شکاری آن لائن
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 04، 2012
- پیغامات
- 6
- ری ایکشن اسکور
- 28
- پوائنٹ
- 0
"پاکستان میں جہاد جائز نہیں ہے" شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کا فتویٰ
اکثر لوگ الشیخ سے پاکستان میں تکفیر و تفجیر کے بارے سوالات کرتے رہتے ہیں ، اور شیخ کے بارے بہت سی باتیں منسوب کر کے پاکستان میں فساد و فتنہ کی دلیلیں گھڑتے ہیں۔ الشیخ نے اس مسئلہ "جہاد پاکستان "کی حیثیت پر کافی و شافی جواب پیش فرما کر اہل شر و فتنہ کی قلعی کھول دی ہے۔
الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کا وہ جواب ہم پوری دیانداری سے من و عن آپ کے سامنے پیش فرما رہے ہیں۔ اللہ الشیخ کی حفاظت فرمائے اور ان کی یہ نیکی قبول فرمائے۔ آمین
شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ فرماتےہیں :
جزاک اللہ خیراالجواب :
مجاہدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے خلاف زیادہ محاذ نہ کھولیں جن کو بعد میں مال وافراد کے باوجودختم کرنا ممکن نہ ہوگا جیساکہ ہم مقدمہ میں بیان کر آئیں ہیں :
1- جہاد میں سب سے پہلے اھم فالاھم (جو زیادہ اہمیت والا ہو پہلے پھر اس سے کم پھر اس سے کم ) مقدم ہونا چاہیے ہمارے موجودہ زمانے میں امریکہ کفر کا سر غنہ ہے اور دیگر طواغیت اس کے حاشیہ بردار اور پر ہیں جب ہم کفر کا سرکاٹ دیں گے تو اللہ کی مشیت سے یہ حاشیہ بردار خود بخود ختم ہو جائیں گے
جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ ہرمزان فارسی جب مسلمان ہو گیا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فارس سے لڑائی کے سلسلے میں اس سے مشورہ کیا تین مقام (فارس،اصفہان ،اذربائیجان ) میں کہاں سے لڑائی شروع کی جائے،
اس نےکہا :
مسلمانوں کے دشمنوں کی مثال ایک پرندے کی ہے جس کا ایک سر دو پاؤں اور دوبازو ہوں اگر ایک بازو توڑ ڈالیں تو وہ پرندہ دونوں پاؤں اور ایک بازو اور سر سے حرکت کرے گا دوسرا بازو توڑیں تو بھی ایسا ہیں ہوگا البتہ اگر سر کچل دیا جائے نہ پاؤں کچھ کام کے رہیں گے نہ بازو نہ سر تو دیکھیے ان دشمنوں کاسر کسریٰ ہے (بادشاہ ایران ) اور ایک بازو قیصر ہے بادشاہ روم دوسرا بازو فارس ہے۔
[صحیح بخاری، کتاب الجہاد،باب الجزیۃ الموادعۃمع اہل الحرب ،ص:447،ج: 1]اس طرح جب کفر کا سر (امریکہ ) کٹ جائے گا تو پروں کو کاٹنا ان شاءاللہ آسان ہو جائے گا ۔2- اور اس لئے بھی کہ یہ طواغیت عوام کیا اکثر علماءکے ذہنوں میں مسلمان شمار ہوتے ہیں ،تو مجاہدین کیسے ان کے خلاف جہاد کر سکتے ہیں لہذا ضروری ہےکہ ایسے وسائل بروئےکار لائے جائیں جو اس مسئلہ کو تحقیق ودقیق کے ساتھ پھیلائیں اور مخلص علماء لوگوں کے ذہن کھولیں اور اس کےلئے ارتداد کے اسباب اور نواقض ایمان بیان کریں جس وقت ان کے دل اس چیز کو قبول کر لیں گے اس سے جہاد کا معاملہ آسان ہوجائے گا ۔3- اسی طرح وہ مصلحت جس کی وجہ سے نبی ﷺ نے منافقین سے جہاد نہیں کیا تھا کہ عرب لوگ کہیں گے محمدﷺ اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر رہا ہے،یہ مصلحت بھی یہاں موجود ہو تو یہاں سے قتال مؤخر کرنا ہی مناسب ہے ،مثلاًاگر مجاہدین ان لوگوں سے قتال شروع کر دیتے ہیں جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ ان میں نواقض اسلام بھی پائے جاتے ہیں تمام عالمِ کفر واسلام میں یہ بات مشہور ہوجائے گی مجاہدین مسلمانوں سے قتال کر رہے ہیں اور یہ بات بھی معلوم ہی ہے کفار اس بات کوبہت بڑھاچڑھا کر پیش کریں گے وہ صرف کفار جانوروں (عوام) کے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں عوام کے ذہن بھی خراب کریں گے پس مصلحت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔4-اور اس لئے بھی کہ یہ جہاد درست نہیں ،دیار مغرب کے کفار کے اہم مقاصد میں سے یہ بات شامل ہے کہ اس حکومت جس کو اسلامی حکومت کہا جاتاہے اس کو (ان سے )ٹکرا دو تا کہ وہ حکومتیں اس جہاد ،مجاہدین ،علماء، مدارس اور داعی حضرات ختم کردیں اور ان کافروں کو ان کے ملکوں میں آزادی دی جائے ۔5-اور اس لئے بھی یہ جہاد درست نہیں کیونکہ ان طواغیت سے قتال اصل کافروں کےلئے بہت فائدہ مندثابت ہو گا تو کسی بھی صاحب بصیرت اور صاحب عقل وشعور رکھنے والے کےلئے جائز نہیں کہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ ان کفار کا آلہ کار بنے ۔6-اور یہ قتال اس لئے بھی صحیح نہیں کیونکہ اگر مجاہدین ان طواغیت سے قتال کی ابتداء کریں گے تو کفرکا سرغنہ باقی رہے گا جو زمین میں فساد مچائے گا اوراللہ کے بندوں اوراللہ کے شہروں پر ظلم کرے گا جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔7-اور اس لئے بھی یہ جہاد مناسب نہیں کیونکہ مجاہدین کی کوئی پناہ گاہ اور چھاؤنی ہونی چاہیے جہاں وہ پناہ لے سکیں اس کے بغیر گزارہ نہیں کیونکہ جہاد کوئی آسان کام نہیں اور نہ ایک آدھ دن کا کام ہے تواس کے لئے کوئی ٹھکانہ ،پناہ گاہ ،کمین گاہ ،چھاؤنی ہونا ضروری ہے توجب مجاہدین پر جگہ ان سے قتال کرتے ہوئے اس چیز کو کھو بیٹھیں گے تو وہ کفار سے قتال کیسے کریں گے اور کیسے ان سے بچیں گے ۔8-اور ایسے خطوں میں جہاد اس لئے بھی درست نہیں کہ کفار تو ایسے موقعوں کو غنیمت سمجھتے ہیں توا ن مجاہدین کے بارے ان ذمہ داروں کے ہاں سازشیں تیار کرتے ہیں اور جہاد اسلامی کے خلاف شبہات پیداکرتےہیں اور اہل ایمان پر مختلف قسم کی تہمتیں لگاتےہیں حتیٰ کہ مخلص مسلمان بھی اپنے اکابرین ،علماء اوار اہل خیر کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اوریہ عملی تجربہ ہے ۔اور یاد رکھیے گا!! جہاد کوئی جلد بازی والا معاملہ نہیں جس میں عجلت سےکام لیا جائے بلکہ اس میں اتفاق ومحبت ، مشورہ ،غوروفکر اور نبیﷺ کی سیرت وصحابہ کرام کی سیاست کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ ہمارےاس اہم کام میں کوئی بڑی خرابی پیدا نہ ہو اور ہم تنقید کرنے والوں کا نشانہ نہ بن جائیں ۔9-اور اس لئے بھی یہ جہاد صحیح نہیں کہ یہ مجاہدین میں اختلاف کا سبب بنے گا ان میں بعض کہیں گے کہ ہم یہاں جہاد کریں گے اور بعض کہیں گے کہ نہیں !ہم امریکہ کے خلاف جہاد کریں گے اور بعض کہیں گے نہیں ! ہم فلاں سے جہاد کریں گے اس وجہ سے بہت بڑا اختلاف وگروہ بندی پیدا ہوجائیگی جس کے نتائج تباہ کن ہوں گے اورجو کچھ ہم لکھ رہے ہیں وہ ہمارے تجربے میں ہے ۔
واللہ المستعان وعلیہ التکلان(فتاویٰ الدین الخالص،ص:207،208،ج:9)