• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان، دارالاسلام ؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میرا رجحان تو دار المرکبہ ہی کی طرف ہے۔واللہ اعلم بالصواب
مجھے بھی دلائل کے لحاظ سے استادِ محترم طاہر بھائی کی بات ٹھیک لگتی ہے مگر پاکستان کو دارالاسلام سمجھنے والے اہل حدیث بھائی کو گمراہ نہیں سمجھتا
میں نے سوچا کہ پہلے اپنے موقف کے حوالے سے اپنے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے فتاوی دین الخالص سے کچھ نقل کروں دوں پھر اگلی پوسٹ میں اس فتوی اور محترم اشماریہ بھائی کے اشکالات پر بات کروں گا ان شاءاللہ استادِ محترم طاہر بھائی سے بھی اصلاح کی درخواست ہے

دارالاسلام و دارالکفر
شیخ حفظہ اللہ دارالاسلام اور دارالکفر کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں

فالدار التی للاسلام وھی التی یحکمھا المسلمون و تجری فیھا الاحکام الاسلامیۃ و یکون النفوذ فیھا للمسلمین ولو کان جمہور اھلھا کفارا
وبلاد الکفر التی یحکمھا الکفار و تجری فیھا احکام الکفر و یکون نفوذ فیھا للکفار (فتاوی الدین الخالص جلد 9 صفحہ 159)

دارالاسلام وہ ہے جہاں مسلمان فیصلہ کرتے ہوں اور اسلامی احکام کا اجرا ہو اور اقتدار (اثر و رسوخ) مسلمانوں کے لئے ہو اگرچہ رہنے والے اکثر کافر ہی ہوں
اور دار الکفر وہ ہے جہاں کفار فیصلہ کرتے ہوں اور کفر کے قوانین جاری ہوں اور کافروں کا اقتدار (اثر و رسوخ) ہو

آج کے اسلامی ممالک پر اطلاق

فنجد ان کثیرا من الدول التی تدعی الاسلام قد وضعت قوانین تحمی الزنا و الربا والخمر والمیسر، ولا تعاقب من یترک الواجبات کصلاۃ و صیام وزکوۃ و حج و مع ذلک تتستر ببعض مظاھر الاسلام و ھی فی حقیقۃ الامر والواقع دار کفر و ردۃ عن الاسلام، فنجد مصر و العراق کذلک، اقول و بلادنا کذلک
فھل ھذہ دول اسلامیۃ کلا و حاشا

(فتاوی الدین الخالص جلد 9 صفحہ 161)
پس ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اسلامی کہلوانے والے ممالک نے ایسے قوانین وضع کیے ہوئے ہیں کہ زنا اور سود اور شراب اور جوا کو دفاع کرتے ہیں اور واجبات (نماز روزہ زکوۃ حج ) چھوڑنے والے کا محاسبہ نہیں کیا جاتا اور اسکے ساتھ ساتھ بعض اسلام کے مظاہر کو بھی چھپایا جاتا ہے یہ ممالک حقیقت میں دار الکفر اور اسلام سے مرتد ہیں پس ہم عراق اور مصر کو بھی ایسا دیکھتے ہیں اور میں (امین اللہ) کہتا ہوں کہ ہمارا ملک (پاکستان) بھی ایسا ہے پس کیا یہ ممالک اسلامی ہیں ہر گز نہیں

اھل علم کے اقوال سے نقاط
اسکے بعد محترم شیخ حفظہ اللہ ابن قیم ،امام شوکانی ، ابن قدامۃ، سید قطب، حسن البنا کے اس بارے اقوال ذکر کرتے ہیں اور ان اقوال سے نقاط نکالتے ہیں

نقطہ نمبر 1
ان اکثر البلاد التی تسمی نفسھا فی زمننا -زورا- بالاسلامیۃ: ھی دار کفر وردۃ لان الاحکام التی تعلوھا ھی احکام کفر و ردۃ والشوکۃ فیھا للکفرۃ المرتدین العلمانیین و لیس للمسلمین (فتاوی الدین الخالص جلد 9 صفحہ 163)
اکثر ممالک جن کو ہمارے زمانے میں زبردستی اسلامی کہا جاتا ہے وہ دار کفر اور ارتداد ہیں چونکہ جن احکام کو وہ اونچا کرتے ہیں وہ کفر اور ارتدار کے احکام ہیں اور ان ممالک میں مرتد اور لادین کافروں کی شان و شوکت ہیں مسلمانوں کی نہیں

نقطہ نمبر 2

کون ھذہ الدیار حکمھا حکم دارالحرب والکفر لا یلزم بالضرورۃ ان یکون جمیع سکانھا کفرۃ و مرتدین۔ و معاملتھم جمیعا علی انھم کفرۃ مرتدون بل فیھا المرتد الکافر والمسلم الموحد ولک منھما معاملۃ المختلفۃ عن الاخر
وقد سئل شیخ الاسلام عن بلدۃ (ماردین) وھی شبیھۃ بکثیر من امصار المسلمین فی ھذا الزمان، وماردین ھذہ فیھا الکفرۃ ویمثلون الفئۃ الحاکمۃ المتسلطۃ والجند، و فیھا المسلمون ویمثلون عامۃ السکان ---- ھل ھی دار کفر و حرب بحیث یُعامل جمیع من فیھا معاملۃ اھل الکفر والحرب --- ام انھا دار اسلام لعموم سکانھا من المسلمین
فاجاب شیخ الاسلام: الحمد للہ: دماء المسلمین و اموالھم محرمۃ حیث کانوا فی ماردین او غیرھا بای طریقۃ امکنھم، من تغیب او تعریض او مضایقۃ، فاذا لم یکن الا بالھجرۃ تعینت
ولا یحل سبیھم عموما ورمیھم بالنفاق بل السب والرمی بالنفاق یقع علی الصفات المذکورۃ فی الکتاب والسنۃ، فیدخل فیھا بعض اھل ماردین و غیرھم
واما کونھا دار حرب او سلم فھی مرکبۃ: فیھا المعنیان، لیست بمنزلۃ دارالاسلام التی تجری علیھا احکام الاسلام لکون جندھا مسلمین، ولا بمنزلۃ دار الحرب التی اھلھا کفار، بل ھی قسم ثالث یُعامل المسلم فیھا بما یستحقہ و یقاتل الخارج عن شریعۃ الاسلام بما یستحقہ (الفتاوی: 28، 241)
قلت (امین اللہ) وما قالہ شیخ الاسلام عن ماردین و اھلھا یُمکن ان یحمل علی کثیر من افصار المسلمین لوجود المعنیین فیھا، واللہ تعالی اعلم


ان ممالک پر دار الحرب اور دار الکفر کا حکم لگانے سے یہ ضروری ثابت نہیں ہوتا کہ اسکے تمام رہنے والے کافر اور مرتد ہیں اور ان سب کا معاملہ کافر مرتد کا ہے بلکہ اس میں کافر مرتد بھی ہوں گے اور مسلم موحد بھی- اور ہر ایک کے لئے معاملہ دوسرے سے مختلف ہو گا
اور شیخ الاسلام سے ماردین کے بارے میں سوال کیا گیا جو (ماردین) آج کے زمانہ کے اکثر مسلم ممالک سے مشابہت رکھتا ہے اور اس میں کافر ہیں اور اسکی مثال حاکم اور متسلط گروہ اور اسکے جند سے دی جاتی ہے اور اس میں مسلمان بھی ہیں اور اسکی مثال عام رہنے والوں کی ہے--- تو کیا یہ دار کفر یا حرب ہو چونکہ اس میں تمام معاملے اھل کفر اور حرب کے کیے جاتے ہیں یا یہ دار اسلام ہے چونکہ اسکے عام رہائشی مسلمان ہیں
تو شیخ الاسلام نے جواب دیا: الحمد للہ: مسلمانوں کا خون اور مال حرام ہے چاہے ماردین میں یا کہیں اور، جس بھی طرح ممکن ہو چاہے دور ہو کر یا تعریض کر کے یا تنگی سے ہو (خون مسلم سے بچا جائے)، پس جب ہجرت کے علاوہ ممکن نہ ہو تو ہجرت کریں گے
اور عموما انکو قیدی بنانا اور مارنا نفاق کی وجہ سے حلال نہیں بلکہ نفاق کی وجہ سے یہ تب ثابت ہوتا ہے جب کتاب و سنۃ میں مذکور صفات پوری ہوں پس کچھ اہل ماردین اس میں داخل ہیں اور کچھ غیر ہیں
اور جہاں تک دار حرب یا سلام کی بات ہے تو یہ دار مرکبۃ ہے- اس میں دو معانی ہیں یہ دار الاسلام کی طرح نہیں جس میں مسلمان جند کے ہونے کی وجہ سے اسلامی احکام جاری ہوتے ہیں اور نہ دار الحرب کی طرح ہے کہ جس کے رہنے والے کافر ہوتے ہیں بلکہ یہ تیسری قسم ہے جس میں مسلمان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے گا جس کا وہ مستحق ہے اور شریعت سے خارج کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے گا جس کا وہ مستحق ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم عبدہ بھائی کے حکم پر میں اس دھاگے میں حاضری دے رہا ہوں ورنہ علمی لحاظ سے اس قابل نہیں ہوں۔
جزاک اللہ خیرا محترم بھائی میرا حکم نہیں عرض تھی تاکہ دونوں طرف کا فائدہ ہو جائے اور معلومات شیئر ہو جائیں

سب سے پہلے دار الاسلام کی تعریف کو دیکھتے ہیں:۔
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:۔
قال الجمهور: دار الإسلام هي التي نزلها المسلمون، وجرت عليها أحكام الإسلام
احکام اہل الذمۃ 2۔728 ط رمادی للنشر

"جمہور کہتے ہیں: دار الاسلام وہ ہے جہاں مسلمان بس جائیں اور اس پر اسلام کے احکام جاری ہوں۔"
دار الاسلام کی اس تعریف میں تو غالبا کسی کا اختلاف نہیں۔ اختلاف اس بات پر ہے کہ یہ دار الاسلام دار الکفر یا دار الحرب کب بنے گا؟
جی محترم بھائی میرے خیال میں کسی کو اختلاف نہیں البتہ تھوڑی سی مزید وضاحت کر دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ پہلی دفعہ دارالاسلام بننے کے لئے بھی خالی مسلمانوں کے بسنے کی شرط نہیں بلکہ اسلامی احکام جاری ہونے کی بھی شرط لازمی ہے پس دارالکفر میں تبدیل بھی وہی ہو گا جس کا پہلے دارالاسلام ہونا ثابت ہو جیسے مرتد وہی ہوتا ہے جس کا پہلے صحیح مسلمان ہونا ثابت ہو

اس اختلاف میں بھی کم از کم درجہ یہ ہے کہ اس جگہ پر احکام کفار غالب ہوجائیں۔َ
جی محترم بھائی کم از کم یہ شرط سارے لگاتے ہیں

َاور ایک تعریف عموما کی جاتی ہے کہ "دار الاسلام اس ملک کو کہتے ہیں جہاں آزادی سے اسلام کی تعلیمات پر عمل کیا جا سکے"۔
یہ تعریف ٹھیک نہیں جس میں اوپر کم از کم شرط ہی پوری نہیں اور دوسرا اس طرح تو بہت سے سیکولر غیر مسلم ممالک بھی دارالاسلام بن جائیں گے

ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ " دار الاسلام وہ ہے جہاں احکام اسلام نافذ ہوں اور مسلمان اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکیں۔"
خلاصہ میرے خیال میں کم از کم شرط والا ٹھیک رہے گا کیونکہ یہاں احکام اسلام کے نافذ ہونے والے جملہ میں کافی ابہام و گنجائش ہے کہ سارے نافذ ہیں یا کچھ-جبکہ اسلامی احکام غالب ہونے کا جملہ زیادہ بہتر مفہوم دیتا ہے تو اوپر استعمال بھی اکثر وہی کیا گیا ہے جہاں تک مسلمانوں کا اپنے دین پر عمل پیرا ہونے کا معاملہ ہے تو پہلی شرط کے بعد وہ خود بخود پورا ہو جائے گا

یہاں دو چیزیں وضاحت طلب ہیں:۔
1-مسلمانوں کے دین پر عمل پیرا ہونے کا کیا مطلب ہے؟
2-احکام اسلام کے نفاذ کا کیا مطلب ہے؟

1۔ دین پر مسلمانوں کے عمل پیرا ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اپنے انفرادی معاملات (نماز، روزہ، زکاۃ، حج، نکاح، بیع و شراء وغیرہ) میں ان پر کوئی ایسی پابندی نہ ہو جو انہیں مستقل اس سے روک دے۔ جیسے آج کل بعض ممالک میں حجاب پر پابندی ہے۔ الا یہ کہ یہ پابندی کسی خاص جگہ پر یا کسی خاص وقت میں خاص عذر شرعی کی وجہ سے ہو جیسے حالات خرابی کی بنا پر کرفیو لگایا جائے اور مسجد جانے وغیرہ سے بھی روک دیا جائے۔
دیکھیں میرے بھائی اگر ہم انفرادی اعمال کے ہی مکلف ہیں تو پھر سیکولرازم میں کیا قباحت ہے اسکی بھی یہی تعریف ہے کہ انسان اپنی ذات کے لئے جو مرضی کرنا پسند کرے مگر اجتماعی معاملات میں دین کو خیر آباد کہ دے
کیا ہم اجتماعی معاملات کے مکلف نہیں-
نماز اکیلے پڑھنا انفرادی معاملہ ہے مگر جماعت سے پڑھنا اجتماعی معاملہ ہے اسی طرح حجاب کی آپ کی مثال بھی اجتماعی معاملہ ہے
اجتماعی معاملات میں سب سے اہم معاملہ دعوت ہے اور اس میں بھی شرک کی دعوت دینا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو مشرکین مکہ میں کیا کچھ خرابی نہیں تھی سود زنا غلامی قتل و غارت ہر کچھ تھا مگر زروع کہاں سے کیا
اسلامی ملک میں (مثلا سعودیہ) آپ کو کسی بھی جگہ توحید کی دعوت دینے کی کھلی چھٹی ہوتی ہے بلکہ مدد کی جاتی ہے اور جہاں اس عمل کرنے سے روکا جائے تو سمجھو آپ کو دین پر عمل پیرا ہونے کی آزادی نہیں

2۔ احکام اسلام کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ ان احکام کو عملی دنیا میں لانا ممکن ہو۔ چوں کہ اس بات پر بہت اختلاف ہوتا ہے اس لیے اس کی تھوڑی وضاحت عرض کرتا ہوں۔
ایک ہوتا ہے احکام کا عملی اجراء اور ایک ہوتا ہے اجراء کا ممکن ہونا۔ ان احکام میں حدود و قصاص سے لے کر تمام احکام شامل ہیں۔
احکام کے عملی اجراء میں اگر ہم غور کریں تو خلفاء راشدین کے بعد سے ہی احکام کے عملی اجراء میں ہمیں کوتاہی نظر آتی ہے۔ عمر بن عبد العزیزؒ نے جب حکومت سنبھالی تو تفسیر طبری میں جو اس وقت کے حکام کا حال لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت المال کے خزانے کے بے دریغ استعمال پر وہ کم از کم معزول ہونے اور تعزیر کے مستحق تھے لیکن اسے جاری نہیں کیا گیا، اور اس بنا پر کسی نے اس وقت کی مملکت کو دار الاسلام سے خراج بھی نہیں قرار دیا۔ اسی طرح حجاج بن یوسف کا سعید بن جبیر رض کو قتل کرنے کا واقعہ مشہور ہے لیکن قصاص نہیں لیا گیا۔ حضرت حسین رض کے قاتلوں سے قصاص نہیں لیا گیا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں لیکن تاریخ میں کبھی بھی کسی نے ان واقعات میں احکام کے اجراء کے نہ ہونے کی وجہ سے مملکت اسلامی کو دار الاسلام سے خارج قرار نہیں دیا۔
جی محترم بھائی اگر اسلامی احکام نافذ ہوں اور پھر بھی آپکی وضاحت کے مطابق گواہوں میں رد بدل یا احتمالات کا فائدہ اٹھا کر یا کوئی اور حربہ استعمال کر کے شریعت کے خلاف کام کیا جائے تو اسکو تو بالاتفاق تمام علماء کفر دون کفر کہتے ہیں اور اسکو کوئی تو تکفیری حضرات بھی تحکیم بغیر ما انزل اللہ میں شمار نہیں کرتے بلکہ یہی تو انکے مخالف ان پر اعتراض کرتے ہیں کہ پھر انکو کافر کیوں نہیں کہتے
لیکن میرے محترم بھائی آپ کا اس بات کا پاکستان پر قیاس کرنا ٹھیک نہیں جسکی وضاحت نیچے مل جائے گی

احکام کے اجراء کے ممکن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت کے قانون میں اس طرح شامل ہوں کہ مسلم ہوں اور اگر حکومت انہیں جاری کرنے لگے تو قانون اس کے لیے بلا جواز رکاوٹ نہ بن سکے۔ بلا جواز کی قید اس لیے ہے کہ بسا اوقات اس لیے رکاوٹ ہوتی ہے کہ گواہوں کی تعدیل ممکن نہیں ہوتی یا فوری اجراء پر مکمل نظام بکھر جاتا ہے یا اس طرح کی کوئی بھی رکاوٹ۔ اسے ہم غلط نہیں کہہ سکتے۔
جی محترم بھائی یہی بات آپ کو بتانا ہے کہ یہ بات قانون میں شامل نہیں ہے بلکہ یہ ایسا ہے کہ جیسے اندر شراب بھر کر اوپر شربت بزوری کا لیبل لگا دیا جائے یہ نیچے میں ثابت کروں گا ان شاءاللہ

باقی اگلی فرصت میں ابھی پوسٹ مکمل ہونے کا انتظار کیجئے گا جزاک اللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
پاکستان کے قوانین میں کچھ اس انداز سے شقیں شامل کی گئی ہیں کہ وہ اسلامی شقوں کے تحت رہتی ہیں۔ اگر اس میں کوئی شق غیر اسلامی ہو تو آپ اس پر بالدلیل مقدمہ کر سکتے ہیں جس کے بعد عدالت ایوان بالا اور ایوان زیریں کو مخصوص مدت کی مہلت دیتی ہے کہ اس دوران میں انہیں تبدیل کر دیا جائے ورنہ وہ خود ہی کالعدم قرار پاتی ہیں۔
یہ سارے خیالی پلاؤں ہیں جو میں بھی پہلے پکاتا تھا مگر جب اللہ نے علم دیا تو ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعلمون کے تحت اللہ کا شکر ادا کیا
ذرا آپ کو آئین کی سیر کروا دیتے ہیں
آرٹیکل 238 کہتا ہے

"Subject to this Part, the Constitution may be amended by act of [Majlis-e-Shoora(Parliament)]" [CONSTITUTION OF PAKISTAN XI Amendment of Cooonstitution, Article 238].
یعنی پارلیمنٹ آئین کی کسی بھی شق کو تبدیل کرنے کا حق رکھتی ہے (دوسری جگہ اسکے لئے دو تہائی اکثریت کی شرط ہے)

آرٹیکل 239 کی کلاز 5 کہتی ہے
No amendment of the Constitution shall be called in question in any court on any ground whatever.
آئین کی تبدیلی کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا چاہے شرعی عدالت ہو یا سپریم کورٹ ہو

آرٹیکل 239 کی کلاز 6 کہتی ہے
For the removal of doubt, it is hereby declared that there is no limitation whatever on the power of the Majilis-e-Shoora (Parliament) to amend any of the provisions of the Constitution" [CONSTITUTION OF PAKISTAN, PART XI Amendment of ConstitutionArticle 239]
یعنی جو اوپر پارلیمنٹ کو آئین کی تبدیلی کا حق دیا گیا ہے اس میں کوئی بھی شرط (limitation) نہیں رکھی گئی یعنی شریعت کے مطابق ہو یا خلاف ہو ہاں جیسے اوپر کہا گیا ہے کہ دوسری جگہ اسکے لئے دو تہائی کی شرط لگائی گئی ہے

جہاں تک وفاقی شرعی عدالت کی تشکیل اور دائرہ اختیار کی بات ہے تو اس کی بھی ہلکی سی سیر کر لیتے ہیں
وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار سے مستثنیٰ امور
دفعہ ۲۰۳Bاس فصل میں ذکرکردہ تعریفات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہے:
''قانون میں ہرایسارواج یا عرف شامل ہے جوقانونی قوت کاحامل ہو.........لیکن اس میں دستور،مسلمانوں کے شخصی امورسے متعلقہ قوانین،کسی بھی عدالت یا ٹریبونل کے ضابطۂ کار سے متعلقہ قانون،یااس باب کے نافذالعمل ہونے کے دس سال بعدتک ہرقسم کے مالی قوانین،یا محصولات اورفیسوں کے عائد ہونے اور ان کی وصولی سے متعلقہ قوانین،یابینکاری اور بیمہ کے عمل اور کے طریقۂ کارسے متعلقہ قوانین شامل نہیں ہوں گے''

(c) "law" includes any custom or usage having the force of law but does not include the Constitution, Muslim personal law, any law relating to the procedure of any court o tribunal or, until the expiration of ten years from the commencement of this Chapter, any fiscal law or any law relating to the levy and collection of taxes and fees or banking or insurance practice and procedure [PART VII The Judicature, CHAPTER 3A. - FEDERAL SHARIAT COURT, Article 203B]

اس دفعہ کاجائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دستوربنانے میں کس قدر مکروفریب اورشیطنت سے کام لیاگیاہے ،اورقوم کے ساتھ کیساسنگین مذاق کیا گیاہے
ا س فصل کے ابتدائی حصے میں ہی دستورسازوں نے نہایت سلیقے کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت سے تمام اہم اختیارات سلب کرلیے ہیں۔نتیجتاً یہ عدالت ایک ایسا بے بس سامحکمہ بن کررہ گیا ہےجو شریعت نافذکرنے سے کلی طور پر عاجز ہے:
اولاً،اس دفعہ نے شرعی عدالت کو دستورکا جائزہ لینے سے روک دیاہے،جس سے واضح ہوتاہے کہ:
الف ۔وفاقی شرعی عدالت ایک کمزوراوربے بس ادارہ ہےکیونکہ اسے یہی حق حاصل نہیں کہ وہ دستورپاکستان کا جائزہ لے.........حالانکہ دستورتوان کے نزدیک ''ابوالقوانین''اور قانون سازی کااصل مصدرہے۔گویاوفاقی شرعی عدالت کو اتناحق بھی نہیں کہ یہ قانون سازی کے مصدرکا جائزہ لے سکے ۔جبکہ اس کے برعکس،پاکستان کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دستوری دفعات کی تشریح وتفسیرکرے
صرف یہی نہیں،بلکہ دستورکی دفعہ ۱۸۴توسپریم کورٹ کو مکمل اختیاردیتی ہے کہ وہ ان تمام معاملات میں فیصلہ صادرکرے جو دستور میں بیان کردہ''بنیادی حقوق''سے تعلق رکھتے ہیں۔
Without prejudice to the provisions of Article 199, the Supreme Court shall, if it considers that a question of public importance with reference to the enforcement of any of the Fundamental Rights conferred by Chapter 1 of Part II is involved, have the power to make an order of the nature mentioned in the said Article. [PART VII The Judicature, CHAPTER 2. - THE SUPREME COURT OF PAKISTAN, Article 184]

وفاقی شرعی عدالت کو تویہ حق حاصل نہیں کہ وہ دستورکا جائزہ لے ،لیکن دستورِپاکستان کووفاقی شرعی عدالت پر مکمل اختیاراورغلبہ حاصل ہے۔جیسا کہ ہم پہلے ذکرکرچکے ہیں،دستورکی دفعات۲۳۸اور۲۳۹ارکانِ پارلیمان کو بلاکسی قیدوشرط یہ حق دیتی ہیں کہ وہ جیسے چاہیں دستور کے احکام میں ترمیم و تبدیلی اور تغیروابطال کریں۔چنانچہ اگردوتہائی ارکانِ پارلیمان''وفاقی شرعی عدالت"کو ''انسدادِشریعت عدالت''میں بدلنا چاہیں توان پر کوئی پابندی نہیں کیونکہ وہ قانون سازی کا مکمل حق رکھتے ہیں۔اس سادہ سی مثال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ :
٭پاکستان میں اقتدارِ اعلیٰ شریعت کو نہیں حاصل،بلکہ عوام اور عوامی ارادہ ہی حاکمِ اعلیٰ ہے اور پارلیمان کی غالب اکثریت کی رضانظام چلانے والوں کے نزدیک عوامی رضامندی ہی کی دلیل ہے۔اس بات سے قطعِ نظرکہ کیا واقعتاً ارکانِ پارلیمان امت کے نمائندے ہیں یا نہیں.........یہ بات توبہرحال ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقتدارِ اعلیٰ نہ تو شریعت کوحاصل ہے ،نہ ہی قرآنِ کریم اورسنت مطہرہ کو،اقتداراعلیٰ کی مالک تو وہ دیگر قوتیں ہیں جو پاکستان کو اسلام سے دورلے جارہی ہیں اوراپنی خواہشات کے مطابق اہلِ پاکستان کی قسمت سے کھیل رہی ہیں
اسی طرح وفاقی شرعی عدالت کو مسلمانوں کے شخصی امور سے متعلقہ قوانین کا جائزہ لینے سے بھی روک دیا گیاہے۔''اسلامی ''جمہوریۂ پاکستان کے ''اسلامی''دستورمیں پائے جانے والے ان تضادات کا حل تو میری سمجھ سے بالاتر ہے؟اگرایک شرعی عدالت مسلمانوں کے شخصی امورسے متعلقہ قوانین کا جائزہ بھی نہیں لے گی ،تو آخرکس کے شخصی امورسے متعلقہ قوانین کا جائزہ لے گی؟مشرکین عرب کے .........!؟فرعونِ مصرکے.........!؟یا اسرائیلی یہودیوں کے.........!؟عربی زبان کی مشہور ضرب المثل ہے.........''شرالبلیة ما یضحک''،بدترین مصیبت وہ ہوتی ہے جس پر ہنسی آئے
اسی طرح وفاقی شرعی عدالت کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ کسی عدالت اور ٹریبونل کے ضابطۂ کار سے متعلقہ قوانین کا جائزہ لے۔یہ حق سلب کرنے سے شرعی احکام سے کھیلنے اور دینی تعلیمات سے انحراف کا دروازہ چوپٹ ہوجاتاہے۔عدالتی کاروائیوں سے متعلقہ قوانین توانتہائی اہمیت کے حامل ہیں،مثلاًدعویٰ قبول یا رد کرنا،عدالت کے دائرۂ اختیار کا تعین ،گواہی،وکالت،اثباتِ جرم کے دلائل ،اثباتِ جرم کے وسائل وذرائع،قانون ودستورکی تفسیرکا عدالتی حق،عدالتی فیصلوں کے ابطال اور ان میں ترمیم کا حق اور ایسے اہم ترین مسائل عدالت کے ضابطۂ کار سے متعلقہ قوانین کے تحت ہی آتے ہیں.........لیکن وفاقی شرعی عدالت کو یہ حق نہیں حاصل کہ وہ ان کاجائزہ لے یا انہیں زیربحث لائے۔اس سے یہ تلخ حقیقت کھل کرسامنے آتی ہے کہ پاکستان میں بیک وقت دوعدالتی نظام چل رہے ہیں ،ایک عاجز ،کمزور اورناقص اختیارات کا حامل نظام جو وفاقی شرعی عدالت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور دوسراوہ سیکولر عدالتی نظام جو پاکستان کی باقی تمام عدالتوں میں جاری وساری ہے

وفاقی شرعی عدالت کی تشکیل میں پائی وانے والی خامیاں
دفعہ۲۰۳Cمیں وفاقی شرعی عدالت کی تشکیل پر بات کی گئی ہے ۔ذیل میں اس دفعہ کے مندرجات پر اٹھنے والے اعتراضات درج کئے جارہے ہیں:
(۱)اس دفعہ کی شق۳اور شق ۳الف میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس اورججوں کی اہلیت پر بات کی گئی ہے اور شرائطِ اہلیت میں ''عادل''(پابندِ شرع)ہونے کا تذکرہ نہیں کیا گیا،حالانکہ اس شرط پرتوبلااختلاف تمام علمائے امت کا اجماع ہے،پس ایک توججوں کے تعین میں ہی شریعت کی عائدکردہ شروط کی مخالفت کی گئی ہے،اورپھراس بات کا اندازہ کرناتوزیادہ مشکل نہیں کہ جب غیرعادل ججوں کو عدالت میں شامل کرکے انہیں قوانین کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کا جائزہ لینے پرمامور کیاجائے گاتواس سے کس قدر بگاڑ پیداہوگا۔اس پر مستزاد یہ کہ اسی دفعہ کی شق ۲نے شرعی عدالت کے ججوں اور چیف جسٹس کے تعین کا اختیارصدرِ مملکت کو تفویض کیاہے۔توہرشخص خود ہی سوچ سکتا ہے کہ ایسی''شرعی عدالت''کیسے ظلم وفساد کا باعث بنے گی؟
(۲)اسی دفعہ کی شق ۴ب میں صدرِ مملکت کو یہ حق دیا گیاہے کہ وہ ججوں کے تعین کی شروط مقرر کرے،یاجج کو کوئی دوسرامنصب سونپ دے،یا منصبِ قضاء کے ساتھ ساتھ کچھ دیگرذمہ داریاں بھی اس کے حوالے کردے۔اس شق پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔قارئین خود ہی فیصلہ کریں کہ جب صدرِ پاکستان دین سے جاہل لوگوں کو..شرعی عدالت سے متعلق اس قسم کے وسیع اختیارات دے دئیے جائیں توکیا عدالت محض ایک مذاق نہیں بن جائے گی
(۳)اسی دفعہ کی شق۷ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس اور ججوں سے اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے منصب پر فائز ہونے سے پہلے صدرِ مملکت یا اس کے نمائندے کے سامنے حلف اٹھائیں ۔اس حلف میں نہ توشریعت کا ذکر ہے ،نہ ہی قرآن وسنت کا،بلکہ جج اور چیف جسٹس صرف اس بات پر حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پاکستانی قانون کے مطابق ادا کریں گے۔یہ حلف خود بھی ایک تضاد کا مظہر ہے۔کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ ایک جج سے قانون کی تصحیح ودرستی کا مطالبہ بھی کیاجائے اوراسے اسی قانون کا پابند بھی بنادیاجائے؟

پورے آئین کی مزید تفصیل ان شاءٰاللہ بعد میں فرصت سے کروں گا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
آئین پاکستان کی بنیاد قرار داد مقاصد پر رکھی گئی ہے اور قرار داد مقاصد آئین کے ابتدائیہ یا دیباچے میں شامل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کسی صورت میں مسترد یا باطل نہیں کیا جاسکتا۔
قرارداد مقاصد میں مندرجہ ذیل طریقہ سے ابہامی بات کی گئی ہے
''یہ بات اظہرمن الشّمس ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکمِ کل ہے اور پاکستان کے عوام کو جو اقتدار واختیار بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے کا حق حاصل ہے،وہ ایک مقدس امانت ہے۔
.........جمہوریت ،آزادی،مساوات،رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں پر،جیسا کہ اسلام نے انہیں بیان کیا ہے،پوری طرح عمل کیاجائے گا۔
اور دفعہ۲الف میں مذکور ہے کہ :
''قراردادِ مقاصد،جسے دستورکے ساتھ بطور ضمیمہ بھی ملحق کیا گیا ہے،میں درج اصول واحکام کو دستور کا مستقل حصہ قرار دیاجاتا ہےجو بعینہ من وعن مؤثر ہوں گے''۔
اسی طرح دفعہ۲۲۷ میں ہے
''تمام موجودہ قوانین کو قرآن وسنت میں بیان کردہ اسلامی احکامات کے موافق بنایاجائے گا.........،اورکوئی ایسا قانون نہیں بنایاجائے گا جوان احکامات کے خلاف ہو''۔
ان ساری باتوں پر اعتراض
1-ایک تو ان ساری باتوں کو اس لے شامل کیا گیا ہے کہ آج اکژریت نے انکو منظور کر لیا ہے پس کل انکو اکثریت کے بل بوتے پر نکالا بھی جا سکتا ہے اگر اسکے ساتھ یہ بھی لکھ دیں کہ اسکو کسی طرح نکالا نہیں جا سکتا تو سمجھ آتی ہے کہ اسکو اسلام کی وجہ سے ڈالا گیا ہے ورنہ ابھی تو بچہ بھیہ سمجھ سکتا ہے کہ اکثریت کی وجہ سے ڈالا گیا ہے
2-چونکہ یہ سارا کچھ دھوکا دینے کے لئے کیا گیا ہے اس لئے ان کو ایسا مبہم رکھا گیا ہے کہ ان کی بنیاد پر آپ شریعت نافذ نہیں کروا سکتے چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ اللہ حاکم مطلق ہے مگر پارلیمنٹ کے پاس یہ حق امانت ہے تو یہ نہیں کہا جاتا کہ پارلیمنٹ اکثریت سے بھی شریعت کے متصادم قانون پاس نہیں کر سکتی بلکہ اوپر قرارداد مقاصد میں الٹا کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ یہ حق استعمال کرتے ہوئے جمہوریت اور رواداری جیسی چیزوں کو دیکھے گی یا للعجب
3-تیسرا اگر قانون اور شریعت کا اختلاف ہو بھی جائے تو دیکھنے کا اختیار کس عدالت کو ہو گا یہ بھی اوپر بتایا جا چکا ہے پس شرعی عدالت کے ہاتھ باندھ کر اسکا جائزہ (کچھ بے ضرر باتوں کا) لینے کی اجازت دی گئی ہے
4-اگر ایس واقعی ممکن ہے تو ہمارے اہل حدیث سیاستدان ایک وکیل کو کے ساری غیر اسلامی شقیں ختم کیوں نہیں کروا دیتے (اصل میں انکو پتا ہے کہ یہ کام نہیں ہو سکتا

قرار داد مقاصد کی پہلی شق ہے: اللہ تعالیٰ ہی کل کا ئنات کا بلا شرکت ِ غیرے حاکم ِمطلق ہے۔اس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے،وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیاجائے گا۔
اس کی ایک اور شق ہے: جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت،حریت،مساوات،روادا ری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔
مختصر الفاظ کے ساتھ یہ قرار داد کی دو شقیں انتہائی طویل مفہوم رکھتی ہیں۔ اسی کی بنیاد پر 1991 میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے یہ اعلان کیا کہ صدر کو معافی کا جو اختیار ہے وہ حدود اربعہ کے قانون میں جاری نہیں ہو سکتا۔
جی محترم بھائی اسلامی اس حق کا استعمال کیسے کیا جائے گا یہ آپ نہیں سمجھ سکے اسکے لئے آگے آپ نے خود ہی لکھ دیا کہ جمہوریت جو قرارداد مقاصد میں بتائی گئی ہے وہ وہی جمہوریت ہے کہ اکژریت جیسے قانون چاہے بنائے اور اسی ذریعے سے اللہ کے حق کو استعمال کیا جائے گا
دوسرا ذرا آپ بتائیں کہ شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے اعلان کا کیا حشر ہوا

آئین پاکستان کو غیر آئینی قرار دینا صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کو صحیح طرح جانا نہیں جاتا۔ اگر آپ کسی آئینی شق کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شق قرآن و سنت اور فقہ مقارن کے خلاف ہے تو آپ بلا جھجھک عدالت میں اس پر کیس کر سکتے ہیں۔ عدالت اسے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجے گی جہاں اس پر بحث ہوگی اور اگر وہ واقعی ایسا ہوا تو واپس عدالت میں ان کے فیصلے کے ساتھ پہنچ جائے گا اور عدالت اس پر فیصلہ جاری کر دے گی۔
یعنی آج تک اللہ سے محبت پیدا کرنے والا کوئی مسلمان پاکستان میں پیدا ہی نہیں ہوا یا کسی کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ وہ عدالت میں جا کر جیسے زمین کا انتقال کروا لیتا ہے اسی طرح شریعت کا نفاذ کروا لے
محترم بھائی مجھے بتایا جائے کہ یہ کیس کون سی عدالت کو بھیجیں گے اگر شرعی عدالت کی بات ہے تو اسکے بندھے ہاتھ اوپر میں نے دکھا دئے ہیں
اگر یہ اتنا آسان ہوتا تو آج تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالے کروا چکے ہوتے
دوسرا اوپر آپ نے ہی ایک اعلان کا ذکر کیا ہے تو کیا وہاں عام آدمی تو کیا شرعی عدالت کا چیف جسٹس گیا تھا اسکا کیا حشر ہوا
سود کے خلاف فیصلوں کا کیا حشر ہوا

یہ نہ جانتے ہوئے یہ کہنا کہ یہ قانون شریعت کے خلاف ہے صرف نادانی ہے۔ہاں اگر یہ کہا جائے کہ یہ قوانین تو موجود ہیں لیکن صرف کتابوں میں تو ان کی وضاحت میں کر چکا ہوں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے موٹر سائیکل پر ہیلمٹ کی پابندی تو موجود ہے لیکن اگر میں نہیں پہنتا اور پولیس والا پکڑتا بھی نہیں ہے تو یہ انفرادی کمزوری و خطا ہے۔ اس میں نظام کا قصور نہیں۔ اسی طرح اگر ان قوانین پر عمل نہیں ہو رہا تو یہ حکمرانوں کی عملی کمزوری ہے اور کچھ ہم عوام کی بھی کہ ہم جمع ہو کر یہ مطالبہ نہیں کرتے۔ اس سے نظام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جی نہیں میرے بھائی یہاں یہ نہیں کہ قانوں کتابوں میں موجود ہیں مگر فیصلہ غلط ہوتے ہیں بلکہ جگہ جگہ جج یہ فیصلہ دیتے نظر آتے ہیں کہ یہاں شریعت کو نہیں بلکہ ہم قانون کو دیکھیں گے کیونکہ جج کہتے ہیں کہ ہم شریعت کے نہیں بلکہ قانون کے پابند ہیں اور شریعت کے لئے عدالتیں کہتی ہیں کہ پارلیمنٹ کے ممبران دیکھیں گے پس ممبران نے چونکہ عوام سے ووٹ لینا ہوتا ہے تو پس سمجھیں کہ عوام کی اکثریت نے شریعت کو دیکھنا ہے کہ عمل ہو رہا ہے کہ نہیں اور اکژریت تو شرک کرتے ہے وہ توحید کے احکامات کو کیسے دیکھے گی

دوسرا عملی کمزوری تب ہوتی ہے جب قانون یہ موجود ہو کہ کوئی پارلیمنٹ کا ممبر شریعت کے خلاف قانون نہیں بنا سکتا اور اسکو چیک کرنے والے عالم دین ہوں گے اور وہ ہر طرح کی چیزوں کو مانیٹر کر سکتے ہیں ورنہ تو یخادعون اللہ والذین امنوا والی بات ہے

یہاں ایک سوال سودی نظام کے بارے میں کیا جاتا ہے تو عرض یہ ہے کہ سودی نظام قانون پاکستان کے تحت بھی درست نہیں ہے لیکن حکومت اس کو ختم اس لیے نہیں کرتی کہ اس کے متبادل کوئی نظام حکومت کے پاس نہیں تھا۔ اب جب کہ ایک متبادل نظام بھی مہیا ہو گیا ہے تو امید ہے اسے جلد ہی بدلا جائے گا۔ جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے اس پر قرارداد بھی منظور ہوئی ہے۔ لیکن اگر بالفرض اسے تبدیل نہیں بھی کیا جاتا تو بھی یہ حکومت کی عملی کمزوری سمجھی جائے گی۔
محترم بھائی پہلی بات یہ کہ سود اگرچہ بڑا گناہ ہے مگر شرک سب سے بڑا گناہ ہے کیا اسکو ختم کیا گیا ہے
دوسرا محترم بھائی اگر کسی کے پاس متبادل شادی کا معاملہ موجود نہ ہو تو وہ کیا کرے گا پس اسکا حرام کاری کرنا غیر اسلامی ہی کہلائے گا پس ہم بھی یہی کہ رہے ہیں کہ سودی نظام غیر اسلامی ہے پس حکومت نے غیر اسلامی نظام نافذ کیا ہوا ہے وجہ پر تو یہاں بات ہی نہیں ہو رہی بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ اسلامی احکام غالب ہیں کہ نہیں

چناںچہ اصولی طور پر ہم پاکستان کو دارالاسلام ہی شمار کریں گے۔
محترم بھائی آپ نے اوپر اصولوں کا خلاصہ لکھا تھا کہ جہاں کم از کم اسلامی احکام غالب ہوں مگر کیا یہاں غلبہ اسلامی احکام کو ہے

اسلامی احکام میں سب سے پہلا اور بنادی مسئلہ توحید کا ہے پس میرا سوال ہے کہ

کیا یہاں توحید غالب ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اب عبدہ بھائی کے کچھ فرمودات پر غور کرتے ہیں:۔
اگر ہم کسی جگہ مثال کے طور پر پاکستان کو دار الکفر یا دار الحرب قرار دیتے ہیں تو اس سے ہوتا یہ ہے کہ یہاں موجود تمام اقلیتیں (ہندو، عیسائی وغیرہ) ذمیوں کے حکم سے نکل جائیں گے۔ ان پر حملہ کرنا اور ان کے اموال کو لینا درست ہو جائے گا کیوں کہ وہ دار الحرب میں موجود ہیں اور ہمارا حکومت دار الحرب سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ہم ان کے قوانین کی حفاظت کریں گے۔
محترم بھائی آپ نے عجیب بات کر دی کیا آپ کا یہ فتوی میں امریکہ انڈیا اسرائیل وغیرہ میں مقیم اپنے مسلمان بھائیو کو بھی بتلا سکتا ہوں کیا وہ وہاں ہر کسی کا مال ہڑپ کر سکتے ہیں (باقی وضاحت آپ کے جواب پر)
ویسے اسی کے تناظر میں میں نے اپنے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کا فتوی اوپر نقل کیا تھا جس میں انھوں نے آپ کے اشکال کا ماردین پر قیاس ابن تیمیہ کے فتوی سے کیا ہے
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ یہاں مسلح جد و جہد مطلقا جائز ہی نہیں لازم بھی ہو جائے گی کیوں کہ کوئی دار الاسلام جب کفر کے غلبے کی وجہ سے دار الکفر بن جائے تو اس کو اس سے نکالنا اور اس کا دفاع کرنا لازم ہے۔
تیسری بات یہ کہ اس کی افواج میں ملازمت کرنا کافر فوج کی ملازمت کی طرح ہو جائے گا۔
یہ وہ چند خرابیاں ہیں جو میرے ذہن میں آتی ہیں۔ واللہ اعلم
محترم بھائی یہی بات پھر میں آپ سے پوچھوں گا کہ آپ ایسا ہی کوئی فتوی ہمارے امریکہ یا انڈیا وغیرہ میں رہنے والے مسلمان بھائیوں کے لئے لا کر دکھا سکتے ہیں اللہ آپ کو جزا دے
دوسرا اوپر امین اللہ حفظہ اللہ کا فتوی بھی کچھ وضاحت کر رہا ہے

ہمارے حکمران اس قدر چالباز سیاستدان ہوتے ہیں کہ اگر ان کے دل میں کفر ہو بھی تب بھی وہ زبان سے ایمان کا ہی اظہار کریں گے۔ باقی جو عوام کے ساتھ ان کے افعال ہیں جیسے قتل و قتال اس کو دیکھ کر ان کے خلاف ظلم کے خاتمے کے لیے تو اٹھا جا سکتا ہے لیکن کفر کی وجہ سے نہیں۔
محترم بھائی ایک تو یہ حکمرانوں کے کفر والا تھریڈ نہیں اور میں نے جو اوپر بات کی تھی وہ مثال صرف دی تھی کہ کچھ لوگ دل سے کسی کا کفر مان رہے ہوتے ہیں مگر آگے کم علمی کی وجہ سے قتال بھی واجب سمجھنے سے کفر میں ہی تاویل کر لیتے ہیں تو اسی طرح دارالاسلام کے ختم ہونے پر بھی انکو ایسے ہی کم علمی والے اشکالات ہوتے ہیں جو دور کیے جا سکتے ہیں
اب آپ نے بھی وہی بات کر دی جس کا میں نے رد کیا تھا کہ کسی حکمران کے کافر ہونے سے فورا اس سے قتال یا اسکا نکالنا لازمی ہو جاتا ہے یا کچھ اور شرائط بھی ہیں پس میں نے یہی کہا تھا کہ لوگ غلطی سے یہی قتال بھی فورا لازم سمجھ لیتے ہیں
البتہ آپ نے جو دل والی بات کی ہے تو محترم بھائی وہ بات جو صرف دل سے معلوم ہو سکے اس پر تو آپ حق بجانب ہیں مگر کچھ اقوال اور اعمال بھی ایسے ہیں جو نواقض اسلام کے زمرے میں آتے ہیں پس وہاں ہم ظاہر کے مکلف ہیں البتہ موانع دیکھنا بھی ضروری ہے مثلا طاہر القادری کو اگر بیٹی کا رشتہ ہمیں دینا پڑے تو وہاں خالی اسکے دل پر یقین نہیں کریں گے بلکہ اسکے اقوال اور اعمال کو بھی دیکھ کر فیصلہ کریں گے واللہ اعلم

کسی حکم کو کسی بھی وجہ سے لاگو کیا گیا ہو اگر وہ اسلام کے مطابق درست ہے تو ہم اسے درست ہی کہہ سکتے ہیں۔
کسی جگہ غلبہ کو دیکھنے کے لئے یہ بات ٹھیک ہو سکتی ہے البتہ اسلامی احکام کے غلبہ کو دیکھتے وقت حکم کی نوعیت اور ایمیت کو بھی دیکھا جائے گا
مثلا اگر خالی تعداد کو دیکھا جائے تو امریکہ کےاکثر قوانین شریعت کے مطابق ہوں گے مگر جو سب سے اہم توحید ہے یا نماز قائم کروانا شراب جوا وغیرہ زنا وغیرہ کے صریح احکامات کی ایمیت کو دیکھا جائے تو غلبہ نہیں کہ سکتے
دوسری طرف کسی حکومت کے لئے اسلامی حکومت ہونے کے لئے آپ والی بات ٹھیک نہیں ہو گی مثلا سکھ کا داڑھی رکھنا اسکو فائدی نہیں دے گا اسی طرح امریکہ کا ظلم پر پابندی لگانا اسکو اسلامی حکومت کا فائدہ نہیں دے گا

ویسے آج کے دور میں عوام کی پسند پر ہی قوانین بنائے جاتے ہیں چاہے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی۔ پاکستان چوں کہ مسلمانوں کی اکثریت کا ملک ہے اس لیے اس میں اسلامی قوانین بنائے گئے ہیں۔
یہ بات میں نے پہلی دفعہ کسی دین کا علم رکھنے والے سے سنی ہے ہم نے تو دیکھا ہے کہ یہاں اکژریت توحید کو نہیں مانے گی نہ شرعی احکامات کو
دوسرا محترم بھائی آپ کی اوپر بات کو عقل سے سوچیں تو ایک اور بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ کے مطابق پاکستان میں جمہوریت کی حکمرانی ہے نہ کہ اللہ کی-
آپ کی بات سے کشید مفہوم
1ہر عقل والا مانتا ہے کہ قانون وہی بنا سکتا ہے جسکو سلطہ حاصل ہو
2-عوام کی پسند پر ہی قوانین بنائے جاتے ہیں
3-آپ نے کہا کہ چونکہ اکثریت مسمانوں کی ہے پس اسلامی قوانین بنائے گئے ہیں یونی آپ نے علت یہ بیان کی کہ اکثریت میں ہونے کہ وجہ سے انکے قوانین بنائے گئے ہیں
4-اوپر باتوں کا متفقہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی حکمرانی ہے

اگر کوئی یہ چاہے کہ قوانین کو صرف اس اعتبار سے بنایا جائے کہ وہ قرآن و حدیث کے قوانین ہیں یا فقہ میں بنے بنائے قوانین کو نافذ کیا جائے تو اس میں فی الحال دو مسئلے ہیں: ایک تو عوام کا ایسا ذہن بنانا پہلے لازمی ہے۔ اور دوسرا قرآن و حدیث و فقہ کا موجودہ دور پر انطباق ضروری ہے۔
یہ ذہن بنانے والی بات اور فقہ کے انطباق والی بات تو امریکہ اور انڈیا پر بھی صادق آ سکتی ہے پس کیا ہم انکو بھی ایسی کنجائش دے سکتے ہیں

میں نے بہت پہلے یہ سوال کیا تھا کہ اگر ہمارے ملک میں خالص اسلامی قانون نافذ کیا جائے تو وہ سنیوں کا ہوگا یا شیعوں کا؟ سنیوں کا ہوگا تو مقلدین کا ہوگا یا اہل حدیث کا؟ مقلدین کا ہوگا تو دیو بندیوں کا ہوگا یا بریلویوں کا؟ اہل حدیث کا ہوگا تو جماعت المسلمین کا ہوگا یا جمعیت اہل حدیث کا؟
ہر فرقہ اپنا چاہے گا اور ہر فرقہ مسلمان کہلاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شیعہ کے علاوہ سب اپنی تائید قرآن و حدیث سے پیش کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم قانون بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے بڑے پیمانے پر قانون بنانا ہوگا۔واللہ اعلم بالصواب
محترم بھائی کیا اس بہانہ سے شریعت کو ساقط کیا جا سکتا ہے جیسے آج کل اکثر سیکولر کہتے ہیں کہ جی دیکھیں ہر مولوی اپنی باتیں کرتا ہے شیعہ سنی کو کافر کہتا ہے سنی وھابی کو وھابی دیوبندیہ کو پس ہم دین کے بغیر ہی ٹھیک ہیں آپ نے بھی اکثر خوایش نفس کی اتباع کرنے والوں کی یہ باتیں سنی ہوں گی آپ انکو کیا جواب دیتے ہیں
یہی ناں کہ اللہ نے جتنا اختلاف قابل برداشت بنایا ہے اتنا برداشت کر لو باقی کو ترک کرنا پڑے گا
پس اس میں مسئلہ نہیں بہانہ ہی نظر آتا ہے
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
دار الاسلام اور دارلکفر کی جامع تعریف و تشریع بمعہ شرعی دلائل:
دارالاسلام وہ ملک ہے جہاں اسلا می احکا ما ت نا فذ ہوں اور اُس کی امان اسلام کی امان کی وجہ سے ہو ۔ دار الکفر وہ ہے جہاں کفریہ قوانین نا فذ ہو ں یا اس کی اما ن اسلام کی امان کے بغیر ہو ۔
لفظ''الدار '' کے کئی معا نی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں ۔
''المنزل'' یعنی رہا ئش گا ہ ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے :(فَخَسَفْنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الْأَرْضََ ) ''ہم نے اسے اس کی رہا ئش گا ہ سمیت زمین میں دھنسا دیا '' القصص:81 '' المحلة'' ہر وہ جگہ جہاں کچھ لو گ رہا ئش اختیار کر تے ہیں اس کو ' دار' کہا جا تا ہے ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا :(فَأَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِیْ دَارِہِمْ جَاثِمِیْن) ترجمہ : ''پس ان کو زلزلے نے آپکڑا سو وہ اپنے گھر وں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے '' (الاعراف:78) البلد یعنی ملک یا علا قہ جیسا کہ سیبع نے کہا ہے کہ یہ دار (رہا ئش کا علا قہ ) کیا ہی اچھا (بلد) ملک ہے ۔اس طرح ''المتویٰ والمو ضع'' یعنی پنا ہ گا ہ اور جگہ کے معنی میں جیسا کہ ارشا د با ری ہے (وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِینَ) ''اور کیا ہی خو ب پر ہیز گار وں کا ٹھکا نہ ہے ''۔ ( النحل ٣٠ )
یہ لفظ ''القبیلة '' کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن مجا ز اً ،جیسا کہ بخا ری میں ابی حمید الساعدی کی حدیث میں رسول اللہ ۖ فرما تے ہیں کہ (( أَنََّ خَیْرَ دُورِ الأَنْصَارِ دَارُ بَنِی النَّجَّارِ... ))''انصا ر کے قبیلوں میں سب سے اچھا قبیلہ بنو نجار ہے۔ ''
لفظ الدار کی اضا فت کبھی اسما ئے رعیان (یعنی اصل اسم) کی جا تی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشا د میں ( سَأُرِیْکُمْ دَارَ الْفَاسِقِیْنَ ) ''اب بہت جلد تم لو گوں کو ان فا سقوں کا مقام دکھلا تا ہوں '' (الاعراف: 145)اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ( وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ)''اور کیا ہی خوب پر ہیزگاروں کا گھر ہے '' (النحل : 30)یا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشا د کہ(فَعَقَرُوہَا فَقَالَ تَمَتَّعُواْ فِیْ دَارِکُمْ ثَلاَثَةَ أَیَّامٍ ذَلِکَ وَعْد غَیْْرُ مَکْذُوبٍ) ''پھر بھی ان لوگوں نے اس اونٹنی کے پائوں کا ٹ ڈالے ، اس پر صالح نے کہا کہ اچھا تم اپنے گھروں میں تین دن تک تو رہ لو ، یہ وعدہ جھوٹا نہیں ہے ''۔ (ھود:65) اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشا د کہ: (وَأَوْرَثَکُمْ أَرْضَہُمْ وَدِیَارَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ وَأَرْضاً لَّمْ تَطَؤُوہَا) ''اور اس نے تمہیں ان کی زمینوں کا اور ان کے گھر با ر کا اور ان کے ما ل کا وارث کر دیا'' (الاحزاب:27) اور مسلم میں بریدہ کی اس حدیث میں رسول اللہ ۖ نے فرما یا ((ثْمَّ ادْعُھُم أِلَی التَّحَوَّلِ مِنْ دَارِھِمْ أِِلَی دَارِ المُھَاجِرینَ)) ''پھر ان کو ان کے علا قے سے دار المہا جرین منتقل ہونے کی دعوت دو۔''یا احمد کے نزدیک سلمہ بن نفیل کی حدیث جسمیں رسول اللہ ۖ نے فرما یا : ((اَلَا اِنَّ عُقْرَ دار المُوْ مَنِیْن الشَّام ))'' سنو ! شام مو منوں کے گھر کا اندر ونی حصہ ہے ''
دار کالفظ کبھی اسما ئے معا نی کی طرف مضا ف کیا جا تا ہے جیسا کہ ارشا د با ری ہے : (وَاحَلُّو قَومَھُم دَارَ البَوَار ) ''اور اپنی قوم کی ہلا کت کے گھر میں لا اتارا ''(ابرا ھیم 28 ) یا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشا د کہ :(الَّذِیْ أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِن فَضْلِہ) ''جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ رہنے کے مقام میں لا اتا را '' (الفا طر: 35)علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے جس کو ابن عسا کرنے حسن اور صحیح اسنا د کے سا تھ اور ترمزی نے بھی اسی حدیث کو روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرما یا :((رَحِمَ اللَّہُ أَبَا بَکرٍ زَوَّجَنِیَ ابْنَتَہُ وَحَمَلَنِی أِلَی دَارِ الھِجْرَةِ))''اللہ ابو بکر پرر حم کرے جس نے اپنی بیٹی کو میرے نکا ح میں دیا اور مجھے سوا ری پر بیٹھا کر دار الہجرت (مدینہ) لے آیا'' ۔ اسی طرح الدار قطنی میں ابن عبا س کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : ((اِذَا خَرَجَ العَبْدُ مِنْ دَارِ الشِّرْکِ قَبْلَ سَیِّدِہِ فَھُوَ حُر، وَأِذَا خَرَجَ مِنْ بَعْدِہِ رُدَّ أِلَیْہِ. وَأِذَا خَرَجَتِ المَرْأَةُ مِنْ دَارِ الشِّرْکِ قَبْلَ زَوْجِھَا تَزَوَّجَتْ مَنْ شَاء َتْ، وَأِذَا خَرَجَتْ مِنْ بَعْدِِہِ رُدَّتْ أِلَیْہِ))''غلا م جب اپنے آقا سے پہلے دار الشرک سے نکلے (مسلمان ہو کر ہجر ت کرے ) تو وہ آزاد ہے اور اگر اپنے ما لک کے بعد نکلے تو ما لک کی طرف ہی لو ٹا یا جا ئے گا ۔ بیوی اگر اپنے شو ہر سے پہلے دار الشرک سے نکلے (مسلمان ہو کر ہجر ت کرے ) تو جس سے چا ہے شا دی کر سکتی ہے اور اگر اپنے شو ہر کے بعد نکلے تو اسی کی طر ف لو ٹا ئی جا ئے گی''۔
شا رع نے دار کے لفظ کودو نا موں کی طرف منصوب کیا اور یہ دونوں نام اسلام اور شرک ہیں، سلمہ بن نفیل کی سا بقہ حدیث جس کو الطبرانی نے مسند الشامیین میں ان الفا ظ کے سا تھ نقل کیا ہے۔ (( اَلَا اِنَّ عُقْرَ دار المُوْ مَنِیْن الشَّام )) ''شام دار الا سلام کا مرکزی حصہ ہے '' یہاں دار کی اضا قت اسلام کی طر ف کی گئی ہے ۔ اسی طرح الما ور دی نے الا حکام السلطا نیہ اور الحاوی الکبیرمیںروایت کیا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرما یا :((مَنَعَتْ دَارُ الاِسْلاَمِ مَا فِیھَا، وَأَبَاحَتْ دَارُ الشِّرْکِ مَا فِیھَا))''داراسلام میں جو کچھ ہے وہ محفوظ ہے جبکہ دار الشرک میں جو کچھ ہے وہ غیر محفوظ ہے ''
یعنی دار الا سلام میں لو گوں کی جان و ما ل محفوظ ہو تے ہیں سوائے اس کے جو شر عی احکامات کے مطابق ان سے لیا جا تا ہے ۔جبکہ دار الشرک (یعنی دار الحرب ) میں عملًا حا لت جنگ کے دوران یہ چیزیں (جان ومال) محفوظ نہیں ہو تے بلکہ شر عی احکا ما ت کے مطا بق ما ل غنیمت کی شکل میں لیے جا تے ہیں ۔ ساری دنیا اس تقسیم (دار الاسلام یا دارا لکفر ) میں شا مل ہے۔ دنیا کا کو ئی حصہ اس کے علا وہ نہیں ہو سکتا یعنی یا تو کوئی حصہ دار الا سلام ہو گا یا دارالکفر یعنی دار الحر ب ۔ کسی علا قے یا ملک کے دار لا سلام ہو نے کی دوشرطیں ہیں ۔
پہلی شر ط : اس علاقہ کی امان مسلما نوں کے ہاتھ میں ہو ، اس کی دلیل یہ ہے کہ ابن اسحا ق نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے مکہ میں اپنے صحا بہ سے فرمایا : ((أِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ لَکُمْ أِخْوَاناً وَدَاراً تَاْمَنُونَ بِھَا))''بے شک اللہ عز وجل نے تمہیں ایسے بھا ئی اور ایسا گھر (دار ) دیا جہاں تم کو امان ملے گی ''۔ اس دار سے مرا د ' دار الہجرة' ہے جو علی الما ر کی حدیث کے مطا بق ہے جس کو ابن عساکرنے روایت کیا ہے اور عا ئشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث میں بھی جس کو بخا ری نے روایت کیا ہے کہ رسو ل اللہ ۖ نے فرما یا : ((قَدْ أُرَیتُ دَ ارَ ھِجْرَتِکُمْ ))''مجھے تمہارا دار الہجرة دکھا یا گیا ہے '' اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ رسو ل اللہ ۖ اور ان کے صحا بہ نے اس وقت تک مدینہ ہجر ت نہیں کی جب تک انہوں نے امان اور قوت کی مو جود گی کے با رے میں اطمینان حا صل نہیں کر لیا ، الحا فظ نے الفتح میں کہا ہے کہ : ''بیہقی نے قوی اسنا د کے ساتھ الشعبی سے روایت کی ہے اور الطبرانی نے اس کو ابو مو سیٰ الا نصا ری کی حدیث سے جوڑا ہے جس میں وہ کہتے ہیں(( انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّہِ ۖ وَمَعَہُ العَبَّاسُ عَمّْہُ أِلَی سَبْعِینَ مِنَ الاَنْصَارِ عِنْدَ العَقَبَةِ، فَقَالَ لَہُ أبو أُمامَة ـ یعنی أسعد بن زُرَارة ـ سَلْ یا محمّد لِرَبِّکَ ولِنَفْسِکَ ما شِئْتَ، ثُمَّ أَخْبِرْنا ما لَنا من الثَّوَابِ. قال: أَسْأَلُکُمْ لِرَبِّی أنْ تَعْبُدُوہُ وَلا تُشْرِکُوا بہ شیئاً، وأَسْأَلُکُمْ لِنَفْسِی ولاَصْحَابِی أنْ تُؤْوُونَا وتَنْصُرُونَا وتَمْنَعُونَا مِمَّا تَمْنَعُونَ منہ أَنْفُسَکُمْ۔ قالوا: فَما لَنا؟ قال: الْجَنَّةُ. قالوا: ذلِکَ لَک ))'' رسول اللہ ۖ اپنے چچا عباس کے سا تھ انصا ر کے ستر آدمیوں کے پا س گھا ٹی (پہا ڑی کے پا س ) روانہ ہوئے جب وہاں پہنچے تو ابو اما مہ یعنی اسعد بن زُرارہ نے آپ ۖ سے کہا اے محمدۖ اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے جو چا ہو ہم سے ما نگو پھر ہمیں بتا ئو کے اس کے بدلے ہمیں کیا ثو اب ملے گا ۔ رسول اللہ ۖنے فرمایا :میں تم سے اپنے رب کے لیے یہ سوال کر تا ہوں کہ تم اس کی عبا دت کرو اور اس کے سا تھ کسی کو شریک نہ کر و، جبکہ اپنے اور اپنے صحا بہ کے لیے تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تم ہمیں پنا ہ دو ، نصرت دو اور ہما ری ایسی حفاظت کر و جیسے تم اپنی جا نوں کی کرتے ہو۔ ان لو گوں نے کہا : ہمیں کیا ملے گا ؟ فرما یا : جنت ، انہو ں نے کہا ہمیں منظور ہے '' اس کی دلیل وہ روایت بھی ہے جس کو احمد نے کعب بن ما لک سے صحیح اسنا د کے سا تھ نقل کیا ہے جس میں ہے رسول اللہ ۖ نے فرما یا :((أُبَایِعُکُمْ عَلَی أَنْ تَمْنَعُونِی مِمَّا تَمْنَعُونَ مِنْہُ نِسَاء َکُمْ وَأَبْنَائَ کُمْ قَالَ فَأَخَذَ الْبَرَائُ بْنُ مَعْرُورٍ بِیَدِہِ ثُمَّ قَالَ نَعَمْ وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَنَمْنَعَنَّکَ مِمَّا نَمْنَعُ مِنْہُ أُزُرَنَا فَبَایِعْنَا یَا رَسْولَ اللَّہِ ۖ۔ فَنَحْنُ أَھْلُ الْحُرُوبِ وَأَھْلُ الْحَلْقَةِ وَرِثْنَاھَا کَابِرًا عَن کَابِر)) ''میں تم سے اس با ت پر بیعت لیتا ہوں کہ تم میری ایسے ہی حفاظت کرو گے جیسے اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کی کرتے ہو۔ روای کہتا ہے کہ یہ سن کر البراء بن معرورنے آپ ۖ کا ہا تھ تھام کر کہا جی ہا ں اس ذا ت کی قسم جس نے آپ کو حق کے سا تھ مبعوث کیا ہے ہم آپکی ایسی ہی حفاظت کریں گے جیسے اپنی عزت وآبر و کی کر تے ہیں ، اے اللہ کے رسول ۖ ہم سے بیعت لیجئے ہم متحد اور جنگجو لو گ ہیں اور یہ(خوبی) ہمیںپشت درپشت ورا ثت میں ملی ہے'' اور احمد کے نزدیک جا بر کی ایک صحیح روایت میں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے بیعت العقبہ میں فرما یا :((... وَعَلَی أَنْ تَنْصُرُونِی فَتَمْنَعُونِی أِذَا قَدِمْتُ عَلَیْکُمْ مِمَّا تَمْنَعُونَ مِنْہُ أَنْفُسَکُمْ وَأَزْوَاجَکُمْ وَأَبْنَائَکُمْ، وَلَکُمُ الْجَنَّةُ ...))''اور یہ کہ تم مجھے نصر ت دو اور میری اس طرح حفا ظت کر وجس طرح سے تم اپنی ، اپنی بیویوں اور اپنے بچوں کی حفا ظت کرتے ہو، جس کے بدلے میں تمہا رے لیے جنت ہے'' ۔ البیھقی کی دلا ئل النبو ت میں جید اور قوی ا سناد سے عبا دہ بن الصا مت سے روایت ہے کہ ((وَعَلَی أَنْ نَنْصُرَ رَسُولَ اللَّہِ ۔ أِذَا قَدِمَ عَلَیْنَا یَثْرِبَ مِمَّا نَمْنَعُ أَنْفُسَنَا وَأَزوَاجَنا وَأَبْنَاء َنَا وَلنَا الجَّنَّةَ ...))''اور ہم نے اس با ت پر بیعت دی کہ جب رسول اللہ ۖ یثرب میں ہما رے پا س آئیں گے تو ہم ان کی اس طرح حفاظت کریںگے جیسا کہ ہم اپنی، اپنی بیویوں اور اپنے بچوں کی حفاظت کرتے ہیں اور (اس کے بدلے) ہمارے لیے جنت ہو گی '' رسول اللہ ۖ ہر اس جگہ ہجر ت کرنے سے انکار فرما تے تھے جہا ں امان اور اور قوت نہ ہو ۔ البیھقی نے حسن اسنا د کے سا تھ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے بنو شیبان بن ثعلبہ سے فرمایا :((مَا أَسَأْتُمْ فِی الرَّدِّ أَذْ أَفْصَحْتُمْ بِالصِّدْقِ، وَأِنَّ دِینَ اللَّہِ لَنْ یَنْصُرَہُ أِلاَّ مَنْ حَاطَہُ مِنْ جَمِیعِ جَوَانِبِہِ))''تم لوگوں نے کوئی برا جواب نہیں دیا جبکہ تم نے سچا ئی سے صاف با ت کھل کر کہی ، مگراللہ کے دین کو صرف وہی نصرت دے سکتے ہیں جو ہر طرف سے اس کی حفا ظت کر سکتے ہیں ''۔ ان لو گوں نے یہ پیش کش کی تھی کہ جہا ں تک عرب کے پا نی ہیں وہاں تک ہم آپ کی مدد کریں گے فارس کے مقابلے میں نہیں ۔
دوسری شرط: جہاں اسلام کے احکا ما ت نا فذ ہوں ۔ اس کی دلیل بخا ری میں عبا دہ بن الصا مت کی یہ حدیث ہے :((دَعَانَا النَّبِیّْ ۔ فَبَایَعْنَاہُ، فَقَالَ فِیمَا أَخَذَ عَلَیْنَا أَنْ بَایَعَنَا عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِی مَنْشَطِنَا وَمَکْرَھِنَا، وَعُسْرِنَا وَیُسْرِنَا، وَأَثَرَةً عَلَیْنَا، وَأَنْ لاَ نُنَازِعَ الأَمْرَ أَھْلَہُ أِلاَّ أَنْ تَرَوْا کُفْراً بَوَاحاً عِنْدَکُمْ مِنْ اللَّہِ فِیہِ بُرْھَان)) ''نبی کریم ۖ نے ہمیں بلا یا ہم نے ان کی بیعت کی۔ راوی کہتا ہے کہ ہم سے سننے اور اطا عت کرنے کی بیعت لی پسند اور نا پسند میں، خوشحالی اور تنگ دستی میں ، اور اس صورت میں بھی کہ کسی کو ہم پر ترجیح دے دی جائے ،اورجس کو امر سونپا گیا ہو (یعنی حکمران) اس سے کوئی تنازعہ نہ کرنے کی سوائے اس کے کہ تم(اپنے حکمران سے ) کوئی کھلم کھلا کفر دیکھو جس کی تمہارے پا س اللہ کی جا نب سے دلیل ہو '' ۔
سننے اور اطا عت کرنے کا مطلب رسول اللہ ۖ کے امر اور نواہی، یعنی آپ کے لائے ہوئے احکا ما ت ،کانفاذ کر نا ہے ۔ اس کی دلیل و ہ روا یت بھی ہے جس کو احمد اور ابن حبان نے اپنے صحیح میں جبکہ ابو عبید نے الا موا ل میں عبد اللہ بن عمر و سے روایت کیا ہے ۔نبی کریم ۖ نے فرما یا : ((وَالْھِجْرَةُ ھِجْرَتَانِ ھِجْرَةُ الْحَاضِرِ وَالْبَادِی فَأَمَّا الْبَادِی فَیُطِیعُ أِذَا أْمِرَ وَیُجِیبُ أِذَا دُعِیَ وَأَمَّا الْحَاضِرُ فَأَعْظَمُھُمَا بَلِیَّةً وَأَعْظَمُھُمَا أَجْرًا))''ہجر ت دو طرح کی ہو تی ہے شہری کی ہجرت اور دیہا تی(بدّو) کی ہجر ت دیہا تی کو حکم دیا جائے تو اطا عت کر تا ہے جب پکارا جا ئے تو جو اب دیتا ہے جبکہ شہری کی آزمائش اور اجر بہت زیا د ہ ہو تا ہے ''۔ اور اس سے استدلا ل کرنے کی وجہ واضح ہے کیو نکہ رسول اللہ ۖ نے فرما یا : ((فَیُطِیعُ أِذَا أْمِرَ وَیُجِیبُ أِذَا دُعِی))''جب حکم دیا جا تا ہے تو اطا عت کرتا ہے اور جب پکارا جا تا ہے تو جواب دیتا ہے ''۔ دیہا ت اگر چہ دار اسلام تھے لیکن دار لہجرت نہیں تھے ۔ اس کی دلیل الطبرانی میں موجود وائلہ بن الأ سقع کی حدیث بھی ہے ۔ الہیثمی نے اسے ایسی اسنا د سے روایت کیا ہے جو کہ قابل اعتما د ہیں رسول اللہ ۖ نے ان سے فرمایا :((وَھِجْرَتُ البَادِیَةِ أَنْ تَرْجِعَ أِلَی بَادِیَتِکَ، وَعَلَیْکَ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِی عُسْرِکَ وَیُسْرِکَ وَمَکْرَھِکَ وَمَنْشَطِکَ وَأَثْرَةٍ عَلَیْکَ ...)'' دیہا تی کی ہجرت یہ ہے وہ اپنے گا ئوں لو ٹ جا ئے ،اور تنگی ، خوشحا لی، پسند،نا پسند اوراس کے اوپر (کسی اور کو ) فوقیت دینے کی صور ت میں بھی وہ سننے اور اطاعت کی لا زمی پا بندی کرے ''۔اس کی ایک اور دلیل وہ روا یت ہے جس کو احمد نے صحیح اسنا د سے انس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ (أِنّی لأَسْعَی فی الغِلْمانِ یَقولونَ جائَ مُحمّد، فَأَسْعَی فَلا أَری شَیْئاً. ثُمَّ یَقولونَ: جائَ مُحمّد، فَأَسْعَی فَلا أَری شَیْئاً. قال: حتی جائَ رَسولُ اللَّہِِ ۔ وصاحِبُہُ ابو بَکْر، فَکُنّا فی بَعْضِ حِرارِ المدینة، ثْمَّ بَعَثَا رَجْلاً مِنْ أَھْلِ المدینة لِیُؤْذِنَ بِھِما الأنصارَ، فَاسْتَقْبَلَھُمَا زُھَائْ خَمْسِمائةٍ مِنَ الأَنْصَارِ حتی انْتَھَوْا أِلَیْھِمَا. فقالت الأنصارُ: انْطَلِقَا آمِنَیْنِ مُطَاعَیْنِ. فَأَقْبَلَ رسولُ اللَّہِ ۔ وصاحِبُہُ بَیْنَ أَظْھُرِھِمْ. فَخَرَجَ أھْلُ المدینةِ حتّی أِنَّ العَوَاتِقَ لَفَوْقَ البُیُوتِ یَتَرَائَ یْنَہُ یَقُلْنَ أَیُّھُمْ ھُوَ أَیُّْھُمْ ھُوَ؟) ''میں لڑکوں کے سا تھ دو ڑ رہا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ محمدۖ آگئے میں دوڑتا لیکن کچھ دیکھ نہ پا تا ۔ پھر وہ کہنے لگے کہ محمدۖ آگئے پھر میں دوڑنے لگا لیکن میں نے کچھ نہیں دیکھا ۔ اس طرح ہوتے ہوئے رسول اللہ ۖ اور ان کے صحابی ابوبکر آپہنچے ، ہم مدینہ کے ایک محلے میں تھے پھر ان دونوں نے انصار کو خبر دینے کے لیے ایک آدمی کو بھیجا جس پر انصا ر میں سے پا نچ سو افراد ان دونوں کے استقبال کے لیے آگئے انصارنے آتے ہی کہا ، چلیئے تشریف لائیے امان کے سا تھ اورآپ کی اطاعت کی جائے گی ۔ رسول اللہ ۖ اور ان کے صحا بی ان لوگوں کے درمیان چلنے لگے ۔ یہ دیکھنے کے لیے مدینے کے لو گ گھروں سے باہر آگئے یہاں تک کہ بوڑھی عورتیں بھی گھر وں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر یہ کہتی رہیں کہ ان لو گوں میں وہ رسول اللہ کون ہے ان لو گوں میں وہ کو ن ہے ؟''۔ اس حدیث میں دونوں شرطوں کی دلیل ہے یعنی امان اور احکام شرعیہ کا اجرا ء ، امان کی دلیل یہ ہے کہ انصا ر کے پا نچ سو آدمی کہہ رہے ہیں کہ امان کے ساتھ چلیئے اور رسول اللہ ۖ کا اُن کے قول پر اقرار۔ یوں دار الہجرت میں امان اور اطا عت دونوں میسر آگئے ۔ اگر یہ دو چیزیں نہ ہوتیں تو رسول اللہ ۖ ہجر ت نہ فرما تے ، کیو نکہ بیعت العقبہ میں رسول اللہ ۖ نے انصا ر کے سا منے یہ دو نوں شرطیں امان اور اطا عت رکھی تھیں۔ البیھقی نے قوی اسنا د کے سا تھ عبا دہ بن الصامت کی روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ((... أِ نَّا بَایَعْنَا رَسُولَ اللَّہِ ۔ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِی النَّشَاطِ وَالْکَسَلِ، وَالنَّفَقَةِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ، وَعَلَی الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَعَلَی أَنْ نَقُولَ فِی اللَّہِ لاَ تَأْخُذُنَا فِیہِ لَوْمَةُ لاَئِمٍ. وَعَلَی أَنْ نَنْصُرَ رَسُولَ اللَّہِ ۔ أِذَا قَدِمَ عَلَیْنَا یَثْرِبَ مِمَّا نَمْنَعُ أَنْفُسَنَا وَأَزوَاجنَا وَأَبْنَاء َنَا وَلَنَا الجَّنَّةَ. فَھَذِہِ بَیْعَةُ رَسْولِ اللَّہِ ۔ الَّتِی بَایَعْنَاہُ عَلَیْہ))
''میں نے طاقت اورکمزوری میں سننے اور اطا عت کرنے ، تنگدستی اور کشادگی میں خر چہ کرنے اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کرنے کی شرط پر رسول اللہ ۖ کی بیعت کی اور اس با ت پر کہ ہم اللہ کے معاملے میں کسی ملا مت کرنے والے کی ملا مت کی پر وا ہ نہیں کریں گے اور رسول اللہ ۖ جب مدینہ تشریف لا ئیں تو ان کی مدد نصرت کریں گے ہم آپ کی ایسی حفاظت کریں گے جیسے کہ اپنی جان اور اپنے بیوی بچوں کی کرتے ہیں اور اس کے بدلے ہمیں جنت ملے گی۔ یہ تھی رسول اللہ ۖ کی وہ بیعت جو ہم نے آپۖ سے کی تھی ''
اس قول میں حکم کے نفاذ کی شرط واضح ہے کیو نکہ فرما یا ہم نے رسول اللہ ۖ کے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی ، اس سے یہ بھی واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ امان مسلمانوں کے پاس ہو گی کیونکہ فرمایا جب رسول اللہ ۖ مدینہ میں ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آپۖ کی ایسی حفا ظت کریں گے جیسے اپنی جان یا اپنے بیو ی اور بچوں کی کرتے ہیں۔
دار الاسلا م کا یہ معنی رسول اللہ ۖ کی اس تحریر میں بھی واضح ہے جسے مہا جرین اور انصار کے درمیان لکھا گیا اور جس سے یہودیوں کے ساتھ بھی معا ہدہ کر کے ان کو خا مو ش کر دیا گیا۔ یہ تحریر آپۖ نے ہجر ت کے پہلے سال لکھوایا ، اس کو ابن اسحا ق نے روایت کیا ہے اور اس کو صحیفہ کہا گیا ہے ۔ اس میں یہ ہے :
((بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ: ھَذَا کِتَاب مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ ۔ بَیْنَ المُؤْمِنِینَ وَالمُسْلِمِینَ مِنْ قْرَیْشٍ وَیَثْرِبَ وَمَنْ تَبِعَھُمْ فَلَحِقَ بِھِمْ وَجَاھَدَ مَعَھُمْ أَنَّھُمْ أُمَّة وَاحِدَة مِنْ دُونِ النَّاسِ ... وَأِنَّ المُؤْمِنِینَ بَعْضُھُمْ مُوَالِی بَعْضٍ دُونَ النَّاسِ ... وَأِنَّ عَلَی الیَھُودِ نَفَقَتَھُمْ وَعَلَی المُسْلِمِینَ نَفَقَتُھُمْ، وَأِنَّ بَیْنَھُمْ النَّصْرَ عَلَی مَنْ حَارَبَ أَھْلَ ھَذِہِ الصَّحِیفَةِ ... وَأِنَّہُ مَا کَانَ بَیْنَ أَھْلِ ھَذِہِ الصَّحِیفَةِ مِنْ حَدَثٍ أَوْ اشْتِجَارٍ یُخَافُ فَسَادُہُ، فَأِنَّ مَرَدَّہُ أِلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَأِلَی مُحَمَّدٍ رَسْولِ اللَّہِ ۔ ...) )
''شر وع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربا ن نہا یت رحم والا ہے یہ تحریر اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم کی ہے۔ یہ قریش اور یثرب سے تعلق رکھنے والے مو منو ں و مسلما نوں اور جو اُن کے تا بع ہیں یا ان سے ملے ہوئے ہیں اور ان کے سا تھ مل کر جہا دکرنے والوں کے درمیان ہے کہ وہ دوسرے لو گوں سے الگ ایک امت ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اور مو من دوسرے لو گوں کو چھوڑکر آپس میں ایک دوسرے کے مدد گار اور حما یتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ بیشک یہودیوں کا نفقہ یہودیوں پر ہے اور مسلما نوں کا نفقہ مسلما نوں پر ہے اور جو اس صحیفے (تحریر) والوں سے لڑا تو دونوں (یہود و مسلمان ) ان کی مدد کریں گے۔ ۔۔۔۔ا س تحریر والوں کے درمیان ایسا کوئی واقعہ پیش آئے یا اختلافا ت پید ا ہو جا ئیں جن سے فسا د کا خو ف ہو تو اس معاملے کا فیصلہ اللہ اور اس کا رسول محمد ۖ فرما ئیں گے '' ۔
یو ں کوئی بھی دار (ملک) اسوقت دار لا سلام ہو گا جب وہاں کی امان مسلمانوں کے ہا تھ میں ہو گی اور اسلام کے احکام نا فذ ہو ں گے ، اگر اِن میں سے کوئی ایک شرط بھی ختم ہو جا ئے یا نہ پائی جا ئے جیسے امان کفا ر کے ہاتھوں میںہونا یا لو گوں پر طا غوت کے ذریعے حکو مت ہونا تو یہ دار الشرک یا دار لکفر ہو جا ئے گا ۔ دار الشرک ہو نے کے لیے دو نوں شرطوں کا ختم ہو نا ضروری نہیں بلکہ کوئی ایک شرط بھی ناپید ہو جائے تو وہ دار الشرک بن جا ئے گا۔
تا ہم دار الکفر کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہاں رہنے والے سارے لوگ کا فر ہیں اورنہ ہی دارالاسلام کا مطلب یہ ہے کہ وہاں رہنے والے سا رے مسلمان ہیں۔ دار کا لفظ ایک شرعی اصطلا ح ہے یعنی دار کا یہ معنی شریعت نے مقرر کیے ہیں ، با لکل اسی طرح جس طرح شریعت میں صلا ة ، صوم وغیرہ کی اصطلاحات کے معنی مقرر کئے گئے ہیں ۔
اس وجہ سے وہ علا قہ جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت نصا ریٰ ہے لیکن وہ اسلامی ریاست کے اندر واقع ہے اس کو دار الا سلام کہا جا ئے گا ۔ کیو نکہ وہاں نا فذ احکا ما ت اسلا می ہیں اور وہاں کی امان مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے ۔
اسی طرح وہ علا قہ جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے لیکن وہ ایسی ریاست کے اندر ہے جہاں اسلام کی حکمرا نی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی امان اسلامی فو ج کے ہاتھ میں ہے بلکہ وہ کفا ر کی فو ج کے رحم و کرم پر ہیں ایسے دار کو دار الکفر کہا جا تا ہے با وجود یہ کہ اس کے رہنے والے زیا دہ تر مسلمان ہیں ۔ دار ایک شرعی حقیقت ہے اس کے لیے مسلما نوں کی اکثریت یا اقلیت کا کوئی اعتبا ر نہیں بلکہ اعتبا ر صرف وہا ں نا فذ احکا ما ت اور اس علا قے میں پا ئے جا نے والی امان کا ہے ۔ دار کا معنی ان شرعی نصوص سے لیا گیا ہے جو اِس کی وضا حت کرتی ہیں ، با لکل اسی طرح جس طرح صلا ة کا لفظ، شرعی نصوص سے اخذ کیا گیا ہے اور اس معنی کی وضاحت شرع کرتی ہے ۔ تمام شر عی حقا ئق کا یہی حال ہے کہ ان کے معنی شر عی نصوص سے اخذ کئے جاتے ہیںالفا ظ کے لغو ی معنی سے نہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم عبدہ بھائی۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔
تفصیل کچھ اتنی ہو گئی کہ میرے لیے شاید اس کا تمام اجزاء کے ساتھ جواب لکھنا ممکن نہ ہو۔ میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے صرف۔
البتہ چند چیزیں عرض کرتا ہوں۔
آپ نے فرمایا کہ پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کسی بھی قانونی شق کو تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ سوال میں نے ایک قانون دان سے کیا تھا تو اس نے کہا کہ قرارداد مقاصد قانون کے دیباچہ میں شامل ہے یعنی اس چیز پر جس پر قانون کی بنیاد ہے اس لیے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
آپ نے وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں فرمایا۔ محترم بھائی اس فیصلے کا نتیجہ کیا ہوا میں نہیں جانتا۔ اگر آپ عرض کر دیں تو شکرگزار ہوں گا۔
آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وفاقی شرعی عدالت کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ قانون پر کچھ نہیں کر سکتی۔ تو میں نے اس عدالت کا غالبا ذکر ہی نہیں کیا۔ میری اولین مراد عدالت سے آپ کے معروف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ ہے۔ آپ کا یہ اشکال اس پر بجا ہوگا کہ اس میں "عادل" ججز موجود نہیں ہیں لیکن غیر عادل کچھ اس قدر بھی غیر عادل نہیں ہوتے کہ وہ واضح قرآن و حدیث کے مخالف فیصلہ دے سکیں۔ میں نے ایک پروسیجر عرض کیا تھا:۔
اگر آپ کسی آئینی شق کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شق قرآن و سنت اور فقہ مقارن کے خلاف ہے تو آپ بلا جھجھک عدالت میں اس پر کیس کر سکتے ہیں۔ عدالت اسے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجے گی جہاں اس پر بحث ہوگی اور اگر وہ واقعی ایسا ہوا تو واپس عدالت میں ان کے فیصلے کے ساتھ پہنچ جائے گا اور عدالت اس پر فیصلہ جاری کر دے گی۔
اگر یہ پروسیجر واقعی ایسا ہی ہے جیسے میری معلومات میں ہے تو پھر اس سے کوئی شق خارج نہیں ہو سکتی۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ ہم یہ کام کریں۔
ہاں ایک معاملہ ہوتا ہے کہ اگر متبادل کوئی طریقہ نہ ہو تو عدالت وقتی طور پر اس پر فیصلہ موقوف کر دیتی ہے اور علماء کرام سے مدد طلب کرتی ہے۔ پھر اس پر وہ طویل معاملہ چلنا شروع ہوتا ہے جو آپ سود کے معاملات میں دیکھ رہے ہیں۔ سود سے غیر سودی بینکاری کی عالمی تحقیق، اس کا تجرباتی نفاذ اور آہستہ آہستہ اسٹیٹ بینک کو اس طرف لانا۔ اگر اس میں کوئی اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے ٹال مٹول کرے تو ہم اسے آئین کی کمزوری نہیں قرار دے سکتے۔ آئین نے ہمارے لیے راستہ رکھا ہے اور ہم اس راستے پر نہیں چل رہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے اسی طرح کا ایک فیصلہ کیا تھا جس میں کچھ شقوں کو اسی وجہ سے باطل قرار دیا گیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے ان شقوں میں تطبیق دے کر انہیں قرآن و حدیث کے مطابق کیا۔ اس کی تفصیل آپ دیے ہوئے لنک پر ترجمہ دستور پاکستان میں پڑھ سکتے ہیں۔

غلبہ احکام کی بابت آپ نے فرمایا تو میری عرض یہ ہے کہ غلبہ سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟ قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ کوئی کسی قبر کے سامنے سربسجود ہو۔ اگر آپ اسے شرک سمجھتے ہیں تو آپ کو اس پر ایک باقاعدہ مدلل بحث تیار کر کے عدالت میں دینی ہوگی اور اس پر عدالت اس پر پابندی لگا دے گی۔
اور اگر آپ غلبہ سے مراد یہ لیتے ہیں کہ عوام و حکمران میں احکام نافذ ہوں تو میرے بھائی میں نے یہی عرض کیا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں بھی دار الاسلام قرار دیا گیا ہے۔ بہت سے احکام ہر زمانے میں نافذ نہیں رہے۔ حرم مکی کے بارے میں ارشاد ہے انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامہم ھذا۔ شیعہ کی حالت سے آپ واقف ہیں۔ وہ کیسے دندناتے وہاں آتے ہیں؟ شہزادوں کے محل میں کیا کیا ہوتا ہے مشہور ہے۔ عرب کے اچھے کردار کے ساتھ برائیاں بھی کیسی ہیں اور کس طرح عام ہیں معروف ہیں اور نکیر کچھ بھی نہیں۔ تو عوام میں نفاذ کو اس معاملے میں ہم نہیں لا سکتے ورنہ پوری دنیا ہی دار الکفر ہو جائے گی اور ہمیں طالبانان افغانستان کا دوبارہ انتظار کرنا ہوگا۔

ایک سوال آپ نے دریافت فرمایا:۔
محترم بھائی آپ نے عجیب بات کر دی کیا آپ کا یہ فتوی میں امریکہ انڈیا اسرائیل وغیرہ میں مقیم اپنے مسلمان بھائیو کو بھی بتلا سکتا ہوں کیا وہ وہاں ہر کسی کا مال ہڑپ کر سکتے ہیں
تو میں نے عرض کیا تھا:۔
اگر ہم کسی جگہ مثال کے طور پر پاکستان کو دار الکفر یا دار الحرب قرار دیتے ہیں تو اس سے ہوتا یہ ہے کہ یہاں موجود تمام اقلیتیں (ہندو، عیسائی وغیرہ) ذمیوں کے حکم سے نکل جائیں گے۔ ان پر حملہ کرنا اور ان کے اموال کو لینا درست ہو جائے گا کیوں کہ وہ دار الحرب میں موجود ہیں اور ہمارا حکومت دار الحرب سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ہم ان کے قوانین کی حفاظت کریں گے۔
جس وقت ہم کسی ملک میں ویزہ لے کر جاتے ہیں تو ہم اس سے اس بات کا معاہدہ کرتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کا خیال رکھیں گے۔ اگر کوئی بغیر ویزہ کے داخل ہو تو اس کا مسئلہ آپ علماء کرام سے معلوم کر سکتے ہیں۔ وہ اگر دو وجہ سے (بعض کے نزدیک مسلم حکمرانوں کے معاہدہ کی وجہ سے اور بعض کے نزدیک فقط مصلحت کی وجہ سے) منع نہ کریں تو جو جواب دیں وہ مجھے بھی بتائیے گا۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔
یہ بندہ کا اپنا اجتہاد ہے۔ ممکن ہے صواب ہو اور ممکن ہے خطا۔

آخر میں اس ساری بحث کو سمیٹنے کے لیے عرض کرتا ہوں کہ بعض باتیں کہنے میں تو بہت آسان ہوتی ہیں اور میں بھی کہتا رہا ہوں لیکن زمین پر موجودہ حالات میں لانا بہت مشکل ہوتی ہیں۔اگر آپ کے خیال میں کثرت سے قانون پاکستان میں نہیں ہونا چاہیے تو قانون کس طرح بنایا جائے اور اس کا نفاذ کس طرح کیا جائے؟ یہ ایک اہم اور فکری سوال ہے؟ اگر آپ تمام ملک کے افراد کے تناظر میں اس پر غور فرمائیں اور اپنی رائے عنایت فرمائیں تو وہ نہایت قیمتی ہوگی۔

(تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ مولانا عبد العزیز صاحب لال مسجد والے عربی اور اردو میں ایک مکمل قانون کی تدوین کروا رہے ہیں جسے پھر عدالت میں لے کر جایا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم
اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے میں اپنی بات سے رجوع کرتا ہوں۔ میری موجودہ تحقیق کے مطابق ان کی حیثیت فقط ایک مشیر کی سی ہے۔
اس لحاظ سے اگر واقعی خلاف شریعت قوانین کو ہم ختم نہیں کر سکتے تو پھر غالبا صرف مسلمانوں کا ملک ہونے کی وجہ سے اسے دار الاسلام کہا جا سکتا ہے۔
اصطلاحی دار الاسلام یہ ہے یا نہیں اس کے لیے تمام قوانین پر بحث کی شاید ضرورت ہو۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے میں اپنی بات سے رجوع کرتا ہوں۔ میری موجودہ تحقیق کے مطابق ان کی حیثیت فقط ایک مشیر کی سی ہے۔
محترم بھائی آج دیکھا کہ آپکی پہلی پوسٹ کا جواب بھی ادھار ہے جو دوسری جگہ مصروفیت کی وجہ سے بھول چکا تھا اگلی پوسٹ میں انشاءاللہ دوں گا
البتہ اسلامی نظریاتی کونسل پر آپ کے رجوع پر دعاگو ہوں کہ اللہ ہم سب کو ایسا بنائے
ویسے آجکل کم عمری کی شادی پر اسلامی نظریاتی کونسل نے جو مشوری دیا ہے (جو صرف مشورہ ہی ہے جب تک پارلیمنٹ منظور نہ کرے) اس پر فرحت اللہ بابر کے بیان کو تو آپ نے پڑھا ہو گا کہ یہ کام صرف پارلیمان کی اکثریت ہی کر سکتی ہے اسلامی نظریاتی کونسل کا اختیار نہیں پس اس بے اختیار کو (فساد پھیلانے کی بجائے) ختم کر دینا چاہئے یعنی یہ لولی لنگڑی لوگوں کو گمراہ ہی کر رہی ہے یہی حال شرعی عدالت کا ہے

اس لحاظ سے اگر واقعی خلاف شریعت قوانین کو ہم ختم نہیں کر سکتے تو پھر غالبا صرف مسلمانوں کا ملک ہونے کی وجہ سے اسے دار الاسلام کہا جا سکتا ہے۔
محترم بھائی اوپر یہ وضآحت ہو چکی ہے کہ صرف مسلمانوں کے بسنے کی وجہ سے اسکو خالی دارالسلام(بقول مولانا بٹالوی رحمہ اللہ) کہہ سکتے ہیں یا دارالمرکبہ (بقول ابن تیمیہ) کہہ سکتے ہیں مگر دارالاسلام وہ ہوتا ہے جہاں اسلامی احکام غالب ہوں پس یہاں تو پہلا اسلامی حکم توحید ہی مغلوب ہے باقی کے کیا کہنے-

اصطلاحی دار الاسلام یہ ہے یا نہیں اس کے لیے تمام قوانین پر بحث کی شاید ضرورت ہو۔
محترم بھائی غلبہ کو دیکھنے کے ئے دو چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں
1-عمومی طور پر دیکھیں تو ہر طرف مشرک کی حکمرانی ہے سود خؤر زانی شرابی کو کھلی چھٹی ہے جیسے اوپر محترم شیخ امین اللہ پشاوری کے فتوی میں بتایا گیا ہے
2-قانون بنانے کی طاقت کس کو حاصل ہے اور اس پر کوئی چیک بھی ہے کہ نہیں اگر اکثریت کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ ہر طرح کا قانون بنا سکتی ہے اور ان کے اوپر کوئی چیک بھی نہیں تو پھر ہم کیا کہیں گے
 
Top