• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"پاکستان میں جہاد جائز نہیں ہے" شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کا فتویٰ

شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0
"پاکستان میں جہاد جائز نہیں ہے" شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کا فتویٰ


اکثر لوگ الشیخ سے پاکستان میں تکفیر و تفجیر کے بارے سوالات کرتے رہتے ہیں ، اور شیخ کے بارے بہت سی باتیں منسوب کر کے پاکستان میں فساد و فتنہ کی دلیلیں گھڑتے ہیں۔ الشیخ نے اس مسئلہ "جہاد پاکستان "کی حیثیت پر کافی و شافی جواب پیش فرما کر اہل شر و فتنہ کی قلعی کھول دی ہے۔
الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کا وہ جواب ہم پوری دیانداری سے من و عن آپ کے سامنے پیش فرما رہے ہیں۔ اللہ الشیخ کی حفاظت فرمائے اور ان کی یہ نیکی قبول فرمائے۔ آمین

شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ فرماتےہیں :
الجواب :
مجاہدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے خلاف زیادہ محاذ نہ کھولیں جن کو بعد میں مال وافراد کے باوجودختم کرنا ممکن نہ ہوگا جیساکہ ہم مقدمہ میں بیان کر آئیں ہیں :
1- جہاد میں سب سے پہلے اھم فالاھم (جو زیادہ اہمیت والا ہو پہلے پھر اس سے کم پھر اس سے کم ) مقدم ہونا چاہیے ہمارے موجودہ زمانے میں امریکہ کفر کا سر غنہ ہے اور دیگر طواغیت اس کے حاشیہ بردار اور پر ہیں جب ہم کفر کا سرکاٹ دیں گے تو اللہ کی مشیت سے یہ حاشیہ بردار خود بخود ختم ہو جائیں گے
جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ ہرمزان فارسی جب مسلمان ہو گیا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فارس سے لڑائی کے سلسلے میں اس سے مشورہ کیا تین مقام (فارس،اصفہان ،اذربائیجان ) میں کہاں سے لڑائی شروع کی جائے،
اس نےکہا :
مسلمانوں کے دشمنوں کی مثال ایک پرندے کی ہے جس کا ایک سر دو پاؤں اور دوبازو ہوں اگر ایک بازو توڑ ڈالیں تو وہ پرندہ دونوں پاؤں اور ایک بازو اور سر سے حرکت کرے گا دوسرا بازو توڑیں تو بھی ایسا ہیں ہوگا البتہ اگر سر کچل دیا جائے نہ پاؤں کچھ کام کے رہیں گے نہ بازو نہ سر تو دیکھیے ان دشمنوں کاسر کسریٰ ہے (بادشاہ ایران ) اور ایک بازو قیصر ہے بادشاہ روم دوسرا بازو فارس ہے۔
[صحیح بخاری، کتاب الجہاد،باب الجزیۃ الموادعۃمع اہل الحرب ،ص:447،ج: 1]​
اس طرح جب کفر کا سر (امریکہ ) کٹ جائے گا تو پروں کو کاٹنا ان شاءاللہ آسان ہو جائے گا ۔
2- اور اس لئے بھی کہ یہ طواغیت عوام کیا اکثر علماءکے ذہنوں میں مسلمان شمار ہوتے ہیں ،تو مجاہدین کیسے ان کے خلاف جہاد کر سکتے ہیں لہذا ضروری ہےکہ ایسے وسائل بروئےکار لائے جائیں جو اس مسئلہ کو تحقیق ودقیق کے ساتھ پھیلائیں اور مخلص علماء لوگوں کے ذہن کھولیں اور اس کےلئے ارتداد کے اسباب اور نواقض ایمان بیان کریں جس وقت ان کے دل اس چیز کو قبول کر لیں گے اس سے جہاد کا معاملہ آسان ہوجائے گا ۔
3- اسی طرح وہ مصلحت جس کی وجہ سے نبی ﷺ نے منافقین سے جہاد نہیں کیا تھا کہ عرب لوگ کہیں گے محمدﷺ اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر رہا ہے،یہ مصلحت بھی یہاں موجود ہو تو یہاں سے قتال مؤخر کرنا ہی مناسب ہے ،مثلاًاگر مجاہدین ان لوگوں سے قتال شروع کر دیتے ہیں جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ ان میں نواقض اسلام بھی پائے جاتے ہیں تمام عالمِ کفر واسلام میں یہ بات مشہور ہوجائے گی مجاہدین مسلمانوں سے قتال کر رہے ہیں اور یہ بات بھی معلوم ہی ہے کفار اس بات کوبہت بڑھاچڑھا کر پیش کریں گے وہ صرف کفار جانوروں (عوام) کے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں عوام کے ذہن بھی خراب کریں گے پس مصلحت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔
4-اور اس لئے بھی کہ یہ جہاد درست نہیں ،دیار مغرب کے کفار کے اہم مقاصد میں سے یہ بات شامل ہے کہ اس حکومت جس کو اسلامی حکومت کہا جاتاہے اس کو (ان سے )ٹکرا دو تا کہ وہ حکومتیں اس جہاد ،مجاہدین ،علماء، مدارس اور داعی حضرات ختم کردیں اور ان کافروں کو ان کے ملکوں میں آزادی دی جائے ۔
5-اور اس لئے بھی یہ جہاد درست نہیں کیونکہ ان طواغیت سے قتال اصل کافروں کےلئے بہت فائدہ مندثابت ہو گا تو کسی بھی صاحب بصیرت اور صاحب عقل وشعور رکھنے والے کےلئے جائز نہیں کہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ ان کفار کا آلہ کار بنے ۔
6-اور یہ قتال اس لئے بھی صحیح نہیں کیونکہ اگر مجاہدین ان طواغیت سے قتال کی ابتداء کریں گے تو کفرکا سرغنہ باقی رہے گا جو زمین میں فساد مچائے گا اوراللہ کے بندوں اوراللہ کے شہروں پر ظلم کرے گا جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔
7-اور اس لئے بھی یہ جہاد مناسب نہیں کیونکہ مجاہدین کی کوئی پناہ گاہ اور چھاؤنی ہونی چاہیے جہاں وہ پناہ لے سکیں اس کے بغیر گزارہ نہیں کیونکہ جہاد کوئی آسان کام نہیں اور نہ ایک آدھ دن کا کام ہے تواس کے لئے کوئی ٹھکانہ ،پناہ گاہ ،کمین گاہ ،چھاؤنی ہونا ضروری ہے توجب مجاہدین پر جگہ ان سے قتال کرتے ہوئے اس چیز کو کھو بیٹھیں گے تو وہ کفار سے قتال کیسے کریں گے اور کیسے ان سے بچیں گے ۔
8-اور ایسے خطوں میں جہاد اس لئے بھی درست نہیں کہ کفار تو ایسے موقعوں کو غنیمت سمجھتے ہیں توا ن مجاہدین کے بارے ان ذمہ داروں کے ہاں سازشیں تیار کرتے ہیں اور جہاد اسلامی کے خلاف شبہات پیداکرتےہیں اور اہل ایمان پر مختلف قسم کی تہمتیں لگاتےہیں حتیٰ کہ مخلص مسلمان بھی اپنے اکابرین ،علماء اوار اہل خیر کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اوریہ عملی تجربہ ہے ۔
9-اور اس لئے بھی یہ جہاد صحیح نہیں کہ یہ مجاہدین میں اختلاف کا سبب بنے گا ان میں بعض کہیں گے کہ ہم یہاں جہاد کریں گے اور بعض کہیں گے کہ نہیں !ہم امریکہ کے خلاف جہاد کریں گے اور بعض کہیں گے نہیں ! ہم فلاں سے جہاد کریں گے اس وجہ سے بہت بڑا اختلاف وگروہ بندی پیدا ہوجائیگی جس کے نتائج تباہ کن ہوں گے اورجو کچھ ہم لکھ رہے ہیں وہ ہمارے تجربے میں ہے ۔
اور یاد رکھیے گا!! جہاد کوئی جلد بازی والا معاملہ نہیں جس میں عجلت سےکام لیا جائے بلکہ اس میں اتفاق ومحبت ، مشورہ ،غوروفکر اور نبیﷺ کی سیرت وصحابہ کرام کی سیاست کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ ہمارےاس اہم کام میں کوئی بڑی خرابی پیدا نہ ہو اور ہم تنقید کرنے والوں کا نشانہ نہ بن جائیں ۔
واللہ المستعان وعلیہ التکلان​
(فتاویٰ الدین الخالص،ص:207،208،ج:9)​
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

اللہ اکبر الشیخ نے تو کاروبار شر کے لئے انکا نام استعمال کرنے والوں کی قلعی کھول کہ رکھ دی۔ میں بھی کہوں اسی لئے آجکل تکفیری حضرات امین اللہ حفظہ اللہ کا نام لینا چھوڑ گئے ہیں۔
ویسے میرے علم کی مطابق جب سے امین اللہ صاحب حفظہ اللہ کی فتوی دین الخالص کی ۹ جلد آئی ہے، کافی ابہام دور ہوئے ہیں۔

مگر باتیں ایسی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اگر انکے ساتھ مدنظر رکھی جائیں تو پاکستان کے خلاف جہاد کے غیر شرعی ہونے کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔
میں چند سطور پر مشستمل ایک مختصر مگر جامع تجزیہ پیش کرنے لگا ہوں ، مجھے امید ہے کہ بات کو مزید واضح کر دے گا۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد!
امریکی جنگ میں پاکستان کی شرکت کی حقیقت

9\11کا حادثہ امریکی تاریخ کا وہ انوکھا واقعہ ہے جس نے امریکی ساکھ اور وقار کو خاک میں ملا کر رکھ دیا اس حادثے نے امریکہ کو بوکھلا دیا اور اس نے اس واقعے کے ملزموں کو سخت سزا دینے کا اعلان کردیا ۔
بپھرے ہوئے پاگل امریکی ہاتھی نے افغانستان کو تہس نہس کرنے کے لئے یورپی اتحاد (ناٹو)کو ساتھ ملایا اور پاکستان کو دھمکی دی کہ ہمارا ساتھ دو یاپھر ہم تمہیں دشمن کا ساتھی سمجھیں گے اور غار کے تاریک دور میں پہنچادیں گے۔
ان سخت حالات میں ،کہ جب سب امریکہ سے گریزاں اور خائف تھے پاکستان کے لئے اس جنگ سے غیر جانبدار رہنا بہت مشکل امرتھا جبکہ پاکستان کے دوست ممالک کا مشورہ بھی یہی تھا کہ امریکہ کا مطالبہ مان لینا ہی مناسب ہے اور اس سے ٹکراؤٹھیک نہیں ۔
پاکستان نے اس جنگ میں ایک بہت مشکل فیصلہ کیا جس سے وہ امریکہ کی مخالفت و تباہی سے بھی بچ سکتا تھا اور اس کو افغانستان کی دلدل میں پھنساکر اس کا غروربھی خاک میں ملا سکتا تھا ۔
امریکی جنگ میں شرکت،خوف یا حکمت عملی :
اگر اس شرکت کا سبب امریکہ کا خوف اور ڈر تھا تو شرعا ًاس کی بھی گنجائش اور رخصت ملتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
لَّا يَتَّخِذِ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ ٱلۡكَـافِرِينَ أَوۡلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ‌ۖ وَمَن يَفۡعَلۡ ذَٲلِكَ فَلَيۡسَ مِنَ ٱللَّهِ فِى شَىۡءٍ إِلَّآ أَن تَتَّقُواْ مِنۡهُمۡ تُقَٮٰةً۬‌۔۔۔۔۔
“ایمان والے مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگریہ کہ تم ان سے بچو،کسی طرح سے بچنا”
(اٰل عمران:28)​
اورایک دوسرے مقام پرفرمایا :
مَن ڪَفَرَ بِٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ إِيمَـانِهِۦۤ إِلَّا مَنۡ أُڪۡرِهَ وَقَلۡبُهُ ۥ مُطۡمَٮِٕنُّۢ بِٱلۡإِيمَـانِ
“جو شخص اللہ کو ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد ،سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائےاور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔”
(النحل :106)​
اللہ تعالیٰ نے مجبوری اور اکراہ کی صورت میں کفارسے دوستی کا اظہار اور جان بچانے کے لئے کلمہ کفر کہنے یا کفریہ فعل سر انجام دینے کی رخصت دی ہے جبکہ دل ایمان پر مطمئن ہو ۔
اور اگراس نقطہ پر نظر ڈالیں جو کہ اب وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان حکمت عملی کے تحت اس جنگ میں شرکت پر آمادہ ہوا تو جنگ میں اس طرح کی حکمت عملی( فرمان رسولﷺ کےمطابق )اختیار کی جاسکتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"الحرب خدعۃ"
“ جنگ تو نام ہی دھوکہ دہی کا ہے ۔”(صحیح البخاری )
ہم دیانتداری سے یہ سمجھتےہیں کہ اس جنگ میں شرکت کے اسباب میں ڈر اور حکمت عملی دونوں ہی شامل ہیں پا کستان کی جغرافیائی صورت حال اس طرح کی ہے کہ ایک طرف بھارت ہے جو کہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے اس کے ساتھ پاکستان کی چار جنگیں ہوچکی ہیں 2900 km(تقریباً )بارڈرپر انڈین آرمی بیٹھی ہوئی ہے اوردوسری طرف افغانستان ،کہ جس کے ساتھ پا کستان کا بارڈرتقریباً 2600kmلمبا ہے جہاں انڈیا نوازشمالی اتحادکی حکومت کی صورت میں پاکستان دو پاٹوں کے درمیان پس کررہ جاتا ۔
اس مشکل صورت حال میں پاکستان نے دوست ممالک کے مشورے سے ایک حکمت عملی اختیار کر کے امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنے کے لئے راستہ اور جگہ فراہم کی اور یوں امریکی بدمعاش اس جال میں ایسے پھنسے کہ اب راہ فرار کے لئے پاکستان اور طالبان کی منتیں کر رہے ہیں اور انہیں اپنی نام نہاد عزت بچانا مشکل ہو رہا ہے ۔
اب دشمن امریکہ و اتحادی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے (امریکہ اور ناٹوکو) دھوکہ دیا ، مروادیا اوراب وہ پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں بلوچستان اور کراچی کے حالات اس بات کے گواہ ہیں لیکن ہمارے چند جذباتی اور ظاہر بین جوشیلے بھائی (جو نہ تو جنگی حربوں کو سمجھتے ہیں اور نہ دینی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ) اس بات پر ناراض ہیں اور نادانستگی میں امریکی اور بھارتی عزائم کی تکمیل کررہے ہیں ۔
افغان کوئٹہ شوری ،حقانی گروپ،اور اسامہ بن لادن کی پاکستان کے حساس ترین علاقوں میں موجودگی،کیا یہ بات ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ پاکستان کا اس جنگ میں حقیقی کردار کیا رہا ہے ۔۔؟؟
گوریلا جنگ کو سمجھنے والے لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ گوریلا جنگ کی کامیابی کے لئے ایک بیس کیمپ کی ضرورت ہوتی ہے جہاں یہ گوریلا ٹریننگ لے سکیں ،علاج ومعالجہ کروا سکیں اور آرام کرسکیں ۔اس بیس کیمپ کے بغیر گوریلا وار جیتنا ناممکن ہے ۔
پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے روس کے خلاف افغان مجاہدین کی سب سے زیادہ مدد کی تھی افغانستان میں طالبان حکومت بنوانے ،اسے سب سے پہلے تسلیم کرنے ،پاکستان میں سفارت خانے بنانے اور دنیا بھر میں رابطہ قائم کرنے کی سہولت پاکستان نے ہی دی تھی ۔اور اب بھی وہ افغان مجاہدین کا خفیہ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔
کفر سے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں تعاون یقینا ًایک سنگین جرم ہے اور یہ کام انسان کو کبیرہ گناہ سے کفروارتداد تک لے جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۱ میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے متفقہ طور پر حکومت کو اس مسئلے پر خبردارکرنے اور اس معاملے کی سنگینی سے ڈرانے کی کوشش کی تھا اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی خفیہ منصوبوں ( پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اسلامی و جہادی تشخص کو تباہ کرنا ) کے بارے میں خبردار کیا۔
لیکن ایک طرف تو سہمے اور ڈرے ہوئے بزدل حکمران مجبوری کی گردان کرتے نظر آئے تو دوسری طرف ،ہمارے کچھ نا سمجھ و نادان ، دینی علوم سے بے بہرہ یا سطحی علم رکھنے والے ، زمینی حقائق سے بے خبر افراد، اس کمزوری اور خوف زدہ تعاون کو صرف کفر اکبر اورارتدا د کے زمرے میں ڈالنے پر اصرار کرتےنظر آئے۔ حالانکہ کہ کفر سے تعاون ، کبیرہ گناہ بھی ہےاور کفر اکبر بھی ، جو کہ بہت سے اصول و ضوابط اور حالات کے صحیح علم اور تعاون کرنے والے کی حقیقی کیفیت کے علم کا متقاضی ہے۔
یہیں پر بس نہیں !
بلکہ غلو کا شکار یہ لوگ اس نظریہ کی بنیاد پر پاکستان میں باقاعدہ ’’قتال و جہاد‘‘ کا نعرہ لگانے لگے. پاکستان کو دارالحرب قرار دے دیا اور مسلمان معاشرے کو حکمرانوں کی نا اہلی اور جہالت کی سزا دینا شروع کر دی۔ امن تباہ ہوا ،مسجدیں پامال ہوئیں, بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں اور لوگ جہاد جیسی عظیم عبادت سے ڈرنے اور گھبرانے لگے (حالانکہ اگر یہ حقیقی جہاد ہوتا تو جو اثرات پاکستانی مسلمانوں پرمرتب ہوئے، یہ مسلمانوں کی بجائے امریکہ و ناٹو اور مشرکین ہند پر نظر آنے چاہئیں تھے)۔
ذرا سوچئے !
جو نقشہ اس وقت بن چکا ہے اور حالات دن بدن کھلتے جا رہے ہیں ، ان حالات میں کفروارتداد کے فتوے لگانا ، ملک میں دھماکے اور مسلح کاروائیوں سے اسلامیان پاکستان کو(دانستہ و غیر دانستہ) خون میں نہلانا ،کیسا جہاد اورکہاں کی دینداری ہے ؟
ان مشکل ترین حالات میں دشمن کو للکارنے کی بجائے اس کے دیرینہ عزائم(پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اسلامی و جہادی تشخص کو تباہ کرنا) کی تکمیل کا موقع فراہم کرنا کہا ں کی اسلام دوستی اور کیسی دانشمندی ہے ؟
روس کے خلاف افغان مجاہدین کی جتنی مدد پاکستان نے کی تھی ( اب تک لاکھوں افغان ،پاکستان میں پناہ گزیں ہیں )اس کی مثال موجودہ دور میں کہیں نہیں ملتی ، روس نے بھی اپنا بدلہ اور انتقام لینے کے لئے پاکستان میں تخریب کاری کروائی تھی اور اب امریکہ بھی (اپنے ایجنٹوں کے ہاتھوں ) یہی کام کروارہا ہے لیکن ہمارے بھولے بھالے بھائی ان چالوں اور سازشوں کو سمجھنے سے قاصرہیں ۔اللہ تعالیٰ انہیں درست بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
الشیخ ابو عمیر السلفی حفظہ اللہ تعالیٰ
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
شیخ امین اللہ کا امریکہ سے تعاون کے متعلق فتویٰ
فضیلۃ الشیخ مفتی امین اللہ پشاوری ﷾لکھتے ہیں:
(وَنَحْنُ نُفْتِي الْآنَ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَحُسْنِ تَوْفِیقِہٖ:أَنَّ مَنْ سَاعَدَ الأَمْرِیکَانَ وَأَعَانَھُمْ وَدَافَعَ عَنْھُمْ:فَھُمْ کُفَارٌ مِّثْلُھُمْ،بَلْ ھُمْ أَشَدُّ کُفْرًا مِّنْھُمْ لِنِفَاقِھِمْ وَارْتِدَادھھِمْ عَنِ الْاسْلَامِ.وَلأَِنَّ الْا َٔمْرِیکَانَ عُمْیَانٌ،وَھٰؤُلَاءِ عُیُونُھُمْ. فَتَفَکَّرْ اِنْ کُنْتَ غَیُّورًا عَلٰی دِینِ اللّٰہ ِ تَعَالٰی.وَلَا تَنْظُرْ اِلٰی تَشْکِیکِ الْمُشَکِّکِینَ. وَلَسْنَا مُتَفَرِّدِینَ فِي ھٰذَا الْفَتْوٰی بَلْ کُلُّ عَالِمٍ سَلَفِيٍّ أَوْ حَنَفِيٍّ یَّخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی فَاِنَّہٗ یُفْتِي بِذٰلِکَ)
''ہم اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے اب یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ جو کوئی بھی امریکیوں کی مدد و معاونت اور ان کی حمایت کرے گا تو وہ انھی کی طرح کافر ہو جائے گا، بلکہ ایسے لوگوں کا کفر اپنے نفاق اور دین اسلام سے مرتد ہوجانے کی بنا پر،ان اصلی کافروں کی نسبت زیادہ سخت ہو گا۔کیونکہ امریکی تو اندھے ہیں اور یہ (ان کے کلمہ گو معاونین)ان کی آنکھیں، یعنی جاسوس ہیں۔اگر تم اللہ کے دین پر غیرت رکھتے ہو تو غورو فکر سے کام لو اور شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کے شبہات کی طرف مت دیکھو،نیز ہم یہ فتویٰ دینے میں منفرد اور اکیلے نہیں ہیں بلکہ اللہ سے ڈرنے والا ہر سلفی اور حنفی عالم یہ فتویٰ دیتا ہے۔''

شیخ آخر میں تحریر فرماتے ہیں:
(أَقُولُ:وَیَکْفِي لِلْمُسْلِمِ الْغَیُّورِ آیَةٌ وَّاحِدَة ،وَالْقُرْآنُ کِتَابٌ غَیُّورٌ،لَا یَفْھَمُہٗ اِلَّا الْغَیُّورِینَ عَلٰی دِینِ اللّٰہِ.وَاِذَا لَمْ یَکُنِ الْوُقُوفُ وَالنُّصْرَةُ لِلْکُفَّارِ الْحَرْبِیِّینَ ضِدَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُجَاھِدِینَ کُفْرًا وِّرِدَّةً،فَأَيُّ شَيْئٍ الْکُفْرُ وَالرِّدَّةُ حِینَئِذٍ؟وَاِذَا لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ کُفْرًا، فَلَا کُفْرَ فِي الدُّنْیَا.وَقَدْ أَعْمَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ أَبْصَارَ بَعْضِ مَنْ یَّدَّعِي الْعِلْمَ بِأَنَّ ذٰلِکَ لَیْسَ کُفْرًا؟وَأَنْتَ أَیُّھَا الْقَارِیُٔ!اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ الصَّادِقِینَ الْغَیُّورِینَ عَلٰی دِینِ اللّٰہِ تَعَالٰی،لَعَلِمْتَ أَنَّ کُفْرَ النَّاصِرِینَ لِھٰؤُلَاءِالْکُفَّارِ کُفْرٌ بَوَاحٌ لَّا شَکَّ وَلَا مِرْیَةَ فِیہِ.وَنَسْأَلُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَةَ)
''میں کہتا ہوں غیرت مند مسلمان کے لیے تو ایک آیت ہی کافی ہوتی ہے،کیونکہ قرآن غیرت والی کتاب ہے،اسے صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اللہ کے دین پر غیرت رکھتے ہیں۔اگر مجاہدین اور مسلمانوں کے خلاف حربی کافروں کی مدد و نصرت اور ان کی صف میں کھڑا ہونا کفر و ارتداد نہیں تو پھر کفر و ارتداد کس چیز کا نام ہے؟ اگر یہ کفر نہیں تو پھر دنیا میں کوئی بھی کفر نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بعض علم کے دعویداروں کو اندھا کر دیا ہے،جو کہتے ہیں کہ یہ کفر نہیں ہے؟ اے قاری!اگر تو سچے مومنین اور اللہ کے دین کی غیرت رکھنے والوں میں سے ہے، تو جان لے ان کافروں کی مدد کرنے والوں کا کفر بلا شک و شبہ کفربواح ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے معافی اور عافیت مانگتے ہیں ۔''[1]

شیخ امین اللہ کا یہ جرات مندانہ فتویٰ مفتی مبشراحمدربانی اور جماعت الدعوۃ کے ہر کارکن کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے!اس کے باوجود اگر کوئی کہتا ہے کہ ''کن علماء سے سنا ہے کہ یہ کافر ہیں، کوئی پتہ نہیں'' تو پھر ہم ایسے لوگوں کے بارے میں یہی آیت پڑھنا پسند کریں گے:
﴿فَإِنَّهَا لا تَعْمَى الأبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ™﴾
''بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ اندھے تو وہ دل ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔''
ہم نے تو دل جلا کے سرِ بام رکھ دیا​
اب جس کے دل میں آئے وہی پائے روشنی​
[1] فتاوی الدین الخالص:225-229/9.
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ارے میرے بھائی یہ ناپسند کیوں؟ یہ تحریر بھی فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی ہی ہے۔شیخ کی تحریروں میں سے کچھ پسند اور کچھ ناپسند اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو آپ کو پسند لگے وہ صحیح اور شیخ کی جو تحریر آپ کی خواہشات یا پہلے سے مقرر شدہ نظریہ کی مخالفت کرتی ہو تو وہ ناپسند ۔ بہت خوب نظریہ ہے یہ آپ کا۔
 

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
ارے میرے بھائی یہ ناپسند کیوں؟ یہ تحریر بھی فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی ہی ہے۔شیخ کی تحریروں میں سے کچھ پسند اور کچھ ناپسند اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو آپ کو پسند لگے وہ صحیح اور شیخ کی جو تحریر آپ کی خواہشات یا پہلے سے مقرر شدہ نظریہ کی مخالفت کرتی ہو تو وہ ناپسند ۔ بہت خوب نظریہ ہے یہ آپ کا۔
 

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
ارے میرے بھائی یہ ناپسند کیوں؟ یہ تحریر بھی فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی ہی ہے۔شیخ کی تحریروں میں سے کچھ پسند اور کچھ ناپسند اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو آپ کو پسند لگے وہ صحیح اور شیخ کی جو تحریر آپ کی خواہشات یا پہلے سے مقرر شدہ نظریہ کی مخالفت کرتی ہو تو وہ ناپسند ۔ بہت خوب نظریہ ہے یہ آپ کا۔
آپ مسلمانوں کی مرتدی نما فتاوی ہی کیوں ڈھونڈتے ہیں؟ حسن ظن کیا ختم ہو گیا ہے امت مسلمہ میں؟
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
آپ مسلمانوں کی مرتدی نما فتاوی ہی کیوں ڈھونڈتے ہیں؟ حسن ظن کیا ختم ہو گیا ہے امت مسلمہ میں؟
ماشاء اللہ بہت وقت ہے آپ کے پاس دوسروں کے جوابات کی بھی ذمہ داری آپ نے اپنے کاندھے پر اٹھائی ہوئی ہے۔وہاں آپ کے پاس وقت نہیں تھا۔یہاں وقت ہے۔عجیب دوہری صورتحال ہے۔
دوسری بات یہ کہ آپ نے فتویٰ کے مندرجات کے خلاف کچھ نہیں لکھا ۔اس کا مطلب ہے آپ فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے فتوے کے خلاف دلائل نہیں رکھتے۔ بلکہ آپ نے اس کا جواب دینے کے بجائے حسن ظن کی بات کی ہے۔جو کہ نہایت ہی عجیب بات ہے۔آپ کا کہنا کہ ’’مسلمانوں کی مرتدی نما فتاوی‘‘ یہ اہل ارجاء کے فقہ کی نئی اصطلاح معلوم ہوتی ہے۔ میں آپ کو ایک بار پھر فضیلۃ الشیخ امین اللہ کے فتوے پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہوں:
فضیلۃ الشیخ مفتی امین اللہ پشاوری ﷾لکھتے ہیں:
(وَنَحْنُ نُفْتِي الْآنَ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَحُسْنِ تَوْفِیقِہٖ:أَنَّ مَنْ سَاعَدَ الأَمْرِیکَانَ وَأَعَانَھُمْ وَدَافَعَ عَنْھُمْ:فَھُمْ کُفَارٌ مِّثْلُھُمْ،بَلْ ھُمْ أَشَدُّ کُفْرًا مِّنْھُمْ لِنِفَاقِھِمْ وَارْتِدَادھھِمْ عَنِ الْاسْلَامِ.وَلأَِنَّ الْا َٔمْرِیکَانَ عُمْیَانٌ،وَھٰؤُلَاءِ عُیُونُھُمْ. فَتَفَکَّرْ اِنْ کُنْتَ غَیُّورًا عَلٰی دِینِ اللّٰہ ِ تَعَالٰی.وَلَا تَنْظُرْ اِلٰی تَشْکِیکِ الْمُشَکِّکِینَ. وَلَسْنَا مُتَفَرِّدِینَ فِي ھٰذَا الْفَتْوٰی بَلْ کُلُّ عَالِمٍ سَلَفِيٍّ أَوْ حَنَفِيٍّ یَّخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی فَاِنَّہٗ یُفْتِي بِذٰلِکَ)
''ہم اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے اب یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ جو کوئی بھی امریکیوں کی مدد و معاونت اور ان کی حمایت کرے گا تو وہ انھی کی طرح کافر ہو جائے گا، بلکہ ایسے لوگوں کا کفر اپنے نفاق اور دین اسلام سے مرتد ہوجانے کی بنا پر،ان اصلی کافروں کی نسبت زیادہ سخت ہو گا۔کیونکہ امریکی تو اندھے ہیں اور یہ (ان کے کلمہ گو معاونین)ان کی آنکھیں، یعنی جاسوس ہیں۔اگر تم اللہ کے دین پر غیرت رکھتے ہو تو غورو فکر سے کام لو اور شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کے شبہات کی طرف مت دیکھو،نیز ہم یہ فتویٰ دینے میں منفرد اور اکیلے نہیں ہیں بلکہ اللہ سے ڈرنے والا ہر سلفی اور حنفی عالم یہ فتویٰ دیتا ہے۔''
شیخ آخر میں تحریر فرماتے ہیں:
(أَقُولُ:وَیَکْفِي لِلْمُسْلِمِ الْغَیُّورِ آیَةٌ وَّاحِدَة ،وَالْقُرْآنُ کِتَابٌ غَیُّورٌ،لَا یَفْھَمُہٗ اِلَّا الْغَیُّورِینَ عَلٰی دِینِ اللّٰہِ.وَاِذَا لَمْ یَکُنِ الْوُقُوفُ وَالنُّصْرَةُ لِلْکُفَّارِ الْحَرْبِیِّینَ ضِدَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُجَاھِدِینَ کُفْرًا وِّرِدَّةً،فَأَيُّ شَيْئٍ الْکُفْرُ وَالرِّدَّةُ حِینَئِذٍ؟وَاِذَا لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ کُفْرًا، فَلَا کُفْرَ فِي الدُّنْیَا.وَقَدْ أَعْمَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ أَبْصَارَ بَعْضِ مَنْ یَّدَّعِي الْعِلْمَ بِأَنَّ ذٰلِکَ لَیْسَ کُفْرًا؟وَأَنْتَ أَیُّھَا الْقَارِیُٔ!اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ الصَّادِقِینَ الْغَیُّورِینَ عَلٰی دِینِ اللّٰہِ تَعَالٰی،لَعَلِمْتَ أَنَّ کُفْرَ النَّاصِرِینَ لِھٰؤُلَاءِالْکُفَّارِ کُفْرٌ بَوَاحٌ لَّا شَکَّ وَلَا مِرْیَةَ فِیہِ.وَنَسْأَلُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَةَ)
''میں کہتا ہوں غیرت مند مسلمان کے لیے تو ایک آیت ہی کافی ہوتی ہے،کیونکہ قرآن غیرت والی کتاب ہے،اسے صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اللہ کے دین پر غیرت رکھتے ہیں۔اگر مجاہدین اور مسلمانوں کے خلاف حربی کافروں کی مدد و نصرت اور ان کی صف میں کھڑا ہونا کفر و ارتداد نہیں تو پھر کفر و ارتداد کس چیز کا نام ہے؟ اگر یہ کفر نہیں تو پھر دنیا میں کوئی بھی کفر نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بعض علم کے دعویداروں کو اندھا کر دیا ہے،جو کہتے ہیں کہ یہ کفر نہیں ہے؟ اے قاری!اگر تو سچے مومنین اور اللہ کے دین کی غیرت رکھنے والوں میں سے ہے، تو جان لے ان کافروں کی مدد کرنے والوں کا کفر بلا شک و شبہ کفربواح ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے معافی اور عافیت مانگتے ہیں ۔''[1]
شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے تو یہی لکھا ہے کہ جو شخص بھی امریکیوں کی مددومعاونت اور حمایت کرے تو وہ انہی کی طرح کافر ہوجائے گا۔میرے بھائی یہ تو شریعت کا معاملہ ہے جسے کھول کر نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ایک عالم دین کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ جس کو فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے نہایت ہی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔تاکہ مسلمان اس سلسلے میں کسی قسم کے التباس کا شکار نہ ہونے پائیں اور شریعت اسلامیہ کا صحیح علم ان تک پہنچ جائے۔کیونکہ یہ مسلمانوں کے عقیدہ کا معاملہ ہے۔ یہ کفر اور اسلام کا مسئلہ ہے ۔ جو کہ ایک مسلمان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔اب آپ کس طرح کا حسن ظن چاہتے ہیں اور کس کے لئے چاہتے ہیں؟ان حکمرانوں کے لئے جنہوں نے امریکیوں کی مدد ومعاونت اور حمایت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ تو اس معاملے میں آپ کون سا حسن ظن تلاش کررہے ہیں۔ آپ کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص عقیدہ الولاء و البراء کے عقیدے کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔اور اس عقیدے سے انحراف کی بناء پر کفر میں داخل ہوچکا ہے تو ہم ایسے شخص کے بارے میں کیا حسن ظن رکھیں؟؟؟اس طرح تو ایک بت پوجنے والے اور علی ہجویری کی قبر پر سجدہ کرنے والے کے بارے میں بھی کہا جائے گا کہ ان کے بارے میں بھی حسن ظن رکھنا چاہیئے ۔اس طرح تو دین اسلام کی روح ختم ہوجائے گی ۔ عقیدہ توحید کی دیوار مسمار ہوجائے گی۔ہر وہ شخص جو مسلمانوں کے مقابلے پر امریکیوں کی مدد کرتا ہو ہم اس کے بارے میں حسن ظن رکھیں کہ یہ مومن ہے یہ عجیب بات ہے۔اس نظریہ کو اہل علم میں سے کوئی بھی قائل نہیں ہے۔سوائے اہل ارجاء اور جہم بن صفوان کے پیروکاروں کے۔
 
Top