• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پرانا سامان دیکر نیا سامان لینا قیمت کے فرق کے ساتھ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ!
اس فتوی اور درج ذیل حدیث مبارکہ کے مابین کوئی باہمی تعلق بنتا ہے؟ یعنی مذکورہ حدیث کی بنیاد پر پرانے سامان کے بدلے نیا سامان قیمت کے فرق سے لینا جائز ہے یا نہیں؟ کیا یہ سود کے زمرے میں آتا ہے یا محض ممنوع تجارتی معاملات میں؟ وغیرہ۔۔
اس طرح کی خریدوفروخت کے بارے ہو سکے تو تفصیلی جواب عنائت کیجیئے۔ بارک اللہ فیک!

فتوي.jpeg



صحیح بخاری:
حدیث نمبر: 4244-4245


حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَيْبَرَ، فَجَاءَهُ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا " فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلَاثَةِ، فَقَالَ: " لَا تَفْعَلْ، بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ، ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا "

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالمجید بن سہیل نے ‘ ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی (سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ) کو خیبر کا عامل مقرر کیا۔ وہ وہاں سے عمدہ قسم کی کھجوریں لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم یا رسول اللہ! ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور (اس سے خراب) دو یا تین صاع کھجور کے بدلے میں ان سے لے لیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح نہ کیا کرو ‘ بلکہ (اگر اچھی کھجور لانی ہو تو) ردی کھجور پہلے درہم کے بدلے بیچ ڈالا کرو ‘ پھر ان دراہم سے اچھی کھجور خرید لیا کرو۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
محترم بھائی @محمد نعیم یونس صاحب
صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ
« عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «التَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْحِنْطَةُ بِالْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَمَنْ زَادَ، أَوِ اسْتَزَادَ، فَقَدْ أَرْبَى، إِلَّا مَا اخْتَلَفَتْ أَلْوَانُهُ»،
(صحیح مسلم ،کتاب المساقات ،بَابُ الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا )
ترجمہ :سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ:جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کھجور کے عوض کھجور، گندم کے عوض گندم، جو کے عوض جو اور نمک کے عوض نمک (کی بیع) مثل بمثل (ایک جیسی) دست بدست ہو۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا (لین دین) کیا، الا یہ کہ ان کی اجناس الگ الگ ہوں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سود کے موضوع پر
محترم بھائی حسن مدنی حفظہ اللہ کا ایک مفید آرٹیکل محدث میگزین میں شائع ہے ،اس میں لکھتے ہیں :


ربا الفضل

قرض پر سود (ربا النسیئة) تو ربا کی وہ معروف صورت ہے جس میں قرض پر کوئی مشروط اضافہ حاصل کیا جاتا ہے۔ یہی وہ صورت ہے جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب ، معاشروں اور دانشوروں کے ہاں زمانہ قدیم سے حرام سمجھی جاتی رہی ہے۔ یہ ربا کی واضح ترین صورت ہے ،
جبکہ شریعت ِمحمدی ؐنے ربا کی ایک اور صورت بھی متعارف کرائی ہے جسے ربا الفضل کہا جاتا ہے۔ ربا الفضل کے بارے میں نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے: (بروایت ِحضرت ابوسعید خدریؓ) (صحیح مسلم: حدیث نمبر ۱۵۸۴)

''سونا سونا کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے (ان کا سودا)برابربرابر اور نقد و نقد کرنا جائز ہے۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا تو اس نے سودی معاملہ کیا۔ لینے اور دینے والا اس میں برابر ہیں''

ذخیرہ احادیث میں ربا کی پہلی صورت یعنی ربا النسیئۃ کے حوالے سے تقریباً ڈیڑھ سو احادیث ملتی ہیں جبکہ ربا الفضل کے بارے میں آنے والی احادیث کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے، جس میں اس کی مختلف صورتوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس اعتبار سے یہ احادیث متواتر کا درجہ رکھتی ہیں، یاد رہے کہ متواتر حدیث کسی شرعی حکم کو ثابت کرنے میں علما ء کے متفقہ موقف کے مطابق قرآن کی طرح ہی قطعی ہوتی ہے۔

ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ بالا مخصوص اَجناس کااسی جنس سے سودا کیا جائے تو دو شرطیں ملحوظ رکھنا ضروری ہیں:

(1) سودا نقد و نقد ہو۔یعنی ادھار کی صورت میں نہیں بلکہ ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے۔

2) دونوں اَجناس کے وزن میں بھی برابری ضروری ہے۔

٭ اگر ان اجناس میں ایک جنس کا غیرجنس سے سودا ہو تو تب وزن میں کمی و بیشی تو ہوسکتی ہے لیکن نقد ہونا ضروری ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :

«فإذا اختلفت ھذہ الأصناف فبیعوا کیف شئتم إذا کان یدا بید»
''پھر اگر جنس مختلف ہو جائے تو جیسے چاہو لین دین کر لو، بشرطیکہ یہ تبادلہ دست بدست یعنی نقد و نقد ہو'' (صحیح مسلم : حدیث ۱۹۷۰)

اگر دونوں میں سے ایک شرط بھی ساقط ہوجائے تو یہ سود کا معاملہ ہوگا اور سود کی مذمت میں وارد جملہ مناہی کی زد اس پر پڑے گی۔ بعض احادیث میں چاندی کی جگہ ورق (چاندی کا سکہ) اور بعض احادیث میں منقیٰ (ساتویں جنس) کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ اسی طرح بعض روایات میں طَعَام کا لفظ بھی آیا ہے۔

کیا رباالفضل صرف چھ اَجناس میں حرام ہے؟:
اس بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے صفحہ ۸۶) اگر بنظرعمیق ان اَجناس کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں دو جنسیں(سونا چاندی) تو وہ ہیں جو عموماً ثمن کی بنیاد ہوتی ہیں اور باقی تین اَجناس (گندم، کھجور، جو اور بعض احادیث کے مطابق منقیٰ ) وہ ہیں جو قُوت یعنی مختلف معاشروں میں خوراک کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔ جبکہ چھٹی جنس (نمک) وہ ہے جو خوراک کو جزوِبدن بناتا ہے۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان اَجناس میں ثمن اورقوت ہونے کا عنصر حاوی ہے۔ خوراک ہونے کے غالب عنصر ہونے کو ہی بعض احادیث میں طعام کے مطلق لفظ سے تعبیر کیا گیاہے۔

معلوم ہوتاہے کہ ان کی بیع میں نقد و نقد او ربرابر برابر ہونے کی شرط لگا کر دراصل شریعت ان بنیادی ضرورت کی اَجناس کی دستیابی کو آسان ترکر نا چاہتی ہے۔ یعنی ان کو حاصل کرنے میں نوعِ انسانی کو زیادہ مشکلات اور خرید و فروخت کی پیچیدگیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ان کے سودے کی حدود پہلے ہی معین کردی جائیں۔شریعت کی یہی حکمت اس حدیث سے بھی واضح ہے، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

«المسلمون شرکاء في ثلاث:الما ء والنار والکلإ» ( أبو داود:باب في منع الماء)
''مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں :پانی، آگ اور گھاس ''

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی بہت سے بنیادی ضرورت کی چیزوں میں اگر کسی کے پاس فالتو شے ہو تو اسے تجارت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ بنیادی ضرورت کی حد تک اسے دوسرے کا حق سمجھے ۔

ربا الفضل کے حرام ہونے کی حکمتیں:

(1) الغرض ربا الفضل صرف مخصوص اشیاء میں ہی حرام ہے اور وہ مخصو ص اشیاء (جن کی شریعت نے حد بندی کردی ہے) وہ ہیں جو غالباً ثمن یاقوت کی بنیاد ہوتی ہیں۔اور شریعت اس پابندی کے ذریعے ایسی اشیاء کی خرید وفروخت میں آسانی پیدا کرنا چاہتی ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ربا الفضل فی نفسہٖ بھی حرام ہے ۔جیسا کہ نبی کریم نے اس کو عین سود سے تعبیر کیا ہے۔ دیکھئے گذشتہ صفحے پرحدیث ِ مسلم او راگلے صفحہ پر حدیث ِابی سعید میں خط کشیدہ الفاظ)

(2) حضرت عمر فاروقؓ ان چھ اَجناس میں دو شرطوں کے ضروری ہونے کی یہ حکمت بھی قرار دیتے ہیں کہ ''تم اس کے ذریعے اصل سود میں مبتلا نہ ہوجائو'' چنانچہ شاہ ولی اللہؒ، حافظ ابن قیم ؒاور امام شاطبیؒ وغیرہ نے یہ کہا ہے کہ ''ربا الفضل کے حرام ہونے کی حکمت، دراصل حقیقی ربا کا راستہ بند کرنا ہے''

(3) عقلی طور پر یہ بات بڑی عجیب سی لگتی ہے کہ اعلیٰ قسم کی گندم کو کمتر درجہ کی گندم کے ساتھ برابر وزن میں ہی بیچا جائے ۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ سے بھی صحابہ نے یہ سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس کا حل یہ ہے کہ ان کو پہلے درہم دینار کے عوض بیچ لیا جائے اور اس درہم و دینار کے عوض مطلوبہ گندم کی زیادہ یا کم مقدار حاصل کر لی جائے۔ اس سلسلے میں حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت ہماری رہنمائی کرتی ہے : (صحیح بخاری، کتاب البیوع)

''حضرت بلالؓ رسول اللہﷺ کے پاس برنی کھجور (اعلیٰ قسم) لائے۔ آپؐ نے پوچھا: کہاں سے لائے؟ کہا: ہمارے پاس ناکارہ کھجوریں تھیں، تو میں نے ایک صاع کے بدلے دو صاع کے حساب سے بیچ دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ تو خالص سود ہے، یہ تو خالص سود ہے۔ ایسا مت کرو، ہاںجب ایسا ارادہ ہو تو اپنی کھجور الگ بیچو اور اس رقم سے دوسری کھجور خرید لو''

اس سے معلوم ہوا کہ شریعت ان بنیادی ضرورت کی اشیاء میں بالکل کھرے اور واضح لین دین کو رواج دینا چاہتی ہے یعنی اگر کسی جنس کو مال سے بیچ کردوسری جنس کو خریدا جائے گا تو اس سے ہر دو کی حقیقی قدر کا تعین ہوجائے گا اور کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہ رہے گی۔ کیونکہ کرنسی کا بنیادی وظیفہ یہ بھی ہے کہ وہ مال کی حقیقی قدر کا تعین کر دیتی ہے اور ایک جنس کے سودے میں اس کی قدر کا واضح تعین اور شک و شبہ کا کلی اِنسداد دَراصل اس جنس کی خریدوفروخت میں آسانی پیدا کردیتاہے۔ خرید و فروخت میں آسانی کا لازمی نتیجہ ان اَجناس کی آزادانہ اور وسیع تر خریدوفروخت میں نکلے گا۔

کیا ربا صرف اُدھار میں ہی ہوتا ہے؟ اوپر بیان کردہ بحث سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ربا الفضل بھی سود کے زمرے میں شامل ہے۔ احادیث ِنبویہ میں واضح الفاظ میںاس کو ربا شمار کیا گیا ہے (دیکھیں مذکورہ بالا حدیث میں خط کشیدہ الفاظ) ۔ آئندہ صفحات میں ہم واضح کریں گے کہ ربا الفضل کی زد میں کون کون سے سودی لین دین آتے ہیں ...عا م طو ر پر جن دلائل کے ذریعے ربا کو صرف ادھار کے سود تک محدود کیا جاتا ہے ، ذیل میں ان کی وضاحت پیش کی جاتی ہے :
http://magazine.mohaddis.com/shumara/114-sep-oct1999/1651-sood-tijarti-haram
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس ساری تفصیل سے واضح ہے کہ :
اشیاء و اجناس کے تبادلہ میں قیمت و مقدار کی کمی ،بیشی صرف انہی منصوص چیزوں میں منع ہے جو حدیث شریف میں بیان کی گئی ہیں ،
ان اجناس و اشیاء کے علاوہ چیزوں کے تبادلہ میں کمی بیشی جائز ہوگی ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اس طرح اللجنۃ الدائمۃ کا درج ذیل فتوی بالکل صحیح ہے جس میں فرماتےہیں :
پرانے سامان کے بدلہ نیا سامان مزید کچھ قیمت دے کر لینا ؟
السؤال الأول من الفتوى رقم (15930)
س1: يوجد لدينا مكان لاستبدال الأدوات المنزلية، وذلك بأن تحضر إليه الثلاجة أو الغسالة القديمة، ثم يقوم بشرائها منك، ثم تشتري منه ثلاجة أو غيرها جديدة، وتدفع الفرق. فما حكم هذا العمل؟

سوال :گھریلو پرانا سامان مثلاً فرج ، کپڑے دھونے کی مشین وغیرہ دے کر نیا سامان لینا ،اورساتھ مزید پیسے دینا شرعاً کیسا ہے ؟
ج1: لا بأس باستبدال الأدوات المنزلية القديمة بأدوات جديدة مع زيادة يدفعها صاحب الأدوات القديمة، نظرا للفرق بين قيمة النوعين؛ لأن هذا من البيع الذي أحله الله، ولا محذور فيه، إذا لم يكن ذلك عن مشارطة.
جواب : پرانا گھریلو سامان دے کر اس جگہ نیا سامان لینا ،اور نئے ،پرانےسامان کی قیمت میں فرق کے سبب پرانے سامان نغ ساتھ مزید کچھ قیمت ادا کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ، کیونکہ یہ صورت خرید و فروخت کی اس صورت کی ہے جسے اللہ تعالی نے حلال کیا ہے ،
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

بكر أبو زيد ... عبد العزيز آل الشيخ ... صالح الفوزان ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
فتاوى اللجنة 13/166
https://archive.org/stream/fldbeefldbee/fldbee13#page/n166/mode/2up
 
Top