- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
خلاصہ کلام
پروفیسر صاحب کے بارے اس وقت دو انتہائیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ایک تو ان کے مداحین ہیں جو انہیں شیخ الاسلام، مجتہد مطلق اور قبلہ حضور سے کم درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں اور دوسرے ان کے شدید ناقدین ہیں جو انہیں طاہر الپادری، مرتد اور صلیبیوں کا مفتی جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ ایسے میں اس بات کی بہت ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ پروفیسر صاحب کے علمی، فکری، معاشرتی، اخلاقی اور روحانی بگاڑ و فساد پر معتدل نقد کی جائے کہ جس میں تکفیر پر مبنی فتوی کی زبان استعمال نہ ہوئی ہو۔ ایسی ہی ایک نقد ہم ذیل میں نقل کر رہے ہیں جو پروفیسر صاحب کے متجددانہ افکار پر مشتمل ایک کتاب 'متنازعہ ترین شخصیت' پر محمد خالد مصطفوی کا ایک عادلانہ تبصرہ ہے:
پروفیسر صاحب کے بارے ہماری تجویز یہ ہے کہ ان کی ہر ایک کتاب پر کتاب وسنت کی روشنی میں ایک جامع مانع تبصرہ ہونا چاہیے اور اگر ان کی ۴۰۰ کتب ہیں تو ان کتب کے بارے ۴۰۰ ناقدانہ مضامین مرتب کر کے انہیں ایک انسائیکلوپیڈیا کے طور پر شائع کر دیا جائے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی کسی بھائی سے یہ کام لے لیں۔ اور کچھ زیادہ نہ سہی اگر اتنا کام بھی ہو جائے کہ ان کی ہر کتاب میں جو روایات اور احادیث موجود ہیں ان کی تحقیق یعنی تصحیح و تضعیف ایک علیحدہ کتابچہ کی صورت میں شائع ہو جائے تو رطب و یابس پر مبنی اس فکر کی بنیادیں ہلانے کے اتنا کام بھی کافی ہے۔ اور جو ہمارے بھائی درر نامی ویب سائیٹ کو استعمال کرتے ہیں ان کے لیے تو یہ کام نسبتا اور بھی آسان ہے۔
پروفیسر صاحب کے بارے اس وقت دو انتہائیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ایک تو ان کے مداحین ہیں جو انہیں شیخ الاسلام، مجتہد مطلق اور قبلہ حضور سے کم درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں اور دوسرے ان کے شدید ناقدین ہیں جو انہیں طاہر الپادری، مرتد اور صلیبیوں کا مفتی جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ ایسے میں اس بات کی بہت ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ پروفیسر صاحب کے علمی، فکری، معاشرتی، اخلاقی اور روحانی بگاڑ و فساد پر معتدل نقد کی جائے کہ جس میں تکفیر پر مبنی فتوی کی زبان استعمال نہ ہوئی ہو۔ ایسی ہی ایک نقد ہم ذیل میں نقل کر رہے ہیں جو پروفیسر صاحب کے متجددانہ افکار پر مشتمل ایک کتاب 'متنازعہ ترین شخصیت' پر محمد خالد مصطفوی کا ایک عادلانہ تبصرہ ہے:
ایک تجویز'' متنازعہ ترین شخصیت، دراصل پروفیسر طاہر القادری کے 'سائیکل سے لینڈ کروزر تک' کے ارتقائی سفر کا جائزہ ہے جس پر نہایت مثبت انداز میں تنقید کی گئی ہے۔ جناب طاہر القادری کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ قول وفعل کے تضاد کا شکار رہے ہیں۔ اس داخلی وخارجی دوہرے پن نے ان کی شخصیت کو بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف وہ بے نظیر بھٹو کو اپنی بہن قرار دہتے ہیں تو دوسری طرف محترمہ کو کرپٹ بھی کہتے ہیں۔ ایک طرف وہ میاں نواز شریف کو سیکورٹی رسک قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف انہیں ایٹمی دھماکہ کرنے پر مبارک باد بھی پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ احتجاج اور ریلیوں سے ملک میں بدامنی پھیلے گی ، دوسری طرف وہ خود بڑے اہتمام سے احتجاجی جلسے، جلوس اور ریلیاں منعقد کرواتے ہیں۔ ادھر کلچرل میلہ کا انعقاد کرواتے ہیں تو ادھر میلاد کانفرنس کا اہتمام بھی دھوم دھام سے کرتے ہیں۔
علامہ طاہر القادری نے گزشتہ کئی برسوں سے ماڈریٹ، پروگریسو اور سیکولر شخصیت کا گاؤن پہن رکھا ہے۔ وہ خواب، کہانیاں، بے وقت کی راگنیاں اور اوٹ پٹانگ باتوں سے قوم کو محظوظ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی پریس کانفرنسیں رطب ویابس، لاحاصل اور مناقضات سے بھرپور ہوتی ہیں۔ بہترین درسگاہ 'ادارہ منہاج القرآن' جن عظیم الشان مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیاگیا تھا، بدقسمتی سے وہ پروفیسر طاہر القادری کی منفی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ مہاتما بننے کی اندھی خواہش اور خود کو 'عقل کل' سمجھنے کے نفسیاتی عارضے کا شکار ہو کر ان کی شخصیت 'ایسٹریکٹ آرٹ' کا شہکار بن چکی ہے۔ یہا ں سے فارغ ہونے والے نوجوان جنہوں نے کار زمانہ کی باگ دوڑ سنبھالنا تھی، اپنی اوچھی حرکات کی بدولت معاشرے میں ہدف تضحیک بن کر رہ گئے ہیں۔ 'مصطفوی انقلاب' کے نعرہ سے دستبرداری کے بعد 'وزیر اعظم طاہر القادری' ان کا نصب العین ٹھہرا۔
نجانے انہیں کس کی نظر کھا گئی کہ ان کا معیار ایک مسخرے کی سطح سے بھی نیچے گر گیا۔ احسن تقویم کی بلندیوں کی طرف گامزن اسفل السافلین کی اتھاہ گہرائیوں میں گر گئے۔ قال اللہ و قال الرسول کی ایمان افروز آوازوں سے مہکنے والی کلاس روموں میں اب 'بن کے مست ملنگ رہیں گے، طاہر تیرے سنگ رہیں گے' کے ترانے، بھنگڑے ڈالتے ہوئے، فلمی طرز پر گانے گائے جاتے ہیں۔ انا للہ ونا لیہ راجعون۔ شاید انہیں بتایا گیا ہو کہ اس 'مجاہدہ' سے عرفان حاصل ہوتا ہے جبکہ وہ اس عاشقی میں عزت سادات بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ اہل بصیرت اس صورتحال کو زوال اور عذاب سے تعبیر کرتے ہیں۔ واقعی جہاں لنگڑے بھنگڑے ڈالیں، اندھے بیچیں، سر کٹے دستاریں فروخت کریں، گنجے 'مقابلہ آرائش گیسو' کا انعقاد کروائیں اور ٹنڈے شمشیر زن ہونے کا دعوی کریں، وہاں سے کس خیر کی توقع کی جا سکتی ہے؟ ایسی پستی ہے اہل نظر، آشوب چشم اور اہل فکر ،ضیق النفس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ انہیں اس ناقابل تلافی نقصان کا احساس بھی باقی نہیں رہتا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
جناب طاہر القادری کا یہ جرم نہایت سنگین ہے کہ انہوں نے محض سستی شہرت ، دولت اور سیاسی اقتدار کی خاطر ایسے خوابوں کا سہارا لیا جن میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صریحا توہین پائی جاتی ہے۔ ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ کوئی 'نابغہ روزگار' اس حد تک ذہنی قلاش ہو سکتا ہے۔''
پروفیسر صاحب کے بارے ہماری تجویز یہ ہے کہ ان کی ہر ایک کتاب پر کتاب وسنت کی روشنی میں ایک جامع مانع تبصرہ ہونا چاہیے اور اگر ان کی ۴۰۰ کتب ہیں تو ان کتب کے بارے ۴۰۰ ناقدانہ مضامین مرتب کر کے انہیں ایک انسائیکلوپیڈیا کے طور پر شائع کر دیا جائے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی کسی بھائی سے یہ کام لے لیں۔ اور کچھ زیادہ نہ سہی اگر اتنا کام بھی ہو جائے کہ ان کی ہر کتاب میں جو روایات اور احادیث موجود ہیں ان کی تحقیق یعنی تصحیح و تضعیف ایک علیحدہ کتابچہ کی صورت میں شائع ہو جائے تو رطب و یابس پر مبنی اس فکر کی بنیادیں ہلانے کے اتنا کام بھی کافی ہے۔ اور جو ہمارے بھائی درر نامی ویب سائیٹ کو استعمال کرتے ہیں ان کے لیے تو یہ کام نسبتا اور بھی آسان ہے۔