• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پرانا دوست !

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
میں تو ایک عرصہ سے اس بات کا ”قائل“ ہوں کہ ”ہاسٹل لائف“ ہے ہی غلط ۔ خواہ یہ طلباء کے لئے ہوں یا طالبات کے لئے۔ اسکول، کالج، جامعات کے لئے ہوں یا دینی مدرسہ کے لئے ۔ بلکہ فوج میں بھی ہاسٹل کی زندگی، بالخصوص کنواروں کے اخلاقیات کا جنازہ نکالنے میں بہت معاون ہوتا ہے۔ ہمارے ایک ساتھی میجر صاحب کے بقول فوج میں ہم جنس پرستی کے واقعات کے سبب قتل تک ہوجاتے ہیں۔ مگر یہ خبریں فوج سے باہر نہیں نکلتیں۔ بچے والدین اور اہل خاندان کے درمیان ہی ”محفوظ“ پرورش پاسکتے ہیں کہ یہی ایک فطری زندگی ہے۔ ہاسٹل کی زندگی ایک ”غیر فطری“ زندگی ہے، جس میں سماجی برائیاں پنپنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو اس قسم کی برائیوں کے سد باب کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مولانا الیاس گھمن کا موقف ۔ از سید عدنان کریمی


گزشتہ چند روز سے فیس بک جیسے کثیر الفکری فورم پر ایک طوفان بدتمیزی بپا ہے، مولانا الیاس گھمن کے بارے میں ان کی سابقہ اہلیہ کا خط، استفتا نے ہڑبونگ مچا رکھا ہے۔ ایک ویب سائٹ پر وہ خط شائع ہوا، لکھاری نے تمام معاملات کو ایسا افسانوی جامہ پہنایا کہ اسے پڑھ کر کوئی باشعور شخص شرمندہ و رنجیدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ہم نے بھی وہ مضمون پڑھا تو دل مسوس کر رہ گیا۔ دوسری جانب مولانا گھمن کے حامیوں کی فوج نے اس پورے قضیہ کو مماتیوں کے کھاتے میں ڈال کر دامن جھاڑ لیا اور اندھی تقلید کی ایسی خوفناک روایت قائم کی کہ جس سے موصوف خود پریشان و بیزار نظر آتے ہیں۔ فریقین کی نوک جھونک سے فیس بک اکھاڑے کا منظر پیش کرنے لگا۔ فریقین کی جانب سے بہت ساری غلطیاں ہوئیں، فریق اول نے بنا دلیل و برہان اور بغیر تحقیق و تفتیش کے وہ خط وائرل کر دیا جو کہ بہر طور غلط اور بددیانتی ہے۔ فریق ثانی نے مولانا کو فرشتہ بنا کر پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ حالانکہ فریق اول کو یہ سمجھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں واضح طور پر چھبیسویں پارہ میں سورۃ حجرات کی چھٹی آیت میں ارشاد گرامی ہے ”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور اپنے کئے پر پچھتاؤ۔“ جبکہ فریق ثانی نے انسان کی تین بڑی غلطیوں (عجولا، ھلوعا، جدلا) سے صرف نظر کرتے ہوئے چشم زدن میں انہیں مٹی کا مادھو ثابت کردیا، حالانکہ حدیث کی رو سے بنی آدم خطاکار اور خطا کا پتلا ہیں۔
بہر کیف اس پورے قضیے کو دیکھنے کے بعد ذہن میں یہ خیال کوندا کہ کیوں نہ قرآنی حکم ”فتبینوا“ پر عمل کرتے ہوئے صاحب معاملہ کی طرف رجوع کیاجائے۔ خیال کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے موبائل نکالا، مولانا کا نمبر ڈائل کیا لیکن مصروفیت کی بنا پر وہ کال ریسیو نہیں کرسکے۔ واٹس ایپ میں ٹیکسٹ کیا، تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون کرنے پر بات ہوئی، تعارف کروایا، انہوں نے بڑی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا، خاکسار نے اپنا مدعا بیان کیا اور ”مبینہ استفتا“ واٹس ایپ کر دیا۔ چند لمحے بعد انہوں نے ریکارڈنگ کے ذریعے آگاہ کیا کہ اب نماز کا وقت ہے، نماز کے بعد آپ جس طرح وضاحت طلب کرنا چاہیں میں حاضر ہوں۔ ان کی چند منٹ کی شیریں گفتگو اور عجز و انکسار میں ڈوبے ہوئے لہجے نے رعایت اللہ فاروقی صاحب کے اس قول پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ وہ عجز و انکسار کا پیکر ہیں۔ ان کی نماز سے واپسی کے انتظار تک میں یہ سوچتا رہا کہ اس جیسی شخصیت نے اس قسم کی کوئی بداخلاقی کی بھی ہوگی یا نہیں؟ نماز کے بعد تھوڑی سی تاخیر پر انہوں نے فون پر معذرت کی اور واٹس ایپ میں چودہ وائس ریکارڈنگ کے ذریعہ اپنے موقف سے آگاہ کیا۔ جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ مذکورہ استفتا اور خط کے نکات سراسر جھوٹ اور بددیانتی پر مبنی ہیں۔ وضاحت کا لب لباب یہ تھا:
”میری شادی اپریل 2012ء میں ہوئی اور میری سابقہ بیوی سمیعہ (صاحبزادی مفتی زین العابدین رح) کا مئی میں سرگودھا آنا ہوا اور جب وہ وہاں آئیں تو انہوں نے الزام لگایا کہ میری پہلی بیوی پہرہ دار اور معاون بن کر گھر کے باہر کھڑی تھیں اور میں اندر مدرسہ کی طالبہ کے ساتھ غلط کام میں مصروف تھا، انہوں نے جب میری پہلی بیوی کو بھی پہرہ دار بنا کر بطور گواہ پیش کرنا چاہا تو میری پہلی بیوی نے شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب کو وضاحتی و برآتی خط لکھا جس میں ان کے تمام الزامات کا جواب بھی دیا۔ دوسری بات یہ کہ شادی اپریل میں ہوئی اور مئی میں سرگودھا آنے پر ان کی بیٹی سے دست درازی بھی ہوئی لیکن وہ تین سال تک خاموش رہیں کیوں؟ علاوہ ازیں اگر میں بدکردار تھا تو شادی کے تیسرے سال مارچ 2015ء میں ڈرائیونگ لائسنس میں میرا نام کیوں درج کروایا اور اسی مہینہ ایک لاکھ روپے میرے اکاؤنٹ سے اپنے اکاؤنٹ میں کیونکر ٹرانسفر کروائے؟ اسی جنوری کی 18 تاریخ کو اپنے سابقہ شوہر سے بڑے بیٹے زین العارفین کے شادی کارڈ میں میرا نام اور ”چشم براہ و متمنی شرکت“ کے خانوں میں میرے دو بیٹوں کا نام کیسے درج کیا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں نے موصوفہ کو مارچ 2015ء میں طلاق دی اور استفتا دسمبر 2015ء کا ہے، جس سے ہر ذی عقل معاملے کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ معاملہ تین سال تک کچھ نہیں تھا، جونہی جنوری 2015ء میں میں نے ایک اور نکاح کیا تو اس کے بعد یہ خطوط اور معاملات سامنے آنے لگے۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ پس پردہ کون لوگ ہیں، مگر میں بتانا مناسب نہیں سمجھتا۔“
ریکارڈنگ سننے کے بعد میں نے طلاق کی وجہ جاننا چاہی جس پر مولانا کا کہنا تھا کہ میں کسی کی ذاتیات پر بات کرنا نہیں چاہتا اور میرا ماضی گواہ ہے کہ میں نے کبھی بھی ذاتیات پر حملے نہیں کیے. آخر میں کہنے لگے کہ ایک صاحب کی اپنی اہلیہ سے نہیں بنتی تھی، کسی نے وجہ پوچھی تو کہا کہ میری عزت ہے وہ، اس کے متعلق کچھ بھی بتانے سے قاصر ہوں، کچھ عرصہ بعد طلاق ہوگئی، اسی دوست نے دوبارہ وہی سوال دہرایا تو اس شخص نے کہا اب تو وہ عورت میرے لیے نامحرم ہوچکی ہے، اس لیے اس کے متعلق اب بات کرنا مناسب نہیں۔ آخر میں خاکسار نے سوال داغا کہ بندہ ان سب چیزوں کو غلط اور جھوٹ سمجھے؟ جس پر بالکل واضح طریقے سے انہوں نے انکار کرکے تمام باتوں کو مسترد کر دیا۔
مذکورہ وضاحت اور میری محنت کا مطلب قطعا یہ نہیں کہ مولانا کی انہی باتوں کو حرف آخر مان کر جبرا تسلیم کیا جائے اور نتیجتا انہیں ”پوتر“ سمجھا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جانبین کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کم اور لایعنی چیزوں، لغویات سے دھیان ہٹا کر کسی بامعنی امر کی طرف گامزن کیا جاسکے۔ ہمیں چاہیے کہ خدائی فوجدار بننے کے بجائے اپنے اعمال پر نظر رکھیں۔ خدا ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مجھے اس قصے کے سچے یا جھوٹے ہونے سے کوئی ”سروکار“ نہیں ہے۔ اسی لئے میں نے کوشش کی ہے کہ ”دونوں طرف“ کے موقف پر مبنی تحریریں شیئر ہوجائیں۔ میں نے ایک اور کوشش یہ کی ہے کہ جن تحریروں میں الزامات کی ”تفصیلات و جزیات“ بیان کی گئی ہیں، انہیں شیئر نہ کیا جائے کہ کوئی بھی ذوق سلیم ان باتوں کو پڑھنے اور سننے کا روادار نہیں ہوسکتا۔ میرے اس پوسٹ کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ سوشیل میڈیا میں اس حوالہ سے کچھ لکھا جارہا ہے، اس پر بات کی جائے، سنجیدہ مکالمہ کیا جائے ۔ اور اس ”حقیقت“ کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ”ایسا“ ہوا کرتا ہے (قطع نظر اس بات کہ مولانا صاحب نے ایسا کیا ہے یا نہیں کیا ہے)، چنانچہ اس قسم کے سانحات کی روک تھام اور دینی مدارس میں ایسے واقعات کے تدارک اور سوشیل میڈیا سے اس مبینہ واقعہ کی آڑ میں دینی حلقوں پر جو کیچڑ اچھلی اور اچھالی جارہی ہے، اس پر کسی قسم کی ممکنہ بندش اور عوام الناس میں علمائے کرام کے کردار کو جس ”مجموعی طریقہ“ سے عوام کی نگاہوں میں خراب کرنے کی سازش بلکہ کوشش کی جارہی ہے، اس کے تدارک کی راہ بھی سوچی جاسکے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
میں زیادہ تو نہیں جانتا لیکن جو تفصیل میں نے ایک ویبسائٹ پر پڑھی تھی (جو کہ شاید کسی مفتی صاحب نے بیان کی تھی اور اسمیں پورا واقعہ بیان کیا تھا) اسکے حساب سے میرا دل اس واقعہ کے سچے ہونے کو نہیں مان رہا
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
کیا واقعی الیاس گھمن صاحب کا نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہونچتا ہے؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کیا واقعی الیاس گھمن صاحب کا نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہونچتا ہے؟؟؟
اللہ جانے ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں گھمن صاحب حلالہ کی پیدائش ہیں ، بلکہ یہاں تک کہ وہ خود بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں ۔
( ویسے یہ بات اگر درست بھی ہو تو کسی بھی درجہ میں کم از کم گھمن صاحب کے لیے جرح نہیں ہے )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
سبوخ سید بڑا چالاک ہوگا، لیکن اسے جلد ہی اندازہ ہو جائے گا کہ غلط جگہ طبع آزمائی ہو گئی ہے ۔
مولانا الیاس گھمن صاحب کی اس حادثے پر رائے سن کر خود اسے بھی اور دیگر بغلیں بجانے والوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا ۔
تحمل ، برداشت ، خوش اخلاقی یہ بہت بڑے ہتھیار ہیں ۔
بقول کسے : پہلے لوگ گھمن صاحب کو ملزم سمجھتے تھے ، لیکن آی بی سی کی حرکت اور گھمن کے اس پر دانشمندانہ رد عمل کے بعد اسے پارسا اور مظلوم سمجھیں گے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم ابو بکر قدوسی صاحب نے اپنی تحریر میں نتیجہ نکالا ہے کہ یہ مکافات عمل ہے کہ انہوں نے مسلکی اختلافات کو ہوا دی وغیرہ ۔ یہ بات درست نہیں ، ہر مسلک و مذہب میں ایسے لوگ ہوتے ہیں ، جو اسی طرح کا رویہ اور ذہن رکھتے ہیں ، جو گھمن کا ہے ، لہذا ان پر آنے والی مصیبتوں کے بارے میں یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ مکافات عمل ہے ۔ واللہ اعلم
 
Top