• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پيرس پر داعش کے حملے

شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
اس موضوع پر ہم آپ سے کهل کر بات کرنے کے لیے رضی ہیں.اور اس "حقيقی دہشت گردی" ميں چاہے اب امریکہ آئے یا کوئی ملک یا پهر کوئی تنظیم بات دلائل کے ساته ہوگی.

جہاں تک مختلف عالمی تنازعات کے حوالے سے امريکی کردار يا بعض تجزيہ نگاروں کے نزديک "مجرمانہ عدم مداخلت" کا سوال ہے تو اس ضمن ميں صدر اوبامہ کی جانب سے اقوام متحدہ ميں کی گئ ايک تقرير کا حصہ پيش ہے جو ہمارے موقف کی وضاحت کرتا ہے۔

"جو امريکہ پر اس بنياد پر تنقيد کرتے رہے ہيں کہ امريکہ اکيلا ہی دنيا بھر ميں اقدامات اٹھاتا رہتا ہے، اب وہ خاموش تماشائ بن کر اس انتظار ميں کھڑے رہنے کے مجاز نہيں ہيں کہ امريکہ تن تنہا دنيا کے مسائل حل کر دے گا۔ ہم نے الفاظ اور عملی اقدامات کے ذريعے دنيا سے روابط قائم کرنے کے ايک نۓ دور کا آغاز کر ديا ہے۔ اب يہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس ضمن ميں اپنا کردار ادا کريں۔"

صدر اوبامہ کے الفاظ زمينی حقائق اور دنيا کے اہم ترين مسائل کے ضمن ميں ايک حقيقت پسندانہ تجزيہ ہے۔
ہم اس تجزیے سے متفق نہیں.کیونکہ اوباما کا یہ بیان صرف قولی حد تک محدود ہے.اور اس کا عمل اس کے الٹ ہے.جس سے امريکہ خود سب سے بڑا دہشت گرد ملک ثابت ہوتا ہے.
يہ ايک غير حقيقی اور غير فطری بات ہے کہ دنيا بھر کے تمام تر مسائل کے ليے امريکہ ہی کو مورد الزام قرار ديا جاۓ۔ اسی طرح يہ سوچ بھی غلط ہے کہ خطے کے ديگر فريقين اور اہم کرداروں کی ذمہ داريوں کو نظرانداز کر کے امريکہ سے ہی يہ توقع رکھی جاۓ کہ تمام تر مسائل کرنے ميں امريکی حکومت فيصلہ کن کردار ادا کرے۔
بهائی جان دنیا کے سارے مسائل کی جڑ امريکہ ہے.یہ الزامات نہیں تلخ حقيقتیں ہیں.جن پر آپ بڑی آسانی سے ہاتھ صاف کررہے ہیں.
يہ بھی ياد رہے کہ بہت سے عالمی مسائل کئ دہائيوں پر محيط ہيں اور بعض ايشوز ايسے بھی ہيں جن ميں براہراست فريق امريکی مداخلت کے حق ميں ہی نہيں ہيں۔ کشمير کا مسلہ بھی اسی کيٹيگری ميں آتا ہے۔
یہ آپکا اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے.کیونکہ پاکستان متعدد بار امریکہ کو باور کروا چکا ہے.کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت حل کیا جائے. اور کشمیریوں کو حق خودارادیت ملنا چاہیے.پر آپ نے تو نئی ہی کہانی سنا دی.
ماضی بعيد ميں مختلف اقوام کی دنيا ميں حيثيت اور اثر رسوخ کا دارومدار جنگوں اور معرکوں کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے حالات اور نتائج کے تناظر ميں ہوتا تھا جبکہ جديد دور ميں کسی بھی قوم کی برتری کا انحصار سائنس اور ٹيکنالوجی کے ميدان ميں کاميابی، کاروبار اور معاش کے مواقعوں اور نت نۓ امکانات کی دستيابی پر مرکوز ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ يا کسی اور ملک کے ليے "سپر پاور" کی اصطلاح اس بنيادی اصول کی مرہون منت ہوتی ہے کہ عام انسانوں کے معيار زندگی ميں بہتری لانے کے لیے کتنے تخليقی ذرائع اور مواقعے مہيا کيے گۓ ہيں۔
ہاں اسی میں بے شمار اسلحہ کی تیاری جو کے امریکہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے.امریکہ سب سے پہلے کسی ملک میں دہشت گردی کا آغاز کرتا ہے اور پهر وہاں یہ جدید ٹیکنالوجی (اسلحہ) فروخت کر کہ اپنی معیشت کو مضبوط کرتا ہے.اور اسی پیسے سے اپنے دجالی نظام کو دنیا پر زبردستی امپلائی کرتا ہے.
آج کے جديد دور ميں جنگيں اور فسادات اجتماعی انسانی ترقی اور کاميابی کی راہ ميں رکاوٹ ہيں۔
پر آپ (امریکہ) کی راہ میں نہیں.کیونکہ امريکہ کا اسلحہ بکے رہا ہے.
جب آپ دنيا کے مختلف ممالک میں دی جانے والی امريکی امداد کو غیر اہم قرار ديتے ہيں تو آپ يہ نقطہ نظرانداز کر ديتے ہیں کہ يہ پيسہ دراصل امريکہ کے ٹيکس دہندگان سے حاصل کيا جاتا ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی عوام اپنی حکومت کو محنت سے کمائ ہوئ دولت اس بنياد پر خرچ کرنے کی اجازت دے گي کہ اس امداد کے ذريعے دنيا بھر ميں جنگوں اور فسادات کا سلسلہ دانستہ جاری رکھا جاۓ؟
آپکے جهوٹے ہونے کی سب سے بڑی وجہ. ٹونی بلئیر کا انٹرویو ہے.جس سے پتا چلتا ہے کہ ٹيکس دہندگان کا پیسہ کیسی جنگوں ميں جهنکا جارہا ہے.
 

akramali1436ram

مبتدی
شمولیت
نومبر 20، 2015
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
17
محمد جریر صاحب معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کیا داعش کا ہندوستان کے خلاف لڑنے کا بھی کوئی پروگرام ہے کیونکہ ہندوستان کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے آئے روز مسلمانوں کو مختلف الزامات کے ذریعے قتل کیا جا رہا ہے تو داعش کی پالیسی اس بارے میں کیا ہے؟
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
محمد جریر صاحب معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کیا داعش کا ہندوستان کے خلاف لڑنے کا بھی کوئی پروگرام ہے کیونکہ ہندوستان کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے آئے روز مسلمانوں کو مختلف الزامات کے ذریعے قتل کیا جا رہا ہے تو داعش کی پالیسی اس بارے میں کیا ہے؟
سب سے پہلے تو آپ یہ حدیث پڑھ لے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص)نے فرمایا:دشمن سے جنگ کی تمنا نہ کرو،ہاں جب سر پر آجاۓ،توپھر ڈٹے رہواور اللہ کو یادرکھو،اگردوران کارزار دشمن شوروغل اور طبلے بجانا شروع کریں ،تو تم خاموش ہی رہنا۔

یہ سوال تو سب سے پہلے راحیل ذلیل سے کرنا چاہئیے کہ وہ کب انڈیا پر اٹیک کرتا ہے کیونکہ سرحد اس کی اس ساتھ ملتی ہے ۔


دوسری بات یہ کہ دولۃ الاسلامیہ کسی ملامت کرنے کی پرواہ نہیں کرتی ۔
کہ ہر کوئی منہ اٹھا کر یہ سوال کرے کہ آپ لوگ انڈیا پر حملہ کیوں نہیں کرتے ۔

رہی بات کہ پروگرام ہے یا نہیں تو الحمدلِلہ ہر حربی کافر اور اس کے فرنٹ لائن اتحادیوں سے بھر پور جہاد کا پروگرام ہے ۔
لیکن بات صرف اتنی سی ہے کہ " اھم فلاھم " کے قاعدے کے مطابق ۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
ہاں اسی میں بے شمار اسلحہ کی تیاری جو کے امریکہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے.امریکہ سب سے پہلے کسی ملک میں دہشت گردی کا آغاز کرتا ہے اور پهر وہاں یہ جدید ٹیکنالوجی (اسلحہ) فروخت کر کہ اپنی معیشت کو مضبوط کرتا ہے.اور اسی پیسے سے اپنے دجالی نظام کو دنیا پر زبردستی امپلائی کرتا ہے.

پر آپ (امریکہ) کی راہ میں نہیں.کیونکہ امريکہ کا اسلحہ بکے رہا ہے.

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی جمہوری ملک ايسی خارجہ پاليسياں تشکيل نہيں دے سکتا جو اس بات کی متقاضی ہوں کہ معاشی مفادات کے حصول کے ليے دانستہ اپنے فوجيوں کو ہلاکت ميں ڈالا جاۓ۔ دوسری جانب آپ اگر ان دہشت گردوں کا جائزہ ليں جن کے خلاف ہم نبرد آزما ہيں تو يہ واضح ہو گا کہ عوامی سطح پر اپنے ايجنڈے کو مسلط کرنے کے ليے وہ اپنی جانيں دينے سے بھی گريز نہيں کرتے۔ يقینی طور پر اس قسم کی خونی سوچ کے پيچھے محرک يہ نہيں ہو سکتا کہ کسی بيرونی ملک کی اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ ديا جاۓ۔

دلچسپ امر يہ ہے کہ انھی فورمز پر بعض راۓ دہندگان نے انتہائ جذباتی انداز ميں مجھ سے اس دليل کے ساتھ بحث کی ہے کہ امريکہ کو افغانستان ميں شکست ہو چکی ہے اور ہمارے پاس اس خطے سے نکلنے کے سوا کوئ چارہ نہيں ہے کيونکہ امريکی کی معيشت تباہ ہو چکی ہے اور ہماری دنيا ميں سوپر پاور کی حيثيت خطرات سے دوچار ہے۔ ليکن آپ کا يہ دعوی ہے کہ امريکہ دانستہ دنيا بھر ميں جنگوں کا آغاز کرتا ہے تا کہ معاشی استحکام حاصل کر سکے اور اپنے اسلحے کے کارخانے چالو رکھ سکے۔

اگر امريکہ کی عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائ محض معاشی خوشحالی اور اسلحے کی صنعت کے فروغ کے لیے تھی تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ يہ مبينہ معاشی وسائل اور خزانے کيوں منظرعام پر نہيں آۓ؟

کيا آپ ديانت داری کے ساتھ يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ آج امريکہ افغانستان اور عراق ميں فوجی کاروائ کے بعد معاشی فوائد حاصل کر رہا ہے؟ يقينی طور پر نہيں۔

ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی معيشت ترقی کے ليے دفاع کی صنعت پر انحصار نہيں کرتی۔ يہ بھی ياد رہے کہ صرف اسلحہ سازی ہی وہ واحد صنعت نہيں ہے جس ميں امريکہ عالمی درجہ بندی ميں سبقت لیے ہوۓ ہے۔ چاہے وہ تعليم ،زرعات، آئ – ٹی ،جہاز سازی يا تفريح کی صنعت ہو، امريکی معيشت کسی ايک صنعت پر مخصوص نہيں ہے۔

يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ امريکہ جنگ يا تشدد سے متاثرہ علاقوں کو معاشی اور سازوسامان پر مبنی امداد مہيا کرنے والوں ممالک ميں سر فہرست ہے۔

اس بات کی کيا منطق ہے کہ امريکہ دانستہ فوجی کاروائيوں اور جنگوں کی ترغيب اورحمايت کرے اور پھر متاثرہ علاقوں کی مدد کے ليے اپنے بيش بہا معاشی اور انسانی وسائل بھی فراہم کرے؟

اعداد وشمار اور عملی حقائق اس تھيوری کو غلط ثابت کرتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 
Top