- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
میرا رجحان تو دار المرکبہ ہی کی طرف ہے۔واللہ اعلم بالصواب
میں نے سوچا کہ پہلے اپنے موقف کے حوالے سے اپنے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے فتاوی دین الخالص سے کچھ نقل کروں دوں پھر اگلی پوسٹ میں اس فتوی اور محترم اشماریہ بھائی کے اشکالات پر بات کروں گا ان شاءاللہ استادِ محترم طاہر بھائی سے بھی اصلاح کی درخواست ہےمجھے بھی دلائل کے لحاظ سے استادِ محترم طاہر بھائی کی بات ٹھیک لگتی ہے مگر پاکستان کو دارالاسلام سمجھنے والے اہل حدیث بھائی کو گمراہ نہیں سمجھتا
دارالاسلام و دارالکفر
شیخ حفظہ اللہ دارالاسلام اور دارالکفر کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں
فالدار التی للاسلام وھی التی یحکمھا المسلمون و تجری فیھا الاحکام الاسلامیۃ و یکون النفوذ فیھا للمسلمین ولو کان جمہور اھلھا کفارا
وبلاد الکفر التی یحکمھا الکفار و تجری فیھا احکام الکفر و یکون نفوذ فیھا للکفار (فتاوی الدین الخالص جلد 9 صفحہ 159)
دارالاسلام وہ ہے جہاں مسلمان فیصلہ کرتے ہوں اور اسلامی احکام کا اجرا ہو اور اقتدار (اثر و رسوخ) مسلمانوں کے لئے ہو اگرچہ رہنے والے اکثر کافر ہی ہوں
اور دار الکفر وہ ہے جہاں کفار فیصلہ کرتے ہوں اور کفر کے قوانین جاری ہوں اور کافروں کا اقتدار (اثر و رسوخ) ہو
آج کے اسلامی ممالک پر اطلاق
فنجد ان کثیرا من الدول التی تدعی الاسلام قد وضعت قوانین تحمی الزنا و الربا والخمر والمیسر، ولا تعاقب من یترک الواجبات کصلاۃ و صیام وزکوۃ و حج و مع ذلک تتستر ببعض مظاھر الاسلام و ھی فی حقیقۃ الامر والواقع دار کفر و ردۃ عن الاسلام، فنجد مصر و العراق کذلک، اقول و بلادنا کذلک
فھل ھذہ دول اسلامیۃ کلا و حاشا
(فتاوی الدین الخالص جلد 9 صفحہ 161)
پس ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اسلامی کہلوانے والے ممالک نے ایسے قوانین وضع کیے ہوئے ہیں کہ زنا اور سود اور شراب اور جوا کو دفاع کرتے ہیں اور واجبات (نماز روزہ زکوۃ حج ) چھوڑنے والے کا محاسبہ نہیں کیا جاتا اور اسکے ساتھ ساتھ بعض اسلام کے مظاہر کو بھی چھپایا جاتا ہے یہ ممالک حقیقت میں دار الکفر اور اسلام سے مرتد ہیں پس ہم عراق اور مصر کو بھی ایسا دیکھتے ہیں اور میں (امین اللہ) کہتا ہوں کہ ہمارا ملک (پاکستان) بھی ایسا ہے پس کیا یہ ممالک اسلامی ہیں ہر گز نہیں
اھل علم کے اقوال سے نقاط
اسکے بعد محترم شیخ حفظہ اللہ ابن قیم ،امام شوکانی ، ابن قدامۃ، سید قطب، حسن البنا کے اس بارے اقوال ذکر کرتے ہیں اور ان اقوال سے نقاط نکالتے ہیں
نقطہ نمبر 1
ان اکثر البلاد التی تسمی نفسھا فی زمننا -زورا- بالاسلامیۃ: ھی دار کفر وردۃ لان الاحکام التی تعلوھا ھی احکام کفر و ردۃ والشوکۃ فیھا للکفرۃ المرتدین العلمانیین و لیس للمسلمین (فتاوی الدین الخالص جلد 9 صفحہ 163)
اکثر ممالک جن کو ہمارے زمانے میں زبردستی اسلامی کہا جاتا ہے وہ دار کفر اور ارتداد ہیں چونکہ جن احکام کو وہ اونچا کرتے ہیں وہ کفر اور ارتدار کے احکام ہیں اور ان ممالک میں مرتد اور لادین کافروں کی شان و شوکت ہیں مسلمانوں کی نہیں
نقطہ نمبر 2
کون ھذہ الدیار حکمھا حکم دارالحرب والکفر لا یلزم بالضرورۃ ان یکون جمیع سکانھا کفرۃ و مرتدین۔ و معاملتھم جمیعا علی انھم کفرۃ مرتدون بل فیھا المرتد الکافر والمسلم الموحد ولک منھما معاملۃ المختلفۃ عن الاخر
وقد سئل شیخ الاسلام عن بلدۃ (ماردین) وھی شبیھۃ بکثیر من امصار المسلمین فی ھذا الزمان، وماردین ھذہ فیھا الکفرۃ ویمثلون الفئۃ الحاکمۃ المتسلطۃ والجند، و فیھا المسلمون ویمثلون عامۃ السکان ---- ھل ھی دار کفر و حرب بحیث یُعامل جمیع من فیھا معاملۃ اھل الکفر والحرب --- ام انھا دار اسلام لعموم سکانھا من المسلمین
فاجاب شیخ الاسلام: الحمد للہ: دماء المسلمین و اموالھم محرمۃ حیث کانوا فی ماردین او غیرھا بای طریقۃ امکنھم، من تغیب او تعریض او مضایقۃ، فاذا لم یکن الا بالھجرۃ تعینت
ولا یحل سبیھم عموما ورمیھم بالنفاق بل السب والرمی بالنفاق یقع علی الصفات المذکورۃ فی الکتاب والسنۃ، فیدخل فیھا بعض اھل ماردین و غیرھم
واما کونھا دار حرب او سلم فھی مرکبۃ: فیھا المعنیان، لیست بمنزلۃ دارالاسلام التی تجری علیھا احکام الاسلام لکون جندھا مسلمین، ولا بمنزلۃ دار الحرب التی اھلھا کفار، بل ھی قسم ثالث یُعامل المسلم فیھا بما یستحقہ و یقاتل الخارج عن شریعۃ الاسلام بما یستحقہ (الفتاوی: 28، 241)
قلت (امین اللہ) وما قالہ شیخ الاسلام عن ماردین و اھلھا یُمکن ان یحمل علی کثیر من افصار المسلمین لوجود المعنیین فیھا، واللہ تعالی اعلم
ان ممالک پر دار الحرب اور دار الکفر کا حکم لگانے سے یہ ضروری ثابت نہیں ہوتا کہ اسکے تمام رہنے والے کافر اور مرتد ہیں اور ان سب کا معاملہ کافر مرتد کا ہے بلکہ اس میں کافر مرتد بھی ہوں گے اور مسلم موحد بھی- اور ہر ایک کے لئے معاملہ دوسرے سے مختلف ہو گا
اور شیخ الاسلام سے ماردین کے بارے میں سوال کیا گیا جو (ماردین) آج کے زمانہ کے اکثر مسلم ممالک سے مشابہت رکھتا ہے اور اس میں کافر ہیں اور اسکی مثال حاکم اور متسلط گروہ اور اسکے جند سے دی جاتی ہے اور اس میں مسلمان بھی ہیں اور اسکی مثال عام رہنے والوں کی ہے--- تو کیا یہ دار کفر یا حرب ہو چونکہ اس میں تمام معاملے اھل کفر اور حرب کے کیے جاتے ہیں یا یہ دار اسلام ہے چونکہ اسکے عام رہائشی مسلمان ہیں
تو شیخ الاسلام نے جواب دیا: الحمد للہ: مسلمانوں کا خون اور مال حرام ہے چاہے ماردین میں یا کہیں اور، جس بھی طرح ممکن ہو چاہے دور ہو کر یا تعریض کر کے یا تنگی سے ہو (خون مسلم سے بچا جائے)، پس جب ہجرت کے علاوہ ممکن نہ ہو تو ہجرت کریں گے
اور عموما انکو قیدی بنانا اور مارنا نفاق کی وجہ سے حلال نہیں بلکہ نفاق کی وجہ سے یہ تب ثابت ہوتا ہے جب کتاب و سنۃ میں مذکور صفات پوری ہوں پس کچھ اہل ماردین اس میں داخل ہیں اور کچھ غیر ہیں
اور جہاں تک دار حرب یا سلام کی بات ہے تو یہ دار مرکبۃ ہے- اس میں دو معانی ہیں یہ دار الاسلام کی طرح نہیں جس میں مسلمان جند کے ہونے کی وجہ سے اسلامی احکام جاری ہوتے ہیں اور نہ دار الحرب کی طرح ہے کہ جس کے رہنے والے کافر ہوتے ہیں بلکہ یہ تیسری قسم ہے جس میں مسلمان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے گا جس کا وہ مستحق ہے اور شریعت سے خارج کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے گا جس کا وہ مستحق ہے