محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
جن ٹیلی گرامز کا حوالہ یا متن میں سے آپ نے صرف بھوپال کے ایک بائیں بازو کے کالم نگار کا انتخاب کیا ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کالم لیاقت علی خان کے امریکیوں کے ہاتھوں قتل کو (جس کی بہر حال ہم مذمت کرتے ہیں ) آپ کے نقطعہ نظر بلکہ بہت سے لوگوں کے نقطعہ نظر کے عین مطابق یک طرفہ طور پہ محب الوطن، قائد ملت اور شہید ٹھرائے جانے پہ اصرار اور لیاقت علی خان کو پارسا ثابت کرنے پہ بضد ہونے کو توانائی مہیا کرتا ہے۔ جبکہ درحقیقت یوں نہیں اور آپ بھی جانتے ہون گے کہ کیوں ۔؟ کیونکہ آپ کا مجھ پہ اسقدر سیخ پا ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ اور وہ وجوہات ہم آگے بیان کریں گے۔
آئیں پہلے ان وجوہات پہ بات کیے لیتے ہیں ۔۔
پروفیسر ضیاء الدین احمد اپنی کتاب،لیاقت علی خان بلڈر آف پاکستان۔ کے صحفہ نمر ستائیس پہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے یو پی اتر پردیش کے ساتھ گہرا تعلق ہونے کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں۔
“The family, Before settling down in Karnal in the Punjab in the 19th century, lived on the other side of the Jamna in Muzaffarnagar (U.P., India) for some generations, where they owned bigestates. Even after he settled down in Delhi, he took keen interestin the amelioratin and betterment of the Muslims of Muzaffarnagar.”
p.27 of book by Prof. Ziauddin Ahmad , Liaquat Ali Khan: builder of Pakistan
تحریکِ پاکستان کے نمایاں رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معتبر ساتھی سرادر شوکت حیات خان اپنی کتاب۔ دی نیشن دیٹ لاسٹ اٹس سول۔ کے پیج نمبر 178 پہ لیاقت علی خان کے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پہ ترجیج دینے۔ اور اتر پردیش کے لوگوں کو کراچی میں ہر قانون قاعدہ توڑتے ہوئے، محض اپنا حلقہ انتخاب بنانے کے لیے یو پی والوں کو کراچی میں بسانے کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تحریک پاکستان کے ہروال دستے کے ایک رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایک معتمد خاص ساتھی کے الفاظ ہیں۔
“He (Liaqat Ali Khan) delayed the completion of the Constitution to avoid elections which he could not win because he had no seat in Pakistan and had to be elected by East Pakistan. He, on the advice of officers belonging to the United Provinces, broke the Liaqat-Nehru Pact about the agreed areas for migration from India to Pakistan, requiring the record of property to be exchanged officially. He, quite against the agreement permitted inhabitants of UP and Rajasthan to enter via Khokhrapar – thus opening floodgates endangering the stability of the already overloaded boat of Pakistan. I objected to this in the assembly. This action of Liaqat was quite partial allowing only people from his old Province and the adjoining areas to migrate unfairly into Pakistan in rder to create a seat for himself in Karachi. The people of the rest of the India were left to stew in their own juice. This act of his created a lot of confusion with people getting allotments in Sindh, without records on each other’s dubious evidence. This led to the problems of MQM and their hatred by Sindhis. These refugees got a monopoly of jobs in the cities and deprived local Pakistanis of their rightful share. The political instability still persists.”
(Source: Page 178 from the “Nation that lost its soul”, enclosed as Vol 2.5 in
The document)
جلد نمبر 4 پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان۔ ادرارہ مطالعہ تاریخ پیج نمبر 185-187 پہ حسن جعفر زیدی، نوابزادہ لیاقت علی خان کی اصولوں سے ہٹ کر ذاتی پسند اور نا پسند کی داتی مفادات کی سیاست پہ لکھتے ہیں ۔
“Punjabi chauvinism and Liaqat Ali Khan’s favoritism was at each others throat. The fight was furious and Mr. Khan was not a gentleman either. Mr. Khan was desperate to build his political base in the newly formed state. He could go to any length to achieve his personal goals”
Political History of Pakistan, Vol. 4, edited by Hasan Jafar Zaidi, Idara-Mutala-i-Tarikh. pp 185-187
وہ مزید لکھتے ہیں ۔
Liaqat Ali Khan with nepotism, and commenting on the appointments Liaqat Ali Khan had made……….
Hashim Raza, administrator Karachi; his brother Kazim Raza, IG police; Aal-e-Raza, also brother of Hashim, Public Prosecutor; Superintendent CID; Home Secretary Punjab, all of them from UP. Liaqat Ali Khan did all this to secure his political success from Karachi at least…………
………………… The commander of army in Bengal was (you guessed it right) Maj. General Ayub Khan was from Hazar…. They never gave the respect to political leadership of Bengal either.
the Political History of Pakistan: Hasan Jafar Zaidi
لیاقت علی خان کی رقص و شراب کی محفلیں اور دلچسپیوں کے بارے میں وجاہت مسعود، لاہور سے بعنوان لیاقت علی خان کا قتل میں لیاقت علی خاں کون تھے؟ میں یوں رقم طراز ہیں۔
“شخصی زندگی میں لیاقت علی روشن خیال اور مجلسی مزاج رکھتے تھے۔ وہ رقص، شراب اور عمدہ سگرٹوں سے محظوظ ہوتے تھے مگر عوامی سطح پر ان کی سیاست مذہبی حوالوں سے بھرپور ہوتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔”
آپ نے درست لکھا ہے کہ ” ہمارے ہاں ہر دور میں ابن الوقت لوگ ہوئے ہیں” مگر تھوڑا ساچُوک گئے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے میں اُن تینوں کے علاوہ جن کے نام آپ نے لیاقت علی خان کے خلاف حوالہ کے طور پر لکھے ہیں [سردار شوکت حیات ۔ ذیاء الدین احمد ۔ حسن جعفر زیدی] اور بھی کئی مطلب پرست لوگ حصہ دار ہیں ۔ ان تین اصحاب میں سے ایک تو خاندانِ غداراں سے تعلق رکھتے ہیں کہ اُن کے جدِ امجد نے مسلمانوں کے خلاف انگریز حملہ آوروں کی مدد کی اور ہموطن مسلمانوں کے خون پر ایک ادنٰی مالی سے جاگیردار بنا ۔ اور اس شخص کی اپنی منافقت کا یہ حال کہ اس نے 1947ء میں جب کہ وہ پاکستان میں ایک بڑے بنک کا اعلٰی عہدیدار تھا پاکستان سے کُوچ کرنے والے ہندوؤں کے حسابات بھارت کے بنکوں کو منتقل کئے اور کسی ایک بھی مسلمان کا حساب اُن کی درخواستوں کے باوجود بھارت میں اپنے بنک کی شاخوں سے پاکستان منتقل نہ کیا ۔ میں لکھنا نہیں چاہتا تھا مگر آپ کی تحریر پڑھ کر ایک جھلک دکھانا ضروری ہو گیا تھا ۔ اس حقیقت کیلئے مجھے کسی حوالے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ میں اُس شخص اور اس کے خاندان کو بہت قریب سے جانتا ہوں ۔ اور میرے والد صاحب اُسے 1947ء سے جانتے تھے اور اُس کے کردار سے بھی اچھی طرح واقف تھے ۔ لیکن یہ حقائق اس لئے تاریخ کا حصہ نہیں بن سکتے کہ تاریخ صرف با اثر لوگ لکھتے ہیں یا لکھواتے ہیں ۔
آپ کیسے جانتے ہیں کہ سرادر شوکت حیات قائدِ اعظم کے معتبر ساتھی تھے ؟ یہ ایک نئی خبر ہے
آپ نے لکھا ہے
” آج اگر قابل صد احترام مہاجرین کی تین چار نسلیں گزر جانے کے باوجود بھی کراچی میں مہاجر اور غیر مہاجر کی تفریق پہ ہزاروں لوگ قتل ہونے کے باوجود بھی کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ تو اس کے پس منظر میں بھی لیاقت علی خان کی ذاتی مفادات کی پالیسیاں تھیں”
سُبحان اللہ ۔ آپ نے کہاں کی کہاں ملا دی ہے ۔ آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ مہاجر تحریک نوابزادہ لیاقت علی کی وفات کے 32 سال 5 ماہ بعد18 مارچ 1984ء کو اُن لوگوں نے شروع کی جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور جو اکثر خود یا اُن کے والدین نوابزادہ لیاقت علی کی وفات کے بعد بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ۔ اس تحریک کو سیاسی رنگ دے کر کس نے اُبھارا ہر پاکستانی جانتا ہے مگر آپ بے خبر ہیں ۔
آپ کے نزدیک نوابزادہ لیاقت علی خان ہیرو تھے جبکہ ہمارے نزدیک پاکستان کو امریکہ کے چنگل میں پھنسانے کے اول ذمہ دار لیاقت علی خان تھے۔
سردار شوکت حیات کی بیٹی کا واقعہ کا نوابزادہ لیاقت علی سے کیا تعلق ہے ؟
آپ کی اطلاع اور قارئین اکرام کی دلچسپی کے لئیے عرض ہے۔ کہ یہ وہی سردار شوکت حیات ہیں جو اُن بائیس افراد میں شامل تھے جن کی طرف سے انیس سو چوہتر میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرار داد پاکستان نیشنل اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔
Sardar Shaukat Hayat Khan, the last of the prominent Muslim League leaders
by Moin Ansari معین آنصآرّی
آپ نے جس ویب سائٹ سے Moin Ansari معین آنصآرّی کے جس مضمون کے حوالہ جات دیے ہیں وہیں مندرجہ بالا الفاظ معین آنصآرّی کے ہیں۔ب یہ تو ممکن نہیں کہ آپ اپنے موقف کی حمایت کے لیے معین آنصآرّی کے مضمون کا کچھ حصہ تو اپنے قارئین کو سنا دیں اور جو آپ کے موقف کو باطل ثابت کر اسے ماننے سے انکار کر دیں۔ بندہ یا تو پورا مسلمان ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا، یہ بیچ بیچ والی بات نہیں ہوتی کہ کچھ باتیں مانتا ہوں اور کچھ باتیں چونکہ سوٹ نہیں کرتی تو نہیں مانتا۔
آپ کو میں سردار شوکت حیات کے بارے میں پہلے بھی بتا چک ہوں پھر سے بتا دیتا ہوں کہ آپ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
Sardar Shaukat Hayat Khan (by Zubaida Khatun), born 1915, a prominent Muslim League leader and a former Pakistan M.L.A. and Minister; married 25th December 1942, and had issue. He died 1998
1946ء میں حضرت قائداعظم کے حکم پر پنجاب بھر میں خضر حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جب اس تحریک نے پورے پنجاب میں زور پکڑا اور ہر طرف ’’خضر! ہائے ہائے‘‘ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ نو خضر حکومت کے کارکنان قضاء قدر نے فدایان پاکستان لیگی قائدین اور کارکنوں کو مظالم کا نشانہ بنانے کیلئے جیلوں کے دروازے کھول دیئے۔ صوبے کی کم و بیش تمام جیلیں لیگی کارکنوں سے بھر گئیں۔ صوبے کی وہ جیلیں جہاں سے سب سے زیادہ قائدین کو نذر زنداں کیا گیا تھا ان میں سے ایک جیل قصور کی بھی تھی یہاں بند رہنے والے مسلم لیگی قائدین میں سے نواب افتخار حسین خاں ممدوٹ، ملک فیروز خاں نون، سردار شوکت حیات خاں‘‘ میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ، چوہدری محمد حسین چٹھہ وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آپ نے جس ویب سائٹ سے Moin Ansari معین آنصآرّی کے مضمون میں سے ، بھوپال کے جس جریدے کے کے بائیں بازو کے کالم نگار کے جس آرٹیکل کو نوابزادہ لیاقت عی خان کے قتل میں امریکن سی آئی اے کے ملوث ہونے کی بنیاد بنایا ہے جس سے آپ غالباً یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ نوابزادہ کو امریکن سی آئی نے قتل اس لیے کروایا کہ وہ امریکن سی آئی یا امریکہ کے کہنے میں نہیں تھے، بلکہ امریکہ مخالف تھے اس لئیے انہیں امریکہ نے مروا دیا۔ جبکہ حقیقت مختلف ہے اور بات صرف اتنی سی ہے کہ مزکورہ آرٹیکل دہلی میں امریکن سفارتخانے نے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے اپنی حکومت کو اپنی باقی ماندہ ہزاروں دیگر معلوماتی ٹیلی گرامز کے کی طرح بجھوایا تھا جن کا ہم زکر اوپر کر چکے ہیں۔ اس طرح آپ نوابزادہ لیاقت علی خان کی شخصیت سے پاکستان کو امریکہ کی گود میں بٹھانے کا داغ، تاریخ سے ناانصافی کرتے ہوئے دھونا چاہتے ہیں ۔۔ جو آپ کی بھوپال سے عقیدت ہونے کی وجہ سے سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ ورنہ بغیر کسی علمی یا عقلی دلیل یا ثبوت کے آپ کا ایک ہی بات پر اصرار شایدہم بھی نہ سمجھ پاتے۔ جبکہ یہ بھی ثابت ہے کہ کام نکل جانے پہ یا ڈُو مور بوائے کے اصرار پہ انکار کرنے والوں کا انجام بھی امریکن سی آئی اے کے نزدیک وہی ہوتا ہے جو بہت سے دوسرے بکاؤ مال پاکستانی یا غیر پاکستانیوں کا رہا ہے اور اس میں حیرانگی والی کوئی بات نہیں کہ امریکن خفیہ ایجنسی کا یہ وطیرہ رہا ہے جو آجکل خود سفید ھاؤس نے فخریہ اپنا رکھاہے۔
آپ نے فرمائیش کی ہے کہ میں اشبیلیہ اور مسلم اندلس کے بارے میں کچھ لکھوں تو عرض ہے اسقد خوں رلاتی تاریخ پہ بات لکھنا یا کرنا بہت دل گردوں کا کام ہے مگر کبھی فرصت ہوئی تو ضرور لکھوں گا ویسیے تاریخ ندلس پہ چیدہ چیدہ باتیں میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اس لیے عرض ہے کہ مانا کہ آپ بھوپال سے عقیدت رکھتے ہیں مگر حب الوطنی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر قسم کے نفع و نقصان سے بلند ہو کر حقائق کو واضح کیا جائے تا کہ نقصانا کا ازالہ کیا جاسکے تا کہ آئیندہ کبھی بد قسمتی سے سقوط غرناطہ یا سقوط ڈھاکہ جیسے شرمناک باب دوبارہ ہماری تاریخ کا حصہ نہ بنیں۔
آئیں پہلے ان وجوہات پہ بات کیے لیتے ہیں ۔۔
پروفیسر ضیاء الدین احمد اپنی کتاب،لیاقت علی خان بلڈر آف پاکستان۔ کے صحفہ نمر ستائیس پہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے یو پی اتر پردیش کے ساتھ گہرا تعلق ہونے کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں۔
“The family, Before settling down in Karnal in the Punjab in the 19th century, lived on the other side of the Jamna in Muzaffarnagar (U.P., India) for some generations, where they owned bigestates. Even after he settled down in Delhi, he took keen interestin the amelioratin and betterment of the Muslims of Muzaffarnagar.”
p.27 of book by Prof. Ziauddin Ahmad , Liaquat Ali Khan: builder of Pakistan
تحریکِ پاکستان کے نمایاں رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معتبر ساتھی سرادر شوکت حیات خان اپنی کتاب۔ دی نیشن دیٹ لاسٹ اٹس سول۔ کے پیج نمبر 178 پہ لیاقت علی خان کے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پہ ترجیج دینے۔ اور اتر پردیش کے لوگوں کو کراچی میں ہر قانون قاعدہ توڑتے ہوئے، محض اپنا حلقہ انتخاب بنانے کے لیے یو پی والوں کو کراچی میں بسانے کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تحریک پاکستان کے ہروال دستے کے ایک رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایک معتمد خاص ساتھی کے الفاظ ہیں۔
“He (Liaqat Ali Khan) delayed the completion of the Constitution to avoid elections which he could not win because he had no seat in Pakistan and had to be elected by East Pakistan. He, on the advice of officers belonging to the United Provinces, broke the Liaqat-Nehru Pact about the agreed areas for migration from India to Pakistan, requiring the record of property to be exchanged officially. He, quite against the agreement permitted inhabitants of UP and Rajasthan to enter via Khokhrapar – thus opening floodgates endangering the stability of the already overloaded boat of Pakistan. I objected to this in the assembly. This action of Liaqat was quite partial allowing only people from his old Province and the adjoining areas to migrate unfairly into Pakistan in rder to create a seat for himself in Karachi. The people of the rest of the India were left to stew in their own juice. This act of his created a lot of confusion with people getting allotments in Sindh, without records on each other’s dubious evidence. This led to the problems of MQM and their hatred by Sindhis. These refugees got a monopoly of jobs in the cities and deprived local Pakistanis of their rightful share. The political instability still persists.”
(Source: Page 178 from the “Nation that lost its soul”, enclosed as Vol 2.5 in
The document)
جلد نمبر 4 پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان۔ ادرارہ مطالعہ تاریخ پیج نمبر 185-187 پہ حسن جعفر زیدی، نوابزادہ لیاقت علی خان کی اصولوں سے ہٹ کر ذاتی پسند اور نا پسند کی داتی مفادات کی سیاست پہ لکھتے ہیں ۔
“Punjabi chauvinism and Liaqat Ali Khan’s favoritism was at each others throat. The fight was furious and Mr. Khan was not a gentleman either. Mr. Khan was desperate to build his political base in the newly formed state. He could go to any length to achieve his personal goals”
Political History of Pakistan, Vol. 4, edited by Hasan Jafar Zaidi, Idara-Mutala-i-Tarikh. pp 185-187
وہ مزید لکھتے ہیں ۔
Liaqat Ali Khan with nepotism, and commenting on the appointments Liaqat Ali Khan had made……….
Hashim Raza, administrator Karachi; his brother Kazim Raza, IG police; Aal-e-Raza, also brother of Hashim, Public Prosecutor; Superintendent CID; Home Secretary Punjab, all of them from UP. Liaqat Ali Khan did all this to secure his political success from Karachi at least…………
………………… The commander of army in Bengal was (you guessed it right) Maj. General Ayub Khan was from Hazar…. They never gave the respect to political leadership of Bengal either.
the Political History of Pakistan: Hasan Jafar Zaidi
لیاقت علی خان کی رقص و شراب کی محفلیں اور دلچسپیوں کے بارے میں وجاہت مسعود، لاہور سے بعنوان لیاقت علی خان کا قتل میں لیاقت علی خاں کون تھے؟ میں یوں رقم طراز ہیں۔
“شخصی زندگی میں لیاقت علی روشن خیال اور مجلسی مزاج رکھتے تھے۔ وہ رقص، شراب اور عمدہ سگرٹوں سے محظوظ ہوتے تھے مگر عوامی سطح پر ان کی سیاست مذہبی حوالوں سے بھرپور ہوتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔”
آپ نے درست لکھا ہے کہ ” ہمارے ہاں ہر دور میں ابن الوقت لوگ ہوئے ہیں” مگر تھوڑا ساچُوک گئے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے میں اُن تینوں کے علاوہ جن کے نام آپ نے لیاقت علی خان کے خلاف حوالہ کے طور پر لکھے ہیں [سردار شوکت حیات ۔ ذیاء الدین احمد ۔ حسن جعفر زیدی] اور بھی کئی مطلب پرست لوگ حصہ دار ہیں ۔ ان تین اصحاب میں سے ایک تو خاندانِ غداراں سے تعلق رکھتے ہیں کہ اُن کے جدِ امجد نے مسلمانوں کے خلاف انگریز حملہ آوروں کی مدد کی اور ہموطن مسلمانوں کے خون پر ایک ادنٰی مالی سے جاگیردار بنا ۔ اور اس شخص کی اپنی منافقت کا یہ حال کہ اس نے 1947ء میں جب کہ وہ پاکستان میں ایک بڑے بنک کا اعلٰی عہدیدار تھا پاکستان سے کُوچ کرنے والے ہندوؤں کے حسابات بھارت کے بنکوں کو منتقل کئے اور کسی ایک بھی مسلمان کا حساب اُن کی درخواستوں کے باوجود بھارت میں اپنے بنک کی شاخوں سے پاکستان منتقل نہ کیا ۔ میں لکھنا نہیں چاہتا تھا مگر آپ کی تحریر پڑھ کر ایک جھلک دکھانا ضروری ہو گیا تھا ۔ اس حقیقت کیلئے مجھے کسی حوالے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ میں اُس شخص اور اس کے خاندان کو بہت قریب سے جانتا ہوں ۔ اور میرے والد صاحب اُسے 1947ء سے جانتے تھے اور اُس کے کردار سے بھی اچھی طرح واقف تھے ۔ لیکن یہ حقائق اس لئے تاریخ کا حصہ نہیں بن سکتے کہ تاریخ صرف با اثر لوگ لکھتے ہیں یا لکھواتے ہیں ۔
آپ کیسے جانتے ہیں کہ سرادر شوکت حیات قائدِ اعظم کے معتبر ساتھی تھے ؟ یہ ایک نئی خبر ہے
آپ نے لکھا ہے
” آج اگر قابل صد احترام مہاجرین کی تین چار نسلیں گزر جانے کے باوجود بھی کراچی میں مہاجر اور غیر مہاجر کی تفریق پہ ہزاروں لوگ قتل ہونے کے باوجود بھی کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ تو اس کے پس منظر میں بھی لیاقت علی خان کی ذاتی مفادات کی پالیسیاں تھیں”
سُبحان اللہ ۔ آپ نے کہاں کی کہاں ملا دی ہے ۔ آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ مہاجر تحریک نوابزادہ لیاقت علی کی وفات کے 32 سال 5 ماہ بعد18 مارچ 1984ء کو اُن لوگوں نے شروع کی جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور جو اکثر خود یا اُن کے والدین نوابزادہ لیاقت علی کی وفات کے بعد بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ۔ اس تحریک کو سیاسی رنگ دے کر کس نے اُبھارا ہر پاکستانی جانتا ہے مگر آپ بے خبر ہیں ۔
آپ کے نزدیک نوابزادہ لیاقت علی خان ہیرو تھے جبکہ ہمارے نزدیک پاکستان کو امریکہ کے چنگل میں پھنسانے کے اول ذمہ دار لیاقت علی خان تھے۔
سردار شوکت حیات کی بیٹی کا واقعہ کا نوابزادہ لیاقت علی سے کیا تعلق ہے ؟
آپ کی اطلاع اور قارئین اکرام کی دلچسپی کے لئیے عرض ہے۔ کہ یہ وہی سردار شوکت حیات ہیں جو اُن بائیس افراد میں شامل تھے جن کی طرف سے انیس سو چوہتر میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرار داد پاکستان نیشنل اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔
Sardar Shaukat Hayat Khan, the last of the prominent Muslim League leaders
by Moin Ansari معین آنصآرّی
آپ نے جس ویب سائٹ سے Moin Ansari معین آنصآرّی کے جس مضمون کے حوالہ جات دیے ہیں وہیں مندرجہ بالا الفاظ معین آنصآرّی کے ہیں۔ب یہ تو ممکن نہیں کہ آپ اپنے موقف کی حمایت کے لیے معین آنصآرّی کے مضمون کا کچھ حصہ تو اپنے قارئین کو سنا دیں اور جو آپ کے موقف کو باطل ثابت کر اسے ماننے سے انکار کر دیں۔ بندہ یا تو پورا مسلمان ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا، یہ بیچ بیچ والی بات نہیں ہوتی کہ کچھ باتیں مانتا ہوں اور کچھ باتیں چونکہ سوٹ نہیں کرتی تو نہیں مانتا۔
آپ کو میں سردار شوکت حیات کے بارے میں پہلے بھی بتا چک ہوں پھر سے بتا دیتا ہوں کہ آپ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
Sardar Shaukat Hayat Khan (by Zubaida Khatun), born 1915, a prominent Muslim League leader and a former Pakistan M.L.A. and Minister; married 25th December 1942, and had issue. He died 1998
1946ء میں حضرت قائداعظم کے حکم پر پنجاب بھر میں خضر حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جب اس تحریک نے پورے پنجاب میں زور پکڑا اور ہر طرف ’’خضر! ہائے ہائے‘‘ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ نو خضر حکومت کے کارکنان قضاء قدر نے فدایان پاکستان لیگی قائدین اور کارکنوں کو مظالم کا نشانہ بنانے کیلئے جیلوں کے دروازے کھول دیئے۔ صوبے کی کم و بیش تمام جیلیں لیگی کارکنوں سے بھر گئیں۔ صوبے کی وہ جیلیں جہاں سے سب سے زیادہ قائدین کو نذر زنداں کیا گیا تھا ان میں سے ایک جیل قصور کی بھی تھی یہاں بند رہنے والے مسلم لیگی قائدین میں سے نواب افتخار حسین خاں ممدوٹ، ملک فیروز خاں نون، سردار شوکت حیات خاں‘‘ میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ، چوہدری محمد حسین چٹھہ وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آپ نے جس ویب سائٹ سے Moin Ansari معین آنصآرّی کے مضمون میں سے ، بھوپال کے جس جریدے کے کے بائیں بازو کے کالم نگار کے جس آرٹیکل کو نوابزادہ لیاقت عی خان کے قتل میں امریکن سی آئی اے کے ملوث ہونے کی بنیاد بنایا ہے جس سے آپ غالباً یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ نوابزادہ کو امریکن سی آئی نے قتل اس لیے کروایا کہ وہ امریکن سی آئی یا امریکہ کے کہنے میں نہیں تھے، بلکہ امریکہ مخالف تھے اس لئیے انہیں امریکہ نے مروا دیا۔ جبکہ حقیقت مختلف ہے اور بات صرف اتنی سی ہے کہ مزکورہ آرٹیکل دہلی میں امریکن سفارتخانے نے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے اپنی حکومت کو اپنی باقی ماندہ ہزاروں دیگر معلوماتی ٹیلی گرامز کے کی طرح بجھوایا تھا جن کا ہم زکر اوپر کر چکے ہیں۔ اس طرح آپ نوابزادہ لیاقت علی خان کی شخصیت سے پاکستان کو امریکہ کی گود میں بٹھانے کا داغ، تاریخ سے ناانصافی کرتے ہوئے دھونا چاہتے ہیں ۔۔ جو آپ کی بھوپال سے عقیدت ہونے کی وجہ سے سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ ورنہ بغیر کسی علمی یا عقلی دلیل یا ثبوت کے آپ کا ایک ہی بات پر اصرار شایدہم بھی نہ سمجھ پاتے۔ جبکہ یہ بھی ثابت ہے کہ کام نکل جانے پہ یا ڈُو مور بوائے کے اصرار پہ انکار کرنے والوں کا انجام بھی امریکن سی آئی اے کے نزدیک وہی ہوتا ہے جو بہت سے دوسرے بکاؤ مال پاکستانی یا غیر پاکستانیوں کا رہا ہے اور اس میں حیرانگی والی کوئی بات نہیں کہ امریکن خفیہ ایجنسی کا یہ وطیرہ رہا ہے جو آجکل خود سفید ھاؤس نے فخریہ اپنا رکھاہے۔
آپ نے فرمائیش کی ہے کہ میں اشبیلیہ اور مسلم اندلس کے بارے میں کچھ لکھوں تو عرض ہے اسقد خوں رلاتی تاریخ پہ بات لکھنا یا کرنا بہت دل گردوں کا کام ہے مگر کبھی فرصت ہوئی تو ضرور لکھوں گا ویسیے تاریخ ندلس پہ چیدہ چیدہ باتیں میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اس لیے عرض ہے کہ مانا کہ آپ بھوپال سے عقیدت رکھتے ہیں مگر حب الوطنی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر قسم کے نفع و نقصان سے بلند ہو کر حقائق کو واضح کیا جائے تا کہ نقصانا کا ازالہ کیا جاسکے تا کہ آئیندہ کبھی بد قسمتی سے سقوط غرناطہ یا سقوط ڈھاکہ جیسے شرمناک باب دوبارہ ہماری تاریخ کا حصہ نہ بنیں۔