقدمے کو سن بھی نہیں سکتاآپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وفاقی شرعی عدالت کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ قانون پر کچھ نہیں کر سکتی۔ تو میں نے اس عدالت کا غالبا ذکر ہی نہیں کیا۔ میری اولین مراد عدالت سے آپ کے معروف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ ہے۔
بھائی آپ سلمان تاسیر کو مارنے والے ممتاز قادری کے فیصلے کو اٹھا کر پڑھ لیں اخبار میں بھی مکمل لگا تھا اس بات سے قطع نظر کہ درست تھا یا غلط مگر جج فیصلہ میں کہتا ہے کہ اگرچہ یہ کام شریعت کے عین مطابق تھا مگر ہم نے شریعت کو نہیں دیکھنا ہوتا ہم نے قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے پس میں اسکو پھانسی دیتا ہوںآپ کا یہ اشکال اس پر بجا ہوگا کہ اس میں "عادل" ججز موجود نہیں ہیں لیکن غیر عادل کچھ اس قدر بھی غیر عادل نہیں ہوتے کہ وہ واضح قرآن و حدیث کے مخالف فیصلہ دے سکیں۔
جی میں نے اوپر بتا دیا کہ دفعہ 239 کے تحت پارلیمنٹ کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تو پروسیجر یہ کیسے ہے محترم بھائی اسلامی نظریاتی کونسل بھی آپ کے مشورے پر عمل کر کے عدالت جا کر شرعیت کے حق میں فیصلہ نہیں کروا سکتی دیکھیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل جو پارلیمنٹ کو کم عمری کی شادی پر مشورہ دے رہی ہے کیا وہ عدالت میں جا کر آپ کے مطابق اس غیر شرعی شق کو ختم نہیں کرا سکتی تھی اسکو مشورہ دینے کی کیا ضرارت تھی اور پھر فرحت اللہ بابر پر توہین عدالت کا مقدمہ بھی درج نہیں کرا سکتی تھی بھئی یہ سارے ہمیں بے وقوف بنانے کی باتیں ہیں اللہ سمجھ دے امینمیں نے ایک پروسیجر عرض کیا تھا:۔اگر یہ پروسیجر واقعی ایسا ہی ہے جیسے میری معلومات میں ہے تو پھر اس سے کوئی شق خارج نہیں ہو سکتی۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ ہم یہ کام کریں۔
ہاں ایک معاملہ ہوتا ہے کہ اگر متبادل کوئی طریقہ نہ ہو تو عدالت وقتی طور پر اس پر فیصلہ موقوف کر دیتی ہے اور علماء کرام سے مدد طلب کرتی ہے۔ پھر اس پر وہ طویل معاملہ چلنا شروع ہوتا ہے جو آپ سود کے معاملات میں دیکھ رہے ہیں۔ سود سے غیر سودی بینکاری کی عالمی تحقیق، اس کا تجرباتی نفاذ اور آہستہ آہستہ اسٹیٹ بینک کو اس طرف لانا۔ اگر اس میں کوئی اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے ٹال مٹول کرے تو ہم اسے آئین کی کمزوری نہیں قرار دے سکتے۔ آئین نے ہمارے لیے راستہ رکھا ہے اور ہم اس راستے پر نہیں چل رہے۔
باقی جواب اگلی فرصت میں انشاءاللہ