• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پردہ

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
شرم و حیا کا جاتے رہنا

اس عادتِ بد کی وجہ سے رفتہ رفتہ عورت سے شرم و حیا ختم ہوتی جاتی ہے جو ایمان کا جز ار فطرت کا لازمی تقاضا ہے۔ایک زمانے میں عورت شرم و حیا میں ضرب المثل ہوتی تھی ،مثلا کہاجاتا تھا:
احیا من العذراء فی خدرھا
"فلاں تو پردہ نشین دوشیزہ سے بھی زیادہ شرمیلا ہے۔"
شرم و حیا کا جاتے رہنا نہ صرف یہ کہ عورت کے لیے دین و ایمان کی غارت گری ہے بلکہ اس فطرت کے خلاف بغاوت بھی ہے جس پر اسے خالق کائنات نے پیدا کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مَردوں کا فتنے میں مبتلا ہونا

بے پردہ عورت سے مُردوں کا فتنے میں پڑنا طبعی امر ہے ،خصوصا جبکہ وہ خوبصورت بھی ہو،نیز ملنساری ،خوش گفتاری یا ہنسی مذاق کا مظاہرہ کرے۔ایسا بہت سی بے پردہ خواتین کے ساتھ ہو چکا ہے۔جیسا کہ کسی نے کہا ہے:
نظرۃ فسلام فموعد فلقاء
"نگاہیں ملیں، سلام ہوا،بات چیت ہونے لگی،پھر قول و قرار ہوئے اور معاملہ باہم ملاقاتوں تک جا پہنچا۔"
شیطان انسانی جسم میں خون کی طرح رواں دواں ہےبار ہا ایسا ہوا ہے کہ باہمی مذاق کے نتیجے میں کوئی مرد کسی عورت پر یا عورت کسی مرد پر فریفتہ ہو گئی جس سے ایسی خرابی پیدا ہوئی کہ اس سے بچاؤ کی کوئی تدبیر نہ بن آئی۔اللہ تعالیٰ سب کو سلامت رکھے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مرد و عورت کا آزادانہ میل جول

چہرے کی بے پردگی سے عورتوں اور مَردوں کا اختلاط عمل میں آتا ہے۔جب عورت دیکھتی ہے کہ وہ بھی مَردوں کی طرح چہرہ کھول کر بے پردہ گھوم پھر سکتی ہے تو آہستہ آہستہ اسے مَردوں سے کھلم کھلا دھکم پیل کرنے میں بھی شرم و حیا محسوس نہیں ہوتی اور اس طرح کے میل جول میں بہت بڑا فتنہ اور وسیع فساد مضمر ہے۔
ایک دن رسول اکرم ﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے۔آپ نے عورتوں کو مَردوں کے ساتھ راستے میں چلتے ہوئے دیکھا،تو عورتوں سے ارشادفرمایا:
"استاخرن فانہ لیس لکن ان تحققن الطریق علیکن بحافات الطریق"(رواہ ابو داود ،الادب،باب فی مشی النساء مع الرجال،حدیث: 5282)
"ایک طرف ہٹ جاؤ۔راستے کے درمیان چلنا تمہارا حق نہیں ہے۔ایک طرف ہو کر چلا کرو۔
رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان کے بعد خواتین راستے کے ایک طرف ہو کر اس طرح چلتیں کہ بسا اوقات ان کی چادریں دیوار کو چھو رہی ہوتیں۔اس حدیث کو ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا۟ مِنْ أَبْصَٰرِهِمْ
ترجمہ: ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں (سورۃ النور،آیت 30)
کی تفسیر کرتے ہوئے ذکر کیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی غیر محرم مَردوں سے عورتوں کے پردہ کرنے کے واجب ہونے کی تصریح کی ہے،چنانچہ وہ آیت:
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ
ترجمہ: اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے (سورۃ النور،آیت31)
کے تحت فرماتے ہیں کہ نماز میں عورت کا ظاہری زینت کو ظاہر کرنا جائز ہے علاوہ باطنی زینت کے،اور سلف صالحین کا زینت ظاہرہ میں اختلاف ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے نزدیک "زینت ظاہرہ" سے مراد کپڑے ہیں جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے نزدیک "زینت ظاہرہ" سے مراد چہرے اور ہاتھ کی چیزیں ہیں جیسے انگوٹھی اور سرمہ وغیرہ۔ان دو مختلف اقوال کے لحاظ سے اجنبی عورت کی طرف دیکھنے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ایک قول یہ ہے کہ بغیر شہوت کے اجنبی عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے،یہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیھم کا مذہب ہے اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی۔دوسرا قول یہ ہے کہ دیکھنا ناجائز ہے یہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا (صحیح روایات کے مطابق) مذہب ہے۔اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عورت کا ہر عضو ستر ہے حتی کہ اس کے ناخن بھی۔اس کے بعد شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی زینت کے دو درجے مقرر کیے ہیں:
(1) زینت ظاہرہ (2) زینت غیر ظاہرہ
زینت ظاہرہ کو عورت اپنے شوہر اور محرم مَردوں کے علاوہ دسرے لوگوں کے سامنے بھی کھلا رکھ سکتی ہے۔آیت حجاب نازل ہونے سے پہلے عورتیں چادر اوڑھے بغیر نکلتی تھیں۔مَردوں کی نظر ان کے ہاتھ اور چہرے پر پڑتی تھی ۔اس دور میں عورتوں کے لیے جائز تھا کہ چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھیں اور مَردوں کے لیے بھی ان کی طرف دیکھنا مباح تھا کیونکہ ان کا کھلا رکھنا جائز تھا۔پھر جب اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب نازل فرمائی جس میں ارشاد فرمایا:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ
ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں (سورۃ الاحزاب،آیت 59)
تو عورتیں مکمل طور پر پردہ کرنے لگیں۔(مجموع الفتاوی : 22/110)
اس کے بعد شیخ الاسلام فرماتے ہیں: :جلباب چادر کا نام ہے۔"
حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسے ردا (اوڑھنی) اور عام لوگ اسے اذار (تہہ بند)کہتے ہیں۔اس سے مراد بڑا تہہ بند ہے جو عورت کے سر سمیت پورے جسم کو ڈھانپ لے۔جب عورتوں کو چادر اوڑھنے کا حکم اس لیے ہوا کہ وہ پہچانی جا سکیں تو یہ مقصد چہرہ ڈھانپنے یا اس پر نقاب وغیرہ ڈالنے ہی سے ھاصل ہو گا،لہذا چہرہ اور ہاتھ اس زینت میں سے ہوں گے جس کے بارے میں عورت کو حکم ہے کہ کہ یہ غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنی چاہیے۔اس طرح ظاہر کپڑوں کے سوا کوئی زینت باقی نہ رہی جس کا دیکھنا غیر محرم مَردوں کے لیے مباح ہو۔
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آخری حکم ذکر کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے (نسخ سے) پہلے کا حکم ذکر کیا ہے۔
آخر میں شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
"نسخ سے پہلے کے حکم کے برعکس اب عورت کے لیے چہرہ،ہاتھ اور پاؤں غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ہے بلکہ کپڑوں کے سوا کوئی چیز بھی ظاہر نہیں کر سکتی۔"(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ : 22/114)
اسی جز میں صفحہ 117 اور صفحہ 118 پر فرماتے ہیں:
"عورت کو چہرہ،ہاتھ اور پاؤں صرف غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر کرنے سے منع کیا گیا ورنہ عورتوں اور محرم مَردوں کے سامنے ان اعضاء کے ظاہر کرنے کی اجازت ہے۔"
ایک اور مقام پر فرمایا:
اس مسئلہ میں بنیادی بات یہ سمجھ لیجیے کہ شارع کے دو مقاصد ہیں:اول تو یہ کہ مرد و عورت میں امتیا رہے ،دوم یہ کہ عورتیں حجاب میں رہیں۔"(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 22/117-118)
یہ تو تھا اس مسئلے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا نقطہ نظر۔ان کے علاوہ دوسرے حنبلی فقہاء میں سے متاخرین کے چند اقوال نقل کرنے پر اکتفا کروں گا۔
"المنتہی" میں ہے کہ نامرد،خواجہ سرا اور ہیجڑے کے لیے بھی عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔"
"الاقناع" میں لکھا ہے " نامرد ہیجڑے کا عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔" اسی کتاب میں ایک اور مقام پر ہے: "آزاد غیر محرم عورت کی طرف قصدا دیکھنا،نیز اس کے بالوں کو دیکھنا حرام ہے۔"
"الدلیل " کے متن میں ہے: "دیکھنا آٹھ طرح سے ہوتا ہے۔پہلی قسم یہ ہے کہ بالغ مرد (خواہ اس کا عضو کٹا ہوا ہو ) آزاد غیر محرم عورت کی طرف بلا ضرورت دیکھے۔اس صورت میں عورت کے کسی بھی عضو کو بلا شرعی ضرورت کے دیکھنا حرام ہے حتی کہ اس کے (سر پر لگے) مصنوعی بالوں کی طرف نگاہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔" شافعی فقہاء کا موقف یہ ہے کہ بالغ آدمی کی نگاہ بطریق شہوت ہو یا اس کے بہک جانے کا اندیشہ ہو تو بلا اختلاف قطعی طور پر حرام ہے۔اگر بطریق شہوت نہ ہو اور فتنے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ان کے ہاں دو قول ہیں۔مولف "شرح الاقناع" نے انہیں نقل کرنے کے بعد کہا ہے : صحیح بات یہ ہے کہ اس قسم کی نگاہ بھی حرام ہے جیسا کہ فقہ شافعی کی مشہور کتاب "منہاج" میں ہے۔" اس کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ عورتوں کا بے پردہ کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلنا تمام اہل اسلام کے نزدیک بالاتفاق ممنوع ہے،نیز یہ کہ نگاہ فتنے کا مقام اور شہوت کی محرک ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا۟ مِنْ أَبْصَٰرِهِمْ
ترجمہ: مومنوں سے کہہ دو کہ نگاہ نیچی رکھا کریں (سورۃ النور،آیت 31)
احکام شریعت میں ملحوظ حکمتوں کے شایان شان امر یہی ہے کہ فتنے کی طرف کھلنے والا دروازہ بند کیا جائے اور حالات کے تفاوت کو بہانہ بنانے سے گریز کیا جائے۔
"نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار" میں ہے: عورتوں کا بے پردہ کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلنا بالخصوص اس زمانے میں جہاں بدقماش لوگوں کی کثرت ہو،بالاتفاق اہل اسلام حرام ہے۔"
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
چہرے کے پردے کو واجب نہ سمجھنے والوں کے دلائل اور ان کا جواب

جہاں تک مجھے علم ہے ،غیر محرم عورتوں کے چہرے اور ہاتھوں کی طرف دیکھنے کو جائز قرار دینے والوں کے پاس کتاب و سنت سے صرف مندرجہ ذیل دلائل ہیں:
پردے کو واجب نہ سمجھنے والوں کے دلائل
(1) فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ
ترجمہ: "اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو"(سورۃ النور،آیت 31)
کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) سے مراد عورت کا چہرہ،اس کے ہاتھ کی انگوٹھی ہے۔یہ قول امام اعمش نے سعید بن جبیر کے واسطے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ صحابی کی تفسیر حجت ہے۔

(2) ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا باریک کپڑے پہنے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ (ﷺ) نے چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا،نیز چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"یا اسماء ! ان المراۃ اذا بلغت المحیض لم یصلح لھا ان یری منھا الا ھذا وھذا ،واشار الی وجھہ وکفیہ"(سنن ابی داود ،اللباس ،باب فیما تبدی المراۃ من زینتھا،حدیث : 4104)
"اے اسماء! جب عورت بالغ ہو جائے تو جائز نہیں کہ اس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا کچھ نظر آئے۔"

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں:
كان الفضل رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاءت امرأة من خثعم، فجعل الفضل ينظر إليها وتنظر إليه، وجعل النبي صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر
"(حجۃ الوداع میں ان کے بھائی) فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ اسی دوران میں خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی۔فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اس کی طرف اور وہ فضل کی طرف دیکھنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری جانب کر دیا۔"
ان حضرات کی رائے میں یہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ عورت اپنا چہرہ کھلا رکھے ہوئے تھی۔

(4)حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے نماز عید پڑھانے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے نماز پڑھانے کے بعد لوگوں سے خطاب فرمایااور وعظ و نصیحت کی،پھر چل کر عورتوں کے قریب تشریف لے گئے۔ان سے بھی خطاب کیا اور وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
"تصدقن ،فان اکثرکن حطب جھنم ،فقالت امراۃ من سفلۃ النساء سفعاء الخدین۔۔۔۔"(مسند احمد: 3/318 ،وسنن النسائی،صلاۃ العیدین، باب قیام۔۔۔،حدیث :1576)
("اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو کیونکہ جہنم کا زیادہ تر ایندھن تم (عوتیں) ہی ہو۔اس پر ایک کم درجے کی عورت جس کےرخسار سیاہی مائل تھے،نے کہا۔۔۔۔")
اگر اس عورت کا چہرہ کھلا نہ ہوتا تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو پتہ نہ چلتا کہ اس عورت کے رخسار سیاہی مائل ہیں۔
میری دانست میں یہی وہ دلائل ہیں جن سے غیر محرم مَردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنے کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مذکورہ بالا دلائل کا جواب

یہ دلائل اس درجے کے نہیں ہیں کہ ان کے پیش نظر گزشتہ صفحات میں مذکور دلائل سے صرف نظر کیا جا سکے جو چہرے کے پردہ واجب ہونے پر واضح دلالت کرتے ہیں ۔پرے کے وجوب کے دلائل درج ذیل وجوہ کی بنا پر راجح ہیں۔
جن دلائل میں چہرہ ڈھانپنے کا ذکر ہے ان میں ایک مستقل اور نیا حکم ہے۔چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل اپنے اندر کوئی حکم نہیں رکھتے (کیونکہ یہ تو پردے کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا عام معمول تھا۔) علمائے اصول کے ہاں یہ ضابطہ مشہور و معروف ہے کہ عام حالت کے خلاف کوئی دلیل ہو تو اسے ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ عام حالت کے خلاف جب تک دلیل نہ ملے (اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جاتا)اسے برقرار رکھا جاتا ہے اور جب نئے حکم کی کوئی دلیل مل جائےتو اصل اور پہلی حالت کو برقرار رکھنے کے بجائے نئے حکم کے ذریعے سے اس میں تبدیلی کر دی جاتی ہے۔

اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو شخص نئے حکم (چہرہ ڈھانپنے ) کی دلیل دیتا ہے اس کے پاس ایک نئی چیز کا علم ہے ،وہ یہ کہ پہلی اور عمومی حالت بدل چکی ہے اور چہرہ ڈھانپنا فرض ہو گیا ہے۔جب کہ دوسرے فریق کو ئی دلائل نہیں مل سکے،لہذا مثبت کو نافی پر اس کے زائد علم کی وجہ سے ترجیح حاصل ہو گی۔
یہ ان حضرات کے پیش کردہ دلائل کا اجمالی جواب ہے۔بالفرض اگر تسلیم کر لیا جائے کہ فریقین کے دلائل ثبوت اور دلالت کے اعتبار سے برابر ہیں،پھر بھی اس مسلمہ اصولی قاعدے کے پیش نظر چہرہ ڈھانپنے کی فرضیت کے دلائل مقدم ہوں گے۔
*جب ہم چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ یہ دلائل چرہ کھلا رکھنے کی ممانعت کے دلائل کے ہم پلہ نہیں ہیں جیسا کہ آئندہ صفحات میں ہر ایک دلیل کے الگ الگ جواب سے واضح ہو گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر کے تین جواب ہیں:
ہو سکتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پردے کی آیت نازل ہونے سے پہلے کی حالت ذکر کی ہو جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں ابھی گزرا ہے۔


یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا مقصد اس زینت کا بیان ہو جس کا ظاہر کرنا منع ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے۔ان دونوں باتوں کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ
ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں (سورۃ الاحزاب،آیت 59)
کے متعلق منقول تفسیر سے ہوتی ہے،چنانچہ گزشتہ صفحات میں قرآن حکیم کی آیات سے پردے کے دلائل کے ضمن میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔
اگر ہم مذکورہ بالا دونوں احتمالات تسلیم نہ کریں تو تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر صرف اس وقت حجت ہو سکتی ہے جب کسی دوسرے صحابی کا قول اس کے مقابل نہ ہو۔بصورت دیگر اس قول پر عمل کیا جائے گا جسے دوسرے دلائل کی بدولت ترجیح حاصل ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے بالمقابل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس میں انہوں نے (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) "سوائے اس زینت کے جوازخود ظاہر ہو جائے" کی تفسیر چادر اور دوسرے ایسے کپڑوں وغیرہ سے کی ہے جو بہرحال ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے ڈھانپنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ النورآیت :31)
اس صورت میں ضروری ہے کہ ان دونوں اصحاب رضی اللہ عنھما کی تفسیر میں سے ایک کو دلائل کی رو سے ترجیح دی جائے اور جو قول راجح قرارپائے،اس پر عمل کیا جائے۔

*حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث دو وجوہ کی بنا پر ضعیف ہے:
1. خالد بن دریک نے جس راوی کے واطے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی ہے،اس کا ذکر نہیں کیا ہے،لہذا اس کی سند منقطع ہے جیسا کہ خود امام ابو داود نے اس کی نشاندہی کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ "خالد بن دریک نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہ راست نہیں سنا۔"اس حدیث کے ضعیف ہونے کی یہی وجہ ابو حاتم رازی نے بھی بیان کی ہے۔
2. اس حدیث کی سند میں سعید بن بشیر البصری نزیل دمشق نامی راوی ہے۔ابن مدی نے اسے ناقابل اعتماد سمجھ کر ترک کیا۔امام احمد،ابن معین،ابن مدینی نسائی رحمۃ اللہ علیھم جیسے اساطین علم حدیث نے اسےضعیف قرار دیا ہے ۔لہذا یہ حدیث ضعیف ہے اور متذکرہ صدر صحیح احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
علاوہ ازیں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کی عمر ہجرت کے وقت ستائیس سال تھی۔یہ نا ممکن ہے کہ اس بڑی عمر میں وہ نبی ﷺ کے سامنے ایسے کپڑے پہن کر جائیں جن سے ان کے ہاتھوں اور چہرے کے علاوہ بدن کے اوصاف ظاہر ہو رہے ہوں۔بالفرض اگر حدیث صحیح بھی ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور پردہ واجب کرنے والی نصوص نے اس حکم کو بدل دیا ہے،لہذا وہ ان پر مقدم ہوں گی۔واللہ اعلم۔
*حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کا جواب یہ ہے کہ اس میں غیر محرم عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے کے جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر سکوت نہیں فرمایا بلکہ اس کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا،اسی لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ اس حدیث سے ثابت ہونے والے مسائل میں سے یہ بھی ہے کہ "غیر محرم عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔"
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس حدیث کے فوائد میں یہ بھی ذکر کیا ہے: "اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنا شرعا ممنوع اور نگاہ نیچی کرنا واجب ہے۔"قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "بعض کا خیال ہے کہ نظر نیچی رکھنا صرف اس صورت میں واجب ہے کہ جب فتنے کا اندیشہ ہو۔(اس لیے کہ آپ ﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو منع نہیں کیا) لیکن میرے نزدیک نبی ﷺ کا یہ عمل، بعض روایات کے مطابق،کہ آپ (ﷺ) نے فضل کا چہرہ ڈھانپ دیا،زبانی منع کرنے سے کہیں زیادہ تاکید کا حامل ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ آپ ﷺ نے اس عورت کو پردہ کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا،تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حالت احرام میں تھی اور احرام میں عورت کے بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جب غیر محرموں میں سے کوئی اسے نہ دیکھ رہا ہو تو چہرہ کھلا رکھے۔یہ بھی امکان ہے کہ نبی ﷺ نے بعد میں اسے یہ حکم بھی دیا ہو۔کیونکہ راوی کا اس بات کا ذکر نہ کرنا اس امر کی نہیں ہے کہ آپ (ﷺ) نے اس عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہیں دیا۔کسی بات کے نقل نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ بات سرے سے ہوئی ہی نہیں۔
حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اچانک نظر پڑ جانے کے متعلق عرض کیا تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
"اصرف بصرک"(صحیح مسلم،الآداب و سنن ابی داود،النکاح)
"اپنی نگاہ دوسری طرف پھیر لو۔"
*رہی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ،تو اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ کس سال کا واقعہ ہے۔یا تو وہ خاتون بوڑھی عورتوں میں سے ہو گی جنہیں نکاح سے کوئی سروکار نہیں ہوتا،تو ایسی خواتین کے لیے چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے اس سے دوسری عورتوں پر حجاب کا وجوب ختم نہیں ہو سکتا۔
یا پھر یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے کا ہے کیونکہ سورۃ الاحزاب (جس میں پردے کے احکام ہیں) 5 ہجری یا 6 ہجری میں نازل ہوئی اور نماز عید 2 ہجری سے مشروع چلی آتی ہے۔
واضح رہے کہ اس مسئلہ میں تفصیل کے ساتھ کلام کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس اہم معاشرتی مسئلے میں عام لوگوں کے لیے شرعی حکم کا جاننا ضروری ہے اور بہت سے ایسے لوگ اس پر قلم اٹھا چکے ہیں جو بے پردگی کو رواج دینا چاہتے ہیں۔ان لوگوں نے اس مسئلے میں کماحقہ تحقیق کی نہ غورو فکر سے کام لیا،حالانکہ اہل تحقیق کی ذمہ داری ہے کہ عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھیں اور ضروری معلومات حاصل کیے بغیر ایسے مسائل میں گفتگو کرنے سے اجتناب کریں۔
محقق کا فرض ہے کہ مختلف دلائل کے درمیان منصف جج کی طرح عدل و انصاف کے ساتھ غیر جانبدارانہ جائزہ لے اور حق کے مطابق فیصلہ کرے۔کسی ایک جانب کی دلیل کے بغیر راجح قرار نہ دے بلکہ تمام زاویوں سے غور کرے۔ایسا نہ ہو کہ وہ ایک نظریہ رکھتا ہو اور مبالغہ سے کام لے کر اس کے دلائل کو محکم اور مخالف کے دلائل کو بلاوجہ کمزور اور ناقابل توجہ قرار دے۔اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ اعتقاد رکھنے سے پہلے اس کے دلائل کا بغور جائزہ لینا چاہیے تاکہ اس کا عقیدہ دلیل کے تابع ہو نہ کہ دلیل اس کے عقیدے کے تابع،یعنی دلائل کا جائزہ لینے کے بعد عقیدہ بنائے نہ کہ عقیدہ قائم کر کے دلائل کی تلاش میں نکل کھڑا ہو۔کیونکہ جو شخص دلائل دیکھنے سے پہلے عقیدہ بنا لیتا ہے وہ اپنے عقیدے کے مخالف دلائل کو عموما رد کرتا ہے۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ان کی تحریفات کا مرتکب ہوتا ہے۔
عقیدہ قائم کر لینے کے بعد دلائل کی تلاش کے نقصانات ہمارے بلکہ سب کے مشاہدے میں ہیں کہ ایسا کرنے والا کس طرح ضعیف احادیث کو بتکلف صحیح قرار دیتا ہے یا نصوص سے ایسے معانی کشید کرنے کی سعی میں مصروف نظر آتا ہے جو اس میں پائے نہیں جاتے،لیکن صرف اپنی بات کو ثابت و مدلل کرنے کے لیے یہ سب کچھ اسے کرنا پڑتا ہے۔
مثلا راقم نے ایک صاحب کا رسالہ "پردے کے عدم وجوب" کے موضوع پر پڑھا ۔اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو سنن ابی داود میں ہے جس میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا باریک کپڑوں میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آنا اور آپ ﷺ کا فرمانا کہ "جب عورت سن بلوغت کو پہنچ جائے تو ان اعضاء کے سوا کچھ نظر نہیں آنا چاہیےاور ہاتھوں اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔" یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ یہ حدیث متفق علیہ ہے،یعنی امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیھم اس کے صحیح ہونے پر متفق ہیں،حالانکہ ایسا نہیں ہے۔امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق کہاں؟خود اسے روایت کرنے والے امام ابو داود نے اسے مرسل ہونے کے سبب معطل قرار دیا ہے اور اس کی سند میں ایک ایسا راوی ہے جسے امام احمد اور دوسرے آئمہ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔(تفصیل گزر چکی ہے)
لیکن برا ہو تعصب اور جہالت کا کہ انسان کو ہلاکت و مصیبت میں گرفتار کرا دیتے ہیں۔شیخ الاسلام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے "القصیدۃ النونیۃ" میں کیا خوب کہا ہے:
وتعر من ثوبین من یلبسھما
یلقی الردی بمذمۃ وھوان
ثوب من الجھل المرکب فوقہ
ثوب التعصب بئس الثوبان
وتحل بالانصاف افخر حلۃ
زینت بھا الاعطاف والکتفان
"ان دو کپڑوں سے اپنے آپ کو آزاد کرلو،جو انہیں پہن لیتا ہے ذلیل و خوار ہو کر ہلاکت کے گڑھے میں جا گرتا ہے،ایک کپڑا تو جہ مرکب ہے اور دوسرا تعصب۔یہ دونوں کپڑے بہت ہی برے ہیں۔عدل و انصاف کا لباس زیب و تن کرو کہ یہی خلعت فاخر ہ ہے۔جس سے شانے اور بدن کا ایک ایک حصہ مزین ہو جاتا ہے۔"
ہر مولف اور مقالہ نگار کو دلائل کی تلاش اور ان کی چھان بین میں کوتاہی کے ارتکاب سے ڈرنا چاہیے اور بغیر علم کے محض جلد بازی میں کوئی بات کہنے سے کامل اجتناب کرنا چاہیے وگرنہ وہ ان لوگوں میں سے ہو گا جن کے متعلق قرآن حکیم میں یہ وعید شدید وارد ہے:
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًۭا لِّيُضِلَّ ٱلنَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿144﴾
ترجمہ: تو اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ افتراء کرے تاکہ اِز راہ بے دانشی لوگوں کو گمراہ کرے کچھ شک نہیں کہ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (سورۃ الانعام،آیت 144)
اور ایسا بھی نہ کرے کہ ایک طرف دلائل کی تلاش اور تحقیق میں کوتاہی کا مرتکب ہو اور دوسری طرف ثابت شدہ دلائل کو ٹھکرا کر عذر گناہ بد تر از گناہ کا مصداق بنے اور اس زمرے میں داخل ہو جائے جس کے متعلق فرمان ربانی ہے:
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَبَ عَلَى ٱللَّهِ وَكَذَّبَ بِٱلصِّدْقِ إِذْ جَآءَهُۥ ۚ أَلَيْسَ فِى جَهَنَّمَ مَثْوًۭى لِّلْكَٰفِرِينَ ﴿32﴾
ترجمہ: پھر اس سے کون زیادہ ظالم ہے جس نے الله پرجھوٹ بولا اور سچی بات کو جھٹلایا جب اس کے پاس آئی کیا دوزخ میں کافروں کا ٹھکانا نہیں ہے (سورۃ الزمر،آیت 32)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق کو حق سمجھنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،نیز باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے مکمل طور پر اجتناب کی ہمت دے اور اپنی سیدھی راہ کی طرف ہدایت دے کہ وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
وصلی اللہ وسلم و بارک علی نبیہ ولی الہ واصحابہ واتباعہ اجمعین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭​
ختم شد​
 
Top