• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیر کا روزہ

مقصود

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2017
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
6
اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ میرا سوال یہ ہےکہ اللہ کے نبیﷺ اپنی پیداٸش کے دن روزہ رکھتے تھے تو کیا یہ آپﷺ نے متواتر کیا اور کیا اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے یا ہم اس دن روزہ رکھ سکتے ہیں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے سوال غلط تھریڈ میں کر دیا ہے!
خیر، @محمد نعیم یونس بھائی کی خدمات حاصل کرتے ہیں؛

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیر کا روزہ رکھتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل متواتر تھا، یعنی چند پیر کے ایام کا ہی عمل نہیں تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس دن روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا، اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہوتا تو یہ ہم پر فرض و واجب ہو جاتا!
کیونکہ جس کا حکم اللہ یا اللہ کا رسول دے وہ فرض و واجب ہوتا ہے، الا یہ کہ کوئی دلیل و قرینہ اسے مندوب کی طرف منتقل کردے!
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عمل ثابت ہو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور ہر اس سنت پر جو منسوخ نہ ہو یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص نہ ہو، عمل کرنا ہمارے لیئے مسنون و مندوب ہے!
یعنی کہ وہ عمل ہمیں کرنا چاہیئے،اور اس عمل کے کرنے کا ثواب ہے، نہ کرنے کا گناہ نہیں، لیکن ایسے عمل سے بے رغبتی اخیتار کرنے پر بہت سخت وعید کے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی، وہ مجھ میں سے نہیں''

پیر کے روزے کے حوالہ سے ایک حدیث درج ذیل ہے؛
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، - وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى - قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، سَمِعَ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيَّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِهِ؟ قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِبَيْعَتِنَا بَيْعَةً. قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ صِيَامِ الدَّهْرِ؟ فَقَالَ: «لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ - أَوْ مَا صَامَ وَمَا أَفْطَرَ -» قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمَيْنِ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ؟ قَالَ: «وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ؟» قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمٍ، وَإِفْطَارِ يَوْمَيْنِ؟ قَالَ: «لَيْتَ أَنَّ اللهَ قَوَّانَا لِذَلِكَ» قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمٍ، وَإِفْطَارِ يَوْمٍ؟ قَالَ: «ذَاكَ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ - عَلَيْهِ السَّلَام -» قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ؟ قَالَ: «ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ - أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ -» قَالَ: فَقَالَ: «صَوْمُ ثَلَاثَةٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانَ إِلَى رَمَضَانَ، صَوْمُ الدَّهْرِ» قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ؟ فَقَالَ: «يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ» قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ؟ فَقَالَ: «يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ» وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنْ رِوَايَةِ شُعْبَةَ قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ؟ فَسَكَتْنَا عَنْ ذِكْرِ الْخَمِيسِ لَمَّا نُرَاهُ وَهْمًا
محمد بن جعفر نے کہا:ہمیں شعبہ نے غیلان بن جریر سے حدیث سنائی،انھوں نے عبداللہ بن معبد زمانی سے سنا،انھوں نے حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے روزوں کے بارے میں سوال کیاگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نارض ہوگئے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:ہم اللہ کے رب ہونے ،اسلام کے دین ہونے،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے،اور بیعت کے طور پر اپنی بیعت پر راضی ہیں۔(جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی۔) کہا:اس کے بعد آپ سے بغیر وقفے کے ہمیشہ روزہ رکھنے(صیام الدھر) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس شخص نے روزہ رکھا نہ افطار کیا۔"اس کے بعد آپ سے دو دن روزہ رکھنے اور ایک دن ترک کرنے کے بارے میں پوچھاگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس کی طاقت کون رکھتاہے؟"کہا:اور آپ سے ایک دن روزہ رکھنے اور دو دن ترک کرنے کے بارے میں پوچھاگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کاش کے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کام کی طاقت دی ہوتی۔"کہا:اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن روزہ ترک کرنے کے بارے میں سوال کیاگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ میرے بھائی داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔"کہا:اور آپ سے سوموار کا روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیاگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ دن ہے جب میں پیدا ہوا اور جس دن مجھے(رسول بنا کر) بھیجا گیا۔یا مجھ پر(قرآن) نازل کیا گیا۔"کہا:اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہر ماہ کے تین روزے اور اگلے رمضان تک رمضان کے روزے ہی ہمیشہ کے روزے ہیں۔"کہا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں پوچھا گیاٍ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کاکفارہ بن جاتا ہے۔"کہا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشورہ کے دن کے روزے کے بارے میں پوچھا گیاٍ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتاہے۔" امام مسلمؒ نے کہا:اس حدیث میں شعبہ کی روایت(یوں) ہے:انھوں(ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا:اور آپ سے سوموار اور جمعرات کے روزے کے بارے میں سوال کیاگیا۔لیکن ہم نے جمعرات کے ذکر سے سکوت کیا ہے،کیونکہ ہمارے خیال میں یہ(راوی کا) وہم ہے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الصِّيَامِ (بَابُ اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ)
صحیح مسلم: کتاب: روزے کے احکام و مسائل (باب: ہر مہینے تین دن کےے روزے رکھنا اور عرفہ ‘عاشورہ ‘سوموار اور جمعرات کے دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے)
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا پیر کے دن روزہ رکھنے سے عید میلاد کااثبات ہوتا ہے
سعیدی: (دلیل ۴) آپ نے ہر پیر کے دن اپنا میلاد خود منایا اور اس کی خوشی میں روزہ رکھا (مسلم شریف مشکوٰۃ )(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۴)

محمدی جواب اول:
جب ہم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دو عیدیں عید الفطر اور عید الاضحی منانے کا فرمایا ہے تو بریلوی لوگ کہتے ہیں کہ تیسری عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے تو ہم ان کو کہتے ہیں کہ اگر یہ عید ہے تو پھر عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔
لا صوم فی یومین الفطر والاضحیٰ (بخاری و مسلم مشکوٰۃ ص:۱۷۹)
تو اگر سوموار کا دن میلاد نبوی کا دن ہے اور میلاد نبوی کے دن کو عید میلاد کہتے ہو تو پھر یا تو تم سوموار کے دن کو عید میلاد نہ کہو اور اگر عید میلاد کا دن تصور کرتے ہو تو اس دن روزہ نہ رکھو کیونکہ عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے تو معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کو روزہ رکھ کر سعیدی بناوٹی عید کا خاتمہ کر دیا۔

اگر میلاد کا دن عید کا دن ہے تو جس طرح عیدین (بڑی عیدین) اور جمعہ (چھوٹی عید) کا تذکرہ اور ان کے احکامات حدیث و فقہ میں موجود ہیں عید میلا د کاتذکرہ اور اس کے احکامات حدیث و فقہ میں موجود ہونے چاہیئے اگر ہیں تو حوالہ دو اگر نہیں تو ماننا پڑے گا کہ یہ عید بعد کی پیداوار ہے۔

ہم میلاد کیوں نہیں مناتے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بسم الله الرحمن الرحیم

ایک شبہہ کا ازالہ

صحیح مسلم ،نسائی اور ابو داود کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئےجس میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: (اس دن میری ولادت ہوئی ہے ۔۔۔"

(صحیح مسلم مع النووی۸؍۲۹۲،۲۹۳)

کچھ لوگوں اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش کے دن روزہ رکھا لہذاآپ پیروی میں اپنی پیدائش کے دن روزہ رکھ سکتے ہیں ؛

یہ اشتباہ چند وجوہات کے تحت باطل ہے۔

(1)رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کے دن کا (سال میں ایک دفعہ) روزہ نہیں رکھا ہےبلکہ آپ نے سوموار کے دن روزہ رکھا ہے ، جو ہرمہینہ میں چار یا چار سے زائد مرتبہ آتا ہے ، اس بناء پر سال میں ایک دن کو کسی عمل کے لئے مخصوص کرنا اورہر ہفتہ آنے والے سوموار کوچھوڑ دینا شارع علیہ السلام کی سنت کی تمامتر مخالفت ہے ۔

(2) احادیث کے اندر مذکور ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کا بھی روزہ رکھتے تھے ، اگر آپ اپنی پیدائش کی وجہ سے روزہ رکھتے اور آپ کا مقصود عیدمیلاد ہوتا تو جمعرات کا روزہ نہیں رکھتے بلکہ آپ ﷺ ہرسال اپنی پیدائش کے دن کا روزہ رکھتے مگر آپ کا ایسا معمول نہیں تھا۔

(3)پھرکہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت جو کہ حقیقی نعمت اور پوری انسانیت کیلیے رحمت تھی ، اس رحمت کا تذکرہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا:
(وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ )

اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔[الانبیاء:107]

آپ کی ولادت تمام انسانوں کیلیے خیر کا باعث تھی، اور کہاں کسی دوسرے انسان کی پیدائش یا وفات ! کیا ان دونوں کا آپس میں کوئی مقابلہ ہو سکتا ہے؟!

(4) صحابہ اور سلف صالحین نے اس عمل کو کیوں نہیں کیا؟

سلف صالحین یا ابتدائے عہد کے اہل علم میں سے کسی سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوموار کے دن روزہ رکھنے کے عمل سے دلیل لیتے ہوئے ، ہفتے ،مہینے ،یا سال میں سے کسی خاص دن کا روزہ یا اسے تہوار کا دن قرار دینا ثابت نہیں ہے ۔اگر یہ عمل جائز ہوتا تو اہل علم و فضل اور ہر بھلائی کے کام میں سبقت لے جانے والے لوگ ہم سے پہلے اس پر ضرور عمل کرتے؛ جب انہوں نے یہ کام نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ نیا کام ہے جس پر عمل جائز نہیں ہے ۔
واللہ اعلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال:
عید کے دن روزہ رکھنا کیسا ہے؟ (سائل: حسین ربانی حفظہ اللہ)

جواب:
عید الاضحیٰ و عید الفطر کے دِن روزہ رکھنا حرام ہے:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
" هَذَانِ يَوْمَانِ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِهِمَا: يَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ، وَاليَوْمُ الآخَرُ تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ"۔
[صحیح البخاري، الصوم، باب صوم یوم الفطر، (رقم الحدیث:1990)، صحیح مسلم، الصيام ، باب النهي عن صوم يوم الفطر ويوم الأضحى، (رقم 1137)]
’’یہ دو دن ایسے ہیں جن کے روزوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے: (رمضان کے) روزوں کے بعد افطار کا دن (یعنی عیدالفطر)، اور دوسرا وہ دن جس میں تم اپنی قربانی کا گوشت کھاتے ہو (یعنی عید الاضحی کا دن)‘‘۔
علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ عید کے دِن روزہ رکھنا نا جائز ہے۔

بعض احباب کا کہنا ہے کہ اگر روزہ عید کی نماز تک رکھ لیا جائے تو کیسا ہے؟
عید کی نمازتک کا روزہ رکھنے کی کوئی دلیل نہیں۔ ممانعت کی کئی ایک آحادیث مروی ہیں۔

وباللہ التوفیق والاستعانہ
 
Top