حافظ راشد
رکن
- شمولیت
- جولائی 20، 2016
- پیغامات
- 116
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 75
پڑوسیوں کے حقوق
دین اسلام میں ہمسائیوں، پڑوسیوں کے بڑے حقوق ہیں ارشاد باری تعالی ہے کہ:
اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی چیز میں شرک نہ کرو، والدین، رشتہ داروں، یتیموں ، مسکینوں، رشتہ دار پڑوسیوں، اجنبی پڑوسیوں، پہلو کے ساتھ (یعنی بیوی) ، مسافر اور غلاموں سے اچھا سلوک کرو[سورۃ النساء۳۶]دین اسلام میں ہمسائیوں، پڑوسیوں کے بڑے حقوق ہیں ارشاد باری تعالی ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مازال جبریل یوصینی بالجبار حتی ظننت أنہ سیورثہ مجھے جبریل(علیہ السلام)لگاتارپڑوسی کے ساتھ (اچھی سلوک کا ) حکم دیتے رہے یہاں تک کہ میں نے یہ خیال کیا کہ وہ اسے (پڑوسی کو)وراثت کا حق دار قرار دیں گے۔ [صحیح البخاری: ۲۰۱۵و صحیح مسلم: ۲۶۲۵عن ابن عمر رضی اللہ عنہما]
ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘واللہ لا یؤمن۔۔۔الذی لا یأمن جارہ بواءقہ’’اللہ کی قسم وہ شخص (پورا ) مؤمن نہیں ہو سکتا۔۔ جس کا پڑوسی اس کے شر و فساد سے محفوظ نہ رہے۔[صحیح البخاری:۲۰۱۲] ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی ایذا رسانی اور شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔[مسلم:۴۶]
سیدنا ابو شریح العدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:من کان یؤمن باللہ ولیوم الآخر فلیکرم جارہ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت(اور اس سے اچھا سلوک) کرے۔[بخاری:۲۰۱۹، مسلم:۴۸]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہجو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ اپنے پڑوسی کو(کوئی ) تکلیف نہ دے۔[البخاری: ۲۰۱۸و مسلم : ۴۷]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حکم دیا:یا نساء المسلمات، لاتحقرن جارۃ لجارتھا ولو فرسن شاۃاے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو (تحفہ میں ) ہلکی چیز(تک) دینے میں حقارت محسوس نہ کرے اگرچہ یہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ [البخاری:۲۰۱۷و مسلم : ۱۰۳۰]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ:فلانی عورت(ہر ) رات کو تہجد پڑھتی اور ہر دن کو روزہ رکھتی ہے، (اچھے) کام کرتی اور صدقہ دیتی ہے لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘ لا خیر فیھا، ھی من أھل النار’’ اس عورت میں کوئی خیر نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ جہنمیوں میں سے ہے۔
کہا گیا کہ فلانی عورت فرض نماز پڑھتی ہے اور (کبھی کبھار) پنیر کے ٹکڑے صدقہ کر دیتی ہے اور کسی کو تکلیف نہیں دیتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ھی من أھل الجنۃ وہ جنتیوں میں سے ہے
(الادب المفرد للبخاری: ۱۱۹ و سندہ صحیح، صحیح ابن حبان ۱۳؍۷۷،۷۶ ح ۵۷۳۴)
ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اپنا ( گھر کا) سامان باہر نکال کر راستے پر رکھ دو۔ وہ چلا گیا اور اپنا سامان باہر نکال کر رکھا دیا۔ لوگ اکٹھے ہو گئے اور پوچھنے لگے: تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے لہذا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اور اپنا سامان باہر نکال کر راستے پر رکھ دو۔لوگ اس (پڑوسی ) کو بددعائیں دینے لگے: اے اللہ تو اُس پر لعنت کر، اے اللہ تو اسے ذلیل کر دے۔اس شخص کو جب معلوم ہوا تو آیا اور اپنے پڑوسی سے کہا: گھر میں واپس چلے جاؤ۔ اللہ کی قسم میں تجھے کبھی تکلیف نہیں دوں گا۔ [البخاری فی الادب المفرد: ۲۴ او سندہ صحیح، ابو داؤد:٥۱۵۳ و صححہ الحاکم علی شرط مسلم ۴؍۱۲۲،۱۲۵]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو پڑوسیوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کس سے (زیادہ )حسنِ سلوک کیا جائے!تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إلی أقر بھما منک باباً جس کا دروازہ تمہارے گھر کے زیادہ قریب ہو[البخاری: ۲۰۲۰]
ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھے، ان سے حسنِ سلوک کرے اور کسی قسم کی تکلیف نہ دے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی(سید) ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
‘‘یا أبا ذر! إذا طبخت مرقۃ فأکثر ماء ھا و تعاھد جیرانک’’ اے ابوذر! جب تم شوربے والی کوئی چیز پکاؤ تو اس میں پانی ڈال کر شور با زیادہ کر دو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔ [مسلم:۱۴۶؍۲۶۲۵،اسلامی طرز زندگی ص ۲۰۴]