• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان اور عربی زبان

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
پاکستان اور عربی زبان

جاوید حفیظ​
روزنامہ دنیا
29 مارچ 2016ء
پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے۔ یہاں سینکڑوں دینی مدارس عربی زبان کا درس دیتے ہیں۔ لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہزاروں پاکستانی فرفر عربی زبان میں گفتگو کے قابل ہوتے لیکن یقین مانیں ماڈرن عربی میں حالات حاضرہ پر بے تکان بحث کرنے والوں کے نام ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور ایسے پاکستانی تو اور بھی کم ہیں جو کسی عربی ٹی وی چینل پر جا کر اچھی فصیح زبان میں اپنا مافی الضمیر آدھے پونے گھنٹے کے لیے روانی سے بیان کر سکیں۔ صرف دینی مدارس کو ہی کیوں مورد الزام ٹھہرایا جائے‘ ہماری جامعات سے ہر سال سینکڑوں سٹوڈنٹ ایم اے عربی کی ڈگری حاصل کرتے ہیں لیکن بلا جھجک اور بلا اغلاط عربی نہیں بول سکتے ۔
پچھلے دنوں ہمارے لیڈر مولانا فضل الرحمن بحرین تشریف لے گئے اور وہاں ایک چینل کو عربی میں انٹرویودیا۔ یہ انٹرویو جے یو آئی کی آفیشل ویب سائٹ کی زینت بنا۔ مولانا بہت بڑی سیاسی اور دینی شخصیت ہیں‘ ہم سب کے لیے محترم ہیں۔ میں نے فیس بک پر یہ انٹرویو دیکھا اور سُنا کہ ایک عزیز عربی دان دوست نے بھیجا تھا۔ ساتھ ہی مولانا کے چاہنے والوں کے مدح سرائی کے جملے بھی پڑھے‘ یقین مانئے کہ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ مولانا کے انٹرویو میں نہ صرف گرامر یعنی صرف ونحو کی غلطیاں ہیں بلکہ بعض الفاظ کا انتخاب بھی درست نہیں۔ میرے عربی دان دوست نے یہ غلطیاں تحریر کر کے مجھے ای میل کے ذریعہ بھجوا دیں لیکن مجھے پہلے ہی اندازہ تھا اور یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم دونوں کا مولانا سے کوئی مسلکی اختلاف نہیں۔ مگر ہم دونوں کو اتنا افسوس ضرور ہے کہ اگر اتنے بڑے دینی گھرانے کا اتنا بڑا لیڈر جو قادر الکلام بھی ہے ‘عربی کے ایک مختصر سے انٹرویو میں اپنی لسانی لیاقت کو ثابت نہیں کر سکا تو عربی سیکھنے کا لمبا سفر جو مولانا نے طے کیا ہے اور بے شمار دینی مدارس کے طلّاب طے کر رہے ہیں‘ اُس میں کوئی کمی ضرور ہے۔
مولانا کی ذہانت پر کوئی بھی شک نہیں کر سکتا کہ موصوف اُردو میں ہر موضوع پر بہت دلپذیر گفتگو کرتے ہیں۔ ہمیں پاکستان میں عربی کی صورت حال جاننے کے لیے تاریخ میں جھانکنا ہو گا۔ صدیوں تک فارسی ہماری سرکاری زبان رہی۔ پھر انگریزی نے فارسی کی جگہ لے لی۔ میں جب سکول میں تھا تو عربی فارسی اور جیومیٹری میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تھا۔ سب سے زیادہ طالب علم فارسی کا ہی انتخاب کرتے تھے اس لیے کہ ایک تو مسلمان اشرافیہ میں فارسی سیکھنے کی پُرانی روایت تھی دوسرے عربی کے مقابلے میں فارسی آسان تر ہے ۔اُردو ‘ پنجابی‘ پشتو‘ سندھی اور فارسی زبانوں کی ایک ہی فیملی یعنی انڈو یورپین فیملی ہے‘ لہٰذا جملوں کی بناوٹ میں بہت مماثلت ہے جبکہ عربی کا تعلق سامی زبانوں کی فیملی سے ہے۔ اسرائیل کی عبری زبان اس فیملی سے ہے‘ لہٰذا اسرائیلی خاصی آسانی سے عربی سیکھ جاتے ہیں۔
برصغیر میں اکثر و بیشتر عربی کو فقط دین اسلام کی زبان سمجھا گیا ہے حالانکہ عربی تجارت کی زبان بھی ہے‘ سیاست اور سیاسی مذاکرات بھی اللسان العربی میں ہوتے ہیں۔ ٹی وی کے بے شمار عربی چینل ہیں جو عرب ممالک تک ہی محدود نہیں ہیں۔ بی بی سی کا بھی عربی چینل ہے۔ روسیا الیوم روس کا عربی چینل ہے ‘اسی طرح امریکہ کے دو تین عربی ٹی وی چینل ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ عربی زبان کو صرف قرآن کریم سمجھنے تک محدود کر دیا گیا ہے‘ لہٰذا اسے تکلّم کی زبان نہیں سمجھا گیا۔ حالانکہ شروع کی عربی تو دراصل تکلّم اور تحدّث کی زبان تھی۔ اس زبان کی شاعری بے مثل تھی۔ عرب جب آپس میں گفتگو کرتے تو فصاحت اور بلاغت پر زور ہوتا تھا۔ اپنی زبان کے اعلیٰ و ارفع ہونے کے تفاخر نے ہی انہیں اس بات کی ترغیب دی کہ ایرانیوں کو عجمی یعنی گونگا ہونے کا لقب دے دیں۔
برصغیر میں چونکہ عربی زبان دینی مدارس تک محدود رہی‘ لہٰذا یہاں زبان سکھانے کے جدید طریقے استعمال ہی نہیں ہوئے۔ میں نے 1974ء میں قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں عربی پڑھی ۔وہاں اُس زمانے میں بھی لینگویج لیبارٹری تھی جہاں سمعی اور بصری طریقوں سے زبان سکھائی جاتی تھی۔ کتابیں ساری کی ساری امریکہ سے درآمد شدہ تھیں جو کہ امریکہ میں مقیم عربوں نے غیر عربوں کو زبان سکھانے کے لیے لکھی تھیں۔ اسی طرح حکومت برطانیہ نے اپنے سفارت کاروں کو عربی سکھانے کے لیے بیروت کے پاس شملان میںایک شاندار معہد بنایا تھا۔ شملان میں کتابوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں سے بات چیت پر زوردیا جاتا تھا۔ پڑھے لکھے لبنانیوں کو دعوت دی جاتی تھی کہ وہ طلباء کے ساتھ آ کر بات چیت کریں۔ طلباء کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ مقامی لوگوں کے گھر جا کر سپوکن عربی کی مشق کریں۔ اس کے برعکس برصغیر میں عربی کی تعلیم درس نظامی میں قید ہو کر رہ گئی۔ عربی گردان کے رٹے سے بات شروع ہوتی ہے تو کئی سال رٹے لگانے کے بعد بھی طالب علم بات چیت کے قابل نہیں ہو پاتے۔
میں1970ء کی دہائی میں تین سال دمشق میں مقیم رہا ۔وہاں خوش قسمتی سے میری دوستی ایک عظیم انسان سے ہوئی جن کا نام ڈاکٹر احسان حقّی تھا۔ حقّی صاحب کو اسلام اور پاسکتان سے بے پناہ محبت تھی۔ دیکھنے میں بہت ماڈرن نظر آتے تھے۔1930ء کی دہائی میں علی گڑھ یونیورسٹی میں فرنچ پڑھانے آئے۔ علامہ اقبال اور مولانا مودودی سے دوستی تھی۔ ڈاکٹر حقی نے مجھے بتایا کہ دونوں حضرات عربی سے خوب واقف تھے لیکن بولنے میں جھجک محسوس کرتے تھے۔ برصغیر میں ندوۃ العلماء نے اچھے عربی دان پیدا کئے کیونکہ وہاں عربی کی تعلیم کے جدید طریقے بھی اپنائے گئے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی عربی لکھتے بھی خوب تھے اور بولتے بھی خوب تھے۔ وہ پاکستان بھی تشریف لائے لیکن پاکستان میں ندوۃ العلماء جیسا کوئی ادارہ قائم نہیں ہوا۔ کاش پاکستان کے عربی اساتذہ اُن سے مشاورت کر کے معیار تعلیم کو جدیدیت کی طرف لے جاتے۔
پاکستان میں سیاسی امور پر فصحیٰ زبان میں گفتگو عبدالغفار عزیز خوب کرتے ہیں‘ عربی زبان موصوف نے قطر میں سیکھی۔ ڈاکٹر غزالی بہت اچھی عربی بولتے ہیں۔ میرے استاد ڈاکٹر ظہور احمد اظہر1974ء میں لاہور میں کرنل قذافی کی تقریر کا فی البدیہہ ترجمہ کر کے مشہور ہوئے۔ مستقبل پاکستان پارٹی کے سربراہ ندیم ممتاز قریشی بھی روانی سے عربی بولتے ہیں۔ بہت سے عربی دان ایسے ضرور ہوں گے جنہیں میں نہیں جانتا لیکن روانی سے خوبصورت فصحیٰ زبان بولنے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ ہمارے مقابلے میں ایران میں عربی دان اور عربی بولنے والے کافی زیادہ ہیں۔ ایران کا اپنا عربی ٹی وی چینل العالم ہے۔ ہمارے ہاں پی ٹی وی پر عربی کی خبریں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ ایک زمانے میں بیروت اور دمشق سے ہمارے سفارت خانے اچھے عربی میگزین نکالتے تھے‘ اب وہ بھی بند ہو چکے ہیں۔ اس وقت عرب دنیا میں ہماری پبلسٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔
آج کے دور میں دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔کوئی ملک‘ کوئی معاشرہ یا گروپ تنہا نہیں رہ سکتا‘ عالمی میڈیا نے کلچر ل بارڈر کمزور کر دیئے ہیں۔ آج کے دور میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے علماء کا قم‘ نجف اشرف اور الازہر الشریف کے علماء سے ڈائیلاگ ہو اور تواتر سے ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا جب ہمارے علماء روانی سے عربی بولنے کے قابل ہوں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں عربی زبان کی تعلیم کیسے بہتر کی جائے ۔جواب یہ ہے کہ جدید سمعی اور بصری طریقے استعمال کئے جائیں۔ درس نظامی کی بجائے عرب بھائیوں کی مدد سے جدید سلیبس بنایا جائے۔ طالب علموں سے روزانہ عربی میں گفت گو کی جائے۔ سینئر طلاب کے مابین فی البدیہہ تقریر مقابلے ہوں‘ عربی زبان میں مباحثے ہوں‘زبان سیکھنے کے لیے انٹر نیٹ کا استعمال ہو۔ ڈش انٹینا کے ذریعے طالب علموں کو عربی ٹی وی چینلز کے پروگرام دکھائے جائیں۔ یہ پروگرام دیکھ کر طلّاب کی دینی اور دنیوی معلومات میں اضافہ ہو گا۔ اچھے عربی دان پیدا کر کے پاکستان عرب دنیا میں اپنا نقطۂ نظر بہتر طور پر پیش کر سکے گا۔ یقین مانیں کہ اس وقت پاکستان کی عرب دنیا میں کوئی آواز نہیں‘ ہمارا مجموعی تاثر خاصا منفی ہے۔ یہ بات میں عرب ٹی وی چینلز کے ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اتنا افسوس ضرور ہے کہ اگر اتنے بڑے دینی گھرانے کا اتنا بڑا لیڈر جو قادر الکلام بھی ہے ‘عربی کے ایک مختصر سے انٹرویو میں اپنی لسانی لیاقت کو ثابت نہیں کر سکا تو عربی سیکھنے کا لمبا سفر جو مولانا نے طے کیا ہے اور بے شمار دینی مدارس کے طلّاب طے کر رہے ہیں‘ اُس میں کوئی کمی ضرور ہے۔
یہ ایک المیہ ہے ۔ جس طرح انگریزی فرفر بولنے والا تیار ہورہے ہیں ، اسی طرح عربی بولنے والے بھی ہونے چاہییں ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فرمان اقبال رحمہ اللہ

عربی زبان کا علم

ہندی مسلمانوں کی بدبختی یہ ہے کہ اس ملک سے عربی زبان کا علم اٹھ گیا ہے اور قرآن کی تفسیر میں محاورہ عرب سے بالکل کام نہیں لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں قناعت اور توکل کے وہ معانی لئے جاتے ہیں جو عربی زبان میں ہرگز نہیں۔

(سراج الدین پال کے نام خط 1910ئ)

http://www.nawaiwaqt.com.pk/farmoodai-iqbal/13-Jan-2016/444493
 

عادل

رکن
شمولیت
اپریل 26، 2016
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
32
پاکستان اور عربی زبان

جاوید حفیظ​
روزنامہ دنیا
29 مارچ 2016ء
پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے۔ یہاں سینکڑوں دینی مدارس عربی زبان کا درس دیتے ہیں۔ لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہزاروں پاکستانی فرفر عربی زبان میں گفتگو کے قابل ہوتے لیکن یقین مانیں ماڈرن عربی میں حالات حاضرہ پر بے تکان بحث کرنے والوں کے نام ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور ایسے پاکستانی تو اور بھی کم ہیں جو کسی عربی ٹی وی چینل پر جا کر اچھی فصیح زبان میں اپنا مافی الضمیر آدھے پونے گھنٹے کے لیے روانی سے بیان کر سکیں۔ صرف دینی مدارس کو ہی کیوں مورد الزام ٹھہرایا جائے‘ ہماری جامعات سے ہر سال سینکڑوں سٹوڈنٹ ایم اے عربی کی ڈگری حاصل کرتے ہیں لیکن بلا جھجک اور بلا اغلاط عربی نہیں بول سکتے ۔
پچھلے دنوں ہمارے لیڈر مولانا فضل الرحمن بحرین تشریف لے گئے اور وہاں ایک چینل کو عربی میں انٹرویودیا۔ یہ انٹرویو جے یو آئی کی آفیشل ویب سائٹ کی زینت بنا۔ مولانا بہت بڑی سیاسی اور دینی شخصیت ہیں‘ ہم سب کے لیے محترم ہیں۔ میں نے فیس بک پر یہ انٹرویو دیکھا اور سُنا کہ ایک عزیز عربی دان دوست نے بھیجا تھا۔ ساتھ ہی مولانا کے چاہنے والوں کے مدح سرائی کے جملے بھی پڑھے‘ یقین مانئے کہ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ مولانا کے انٹرویو میں نہ صرف گرامر یعنی صرف ونحو کی غلطیاں ہیں بلکہ بعض الفاظ کا انتخاب بھی درست نہیں۔ میرے عربی دان دوست نے یہ غلطیاں تحریر کر کے مجھے ای میل کے ذریعہ بھجوا دیں لیکن مجھے پہلے ہی اندازہ تھا اور یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم دونوں کا مولانا سے کوئی مسلکی اختلاف نہیں۔ مگر ہم دونوں کو اتنا افسوس ضرور ہے کہ اگر اتنے بڑے دینی گھرانے کا اتنا بڑا لیڈر جو قادر الکلام بھی ہے ‘عربی کے ایک مختصر سے انٹرویو میں اپنی لسانی لیاقت کو ثابت نہیں کر سکا تو عربی سیکھنے کا لمبا سفر جو مولانا نے طے کیا ہے اور بے شمار دینی مدارس کے طلّاب طے کر رہے ہیں‘ اُس میں کوئی کمی ضرور ہے۔
مولانا کی ذہانت پر کوئی بھی شک نہیں کر سکتا کہ موصوف اُردو میں ہر موضوع پر بہت دلپذیر گفتگو کرتے ہیں۔ ہمیں پاکستان میں عربی کی صورت حال جاننے کے لیے تاریخ میں جھانکنا ہو گا۔ صدیوں تک فارسی ہماری سرکاری زبان رہی۔ پھر انگریزی نے فارسی کی جگہ لے لی۔ میں جب سکول میں تھا تو عربی فارسی اور جیومیٹری میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تھا۔ سب سے زیادہ طالب علم فارسی کا ہی انتخاب کرتے تھے اس لیے کہ ایک تو مسلمان اشرافیہ میں فارسی سیکھنے کی پُرانی روایت تھی دوسرے عربی کے مقابلے میں فارسی آسان تر ہے ۔اُردو ‘ پنجابی‘ پشتو‘ سندھی اور فارسی زبانوں کی ایک ہی فیملی یعنی انڈو یورپین فیملی ہے‘ لہٰذا جملوں کی بناوٹ میں بہت مماثلت ہے جبکہ عربی کا تعلق سامی زبانوں کی فیملی سے ہے۔ اسرائیل کی عبری زبان اس فیملی سے ہے‘ لہٰذا اسرائیلی خاصی آسانی سے عربی سیکھ جاتے ہیں۔
برصغیر میں اکثر و بیشتر عربی کو فقط دین اسلام کی زبان سمجھا گیا ہے حالانکہ عربی تجارت کی زبان بھی ہے‘ سیاست اور سیاسی مذاکرات بھی اللسان العربی میں ہوتے ہیں۔ ٹی وی کے بے شمار عربی چینل ہیں جو عرب ممالک تک ہی محدود نہیں ہیں۔ بی بی سی کا بھی عربی چینل ہے۔ روسیا الیوم روس کا عربی چینل ہے ‘اسی طرح امریکہ کے دو تین عربی ٹی وی چینل ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ عربی زبان کو صرف قرآن کریم سمجھنے تک محدود کر دیا گیا ہے‘ لہٰذا اسے تکلّم کی زبان نہیں سمجھا گیا۔ حالانکہ شروع کی عربی تو دراصل تکلّم اور تحدّث کی زبان تھی۔ اس زبان کی شاعری بے مثل تھی۔ عرب جب آپس میں گفتگو کرتے تو فصاحت اور بلاغت پر زور ہوتا تھا۔ اپنی زبان کے اعلیٰ و ارفع ہونے کے تفاخر نے ہی انہیں اس بات کی ترغیب دی کہ ایرانیوں کو عجمی یعنی گونگا ہونے کا لقب دے دیں۔
برصغیر میں چونکہ عربی زبان دینی مدارس تک محدود رہی‘ لہٰذا یہاں زبان سکھانے کے جدید طریقے استعمال ہی نہیں ہوئے۔ میں نے 1974ء میں قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں عربی پڑھی ۔وہاں اُس زمانے میں بھی لینگویج لیبارٹری تھی جہاں سمعی اور بصری طریقوں سے زبان سکھائی جاتی تھی۔ کتابیں ساری کی ساری امریکہ سے درآمد شدہ تھیں جو کہ امریکہ میں مقیم عربوں نے غیر عربوں کو زبان سکھانے کے لیے لکھی تھیں۔ اسی طرح حکومت برطانیہ نے اپنے سفارت کاروں کو عربی سکھانے کے لیے بیروت کے پاس شملان میںایک شاندار معہد بنایا تھا۔ شملان میں کتابوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں سے بات چیت پر زوردیا جاتا تھا۔ پڑھے لکھے لبنانیوں کو دعوت دی جاتی تھی کہ وہ طلباء کے ساتھ آ کر بات چیت کریں۔ طلباء کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ مقامی لوگوں کے گھر جا کر سپوکن عربی کی مشق کریں۔ اس کے برعکس برصغیر میں عربی کی تعلیم درس نظامی میں قید ہو کر رہ گئی۔ عربی گردان کے رٹے سے بات شروع ہوتی ہے تو کئی سال رٹے لگانے کے بعد بھی طالب علم بات چیت کے قابل نہیں ہو پاتے۔
میں1970ء کی دہائی میں تین سال دمشق میں مقیم رہا ۔وہاں خوش قسمتی سے میری دوستی ایک عظیم انسان سے ہوئی جن کا نام ڈاکٹر احسان حقّی تھا۔ حقّی صاحب کو اسلام اور پاسکتان سے بے پناہ محبت تھی۔ دیکھنے میں بہت ماڈرن نظر آتے تھے۔1930ء کی دہائی میں علی گڑھ یونیورسٹی میں فرنچ پڑھانے آئے۔ علامہ اقبال اور مولانا مودودی سے دوستی تھی۔ ڈاکٹر حقی نے مجھے بتایا کہ دونوں حضرات عربی سے خوب واقف تھے لیکن بولنے میں جھجک محسوس کرتے تھے۔ برصغیر میں ندوۃ العلماء نے اچھے عربی دان پیدا کئے کیونکہ وہاں عربی کی تعلیم کے جدید طریقے بھی اپنائے گئے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی عربی لکھتے بھی خوب تھے اور بولتے بھی خوب تھے۔ وہ پاکستان بھی تشریف لائے لیکن پاکستان میں ندوۃ العلماء جیسا کوئی ادارہ قائم نہیں ہوا۔ کاش پاکستان کے عربی اساتذہ اُن سے مشاورت کر کے معیار تعلیم کو جدیدیت کی طرف لے جاتے۔
پاکستان میں سیاسی امور پر فصحیٰ زبان میں گفتگو عبدالغفار عزیز خوب کرتے ہیں‘ عربی زبان موصوف نے قطر میں سیکھی۔ ڈاکٹر غزالی بہت اچھی عربی بولتے ہیں۔ میرے استاد ڈاکٹر ظہور احمد اظہر1974ء میں لاہور میں کرنل قذافی کی تقریر کا فی البدیہہ ترجمہ کر کے مشہور ہوئے۔ مستقبل پاکستان پارٹی کے سربراہ ندیم ممتاز قریشی بھی روانی سے عربی بولتے ہیں۔ بہت سے عربی دان ایسے ضرور ہوں گے جنہیں میں نہیں جانتا لیکن روانی سے خوبصورت فصحیٰ زبان بولنے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ ہمارے مقابلے میں ایران میں عربی دان اور عربی بولنے والے کافی زیادہ ہیں۔ ایران کا اپنا عربی ٹی وی چینل العالم ہے۔ ہمارے ہاں پی ٹی وی پر عربی کی خبریں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ ایک زمانے میں بیروت اور دمشق سے ہمارے سفارت خانے اچھے عربی میگزین نکالتے تھے‘ اب وہ بھی بند ہو چکے ہیں۔ اس وقت عرب دنیا میں ہماری پبلسٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔
آج کے دور میں دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔کوئی ملک‘ کوئی معاشرہ یا گروپ تنہا نہیں رہ سکتا‘ عالمی میڈیا نے کلچر ل بارڈر کمزور کر دیئے ہیں۔ آج کے دور میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے علماء کا قم‘ نجف اشرف اور الازہر الشریف کے علماء سے ڈائیلاگ ہو اور تواتر سے ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا جب ہمارے علماء روانی سے عربی بولنے کے قابل ہوں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں عربی زبان کی تعلیم کیسے بہتر کی جائے ۔جواب یہ ہے کہ جدید سمعی اور بصری طریقے استعمال کئے جائیں۔ درس نظامی کی بجائے عرب بھائیوں کی مدد سے جدید سلیبس بنایا جائے۔ طالب علموں سے روزانہ عربی میں گفت گو کی جائے۔ سینئر طلاب کے مابین فی البدیہہ تقریر مقابلے ہوں‘ عربی زبان میں مباحثے ہوں‘زبان سیکھنے کے لیے انٹر نیٹ کا استعمال ہو۔ ڈش انٹینا کے ذریعے طالب علموں کو عربی ٹی وی چینلز کے پروگرام دکھائے جائیں۔ یہ پروگرام دیکھ کر طلّاب کی دینی اور دنیوی معلومات میں اضافہ ہو گا۔ اچھے عربی دان پیدا کر کے پاکستان عرب دنیا میں اپنا نقطۂ نظر بہتر طور پر پیش کر سکے گا۔ یقین مانیں کہ اس وقت پاکستان کی عرب دنیا میں کوئی آواز نہیں‘ ہمارا مجموعی تاثر خاصا منفی ہے۔ یہ بات میں عرب ٹی وی چینلز کے ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔​

جزاک اللہ خیر بھائی لیکن سوال یہ ہے کہ عربی و فارسی کہاں سے سیکھی جا سکتی ہے . جیسا کہ میں لاہور سے ہوں تو کوئی ایسا ادارہ ؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
بھائی کچھ خاص سمجھ نہیں آیا میرے پاس آکسفورڈ بروکس کی بی ایس اکاؤنٹس اور اے سی سی اے کی ڈگری ہے جبکہ پاکستانی اسٹڈیز میں آئی کام تک .
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی:
اس امیج میں دیئے گئے ایڈریس، اور رابطہ نمبر سے دریافت کریں کہ لاہور میں آپ کس جگہ سے کیسے عربی سیکھ سکتے ہیں ،
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اسلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اس جامعہ کی کوئ ویب سائٹ بھی ھے؟
جزاک اللہ خیرا
Sent from my ZUK Z1 using Tapatalk
محترم بھائی شیخ @خضر حیات صاحب
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
صرف جامعہ کی خاص کوئی ویب سائٹ نہیں ، البتہ ’ محدث ویب سائٹس ‘ ساری کی ساری اسی جامعہ کے متعلقین کی ادارت ، نظامت ، اور زیر نگرانی چل رہی ہیں ، فورم پر جامعہ کے لیے ایک مخصوص زمرہ موجود ہے :
جامعہ لاہور الاسلامیہ
 
Top