مولانا الیاس گھمن کا موقف ۔ از سید عدنان کریمی
گزشتہ چند روز سے فیس بک جیسے کثیر الفکری فورم پر ایک طوفان بدتمیزی بپا ہے، مولانا الیاس گھمن کے بارے میں ان کی سابقہ اہلیہ کا خط، استفتا نے ہڑبونگ مچا رکھا ہے۔ ایک ویب سائٹ پر وہ خط شائع ہوا، لکھاری نے تمام معاملات کو ایسا افسانوی جامہ پہنایا کہ اسے پڑھ کر کوئی باشعور شخص شرمندہ و رنجیدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ہم نے بھی وہ مضمون پڑھا تو دل مسوس کر رہ گیا۔ دوسری جانب مولانا گھمن کے حامیوں کی فوج نے اس پورے قضیہ کو مماتیوں کے کھاتے میں ڈال کر دامن جھاڑ لیا اور اندھی تقلید کی ایسی خوفناک روایت قائم کی کہ جس سے موصوف خود پریشان و بیزار نظر آتے ہیں۔ فریقین کی نوک جھونک سے فیس بک اکھاڑے کا منظر پیش کرنے لگا۔ فریقین کی جانب سے بہت ساری غلطیاں ہوئیں، فریق اول نے بنا دلیل و برہان اور بغیر تحقیق و تفتیش کے وہ خط وائرل کر دیا جو کہ بہر طور غلط اور بددیانتی ہے۔ فریق ثانی نے مولانا کو فرشتہ بنا کر پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ حالانکہ فریق اول کو یہ سمجھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں واضح طور پر چھبیسویں پارہ میں سورۃ حجرات کی چھٹی آیت میں ارشاد گرامی ہے ”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور اپنے کئے پر پچھتاؤ۔“ جبکہ فریق ثانی نے انسان کی تین بڑی غلطیوں (عجولا، ھلوعا، جدلا) سے صرف نظر کرتے ہوئے چشم زدن میں انہیں مٹی کا مادھو ثابت کردیا، حالانکہ حدیث کی رو سے بنی آدم خطاکار اور خطا کا پتلا ہیں۔
بہر کیف اس پورے قضیے کو دیکھنے کے بعد ذہن میں یہ خیال کوندا کہ کیوں نہ قرآنی حکم ”فتبینوا“ پر عمل کرتے ہوئے صاحب معاملہ کی طرف رجوع کیاجائے۔ خیال کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے موبائل نکالا، مولانا کا نمبر ڈائل کیا لیکن مصروفیت کی بنا پر وہ کال ریسیو نہیں کرسکے۔ واٹس ایپ میں ٹیکسٹ کیا، تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون کرنے پر بات ہوئی، تعارف کروایا، انہوں نے بڑی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا، خاکسار نے اپنا مدعا بیان کیا اور ”مبینہ استفتا“ واٹس ایپ کر دیا۔ چند لمحے بعد انہوں نے ریکارڈنگ کے ذریعے آگاہ کیا کہ اب نماز کا وقت ہے، نماز کے بعد آپ جس طرح وضاحت طلب کرنا چاہیں میں حاضر ہوں۔ ان کی چند منٹ کی شیریں گفتگو اور عجز و انکسار میں ڈوبے ہوئے لہجے نے رعایت اللہ فاروقی صاحب کے اس قول پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ وہ عجز و انکسار کا پیکر ہیں۔ ان کی نماز سے واپسی کے انتظار تک میں یہ سوچتا رہا کہ اس جیسی شخصیت نے اس قسم کی کوئی بداخلاقی کی بھی ہوگی یا نہیں؟ نماز کے بعد تھوڑی سی تاخیر پر انہوں نے فون پر معذرت کی اور واٹس ایپ میں چودہ وائس ریکارڈنگ کے ذریعہ اپنے موقف سے آگاہ کیا۔ جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ مذکورہ استفتا اور خط کے نکات سراسر جھوٹ اور بددیانتی پر مبنی ہیں۔ وضاحت کا لب لباب یہ تھا:
”میری شادی اپریل 2012ء میں ہوئی اور میری سابقہ بیوی سمیعہ (صاحبزادی مفتی زین العابدین رح) کا مئی میں سرگودھا آنا ہوا اور جب وہ وہاں آئیں تو انہوں نے الزام لگایا کہ میری پہلی بیوی پہرہ دار اور معاون بن کر گھر کے باہر کھڑی تھیں اور میں اندر مدرسہ کی طالبہ کے ساتھ غلط کام میں مصروف تھا، انہوں نے جب میری پہلی بیوی کو بھی پہرہ دار بنا کر بطور گواہ پیش کرنا چاہا تو میری پہلی بیوی نے شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب کو وضاحتی و برآتی خط لکھا جس میں ان کے تمام الزامات کا جواب بھی دیا۔ دوسری بات یہ کہ شادی اپریل میں ہوئی اور مئی میں سرگودھا آنے پر ان کی بیٹی سے دست درازی بھی ہوئی لیکن وہ تین سال تک خاموش رہیں کیوں؟ علاوہ ازیں اگر میں بدکردار تھا تو شادی کے تیسرے سال مارچ 2015ء میں ڈرائیونگ لائسنس میں میرا نام کیوں درج کروایا اور اسی مہینہ ایک لاکھ روپے میرے اکاؤنٹ سے اپنے اکاؤنٹ میں کیونکر ٹرانسفر کروائے؟ اسی جنوری کی 18 تاریخ کو اپنے سابقہ شوہر سے بڑے بیٹے زین العارفین کے شادی کارڈ میں میرا نام اور ”چشم براہ و متمنی شرکت“ کے خانوں میں میرے دو بیٹوں کا نام کیسے درج کیا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں نے موصوفہ کو مارچ 2015ء میں طلاق دی اور استفتا دسمبر 2015ء کا ہے، جس سے ہر ذی عقل معاملے کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ معاملہ تین سال تک کچھ نہیں تھا، جونہی جنوری 2015ء میں میں نے ایک اور نکاح کیا تو اس کے بعد یہ خطوط اور معاملات سامنے آنے لگے۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ پس پردہ کون لوگ ہیں، مگر میں بتانا مناسب نہیں سمجھتا۔“
ریکارڈنگ سننے کے بعد میں نے طلاق کی وجہ جاننا چاہی جس پر مولانا کا کہنا تھا کہ میں کسی کی ذاتیات پر بات کرنا نہیں چاہتا اور میرا ماضی گواہ ہے کہ میں نے کبھی بھی ذاتیات پر حملے نہیں کیے. آخر میں کہنے لگے کہ ایک صاحب کی اپنی اہلیہ سے نہیں بنتی تھی، کسی نے وجہ پوچھی تو کہا کہ میری عزت ہے وہ، اس کے متعلق کچھ بھی بتانے سے قاصر ہوں، کچھ عرصہ بعد طلاق ہوگئی، اسی دوست نے دوبارہ وہی سوال دہرایا تو اس شخص نے کہا اب تو وہ عورت میرے لیے نامحرم ہوچکی ہے، اس لیے اس کے متعلق اب بات کرنا مناسب نہیں۔ آخر میں خاکسار نے سوال داغا کہ بندہ ان سب چیزوں کو غلط اور جھوٹ سمجھے؟ جس پر بالکل واضح طریقے سے انہوں نے انکار کرکے تمام باتوں کو مسترد کر دیا۔
مذکورہ وضاحت اور میری محنت کا مطلب قطعا یہ نہیں کہ مولانا کی انہی باتوں کو حرف آخر مان کر جبرا تسلیم کیا جائے اور نتیجتا انہیں ”پوتر“ سمجھا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جانبین کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کم اور لایعنی چیزوں، لغویات سے دھیان ہٹا کر کسی بامعنی امر کی طرف گامزن کیا جاسکے۔ ہمیں چاہیے کہ خدائی فوجدار بننے کے بجائے اپنے اعمال پر نظر رکھیں۔ خدا ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین