سوشل میڈیا پر تحریر اور پوسٹس کی’’چوریاں‘‘ عام ہوچکی ہیں لوگ دوسروں کی تحاریر کاپی کر کے اپنی ٹائم لائن یا پیجز پر پیسٹ کرتے ہیں۔ پوسٹس چوری کر کے چپکاتے ہیں اور سب سے زیادہ خطرناک ترین بات یہ ہے کہ وہ اسے گناہ نہیں بلکہ صدقہ جاریہ سمجھتے ہیں، ان کو معلوم ہی نہیں کہ چوری کس بلا کا نام ہے؟ سب سے پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ چوری کہتے کسے ہیں-
چوری (سرقہ) کا لغوی معنی ہے خفیہ طریقے سے کسی اور کی چیز اٹھا لینا۔اور یہی کام آج لوگ کر رہے ہیں اسی کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو تحریر اور پوسٹس کے چور خفیہ طریقے سے اٹھا کر اپنی ٹائم لائن یا پیج پر چسپا کر دیتے ہیں اور چوری کرتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے کہ یہ غلط ہے بلکہ کچھ لوگ تو اسے چوری سمجھتے ہی نہیں ہیں وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ دین کی باتیں آگے بڑھانا یہ اچھا کام ہے اور کچھ جہلاء تو ماشاء اللہ اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اپنا نام شریف بھی اس پر کندہ کر کے ولایت کے درجات طے کر رہے ہیں۔
ان کا مقصد یا تو اپنی جہالت پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے، نام کمانا ہوتا ہے کہ لوگ کہیں ماشاء اللہ بہت متقی اور علم والا ہے یا پھر لوگوں سے واہ واہی وصول کرنا ہوتا ہے۔
آيئے اس مسئلے کو الله کے کلام اور فرمان رسول صلی الله علیہ کی حدیث سے سمجھتے ہیں -
فرمان باری تعالی ہے:
''لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ''
ترجمہ: وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارہ میں نہ سمجھئے ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
(آل عمران/188)
اس آیت کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فیسبکئیے چور پورے پورے کھرے اترتے ہیں انکا کام ہی یہی ہے دوسروں کی محنت پر خود کریڈٹ لینا-
چوری صرف مال ودولت کی ہی چوری نہیں ہے بلکہ اس کی بہت سی اقسام ہیں
رسول الله ﷺ نے فرمایا:
'' چوری کے اعتبار سے بہت برا چور لوگوں میں وہ شخص ہے جواپنی نماز میں چوری کرتا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا ، اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بھلا وہ اپنی نماز سے کیونکر چوری کرے گا۔ آپ نے فرمایا، جو اپنی نماز کا رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا نہ کرے۔''
(رواہ احمد)
نماز ادا کرنا تو ایک اچھا عمل ہے بلکہ تمام عمل سے اچھا عمل ہے تو بھلا چوری کیونکر ممکن ہے؟ وہ اس لئے کہ جو اصول اور طریقہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا وہ اس اصول اور طریقے کے مطابق نہیں پڑھتا تو وہ چور ہوا، اسی طرح سے ہر چیز کا ایک اصول ہے اگر وہ چیز اصول کے مطابق نہیں ہوئی تو خرابی ہونا لازمی ہے -
اگر آپ کسی کی تحریر، پوسٹ یا گرافکس اٹھا رہے ہیں تو اسکے بھی اصول ہیں کہ:
١- اس بندے سے آپ پوچھ لیں جسکی پوسٹ یا تحریر اٹھا رہے ہیں-
٢- نہ پوچھنے کی صورت میں ایمانداری سے آپ آخر میں اسکا نام ضرور لکھیں-
٣- یا اگر کسی کتاب سے کسی کی تحریر لے رہے ہیں تو اس کتاب کا حوالہ ضرور دیں-
٤- جہاں سے آپ کاپی پیسٹ کر رہے ہیں اسکا لنک بھی ضرور دیں-
ایک بات ذہن میں رکھیں کہ چوری چوری ہوتی ہے چاہے وہ کسی بھی چیز کی ہو-
ان لوگوں کا ذکر کر دینا بھی ضروری ہے جو ان جیسے '' چوروں '' کے ہم خیال ہوتے ہیں یعنی اگر ان چوروں کو کوئی نصیحت کرتا ہے تو انہیں بہت برا لگتا ہے دراصل یہ انہیں کی ایک کیٹگری ہے جو چوری کرنے میں انکی مدد کرتے ہیں-
ایسے لوگ یا تو اسے چوری نہیں سمجھتے یا پھر ایسے گناہ کو گناہ نہیں سمجھتے یا پھر بہت حقیر سمجھتے ہیں انکی مثال ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث سے دیتے ہیں-
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ’’گناہوں کو چھوٹا نہ سمجھو،ایک قوم چھوٹی چھوٹی لکڑیاں جمع کرکے آگ جلاتی ہے پھر اپنی روٹیاں پکاتی ہے گناہوں کو چھوٹا سمجھنا ، اپنے آپ کوہلاک کرتاہے‘‘۔
(مسند احمد)۔
امام ابن القیم فرماتے ہیں ’’یہ مسئلہ اہم ترین ہے لوگ کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں ۔خوف کھاتے ہیں ۔لیکن صغیرہ گناہوں میں بے پرواہی کرتے ہیں ۔ان سے پرہیز نہیں کرتے ۔آہستہ آہستہ ان صغیرہ گناہوں کاجم غفیر اکھٹا ہوجاتا ہے پھر کبیرہ گناہوں میں سے بھی خوف کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے‘‘۔
(مدارج السالکین)۔
اخیر میں نصیحت اور تنبیہ ان چوروں کے لئے۔۔۔
اخیر میں نصیحت اور تنبیہ ان چوروں کے لئے جو اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں اسکی کئی ایک وجوہات ہیں- ان میں سے ایک یہ ہے کہ دوسروں کی پوسٹس اور تحاریر پر اپنا نام لکھ کر خود کی تعریفیں بٹورنا ہوتی ہیں جس سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ یہ کام الله کے لئے نہیں ہے بلکہ لوگوں کو دکھاوے کے لئے ہے اوپر سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہمارا مقصد تبلیغ واصلاح ہوتا ہے جب مقصد تبلیغ اور اصلاح ہے تو پھر دوسروں کی پوسٹس اور تحریر پر اپنا نام چسپا کرنا چہ معنى؟ اگر آپ اللہ کے لیئے کام کرنا چاہتے ہیں تو یا تو اصول مدنظر رکھ کر کریں اور اگر صاحب تحریر یا مصنف یا پوسٹ بنانے والے کا نام لکھنا آپ کی شان میں کمی کرتا ہے تو صرف قرآنی آیات اور صحیح احادیث کاپی پیسٹ کرنے پر ہی اکتفاء کریں۔
یہ ریا اور دکھاوا اس قدر خطرناک گناہ ہے کہ الامان والحفيظ ....
جان لیجئے چوری کی پوسٹ سے نام کمانا ریاکاری ہے۔ اسے شرک اصغر کہا گیا ہے اور اس بخار میں مبتلا لوگوں کے لئے فرمان رسول ﷺ ہے کہ:
’’جس چیز کے بارے میں مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف ہے وہ شرک اصغر ہے۔‘‘صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !شرک اصغر کیا ہے …؟ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دکھاوا! بیشک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے : جائو ان لوگوں کے پاس جن کو دکھانے کے لئے تم لوگ دنیا میں عمل کرتے تھے ،پھر دیکھوکیا تم ان کے پاس سے کوئی بدلہ پاتے ہو۔‘‘
(مسند احمد)
اس لیئے اپنی سوچوں کو بدلیئے اور نیتوں کو خالص کیجئے۔متکبر بن کر ڈھٹائی اختیار نہ کیجئے اب اگر ان سب دلائل کے باوجود ایسے لوگوں کو سمجھ میں نہ آئے تو سمجھ لیجئے کہ اسکے دل میں کبر اور گھمنڈ ہے جسکے متعلق ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
''وہ شخص دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا۔''
(مسلم)
اس طرح کے کام دراصل جھوٹی عزت کے لئے ہی کیا جاتا ہے جسکے متعلق فرمان الہی ہے:
''وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّـهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ''
(البقرہ/206)
جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو اس کی (جھوٹی) عزت(کی آرزو کا تکبر) اسے گناہ پر جما دیتا ہے۔ پس اسے جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔
وما علینا الا البلاغ
لنک
Last edited by a moderator: