• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان میں مروج توہمات

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
پاکستان میں مروج توہمات

مذہبی توہمات

مہینوں کے بارے میں توہمات

1.صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا:
صفر کے مہینے کو لوگ عام طور پر منحوس سمجھتے ہیں۔ اس مہینے میں شادی کرنا، سفر کرنا اور دیگر امور کو انجام دینا منحوس سمجھا جاتا ہے۔
مجالس الابرار میں اسی بات کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ہے:
’’آج کل اکثر لوگ ا س مہینے کو منحوس جانتے ہیں اور بسا اوقات اس مہینے میں سفر اور نکاح اور اسی طرح اور کام کرنے سے باز رہتے ہیں۔‘‘(مجال الابرار از شيخ احمد رومی : ص 352)
فتاوی حقانیہ میں صفر کے مہینے کے بارے میں کچھ یوں ہے:
’’ کچھ لوگ ماہ صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دن رسول الله ﷺ کو مرض سے شفا ہوئی تھی اور اسی دن بلائیں اوپر چلی جاتی ہیں۔‘‘(فتاوی حقانیہ از مولانا عبد الحق : 2/84)
مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
’’جاہل عورتیں صفر کو تیرہ تیزی کہتی ہیں اور اس مہینے کو نا مبارک جانتے ہیں اور اس میں شادی کرنا منحوس سمجھتی ہیں۔(اشرفی بہشتی زیور از مولانا اشرف علی تھانوی :ص 55)
Many people have erroneous beliefs regarding this month i.e. it is month of misfortune and calamities. A Nikah performed in this months would not be successful. This month is full of misfortune and calamities to commence any important venture, business etc during this month will bring bad luck. The first to thirteenth of suffer is ill fortune and evil.
2. ر جب کے کونڈے
22 رجب كو كونڈے پکائے جاتے ہیں اور لوگ جوق در جوق سج سنور کر کونڈے کھائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اس فعل کو بہت خیر اور نیکی کا عمل گردانتے ہیں۔
اس سلسلے میں حافظ ثناء اللہ مدنی اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں:
’’ 22 رجب کے کونڈوں کےسلسلے میں ایک جعلی فرضی سر بے بنیاد حکایت بیان کی جاتی ہے جس کو منشی احمد جمیل نے اپنے منظوم کلام میں بڑے مزے لے کر بیان کیا ہے کہ مدینہ میں ایک لکڑ ہارے کو فقبر وفاقہ نے آ گھیرا اور وہ گھر بار کو خیر باد کہہ کر مارے مصیبت کے بارہ سال تک در در کی ٹھوکریں کھاتا رہا دوسری طرف اس کی بیوی نے مدینہ میں ایک وزیر محل میں ملازمت اختیار کر لی ایک روز یہاں محل کے سامنے سے حضرت جعفر صادق کا اپنے مصاحبوں کے ہمراہ گزر ہوا۔ اس وقت یہ عورت جھاڑو دے رہی تھی دریافت فرماتے ہیں کہ آج کونسی تاریخ ہے عرض کیا جاتا ہے کہ رجب کی بائیسویں تاریخ ہے فرمایا اگر کسی حاجت مند کی حاجت پوری نہ ہوئی ہو ، مشکل میں پھنسا ہوا ہو مشکل کشائی نہ ہو رہی ہو تو اس کو چاہیے کہ نئے کونڈے لائے اور ان میں پوریاں بھر کر میری فاتحہ پڑھے اور پھر میرے وسیلے سے دعا مانگے اگر اس کی حاجت روائی اور مشکل کشائی نہ ہوئی ہو وہ قیامت کےدن میرا دامن پکڑ سکتا ہے۔ مذکورہ عورت نے اس کے مطابق عمل کیا اس کے نتیجہ میں خاوند ایک مدفون خزانہ لے کر واپس آ گیا فقر وفاقہ کے دن امیرانہ ٹھاٹھ میں بدل گئے۔‘‘(فتاوی ثنائیہ از حافظ ثناءاللہ مدنی :1/ 616)
مولانا اشرف علی تھانوی رجب کے مہینے کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات بتاتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’ اس کو عام لوگ مریم روزہ کا چاند کہتے ہیں اور اس کی ستائیس تاریخ میں روزہ رکھنے کو اچھا سمجھتے ہیں کہ ایک ہزار روزوں کا ثواب ملتا ہے شرع میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ بعض جگہ اس مہینے میں متبرک کی روٹیاں پکتی ہیں یہ بھی گھڑی ہوئی بات ہے۔‘‘( اشرفی بہشتی زیور از مولانا اشرف علی تھانوی :ص 51)
فتاوی محمودیہ میں ہے کہ
’’ سات ماہ کی حاملہ عورت کو سرخ کپڑوں سے آراستہ کر کے اس کے سامنے کونڈے میں چاول ابال کر رکھتے ہیں۔ چراغ روشن کرتے ہیں اور عورت کو کعبہ کی طرف منہ کر چوکی پر بٹھا کر گود میں پھول وغیرہ رکھ دیتے ہیں احباب دوستوں کو دعوت دیتے ہیں۔(فتاوی محمودیہ از مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی :ص 285)
ايسا عورت اور بچے کی صحت کے لئے اور عمر کی بڑھوتری کے لئے کیا جاتا ہے اور کونڈے کے چاولوں کو بہت متبر ک سمجھ کر کھایا جاتا ہے۔
محرم کے مہینے کو منحوس سمجھنا:
ماه محرم كى سلسلے میں لوگ بہت زیادہ توہم پرستی کا شکار ہیں۔ اگر توہم پرستی کا کوئی منہ بولتا ثبوت چاہیے تو ماہ محرم پر غور وفکر کر لیا جائے۔
ظہور احمد قرشی اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں:
’’ محرم کے دنوں میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہےتو اسے منحوس سمجھا جاتا ہے شادی بیاہ کو اس مہینے میں ممنوع قرار دیا جاتا ہے اور نئے دلہا دلہن کو آپس میں ملنے نہیں دیا جاتا۔‘‘(آؤ محرم كي حقيقت تلاش کریں از ظہور احمد قرشی :ص 8)
فتاوی حقانیہ میں ہے:
’’بعض لوگ محرم الحرام میں شادی بیاہ کرنے کو ناجائز سمجھتے ہیں اور اس ماہ کوغم او رعصائب کا مہینہ کہتے ہیں۔‘‘(فتاوی حقانیہ از مولانا عبد الحق :ص 94)
فتاوی بینات میں ہے:
’’ صفر الخیر کے آخری بدھ کے متعلق مشہور ہے کہ اس روز آپ ﷺنے مرض سے صحت پائی تھی لوگ اس خوشی میں کھانا اور شیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اور سیر کو جاتے ہیں۔‘‘( فتاوی بینات ، مجلس دعوت وتحقیق اسلامی :ص 558)
محرم کے دنوں میں عام طور پر سیاہ لباس پہنا جاتا ہے۔ نصف ایمان کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا ہے یعنی کہ نہانا محرم میں گناہ کی علامت سمجھا جاتا ہے اسی طرح کنگھی کرنا، آنکھوں میں سرمہ ڈالنا اور کپڑے دھونا محرم میں باعث گناہ سمجھا جاتا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
’’ محرم کے دنوں میں ارادہ کر کے رنگین کپڑے پہننا چھوڑ دینا اور لوگ اور ماتم کی وضع عانا اور اپنے بچوں کو خاص طور کے کپڑے پہنانا یہ سب گناہ کی باتیں ہیں۔‘‘( اشرفی بہشتی زیور از مولانا اشرف علی تھانوی :ص 53)
ذیقعدہ:
اور اس مہینے میں شادی کرنا منحوس سمجھا جاتا ہے۔
جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی اسی امر کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ جاہل عورتیں ذیقعدہ کو خالی کا چاند کہتی ہیں اور اس میں شادی کرنا منحوس سمجھتی ہیں یہ اعتقاد بھی گناہ ہے توبہ کرنا چاہیے۔‘‘(اشرفی بہشتی زیور از مولانا اشرف علی تھانوی :ص 55)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
بہت ہی عمدہ پوسٹ ہے ماشاءاللہ۔۔۔واقعی یہ سب توہمات ہمارے یہاں خوب رائج ہیں۔ اور ہر آنے والے نئے دن کے ساتھ ان توہمات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو درست عقیدہ پر ثابت قدم رکھیں۔ آمین۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
واہ کیا زبردست پوسٹنگ کی ہے جناب۔ ماشاءاللہ
 

محمد اسلم

مبتدی
شمولیت
ستمبر 09، 2014
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18
بدعات کے خلاف امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کے فتوے
تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا ناجائز ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ تعزیہ داری میں لہو و لعب (یعنی کھیل کود یا تماشا) سمجھ کر جائے تو کیسا ہے؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ نہیں جانا چاہئے۔ ناجائز کام میں جس طرح جان و مال سے مدد کرے گا یونہی سواد (یعنی گروہ) بڑھا کر بھی مدد ہوگا‘ ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے۔ بندر نچانا حرام ہے اس کا تماشا دیکھنا بھی حرام ہے۔ در مختار و حاشیہ علامہ طحطاوی میں ان مسائل کی تصریح ہے۔ آج کل لوگ ان سے غافل ہیں‘ متقی لوگ جن کو شریعت کی احتیاط ہے ناواقفی سے ریچھ یا بندر کا تماشا یا مرغوں کی پالی (یعنی لڑائی) دیکھتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس سے گنہ گار ہوتے ہیں (ملفوظات شریف ص 286‘ مطبوعہ مکتبتہ المدینہ کراچی)
تعزیہ داری کی مذمت
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ تعزیہ داری کی تردید کس قدر صبیح و ملیح اور رواں دواں انداز فرماتے ہیں‘ اب بہار عشرہ کے ڈھول‘ تاشے‘ باجے‘ بجتے چلے‘ طرح طرح کے کھیلوں کی دھوم‘ بازاری عورتوں کا ہر طرف ہجوم‘ مشہور رانی میلوں کی پوری رسوم‘ جشن فاسقانہ یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ گویا ساختہ ڈھانچہ‘ بعینہا حضرات شہداء کرام علیہم الرضوان کے پاک جنازے میں۔
اے مومنو! اٹھو جنازہ حسین کا پڑھتے ہوئے مصنوعی کربلا پہنچے۔ وہاں کچھ نوچ اتار کر باقی (تعزیہ) توڑ تاڑ کر دفن کردیا۔ یہ ہر سال اضاعت مال (مال کا ضائع کرنا) کے جرم ووبال جداگانہ ہے (بدر الانوار فی آداب الاثار ص 26‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی ہندوستان)
مزید ارشاد فرماتے ہیں نوچندی کی بلائیں‘ مصنوعی کربلائیں‘ علم تعزیوں کے کاوے‘ تخت جریدوں کے دہارے حسین آباد عباسی درگاہ کے بلوے‘ ایسے مواقع مردوں کے جانے کے بھی نہیں‘ نہ یہ کہ نازک شیشاں (احکام شریعت) عورتوں کے لئے ’’ناک شیشاں‘‘ کہنا کس قدر نادر اور بلیغ ہے۔
مرثیہ خوانی میں شریک ہونا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ محرم کی مجالس میں مرثیہ خوانی وغیرہ ہوتی ہے‘ سننا چاہئے یا نہیں؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی کتاب ‘‘سر الشہادتین‘‘ جو عربی میں ہے وہ یا مولانا حسن رضا خان علیہ الرحمہ جو میرے مرحوم بھائی ہیں ان کی کتاب ’’آئینہ قیامت‘‘ میں صحیح روایات ہیں‘ انہیں سننا چاہئے باقی غلط روایات کے پڑھنے سے نہ پڑھنا اور نہ سننا بہت بہتر ہے۔ (ملفوظات شریف ص 293‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
محرم الحرام میں مشہور من گھڑت رسومات
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و خلیفہ مرسلین مسائل ذیل میں؟
1۔ بعض سنت جماعت عشرہ دس محرم الحرام کو نہ تو دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔
2۔ ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے ہیں۔
3۔ ماہ محرم میں شادی بیاہ نہیں کرتے ہیں۔
4۔ ان ایام میں سوائے امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہم کے کسی کی نیاز وفاتحہ نہیں دلاتے ہیں۔ آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟
جواب: پہلی تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے اور چوتھی بات جہالت ہے‘ ہر مہینہ ہر تاریخ میں ہر ولی کی نیاز اور ہر مسلمان کی فاتحہ ہوسکتی ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24‘ مطبوعہ رضا فائونڈیشن‘ ص 488)
تعزیہ پر منت ماننا ناجائز ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے تعزیہ پر جاکر یہ منت مانی کہ میں یہاں سے ایک خرما لئے جاتا ہوں‘ در صورت کام پورا ہونے کے سال آئندہ میں نقرئی خرما تیار کراکر چڑھائوں گا؟
جواب: امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ نذر محض باطل و ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24 ص 501 مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
مہندی نکالنا‘ سوز خوانی اور مجالس کا انعقاد
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت و جماعت مسائل ذیل میں:
1۔ ایصال ثواب برروح سیدنا امام حسین رضی اﷲ عنہ بروز عاشورہ جائز ہے یا نہیں؟
2۔ تعزیہ بنانا اور مہندی نکالنا اور شب عاشورہ کو روشنی کرنا جائز ہے یا نہیں؟
3۔ مجلس ذکر شہادت قائم کرنا اور اس میں مرزا دبیر اور انیس وغیرہ روافض (شیعوں) کا کلام پڑھنا بطور سوز خوانی یا تحت اللفظ جائز ہے یا نہیں اور اہلسنت کو ایسی مجالس میں شریک ہونا مکروہ ہے یا حرام یا جائز ہے؟
4۔ حضرت قاسم کی شادی کا میدان کربلا میں ہونا جس بناء پر مہندی نکالی جاتی ہے اہلسنت کے نزدیک ثابت ہے یا نہیں؟ درصورت عدم ثبوت اس واقعہ میں حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ کی صاحبزادی کی نسبت حضرت قاسم کی طرف کرنا خاندان نبوت کے ساتھ بے ادبی ہے یا نہیں؟
5۔ روز عاشورہ کو میلہ قائم کرنا اور تعزیوں کو دفن کرنا اور ان پر فاتحہ پڑھنی جائز ہے یا نہیں؟ اور بارہویں اور بیسویں صفر کو تیجہ اور دسواں اور چالیسواں اور مجالسیں قائم کرنا اور میلہ لگانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: 1۔ روح پرفتوح امام حسین رضی اﷲ عنہ کو ایصال ثواب بروجہ صواب عاشورہ اور ہر روز مستحب و مستحسن ہے۔
2۔ تعزیہ مہندی روشنی مذکور سب بدعت و ناجائز ہے
3۔ نفس ذکر شریف کی مجلس جس میں ان کے فضائل و مناقب و احادیث و روایات صحیح و معتبر ہے‘ بیان کئے جائیں اور غم پروری نہ ہو مستحسن ہے اور مرثیئے حرام خصوصا رافضیوں (شیعوں) کے کہ تبرائے ملعونہ سے کمتر خالی ہوتے ہیں‘ اہلسنت کو ایسی مجالس میں شرکت حرام ہے۔
4۔ نہ یہ شادی ثابت نہ یہ مہندی سوا اختراع اخترائی کے کوئی چیز۔ نہ یہ غلط بیانی حد خاص توہین تک بالغ
5۔ عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتا ہے‘ نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر جہل و حمق و بے معنی ہے‘ مجلسوں اور میلوں کا حال اوپر گزرا‘ نیز ایصال ثواب کا جواب کہ ہر روز محمود ہے جبکہ بروجہ جائز ہو (فتاویٰ رضویہ جدید‘ جلد 24ص 504‘ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
بت یا تعزیہ کا چڑھاوا کھانا ناجائز ہے
سوال: بت یا تعزیہ کا چڑھاوا مسلمانوں کو کھانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مسلمان کے نزدیک بت اور تعزیہ برابر نہیں ہوسکتے۔ اگرچہ تعزیہ بھی جائز نہیں‘ بت کا چڑھاوا غیر خدا کی عبادت ہے اور تعزیہ پر جو ہوتا ہے وہ حضرات شہداء کرام کی نیاز ہے‘ اگرچہ تعزیہ پر رکھنا لغو ہے‘ بت کی پوجا اور محبوبان خدا کی نیاز کیونکر برابر ہوسکتی ہے‘ اس کا کھانا (بت کا چڑھاوا) مسلمانوں کیلئے حرام ہے اور اس کا کھانا بھی نہ چاہئے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 21ص 246‘ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
شیعوں کا لنگر کھانا ناجائز ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آٹھ محرم الحرام کو روافض (شیعہ) جریدہ اٹھاتے ہیں‘ گشت کے وقت ان کو اگر کوئی اہلسنت و جماعت شربت کی سبیل لگا کر شربت پلائے یا ان کو چائے‘ بسکٹ یا کھانا کھلائے اور ان کو شمول میں کچھ اہلسنت و جماعت بھی ہوں اور کھائیں پئیں تو یہ فعل کیسا ہے اور اس سبیل وغیرہ میں چندہ دینا کیسا ہے؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ سبیل اور کھانا‘ چائے‘ بسکٹ کہ رافضیوں (شیعہ) کے مجمع کے لئے کئے جائیں جو تبرا اور لعنت کا مجمع ہے‘ ناجائز و گناہ ہیں اور ان میں چندہ دینا گناہ ہے اور ان میں شامل ہونے والوں کا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 21 ص 246‘ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
شیعوں کی مجالس میں جانا‘ نیاز کھانا سیاہ لباس حرام ہے
بعض لوگ امام احمد رضا علیہ الرحمہ اور ان کے پیروکاروں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ شیعہ حضرات کے حمایتی ہیں جبکہ اس کے برعکس امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی کتابوں میں شیعوں اور ان کے باطل عقائد کی اتنی مخالفت موجود ہے جتنی کسی اور فرقے کے پیشوا کی بھی کتابوں میں نہیں ملتی چنانچہ…
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں رافضیوں (شیعوں) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے‘ ان کی نیاز نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتاہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامت سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصا سیاہ کا شعار رافضیان (شیعوں کا طریقہ) ہے (فتاویٰ رضویہ جدید‘ جلد 23 ص 756‘ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
شیخین کے گستاخ دائرہ اسلام سے خارج ہیں
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ رافضی تبرائی جو حضرات شیخین صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما خواہ ان میں سے ایک کی شان پاک میں گستاخی کرے‘ اگرچہ صرف اسی قدر کہ انہیں امام و خلیفہ برحق نہ مانے۔ کتب معتمدہ فقہ حنفی کی تصریحات اور عامہ ائمہ ترجیح و فتویٰ کی تصحیحات پر مطلقاً کافر ہے۔ در مختار مطبوعہ مطبع ہاشمی ص 64 میں ہے۔
اگر ضروریات دین سے کسی چیز کا منکر ہو تو کافر ہے مثلا یہ کہنا کہ اﷲ تعالیٰ اجسام کے مانند جسم ہے یا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی صحابیت کا منکر ہونا (درمختار‘ باب الامامۃ‘ جلد اول ص 83‘ مطبوعہ مجتبائی دہلی)
رافضی اگر مولیٰ علی رضی اﷲ عنہ کو سب صحابہ کرام علیہم الرضوان سے افضل جانے تو بدعتی گمراہ ہے اور اگر خلافت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا منکر تو کافر ہے (خزانۃ المفتین کتاب الصلوٰۃ جلد اول ص 28)
(فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 14‘ص 250‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
یزید کو پلید لکھنا اور کہنا جائز ہے
سوال: یزید کی نسبت لفظ یزید پلید کا لکھنا یا کہنا ازروئے شریعت جائز ہے یا نہیں؟ یزید کی نسبت لفظ رحمتہ اﷲ علیہ کہنا درست ہے یا نہیں؟
الجواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ یزید بے شک پلید تھا۔ اسے پلید کہنا اور لکھنا جائز ہے اور اسے رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ نہ کہے گا مگر ناصبی کہ اہلبیت رسالت کا دشمن ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 14ص 603‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
 
Top