• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پرافٹ مارجن کی حد اور بینک نما سسٹم

شمولیت
جولائی 14، 2012
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
0
السلام علیکم!
ایک ساتھی کا سوال ہے اپنی جاب کے بارے میں۔ اسکے ایک دوسرے ساتھی نے کہا کہ اسکی ملازمت حرام کی ہے کیونکہ شریعت میں زیادہ سے زیادہ پرافٹ دس سے بیس فیصد تک رکھا جاسکتاہے۔ اس سے زائد پرافٹ مارجن حرام ہے اور انکی کمپنی سو فیصد تک رکھتی ہے چونکہ وہ امپورٹڈ خاص چیزوں کو بیچتے ہیں جوکہ کہیں اور سے نہیں ملتیں اور خریدار بھی امراء ہوتے ہیں عموما۔ اس کمپنی کے حرام کام کی وجہ سے اسکی ملازمت بھی ناجائز ہے۔

اسکے دوسرے ساتھی نے کہا کہ انکی کمپنی بینک کی طرح کام کرتی ہے اور وہ اسطرح کے کمپنی اپنے خریداروں سے رقم ڈیلوری سے کئ دن اور ہفتے پہلے وصول کر لیتی ہے اور پھر اسکو آگے لگا دیتی ہے۔

کیا ان دو کاموں کی وجہ سے ملازمت اسکی حرام ہوجاتی ہے؟

ازراہ کرم قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں جواب دیجیے۔ جزاکم اللہ خیرا!

والسلام
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ایک ساتھی کا سوال ہے اپنی جاب کے بارے میں۔ اسکے ایک دوسرے ساتھی نے کہا کہ اسکی ملازمت حرام کی ہے کیونکہ شریعت میں زیادہ سے زیادہ پرافٹ دس سے بیس فیصد تک رکھا جاسکتاہے۔ اس سے زائد پرافٹ مارجن حرام ہے اور انکی کمپنی سو فیصد تک رکھتی ہے چونکہ وہ امپورٹڈ خاص چیزوں کو بیچتے ہیں جوکہ کہیں اور سے نہیں ملتیں اور خریدار بھی امراء ہوتے ہیں عموما۔ اس کمپنی کے حرام کام کی وجہ سے اسکی ملازمت بھی ناجائز ہے۔
اسلام میں نفع کی کوئی خاص حد مقرر نہیں ہے لہذا اسے ۱۰ سے ۲۰ فی صد تک محدود کرنا شرعا درست نہیں ہے البتہ نفع وصول کرتے ہوئے چند باتوں کا لحاظ کرنا چاہیے۔ شیخ صالح المنجد ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

كيا تجارت ميں نفع لينے كى كوئى حد مقرر ہے، يا كہ غير محدود ہے، ہميں اس كا جواب دليل كے ساتھ چاہيے، آپ اس ميں اس چيز كو مدنظر ركھيں كہ ہر سال تاجر كو بہت سے ٹيكس ادا كرنا ہوتے ہيں، جو تاجر كى تائيد كرتے ہيں ؟

الحمد للہ:

" جس شخص نے تجارت كے ليے يا ركھنے كے ليے مال خريدا ہو اس كے ليے اس وقت يا ادھار خريدى ہوئى قيمت سے زيادہ ميں فروخت كرنا جائز ہے، اس كے نفع ميں ہمارے علم كے مطابق تو كوئى حد نہيں ہے، ليكن تخفيف اور آسانى ضرور ہونى چاہيے؛ كيونكہ ايسا كرنے كى ترغيب وارد ہے، ليكن اگر علاقے ميں كسى چيز كى قيمت معروف ہو تو مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى جاہل كو اس قيمت سے زائد پر فروخت كرے، ليكن اگر وہ اسے حقيقت كا بتا دے تو پھر ٹھيك ہے؛ كيونكہ اس كا اس قيمت سے زائد ميں فروخت كرنا دھوكہ كى ايك قسم شمار ہوگا.

اور پھر مسلمان تو دوسرے مسلمان شخص كا بھائى ہے، نہ تو وہ خود اس پر ظلم كرتا ہے، اور نہ ہى كسى دوسرے كے سپرد كرتا ہے كہ اس پر ظلم كرے، اور نہ ہى اسے دھوكہ ديتا ہے، اور نہ اس سے خيانت كرتا ہے، بلكہ جہاں بھى ہو وہ اپنے بھائى كى خيرخواہى كرتا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" دين خير خواہى كا نام ہے "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں عبد اللہ يمانى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اس پر بيعت كى كہ نماز قائم كرونگا اور زكاۃ كى ادائيگى كرتا رہونگا، اور ہر مسلمان كى خيرخواہى كرونگا " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 89 )

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے كہ:

" تجارت ميں نفع محدود نہيں، بلكہ يہ مال كى كثرت و قلت ميں طلب اور پيشكش كے حالات پر منحصر ہے، ليكن مسلمان يا دوسرے تاجر كے ليے بہتر يہى ہے كہ وہ اپنى خريدوفروخت ميں لوگوں پر آسانى اور سہولت كرنے والا ہو، اور خريدار يا فروخت كرنے والے كى غفلت كو فرصت سمجھ كر اس سے دھوكہ نہ كرتا پھرے، بلكہ وہ اخوت اسلامى كے حقوق كا خيال ضرور ركھے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 91 )

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سو فی صد نفع لینے کی شرعا گنجائش موجود ہے جیسا کہ ایک صحیح روایت کے مطابق ایک صحابی نے ایک بکری نصف دینار میں خریدی تھی اور اسے ایک دینار میں بیچ دیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ان کے لیے دعا بھی کی۔
تحديد الربح في التجارة
السؤال (16599): بسم الله الرحمن الرحيم.
ما هو حكم زيادة سلعة معينة لأنها متوفرة فقط في ذلك المعرض؟ مع العلم أن سعرها عالمياً أقل مما هي معروضة به لدى هذا المعرض.
وهل هناك نسبة للربح نص عليها الإسلام؟ وجزاكم الله خيراً.

أجاب عن السؤال الشيخ:أ.د0 سليمان العيسى (أستاذ الدراسات العليا بجامعة الإمام)
الجواب:
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وعلى آله وصحبه أجمعين، وبعد:
فالجواب أنه لا مانع من زيادة السعر في سلعة ما لم تكن طعاماً فيدخل في الاحتكار المنهي عنه، لكن ينبغي ألا يخرج في زيادته عن السعر المعتاد فيدخل في الغبن الذي يكون للمشتري فيه الخيار بعد ثبوت البيع وقد حده بعض أهل العلم بالثلث؛ لقوله –صلى الله عليه وسلم- فيما رواه البخاري ومسلم:"الثلث والثلث كثير" وهذا كما أسلفت على رأي بعض أهل العلم.
هذا ولا يظهر لي والعلم عند الله تعالى نسبة محددة للربح لا يجوز تجاوزها لأن الإنسان قد يشتري سلعة برخص فيبيعها بضعف ما اشتراها به أو ينتظر فيها حلول وقتها المناسب لها فيبيعها بربح كثير وقد روى البخاري (3641) وأبو داود في سننه (3384) عن عروة –رضي الله عنه- أن النبي –صلى الله عليه وسلم- أعطاه ديناراً ليشتري له به شاة فاشترى به شاتين فباع إحداهما بدينار فجاء بدينار وشاة فدعا له بالبركة في بيعه. وكان لو اشترى التراب لربح فيه. فهذا الحديث فيه أن عروة ربح الضعف، حيث باع إحدى الشاتين بدينار، وكان قد اشترى به شاتين فربح في نصف الدينار مثله، وقد أقره النبي –صلى الله عليه وسلم- على فعله ودعا له بالبركة، والله أعلم.
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اسکے دوسرے ساتھی نے کہا کہ انکی کمپنی بینک کی طرح کام کرتی ہے اور وہ اسطرح کے کمپنی اپنے خریداروں سے رقم ڈیلوری سے کئ دن اور ہفتے پہلے وصول کر لیتی ہے اور پھر اسکو آگے لگا دیتی ہے۔

کسی چیز کی ڈیلوری سے پہلے اس کی قیمت وصول کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے جبکہ مبیع اور وقت معلوم و متعین ہو۔ اسے اصطلاحا بیع سلم کہتے ہیں اور یہ شرعا جائز ہے۔ جیسا کہ ہم کسی کمپنی مثلا سوزوکی سے کوئی گاڑی خریدتے ہیں تو گاڑی تو ٣٠ سے ٤٠ دنوں میں ملتی ہے جبکہ اس کی قیمت پہلے ہی یعنی بکنگ کے وقت ادا کرنی پڑتی ہے وغیرہ ذلک
أرجوالإفادة بماهية عقد السلم وشروطه وأحكامه ونسخة منه إن أمكن.
والسلام عليكم.
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد: ‏

فإن السلم شرعاً: هو بيع شيء موصوف في الذمة بلفظ السلم أو السلف، وهو نوع من ‏البيوع، وهو مستثنى من بيع المعدوم وما ليس عند الإنسان، وذلك لحاجة الناس إلى مثل ‏هذا العقد، ودليل مشروعيته ما رواه ابن عباس رضي الله عنهما من أن النبي صلى الله عليه ‏وسلم قدم المدينة وهم يسلفون في الثمار السنة والسنتين، فقال: "من أسلف فليسلف في ‏كيل معلوم، ووزن معلوم، إلى أجل معلوم" متفق عليه. وأيضاً ما روي عن عبد الرحمن بن أبزئ وعبد الله بن أبي أوفى رضي الله عنهما قالا: كنا نصيب المغانم مع رسول الله صلى ‏عليه وسلم، وكان يأتينا من أنباط الشام فنسلفهم في الحنطة والشعير والزيت إلى أجل ‏مسمى، قيل: أكان لهم زرع أو لم يكن؟ قالا: ما كنا نسألهم عن ذلك" رواه البخاري. ‏والحكمة من مشروعية السلم مع أن فيه بيع الشخص لما ليس عنده هي: التيسير على ‏الناس ومراعاة أحوالهم وحوائجهم، وذلك لأن أصحاب الصناعات والأعمال وكذلك ‏أصحاب الأراضي والأشجار ونحوهم، كثيراً ما يحتاجون إلى النقود من أجل تأمين السلع ‏الأولية لمنتجاتهم، أو تهيئة الآلات والأدوات لمصانعهم، وكذلك الزراع ربما احتاجوا للنقود ‏من أجل رعاية
أراضيهم وحفظ بساتينهم، وقد لا يجد هؤلاء النقود بطريقة أخرى فيسر ‏الشرع الحكيم لهم أن يسلفوا على أساس أن يسددوا ذلك من منتجاتهم من زرع أو ثمر أو ‏سلع أو نحو ذلك.
وماهية هذا العقد تتم عندما توجد أركانه الأربعة التي هي: عاقدان ‏وصيغة ورأس مال السلم، والمسلم فيه.‏
أما شروطه فأهمها: تسليم رأس المال للمسلم إليه في مجلس العقد وأن يكون المسلم فيه مما ‏يمكن ضبطه بالوصف الذي تختلف فيه الأغراض، بحيث تنتفي الجهالة عنه، وأن يكون ‏معلوم الجنس والنوع والقدر والصفة للمتعاقدين، وأن يكون المسلم ديناً أي شيئاً موصوفاً في الذمة غير معين، وأن يكون مقدوراً على تسليمه بأن يغلب على الظن وجود نوعه ‏عندما يحين وقت استحقاقه وكذلك تعيين الأجل الذي يجب عنده تسليمه، وتعيين موضع ‏تسليمه إذا كان الموضع الذي جاء العقد فيه لا يصح لذلك، أو كان يصلح للتسليم ولكن ‏لنقل المسلم فيه إليه كلفة ونفقة، هذه هي أهم شروط السلم.
والله أعلم.‏
[/QUOTE]
 
Top