• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیغام حرم (الشیخ ابوعبدالکریم وابوعبدالرحمن محمد بن سلطان بن محمد اورون المعصومی )

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ کا مذہب کتا ب وسنت پر عمل کرنا ہے

امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ کا مذہب کتا ب وسنت پر عمل کرنا ہے

روضۃ العلماء الزندویسیۃ میں مولف الہدایۃ سے روایت منقول ہے :
امام ابوحنیفہ سے دریافت کیاگیا جب آپ کا کوئی قول ایسا ہو کہ کتاب اﷲ اس کے خلاف ہو ؟(تو اس صور ت میں ہم کیا کریں) امام ؒ نے فرمایا کتاب اﷲکے ہوتے ہوئے میراقول ترک کردو ۔پھر پوچھا گیا :اگر رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم سے کوئی روایت اس کے خلاف ہو تو (پھر اس صور ت میں ہم کیا کریں )فرمایا :میرا قول چھوڑ دو اور حدیث ِ رسول پر عمل کرو ۔پھر دریافت کیا گیا اگر صحابہ کاقول اس کے خلاف ہو تو پھر ؟اس پر بھی فرمایا :صحابہ رضی اﷲ عنہم کے قول پر عمل کرو اور میرا قول چھوڑ دو۔
امام بہیقی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اﷲ نے فرمایا : جب میں ایک بات کہوں اور رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم سے اس کے خلاف مروی ہو تو اس صورت میں صحیح حدیث پر عمل کرنا ہی حق ہے ۔اس صورت میں میری تقلید نہ کرو ۔(۱)
امام الحرمین (۲)نے اس امر کو امام شافعی سے بصراحت نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ : ھـذ ا لا خلاف فیہ ۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
’’الکافی‘‘ میں ہے کہ اگر کوئی مجتہد مفتی ایک فتوی صادر کردے اور اس کے خلاف حدیث ثابت ہوجائے تو اس صورت میں حدیث پر عمل کرنا واجب ہوگا ۔اس لیے حدیث رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کا مقام مفتی کے قول سے کمتر نہیں ہوسکتا ۔مفتی کا قول (عامی کے حق میں )دلیل شرعی ہوسکتا ہے تو فرمان رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے بدرجہا اولیٰ ہے ۔

علامہ ابن القیم رحمہ اﷲ اعلام الموقعین (۱/۷۱) میں فرماتے ہیں:
’’امام ابوحنیفہ ؒ کے اصحاب کا اس امر پر اجماع ہے کہ ضعیف حدیث بھی قیاس ورائے پر مقدم ہے اور اسی قاعدے پر امام کے مذہب کی بنیاد ہے۔‘‘
لہٰذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس پر حدیث کے مطابق عمل کرنا واجب نہیں یا اس کے لیے جائز نہیں تو ہم صرف یہی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ محض ظن وتخمین کی بناپر اﷲکی حجت ردّ کرنا چاہتا ہے ایسا کرنا مسلمان کے شان نہیں ہے ۔
اگر کوئی یہ عذر پیش کرے کہ وہ حدیث کا مطلب نہیں سمجھ پاتا تو اس کا یہ عذر قطعًا ناقابل قبول ہے ۔اسے کیوں کر تسلیم کیا جاتا سکتا ہے جب کہ اﷲتعالیٰ نے اپنی کتاب کو صرف اس لیے نازل فرمایا ہے کہ اس کے معنی ومطالب کو اچھی طرح سمجھا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے مزید برآں اﷲتعالیٰ نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ تمام انسانوں کے لیے اس کی تفسیر وتوضیح فرمادیں۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لِتُبیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ ۔ ہم نے قرآن کو آپ پراس لئے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کلام کی تفسیر کردیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے ۔ (النحل:۴۴)

لہٰذا یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کاکلام جو لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہے سوائے فردِ واحد(امام )کے تمام انسانوں کے لیے ناقابل فہم ہے۔مقلدین کے اس دعویٰ کو اگر تسلیم کرلیا جائے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے دنیا میںکوئی مجتہد پیدا ہی نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آج کی دنیا میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی توضیح کو سمجھنے والا سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔

اس طرح کی باتیں اوّل اوّل شاید ان لوگوں کی زبانی سے نکلی تھیں جو اپنے مسلک کا خلافِ کتاب وسنت ہونا عام لوگوں سے مخفی رکھنا چاہتے تھے ۔اس مقصد کے حصول کے لیے ذریعہ یہ تلاش کیا گیا کہ کتاب وسنت کا وہ فہم جس سے مسائل کا تعلق ہے ’’مجتہدین ‘‘تک محدود کردیا گیا اور اس کے بعد دنیا سے مجتہدین کے وجود ہی سے انکار کردیا گیا اور پھر اس قسم کے جملے عام ہوگئے ۔واﷲاعلم

شاید بعض لوگوں نے مجتہد کے وجود کو ناممکن اس لیے قرار دیا کہ کہیں کوئی کسی مسلک کے کتاب وسنت کے ظواہر سے مطابقت رکھنے والے مسائل کو ترجیح دے کر اختیار ہی نہ کرے کچھ لوگوں نے اس پر مزید اضافہ کردیا اور فتویٰ دے دیا کہ ایک مسلک کو چھوڑ کر دوسرامسلک اپنانے اور تلفیق (۳)ناجائز ہے تاکہ لوگوں کو مختلف مسالک کے دلائل میں موازنہ کی کوئی صورت ہی نظر نہ آئے اور نہ کوئی اس کی خواہش رکھے اصحابِ بصیرت کے لیے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ایسی باتوں کی دینِ حنیف میں کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ ان میں سے پیشتر عقل ونقل دونوں کے مخالف ہیں اس کے باوجود کتنے ارباب علم ودانش ہیں جو رسو ل اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت سے اس کے فرض ہونے کے باوصف روگرانی کرتے ہیں اور ثقہ راویوں کے صحیح سندوں کے واسطہ سے روایت کئے گئے فرامین رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی پرواہ نہیں کرتے اور پوری توجہ مذکورہ مذاہب کے اماموں کے اقوال پر مرکوز کئے رہتے ہیں جو ان کی کتابوں میں مروی ہیں جن کی صحت کا یہ عالم ہے کہ سرے سے سند کا ہی سراغ نہیں ملتا ۔

بایں ہمہ ارباب مذاہب کی جسارت کا یہ حال ہے کہ جب کسی کو امام کے قول کے بالمقابل قرآن وحدیث کی طرف ما ئل دیکھتے ہیں تو فوراً اسے گمراہ اور بدعتی کے القاب دینے لگتے ہیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون

ہر مسلمان کا فرض تو بس یہ ہے کہ ثابت شدہ احادیث پر عمل کرے ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت کرنا خوفناک اور سنگین فعل ہے ۔اس لیے کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
فَلْیَحْذَرِ الَّذِ یْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖ اَنْ تُصِیبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَ ابٌ اَلِیْمٌ ۔
رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ میں گرفتار نہ ہوجائیں یا ان پر دردناک عذاب مسلط نہ ہوجائے ۔ (النور:۶۳)

اعتماد کے قابل حدیث سامنے آجانے کے باوجود تقلید پر جمے رہنا مسلمان کا شیوہ نہیں ہے پھر بھی اگر کوئی اس پر ڈٹا رہتا ہے تو اس کی یہ حالت ان لوگوں سے کس قدر مشابہت رکھتی ہے جن کے متعلق قرآن کہتا ہے :
وَلَئِنْ اَتَیْتَ الَّذِ یْنَ اُوتُوْا الْکِتَابَ بَکُِلّ آیَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ ۔ (البقرہ:۱۴۵)
اے نبی ! اگر تم ان اہل کتاب کو ہر ہر معجزہ بھی دکھادو تو ممکن نہیں کہ تمہارے قبلہ کی پیروی کرنے لگیں ۔

لہٰذا حدیث رسول پر عمل ہر مسلمان پر فرض ہے ۔اس کی راہ میں یہ چیز ہرگز رکاوٹ نہیں بننی چاہیے کہ وہ فلاں مکتبِ فکر سے منسلک ہے اس لیے کہ اﷲتعالیٰ کا فرمان ذی شان ہے ۔
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ ۔
پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پیدا ہوجائے تو اسے اﷲاور رسول کی طرف لوٹادو۔

آپ کی طرف لوٹانے کا معنی یہ ہے باہم اختلاف کی صورت میں آپ صلی ا ﷲعلیہ وسلم کے فرمان پر عمل کیا جائے ۔اب جبکہ ائمہ کرام کے مابین اختلاف رونما ہوچکا ہے لہٰذا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنا فرض ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): سنن بہیقی۔
(۲): امام عبدالملک بن عبداﷲالجوینی ۔ابولمعالی ۔متاخرین شافعیہ میں سب سے بڑے عالم سمجھے جاتے ہیں ۔تمام مکاتب فکر میں ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں برسوں درس وتدریس وافتاء میں مشغول رہے اور اما م الحرمین کے لقب سے شہرت پائی ۔وفات ۴۷۸ھ
(۳): تلفیق کے دومفہوم ہیں ۔ایک تو یہ کہ انسان ہر مذہب کی رخصتیں تلاش کرے اور اپنی خواہشات نفسانی کا پیرو ہوکر ان سے فائدہ اٹھاتا رہے ۔مثلاً مشروبات میں حنفیہ کا مذہب پسند کرے اور ماکولات میں مالکیہ کا یہ تلفیق بالاتفاق حرام ہے ۔دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کتاب وسنت اور ان کے علوم میں دسترس رکھنے والا شخص ہر مذہب کے ان مسائل پر عمل کرے جوکتاب وسنت کے قریب تر ہوں ۔یہ اتباع کے مترادف ہے اس مقام پر مولف کی مراد اسی سے ہے ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
جبکہ مجتہد کا قول درست بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی

جبکہ مجتہد کا قول درست بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی

تعجب خیز امر یہ ہے کہ مقلدین جانتے ہیں بلکہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مجتہد کا قول درست بھی ہوسکتا ہے اور اس میں غلطی کا امکان بھی ہے اس کے برعکس نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم سے غلطی کا صدور ممکن ہی نہیں ۔اس سب کچھ کے باوجود یہ لوگ مجتہد کے قول پر اصرار کے ساتھ جم جاتے ہیں اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان پسِ پشت ڈال دیتے ہیں ۔کاش یہ لوگ امام کے اپنے اقوال پر ہی قائم رہتے لیکن ان کا رویہ تو یہ ہے کہ ہر کس وناکس کی لکھی ہوئی باتوں پر سختی سے ڈٹ جاتے ہیں ۔مثال کے طور پر تشہد(التحیات)میں انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ کرنا رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور تمام صحابہ رضی اﷲعنہم سے ثابت ہے نیز تمام آئمہ مجتہدین بالعموم اور امام ابوحنیفہ ،امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اﷲسے بالخصوص ثابت ہے جیسا کہ مؤطا امام محدؒ ،امام طحاویؒ کی شرح معانی الآثار ،فتح القدیر العنایۃ ،عمدۃ القاری اور حنفی مسلک کی ۔دیگر معتبر کتابوں میں بصراحت مرکوز ہے لیکن اس کے باوجود ماوراء النھر کے جاہل حنفی خلاصہ کیدانی پر اعتماد کرتے ہوئے تشہد میں اشارہ کرنے کو حرام اور ممنوع قرار دیتے ہیں۔ (۱)

ہم نے بہت سے افراد کو دیکھا جو متشرع اور عبادت گزار ہیں لیکن حدیث نبوی پر عمل کرنے کے معاملے میں تساہل سے کام لیتے اور اسے چنداں اہمیت نہیں دیتے بلکہ اپنی پوری توجہ مذہب کی کتابوں پر مذکور رکھتے ہیں سمجھتے ہیں کہ حدیث تو شاید بے کار اور بے فائدہ چیز ہے ۔درحقیقت یہ جہالت کا نتیجہ ہے ۔

علامہ محمد حیات سندھی رحمۃ اﷲعلیہ فرماتے ہیں :
’’ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قرآن واحادیث کے مطالب ومعانی کو جاننے ،سمجھنے ،ان کی تلاش وجستجو کرنے اور ان سے احکام استنباط کرنے کی کوشش کرے ۔وگرنہ (تعین کئے بغیر) علماء کی تقلید کرے۔لیکن کسی ایک مذہب کا پابند نہ ہوکر رہ جائے اس لیے کہ یہ تو امام کو نبی بنانے کے مشابہ ہے اسے چاہیے کہ ہر مذہب کے اس قول پر عمل کرے جو احتیاط کے قریب ہو۔بوقت ضرورت رخصتوں پر عمل کیا جاسکتا ہے لیکن مجبوری نہ ہو تو رخصت کی بجائے احتیاط پر عمل کرنا بہتر ہے ۔ہمارے زمانے کے لوگوں نے جو بات بنارکھی ہے کہ مخصوص مذاہب کی پابندی ضروری ہے اور ایک مسلک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار نہیں کیا جاسکتا تو یہ تمام چیزیں جہالت ،بدعت اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں ۔‘‘
امام شافعی فرماتے ہیں :
’’جو شخص کسی شئے کو حلال یا حرام قرار دینے میں کسی مخصوص امام کی تقلید کرتا ہو جب کہ صحیح حدیث سے اس کے خلاف ثابت ہو لیکن تقلید اس کے سنت پر عمل کرنے کے آڑے آجائے تو وہ شخص اپنے امام کو اﷲتعالیٰ کے سوا رب بنائے ہوئے ہے جو اس کے لیے اﷲتعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو حرام اور اس کی حرام کردہ چیز کو حلال کرتا ہے ۔‘‘
انا ﷲوانا الیہ راجعون۔

انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مقلدین کے سامنے جب کسی صحابی کا فتویٰ صحیح حدیث کے خلاف ہو اور اس کی کوئی تاویل بھی نہ ہوسکے تو بلاتکلف کہہ دیتے ہیں کہ ہوسکتا ہے صحابی تک یہ حدیث نہ پہنچی ہو اور یہ بات انہیں ذرا بھی گراں نہیں گزرتی اور یہ درست بھی ہے لیکن جب کوئی ایسی حدیث ان کے سامنے آتی ہے جس پر ان کے امام کا فتویٰ نہ ہو تو اس حدیث کی ہر ممکن طریقے سے تاویل کرنے میں پورا زور صرف کردیتے ہیں بلکہ بسا اوقات تحریف تک کے مرتکب ہوتے ہیں اور جب کوئی معقول تاویل نہ بن پڑنے کی صورت میں ان سے کہہ دیا جائے کہ ممکن ہے کہ آپ کے امام صاحب کو یہ حدیث نہ پہنچی ہو تو یہ ان پر بڑا شاق گزرتا ہے ۔اور ایسا کہنے والے پر قیامت قائم کردیتے ہیں ۔اور اس پر بدترین الزامات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں ۔ان بے چارے عقل کے ماروں کو دیکھئے صحابہ کے متعلق ھدیث سے ناواقفیت کو باور کرتے ہیں لیکن اپنے آئمہ کے بارے میں یہی بات سننے پر آمادہ نہیں ہوتے حالانکہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اور ان آئمہ کے مقام ومرتبہ میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔یہ لوگ کتب حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور پڑھاتے بھی ہیں لیکن صرف’’ تبرک ‘‘کے لیے ۔انہیں سمجھنا اور ان کے مطابق عمل کرنا مقصود ہی نہیں ہوتا جب ایسی حدیث سامنے آتی ہے جو ان کے فقہی مسلک کے خلاف ہو تو اس کی تاویل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔جب بات نہ بن آئے تو کہہ دیتے ہیں ہمارے امام کو حدیث کا علم ہم سے زیادہ تھا کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ اپنی ان حرکتوں سے اپنے خلاف اﷲکی حجت قائم کررہے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کی نگاہوں کے سامنے ان کے مذہب کے موافق حدیث گزرتی ہے تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں لیکن ان کے مذہب کے مخالف حدیث سامنے آتی ہے تو ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں ۔بشاشت عنقا ہوجاتی ہے اور اسے سننا بھی گوارا نہیں ہوتا باوجودیکہ اﷲتعالیٰ کا واضح فرمان ہے:
فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً ۔ (سورۃ النساء:۶۵)

سندبن بن عنان (۲) رحمۃ اﷲ علیہ’’ مدونہ‘‘ (۳) امام مالک کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’کوئی بھی صاحب ہوش وخرد خود کو تقلید محض کے بندھن میں باندھنا پسند نہیں کرسکتا ۔صرف مفقود العقل ،ضدی اور احمق ہی ایسا کرسکتا ہے ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ تقلید ہر فرد پر حرام ہے بلکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ علماء کے اقوال اور ان کے دلائل سے واقف ہونا ضروری ہے ۔عامی کے ذمہ تو کسی عالم کی تقلید (اتباع)ہی ہے تقلید کسی پر اعتماد کرتے ہوئے دلیل وحجت پر غور کیے بغیر اس کی بات کو مان لینے کا نام ہے اس سے علم بالکل حاصل نہیں ہوتا ۔خود کوکسی معین شخص کے فہم کا پابند کرلینا فی نفسہ بدعت ہے ۔کیوںکہ ہمیں قطعی طور پر علم ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں کے عہد میں یہ دستور نہ تھا وہ کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتے تھے ۔صریح نص موجود نہ ہونے کی صورت میں باہمی تبادلہ افکار اورغور وخوص کے نتیجہ کی شکل میں سامنے آنے والی رائے پر عمل کرتے یہی طرز ِ عمل تابعین کا تھا ۔اجماعی فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرلیتے ۔پھر تیسرا دور شروع ہوا جس میں امام ابوحنیفہ ؒ ،امام مالکؒ ،امام شافعیؒ،اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے سلف صالحین کا تھا ۔ان کے زمانہ میں بھی صرف ایک ہی شخص کی فقہ کو پڑھنے پڑھانے پر انحصار کرنے کا دستور نہ تھا ۔تقریباً یہی صورت حال ان کے ارشد تلامذہ کے دور میں رہی ۔چنانچہ امام مالکؒ و امام ابوحنیفہؒ وغیرھما کے اصحاب (تلامذہ )نے کتنے ہی مسائل میں ان کی مخالف رائے اختیار کی ۔‘‘
اہل تقلید پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ کس بنیاد پر اس روش کو قدیم باور کرتے ہیں جب کہ ثابت شدہ حقیقت یہ ہے کہ تقلید ،ہجرت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم سے دوصدسال بعد شروع ہوئی جب کہ وہ ادوار گزرچکے تھے جن کی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم کہہ کر توصیف فرمائی تھی ۔

علامہ سندھی ؒنے معین شخص کی تقلید اور اس کی رائے کو کتاب وسنت کے مخالف ہوتے ہوئے بھی دین ومذہب کا درجہ دے کر حرز جان بنائے رکھنے کی بجاطور پر مذمت کی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ تقلید قبیح بدعت اور انتہائی مکروہ خصلت ہے جسے ابلیس لعین نے مسلمانوں کے اتفاق واتھاد کو پارہ پارہ کرنے اور ان میں پھوٹ ڈالنے اور ان میں باہمی بغض وعداوت پیدا کرنے کے لیے حربہ کے طور پر استعمال کیا ۔اسی تقلید کی کارستانی ہے کہ مقلدین اپنے امام کی ایسی تعظیم کرتے ہیں کہ ویسی تعظیم رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کے اصحاب ؓ کی بھی نہیں کرتے ۔اپنے مسلک کے موافق کوئی حدیث مل جائے تو خشی سے نہیں پھولے سماتے اور اسے فوراً (بلاتحقیق سند وصحت)قبول کرتے ہیں اور اگر کوئی صحیح غیر منسوخ حدیث سامنے آجائے جس کی مخالف بھی کوئی صحیح حدیث نہیں ہوتی لیکن اس سے دوسرے مذہب کے امام کے موقف کی تائید ہوتی ہو تو اس میں دوردراز احتمالات اور دورازکار تاویلات کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔اس سے بچ نکلنے کی راہیں تلاش کرتے اور اس کا معارضہ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور نص صریح نیز صحابہ وتابعین کے آثار کے مخالف ہونے کے باوجود اپنے امام کے مسلک کو ترجیح دینے کی کوئی صورت ڈھونڈنے میں مصروف رہتے ہیں اور اگر حدیث کی کسی کتاب کی شرح لکھنے بیٹھتے ہیں تو اپنے مسلک کی مخالف ہر ہر حدیث کی تحریف کرڈالتے ہیں اور کسی طرح بات بن نہ پڑے تو اسے بلاکسی دلیل کے منسوخ قرار دے دیتے ہیں یا یہ کہ چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے یا یہ کہ اس حدیث پر کسی کا عمل نہیں ہے۔(۴)

جامد مقلدین نے اپنا دین ومذہب اسی کو بنارکھا ہے اور اس پر سختی سے کاربند رہتے ہیں کہ اگر آپ اس کے خلاف قرآن وسنت میں سے ہزار دلیل بھی پیش کردیں تب بھی اس پر کان دھرنے کو آمادہ نہ ہوں گے سننا تو درکنار کَاَنَّھُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَۃٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَۃ گویا گدھے ہیں کہ بدک رہے ہیں ۔شیر کے ڈر سے بھاگ رہے ہیں(سورۃ المدثر:۵۰-۵۱)کی مثال پیش کرتے ہوئے دور بھاگتے ہیں ۔مثلاً حرمین شریفین کے جوار میں بسے ہوئے بیشتر اہل بخارا اور اسی طرح ہندوستانیوں اور ترکیوں کی حالت یہ ہے کہ ہاتھوں میں تسبیح لگائے (کبھی گلے میں ڈال لیتے ہیں)اور سروں پر گنبد نما عمامے سجائے رکھتے ہیں ۔دلائل الخیرات (۵)ختم خواجہ بلکہ قصیدہ بردہ غیرہ کا ورد بھی ثواب سمجھ کرکرتے ہیں لیکن تشہد میں انگشت شہادت سے اشارہ نہیں کرتے ۔ان سے متعدد مرتبہ پوچھ چکاہوں کہ اشارہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت ،صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے عمل اور آئمہ مجتہدین رحمہم اﷲکے اقوال سے ثابت ہونے کے باوجود اور شیطان کے لئے آہنی ضرب (۶) سے بھی شدید تر ہونے کے باوصف تم اشارہ کیوں نہیں کرتے ۔ان کے معقول ترین شخص کا جواب یہی رہا کہ ہم لوگ حنفی مذہب کے پیرو ہیں اور ہمارے مذہب کے مطابق یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے میں نے موطا امام محمد،طحاوی کی شرح معانی الآثار اور کمال ابن ھمام کی فتح القدیر وغیرہ کتابیں دکھائیں تو ارشاد ہوا یہ مقتدمین کا قول ہے متاخرین نے اس سے منع کردیا اور اسے متروک اقرار دیا ہے لہٰذا اب یہ منسوخ ہوچکا ہے جیسا کہ مسعودی کی کتاب الصلوٰۃ اور کیدانی کی خلاصہ میں ہے اس طرح وہ اس سنت کے ترک کرنے ہی پر ڈٹے رہے جاہل لوگ اس قسم کے مکار اورمعاندین حق وحقیقت کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں انہیں نیک اور ’’پہنچے ہوئے‘‘بزرگ سمجھتے ہیں ۔وہ پہنچے ہوئے تو ہیں لیکن صرف شیطان تک ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون

ابوالقاسم قشیری (۷) رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
’’ہم طالبین حق کا فرض ہے کہ اس ہستی کی اقتدا کریں جس سے غلطی کا صدور ممکن ہی نہیں اور ان لوگوں کی تقلید سے باز آجائیں جن سے غلطی ہوسکتی ہے ۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ آئمہ سے منقول آراء کو کتاب وسنت کی کسوٹی پر پرکھیں ۔جو اس معیار پر پورا اتریں اس کو قبول کریں اور جو رائے اس معیار پر پوری نہ اترے اسے ترک کردیں ۔شارع علیہ السلام کی اتباع کا فرض ہونا تو نصوص سے ثابت ہے ۔جب کہ فقہاء کے اقوال اور صوفیاء کے اعمال کی اتباع پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔بلکہ انہیں کتاب وسنت پر پیش کرنا ضروری ہے ۔کس قدر خسارے میں ہیں وہ لوگ جو دلائل سے اعراض کرتے ہیں اور ایسے امور میں اپنے امام کی تقلید پر ڈٹے رہتے ہیں کہ جن میں ان کے مذہب کی رو سے بھی تقلید جائز نہیں۔اس لیے کہ شرعی دلائل فقہا کے اقوال اور صوفیاء کی تعلیمات سبھی ایسے شخص کی مذمت کرتے ہیں جو تقلید جامد پر اڑے رہے اور ایسے شخص کی مدحت وتوصیف کرتے ہیں جو تحقیق کی راہ اختیار کرتا ہے اور اشتباہ کی صورت میں توقف واحتیاط سے کام لیتا ہے ۔‘‘
’’جو شخص کسی امام کی تقلید کرے اور یہ واضح ہوجانے کے باوجود کہ اس کے امام کا قول کتاب وسنت یا اجماع ،یا قیاس جلی کے خلاف ہے ،تقلید پر مصر رہے تو ایسے شخص کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ وہ فلاں امام کی اقتداء وتقلید کرتاہے وہ تو صرف اپنی خواہشات نفسانی اور عصبیت کا پیروہے ۔سب آئمہ اس کے فعل سے بری الذمہ ہیں اس کی اپنے امام کے ساتھ وہی نسبت ہے جو اہل کتاب کے منحرف علماء کواپنے انبیاء سے تھی اس لیے کہ ہرامام نے اپنے تلامذہ کو شرعی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے سے منع کیا ہے ۔‘‘
لہٰذا ایسے شخص کا ائمہ سے اور ائمہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔اس کے اپنی خواہشات کا غلام ،بدعت کا پرستار ،گمراہ ،اور گمراہ کن ہونے میں کوئی صاحب ایمان شک نہیں کرسکتا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات کے سوا حق کسی بھی ہستی میں محصور نہیں ہے حق صرف وہ ہے جسے لے کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اس لئے جب بھی کوئی منصف مزاج غوروفکر کرے گا تو یہ حقیقت اس پر منکشف ہوئے بغیر نہیں رہے گی کہ دلیل پر نظر ڈالے بغیر کسی ایک امام کی اندھی تقلید محض جہالت اور فتنہ ہے بلکہ ہوا وہوس اور عصبیت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔تمام ائمہ مجتہدین اس کے خلاف ہیں کیوں کہ ان میں سے ہر ایک سے اندھی تقلید کی مذمت اور ابطال ثابت ہے لہٰذا جو شخص دلیل کی پیروی کرے گا وہ اپنے امام اور دیگر ائمہ کا متبع ہوگا اور کتاب اﷲ اورسنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی فرمانبرداری سے بھی مشرف ہوگا اور اپنے امام کے مذہب سے بھی خارج تصور نہیں ہوگا البتہ اگر دلیل کی مخالفت کرتے ہوئے تقلید پر اڑجائے گا تو اپنے مذہب بلکہ تمام ائمہ کے مذہب سے خارج ہوجائے گا ۔کیوں کہ اس کے امام کو اگر صحیح اورمخالف روایت سے محفوظ حدیث مل جاتی تو وہ اپنی رائے چھوڑ کر ھدیث پر عمل کرتے ۔لہٰذا اس صور ت میں تقلید پر مصر رہنے والا شخص اﷲتعالیٰ ،اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا نافرمان اور اپنی خواہشات کا غلام ہے ائمہ سے اس کا رشتہ منقطع ہوچکا ۔وہ شیطان کی جماعت کا رکن ہے اس کا دل نور ایمان سے محروم ہوچکا ہے ۔اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے :
اَفَرَأَیتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ وَأَضَلَّـہُ اﷲُ عَلٰی عَلْمٍ وَخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَ قَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشَاوَۃً فَمَنْ یَھْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اﷲِ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ ۔
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنارکھا ہے (اور باوجود جاننے بوجھنے کے گمراہ ہورہا ہے)تو اﷲتعالیٰ نے بھی اس کو گمراہ کردیا اس کے کانوں اور دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ۔اب اﷲکے سوا کون راہ پر لاسکتا ہے بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے ۔ (الجاثیہ:۲۳)
اﷲہم سب کو راہ ہدایت معلوم ہوجانے کے بعد گمراہ ہوجانے سے بچائے ۔ آمین

ربیع بن سلیمان الجیزی (۸) بیان کرتے ہیں:
’’کہ ایک شخص نے امام شافعی سے کوئی مسئلہ دریافت کیا ۔امام نے جواب دیا اس مسئلہ میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے یوں ثابت ہے ۔اس پر سائل نے دوبارہ پوچھا آپ بھی قائل ہیں؟
اتنا سنا تھا کہ امام شافعی ہر لرزہ طاری ہوگیا ۔رنگ زرد پڑگیا اور فرمایا:
ویحک ای ارض تقلنی وای سماء تظلنی اذا رویت لرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم شیئا ولم اقل بہ ۔نعم علی الراس والعین ۔ افسو س ہے تم کون سی زمین مجھے اٹھائے گی کون سا آسمان مجھ کو سایہ دے گا اگر میںخود ہی رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کروں اور اس پھر اس کے مطابق فتویٰ نہ دوں ۔ہاں یہی میرا فتوی ہے ۔فرمان رسول ؐ میری سر آنکھوں پر ۔اس جملہ کو آپ نے کئی بار دہرایا ۔(۹)
حمیدی کی روایت میں کہ امام شافعی نے فرمایا:
کیا تم نے مجھے زنار پہنے دیکھ رہے ہو ؟کیا میں گرجا گھر سے نکلا ہوں ؟میں تمہیں بتارہا ہوں کہ اﷲکے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان یہ ہے اور تم پوچھتے ہو تمہاری بھی رائے ہے؟کیا یہ ممکن ہے کہ میں رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث روایت تو کروں لیکن اس کے مطابق فتویٰ نہ دوں ؟ (۱۰)
واضح رہے کہ انسانوں میں سے بیشتر خائب وخاسر رہنے والے ہیں ۔کامیابی سے ہمکنار ہونے والے خوش نصیب تعداد میں کم ہی ہیں ،لہٰذا جو کوئی اپنے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہے کہ وہ کس گروہ میں سے ہے تو اسے چاہیے کہ خود کوکتاب وسنت کے آئینے میں دیکھے اگر اس معیار پر پورا اترے تو امید رکھے کہ وہ کامیاب وکامران ہوگا ۔لیکن اگر اس راہ سے ہٹا ہوا ہے تو حسرت ناک خسارہ اس کا مقدر ہے ۔اﷲتعالیٰ نے نفع پانے والوں کے اوصاف قرآن حکیم میں بیان فرمادئیے ہیں ۔چنانچہ سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کے ساتھ تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام انسان گھاٹے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جن میں چار خصائل جمع ہوں ۔جب تم دیکھو کوئی شخص ہوا میں اڑتا بال پر چلتا اور امور غیبیہ کی خبریں دیتا ہے ہے لیکن بغیر کسی شرعی جواز کے محرمات کا مرتکب ہوتا ہے اور شریعت کی واجبات کو بغیر عذر شرعی ترک کرتا ہے تو ایسا انسان حقیقت میں شیطان ہے کے ذریعہ اﷲتعالیٰ جاہلوں کا امتھان لیتا ہے اور اﷲتعالیٰ کے پیدا کردہ گمراہی کے اسباب سے یہ کچھ بعید بھی نہیں چنانچہ شیطان انسان کے خون کے ساتھ گردش کرتا ہے اور مسیح دجال زندہ کو مارنے اور مردے کو زندہ کرنے کا مظاہری کرے گا اور بارش برسا کر دکھائے گا ۔اس طرح وہ لوگ بھی آزمائش کا سامان ہیں جو سانپ نگلتے اور شعلوں پر ٹہلنے کے شعبدے دکھاتے ہیں ۔

شعرانی (۱۱) اپنی تالیف ’’المیزان ‘‘میں لکھتے ہیں :
’’امام ابوداؤد ؒ (صاحب سنن )کہتے ہیں میں نے امام احمدؒ سے دریافت کیا کہ امام اوزاعی ؒ کی اتباع کروں یا امام مالک ؒ کی ؟فرمایا دین کے معاملہ میں ان سے کسی ایک کا قلادہ انے گلے میں نہ ڈالو۔رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم اور آپ ؐ کے اصحاب رضی اﷲ عنہم سے جو ثابت ہوا اسی پر عمل کرو۔ان کے بعد تابعین کا مرتبہ ہے لیکن ان کے سلسلے میں اختیار ہے (۱۲) نیز فرمایا :نہ میری تقلید کرو نہ امام مالکؒ، ابوحنیفہؒ، شافعیؒ ،اوزاعیؒ اور سفیان ثوریؒکی ۔بلکہ اپنا ماخذ اسے بناؤ جو ان سب کا ماخذ ہے ۔انسان کے لیے یہ نادانی اور کم عقلی کی بات ہے کہ (غیر معصوم)لوگوں کا مقلد بن جائے۔(۱۱۳)
علامہ ابن جوزی ؒ ، اپنی مشہور کتاب ’’تلبیس ابلیس ‘‘میں فرماتے ہیں:
تقلید کرنا عقل کو معطل وبیکار کردینے اور اس کے فوائد کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے اس لیے کہ عقل کا کام ہی غوروفکر کرنا ہے اگر کسی کو چراغ دیا جائے تویہ کس قدر ناپسندیدہ حرکت ہوگی کہ وہ شخص چراغ بجھادے اور اندھیرے میں چلنے کو ترجیح دے ۔ (۱۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲): سند بن عنان بن ابراہیم الازدی ۔فقہ ومناظرہ میں یدطولیٰ رکھتے تھے ۔الطراز کے نام سے مشہور ’’مدونہ ‘‘کی شرح لکھی ۵۴۱ھ میں اسکندریہ میں وفات پائی۔
(۳): امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ کے فتاوی کا مجموعہ ہے جسے ان کے تلمیذ سحنون نے مرتب کیا ۔
(۴): مقلدین سے جب کوئی جواب نہ بن پڑے تو یہ کہہ کرخود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ اس مسئلہ میں زمانہ سلف سے اختلاف چلاآتا ہے (ملاحظہ ہو حنفی صراط مستقیم تالیف مولانا یوسف۔۔۔)اور یہ بھول جاتے ہیں اختلاف رونما ہونے کی صورت میں اہل ایمان کو قرآن نے حکم دیا ہے کہ فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اﷲ والرسول اسی طرح حدیث کے جواب میں عام طرز عمل کا حوالہ اس سے بھی عجیب ہے عمل کو حدیث کے مطابق ہونا چاہئے نہ کہ حدیث کو عمل کے وما ارسلنا من رسول الالیطاع الا باذن اﷲ (النساء) لاہور کے ایک حنفی نے اسی عمل کے سہارے آٹھ رکعت تراویح کو بدعت قرار دے دیا تھا۔
(۵): بدعی بلکہ مشرکانہ اوراد ووظائف پر مشتمل ایک متداول کتاب۔
(۶): حدیث لھی اشد علیٰ الشیطان من الحدید یعنی السبابۃ (مسند احمد من ابن عمرؓ)انگشت شہادت کا اشارہ شیطان کے لیے آہنی ضرب سے بھی سخت تر ہے کی طرف اشارہ ہے ۔
(۷):عبدالکریم بن ھوازن بن عبدالملک زین الدین کے لقب سے مشہور تھے ۔امام حاکم اور امام بہیقی سے حدیث کا سماع کیا ۔حج کے لئے گئے تھے تو حرم میں عالم اسلام کے پانچ سو جید عالم موجود تھے حرم میں وعظ ارشاد کے لئے سب نے آپ کا نام تجویز کیا ۔وفات نیساپور۔۵۶۰ھ
(۸) : ابو محمد الأزدی ۔فقیہ و محدث تھے ۔امام ابوداؤد ،امام نسائی اورامام طحاوی نے ان سے روایت کی ہے۔۲۰۶ھ میں وفات پائی ۔واضح رہے کہ ،یہ ربیع بن سلیمان المرادی کے علاوہ ہیں جو امام شافعی کی کتابوں کے راوی ہیں ۔یہ جیزی ۔نسبت سے مشہور ہیں اور وہ ’مرادی‘سے ۔
(۹): حلیۃ الاولیاء ۹/۱۰۶۔ ،مناقب الشافعی بہیقی ۱/۴۷۵۔
(۱۰): الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی ،مناقب الشافعی ۱/۴۷۴
(۱۱): عبدالوہاب بن احمد الانصاری الشعرانی ۔حدیث ،فقہ ،اور اصول میں ید طولیٰ رکھتے تھے تصوف میں بلند مقام کے حامل تھے ۹۷۳ ھ میں وفات پائی۔
(۱۲):یعنی ان کے اقوال کی حیثیت قولِ صحابی کی نہیں ۔
(۱۳):مسائل الامام احمد ص ۲۷۷۔
(۱۴):تلبیس ابلیس ص ۸
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مقلد کا یہ کام نہیں اندھا کیا جانے لالے کی بہار

مقلد کا یہ کام نہیں اندھا کیا جانے لالے کی بہار

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مجتہد کا اجتہاد اور اس کی رائے حکم الٰہی نہیں ہوتا ۔وگرنہ امام ابویوسف وامام محمد رحمہمااﷲکے لیے ہرگز جائز نہ ہوتا کہ وہ امام ابوحنیفہؒ کے اجتہاد ورایٔ سے اختلاف کی جراء ت کریں ۔اسی لیے تو امام ابوحنیفہ ؒ کہا کرتے تھے :
ھذ ا رای فمن جاء بخیر منہ قبلتہ ۔
یہ میری رائے ہے کوئی اس سے بہتر رائے پیش کردے تو میں اسے اختیار کرلوں گا۔
تمام آئمہ رحمہم اﷲنے بیک زبان کہا ہوکہ :
’’یہ ہمارااجتہادی فیصلہ ہے جو اسے قبول کرنا چاہے قبول کرلے اور جو رد کرنا چاہے رد کرڈالے۔‘‘
جو لوگ تمام آئمہ کو چھوڑ کر صرف ایک امام کی تقلید کرتے ہیں میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ تمہارے امام میں کون سے خصوصیت ہے کہ جس کی بناپر وہ دوسرے آئمہ کی نسبت تقلید کے زیادہ حق دار ہوگئے ہیں۔اگر اس کے جواب میں وہ کہیں کہ ہمارے امام اپنے ہمعصروں میں سب سے بڑے عالم تھے اور فضل وکمال میں اپنے سے پہلے لوگوں پر بھی فوقیت رکھتے تھے تو ان سے دریافت کروں گا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ وہی سب سے بڑے عالم تھے ۔عالم نہ ہونے کا اقرار کرتے ہوئے آپ یہ فیصلہ کیوں کر صادر فرماسکتے ہیں ،یہ موازنہ تو وہی شخص کرسکتا ہے جو علماء کے اقوال اور ان کے دلائل سے واقف ہو ۔ان میں سے راحج اور مرجوح کوبھی جانتا ہو۔

مقلد کا یہ کام نہیں اندھا کیا جانے لالے کی بہار​

پھر اگر تقلید سب سے بڑے عالم ہی کرنا ہے توکیا ابوبکر ؓ ،عمرؓ ،عثمان ؓ،علیؓ اور ابن مسعودرضی اﷲ عنہم تمہارے امام سے بڑے عالم ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع نہیں ہے ؟

ان مقلدین سے کوئی پوچھے کہ ان آئمہ کے پیدا ہونے سے پہلے لوگوں کا طریقہ ٔکار کیا تھا ؟کہ جن کے اقوال کو تم شارع کی نصوص کا مقام دیتے ہو ۔زکاش تم اس پر بھی اکتفا کرلیتے ۔مگر افسوس !کہ تم لوگوں نے آئمہ کی آراء کو فرمودات نبوی سے بھی زیادہ اتباع کا حق دار سمجھا ۔بھلا یہ تو فرمائیے کہ ان آئمہ کے پیدا ہونے سے پہلے لوگ ہدایت پر تھے یا گمراہ تھے ؟یقینا انہیں اقرار کرنے کے سوا چارۂ کار نہیں ہوگا کہ وہ ہدایت پر تھے یہ اقرار کرلینے کے بعد ان سے پوچھا جائے گا کہ ان کا طریقہ کتاب وسنت اور آثار صحابہ کی پیروی کے سوا کیا تھا ؟کیا وہ کتاب وہ کتاب وسنت اور آثار صحابہ کو ان کی مخالف ہر چیز پر مقدم نہیں سمجھتے تھے ؟کیاوہ فلاں وفلاں کے آراء واقوال کی بجائے کتاب وسنت کو حکم اور فیصل نہ مانتے تھے ؟اگر راہِ ہدایت یہی ہے تو اسے چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرنا ضلالت وگمراہی نہیں تو اور کیا ہے ؟ فما ذا بعد الحق الا الضلال ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ہدایت کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے؟

ہدایت کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے؟

یہ کوئی مخفی راز نہیں ہے کہ مقلدین کا ہر فرقہ تمام صحابہ ؓ ،تابعین ،اور علماء امت کو ۔سوائے اپنے امام کے جس کی وہ تقلید کرتا ہو۔ان کے عظیم مقا م کے برعکس ایسے شخص کے برابر رکھتے ہیں ۔جس کے فتویٰ کی نہ کوئی اہمیت ہے نہ اس کی رائے کا وزن ان کے اقوال کو صرف اس وقت قابل ذکر سمجھا جاتا ہے جب وہ ان کے اما م کے قول کے خلاف ہوں اور ان کی تردید کی ضرورت پیش آئے ۔حتیٰ کہ اگر قرآن کی کوئی آیت یا نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کی کوئی حدیث بھی ان کے امام کے قول کے مخالف ہو تو اس آیت یا حدیث میں تاویل کرکے انہیں ان کے اصل مفہوم سے دور نکال دیتے ہیں اور اپنے امام کے قول کو صحیح ثابت کرنے میں کوئی بھی ممکن کوشش اٹھا نہیں رکھتے ۔ان کی تعصب پروری کی بیخ کنی کرنے والی بدعات وخرافات کا شکوہ بس اﷲتعالیٰ ہی سے کیا جاسکتا ہے ۔اگر اﷲتعالیٰ دین اسلام کی حفاظت کا ضامن نہ ہوتا اور یہ انتظام نہ فرمایا ہوتا کہ اس امت میں دین کی صحیح تصویر پیش کرنے والے اور ہر حملے سے اس کا دفاع کرنے والے پیدا ہوتے رہیں گے تو قصر اسلام کب کا منہدم ہوکر کھنڈر بن چکاہوتا ۔

اس شخص سے بڑھ کر کون بے ادب وگستاخ ہوگا جو صحابہ کرام تابعین عظام اور تمام علماء امت کے کسی قول کو لائق التفات ہی نہ سمجھے ماسوائے اس ایک شخص کے جسے اس نے اﷲاور اس کے رسول کو چھوڑ کر اپنا رازدارودمساز دوست بنارکھا ہے ۔

اہل تقلید کا گروہ بلاشبہ ،اﷲتعالیٰ ورسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام اور صحابہ کرام رضی اﷲعنہم اور اپنے اماموں کے طریقہ کار کی خلاف ورزی کا ارتکاب کررہاہے ۔انہوںنے اہل علم کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ ان ناخلفوں نے تو اسلاف کے طریقہ کو یکسر الٹ ڈالا ہے اور دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے ،کتاب اﷲ،احادیث رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم آپؐ کے خلفاء ودیگر صحابہؓ کے تمام اقوال کو ناقابل اعتماد سمجھتے ہوئے انہیں اپنے اماموں کے اقوال کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ۔جو ان کے موافق ہو اس سرآنکھوں پر رکھتے ہیں اور اگر ان کے اما م کے اقوال کے خلاف ہو تو رد کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مخالفین کا استدلال ہے اور اسے قبول کرنے پر کسی بھی صورت میں آمادہ نہیں ہوتے بلکہ فضلائے کے مذاہب ہر حیلہ سے اس کی تردید کرکے ہی دم لیتے ہیں ،یہی لوگ ہیں جنہوں نے دین کا بٹوارا کرکے مسلمانوں کو الگ الگ فرقوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے ۔ہر فرقہ اپنے امام کی جاوبے جا حمایت کرتاہے اپنے مسلک کی دعوت وتبلیغ میں مصروف ہے اور اپنے علاوہ تمام فرقوں کو برا بھلا کہہ رہا ہے ۔دوسرے مسلک پر عمل کرنے کو ایسا سمجھتے ہیں کہ اسلام کے سوا کسی اور ہی شریعت کی بات ہے حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ سب مسلمان مل کر ایک کلمہ پر متحد ہوجاتے یعنی پیغمبر اعظم حضرت محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کے سوا کسی کی اطاعت نہ کرتے اور اپنے جیسے انسانوں کو (ان کی غیر مشروط اطاعت کرکے انہیں )رب نہ بنالیتے معلوم ہونا چاہیے کہ علماء کے اقوال وقیاسات تیمم کے مانند ہیں جو صرف اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب پانی میسر نہ ہو ۔چنانچہ کتاب وسنت کی نصوص اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے اقوال موجود ہوں تو انہیں پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے انہیں نظر اندازکرکے علماء کے اقوال پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔لیکن پچھلے زمانے کے مقلدین ہیں کہ پانی کے وافر اورباآسانی دستیابی کے باوجود تیمم پر مصر ہیں ۔مقلدین کی بوالعجبی ملاحظہ ہو کہ اپنے آئمہ کے مقلدین میں سے بھی متاخرین کے قول پر تو عمل کرتے ہیں لیکن امام بخاریؒ،امام عبداﷲبن مبارکؒ،امام اوزاعیؒ،اور سفیان ثوری ؒ جیسے جلیل القدر علماء کے اقوال وفتاویٰ کو لائق اعتناء نہیں سمجھتے بلکہ امام سعید بن مسیب ؒ، حسن بصریؒ،امام مالکؒ،اور امام ابوحنیفہؒ کے لائق اتباع اقوال کو چھوڑ دیتے ہیں اس سے بھی بڑھ کر ستم یہ ہے کہ مقلدین اپنے مسلک کے متاخرین علماء کے اقوال کو ابوبکر ؓ،عمرؓ،عثمانؓ،علیؓ،اور عبداﷲبن مسعود رضی اﷲ عنہم کے فتووں پر ترجیح دیتے ہیں ،اگر معاملہ متاخرین علماء کے اقوال کو صحابہ رضوان اﷲعلیہم کے برابر ٹھہرانے تک محدود رہتا تو پھر بھی اﷲتعالیٰ کے ہاں ان لوگوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔لیکن یہ بات تو سنگینی میں اس سے کہیں زیادہ بڑھی ہوئی ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے اقوال پر عمل کرنا ممنوع اور صرف اپنے علماء کے اقوال پر عمل کرنا واجب قرار دیا جارہا ہے معلوم نہیں یہ لوگ اﷲتعالیٰ کے سامنے اس کا کیا جواب دے سکیں گے ؟

امت کے آخری حصہ کے لیے بھی رشد وہدایت کی راہ وہی ہے جس پر اسلاف امت گامزن تھے ۔
امام مالک فرمایا کرتے تھے : لا یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہٖ اولھا ۔

اس امت کے اخلاف بھی اسی طریقہ کو اپنا کر صلاح ورشد کی منزل سے ہمکنارر ہوسکتے ہیں جس پر امت کے اسلاف گامزن تھے اور اس امر میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ امت کے اولین وبہترین دور میں کتاب وسنت اور اجماع سلف کو مضبوطی سے تھاما جاتا تھا اور اب جب کہ مسلمانوں نے اﷲتعالیٰ کی مقررکردہ شریعت سے منہ موڑ کر ان چیزوں کی پیروی شروع کردی ہے جو ان کی دانست میں ان آئمہ کی خوشنودی کی موجب ہیں جنہیں ان لوگوں نے اﷲ کا شریک بنارکھا ہے اس حالت میں مسلمان اﷲتعالیٰ کی نصرت کے وعدوں سے محروم رہ جائیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہ ہوگی اس لیے کہ اﷲتعالیٰ نے اہل ایمان کے جس قدر اوصاف بیان فرمائے ہیں آج کے مسلمان ان سے دور جاچکے ہیں ۔پہلی اور دوسری صدی ہجری میں اندھی تقلید کانام تک نہ تھا اور نہ ہی وہ کام ہوتے تھے جو ہم آج کل کررہے ہیں ۔آج اگر کوئی دانا وبینا آدمی یا ترقی یافتہ قوم دائرہ اسلام میں داخل ہوبھی جائے تو حیران رہ جائے گی ۔اس سے یہ فیصلہ ہی نہ ہوپائے گا کہ کیا کرے۔اصول وفروع میں کون سے مذہب اور کون سی کتابوں پر اعتماد کرے اور ہمارے لیے اسے یہ یقین دلانا بہت ہی مشکل ہوجائے گا کہ باقی ادیان کے بالمقابل یہی دین صحیح ودرست ہے ۔یا یہ تمام تر اختلافات کے باوصف یہ مذاہب درحقیقت ایک ہی ہیں ۔جیسا کہ جاپان میں پیش آنے والے اس واقعہ میں ہوا ۔اگر ہم قرآن کی بیان کردہ حدود پر ٹھہر جائیں اور رسول اکرم صلی ا ﷲعلیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنالیں تو ہم باآسانی سمجھ سکیں گے کہ وہ سہولت وسماحت سے معمور شریعت کہ جس میں کوئی مشکل اور تنگی نہیں ہے کہ کس قدر عظیم نعمت ہے اور خالص دین حنیف کیا ہے کہ جو ہر قسم کے عیوب اور پیچیدگیوں سے مبرا ہے۔

جب ہم فقہاء کے اقوال اور ان کی گنجلک دیکھتے ہیں یاان کے مابین اختلافات اور ان کے اسباب پر غور کرتے ہیں تو عجیب مخمصے کا شکار ہوجاتے ہیں کوئی کہتا ہے دلیل قوی ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا نہ ہی اس کے مطابق فتویٰ دیا جاتا ہے ۔لیکن کیوں؟ اس لیے کہ فلاں کا قول ہے؟

اس طرح بے شمار لوگوں میں سے کہ جن میں سے اکثر حالاتِ زندگی سے بھی ہم واقف نہیں ہیں کسی ایک آدمی کا قول صحیح وثابت سنت کو ترک کردینے کیلئے کافی سمجھا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا دین اور اس کے حقیقی سرچشمہ سے رشتہ ہی منقطع ہوکررہ گیا ہے۔

حالانکہ یہ قطعًا جائز نہیں کہ کوئی شخص عقائد وعبادات کے معاملے میں اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی طرف رجوع کرے اسی طرح ہم پر واجب ہے کہ صرف اﷲتعالیٰ کو حکم مانیں ۔اس کے سوا کسی اور سے دینی احکام اخذ نہ کریں صرف ایسی صورت میں ہم موحد اور اطاعت وعبادت کو اﷲتعالیٰ کے لیے خالص کرنے والے بن سکیں جیسا کہ اس نے ہمیں اپنی کتاب میں حکم فرمایا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والا مشرکین میں شمار ہوگا اور اس کا انجام ہلاکت کے سوا کچھ نہیں۔

اﷲتبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِذْ تَبَرَّا الَّذِ یْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِ یْنَ اتَّبَعُوا و رَأوُالْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِھِمُ اْلاَسْبَاب وَ قَالَ الَّذِ یْنَ اتَّبَعُوا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْھُمْ کَمَا تَبَرَّء وا مِنَّا کَذَٰلِکَ یُرِیْھِمُ اﷲُ اَعْمَالَھُم حَسَرَاتٍ عَلَیْھِمْ وَمَا ھُمْ بِخَارِجِیْنَ مِنَ النَّارِ۔ (البقرہ:۱۶۶-۱۶۷)
’’اس دن پیشوا ۔اپنے پیرووں سے بیزاری ظاہر کریں گے اور دونوں گروہ عذاب الٰہی دیکھ لیں گے اور ان کے آپس کے تعلقات منقطع ہوجائیں گے ۔یہ حال دیکھ کر پیروی کرنے والے حسرت سے کہیں گے اے کاش ہمیں دنیا میں دوبارہ جانا نصیب ہوجائے کہ جس طرح یہ ہم سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں ہم بھی ان سے بیزاری کا مظاہرہ کرسکیں ۔اس طرح اﷲتعالیٰ ان کے اعمال انہیں حسرتیں بناکر دکھائے گا اور وہ دوزخ سے نکل نہیں سکیں گے۔‘‘

یہ آیت مقلدین کو دین کے معاملے میں لوگوں کے اقوال کے ساتھ چمٹے رہنے پر اچھی طرح جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے ۔وہ کسی زندہ کی تقلید کرتے ہیں یاکسی فوت شدہ بزرگ کی ۔عقائد میں تقلید کا شکار ہوں یا عبادات میں ۔یاحلال وحرام کے مسائل ہیں۔اس لئے کہ ان تمام امور میں اصل ماخذ اﷲاور اس کے رسول کے فرامین ہیں کسی دوسرے کی رائے یا قول کا کچھ اعتبار نہیں ۔

اس وعید میں لوگوں کو گمراہ کرنے والے علماء لیڈر شامل ہیں ۔البتہ ائمہ ھدی اس وعید کا مصداق بننے سے محفوظ ہیں کیوں کہ ان میں سے ہر ایک غیر اﷲکی عبادت اور دین کے مسائل میں وحی الٰہی کے سوا کسی بھی چیز پر اعتماد کرنے سے لوگوں کو منع کرتا رہا ہے۔

بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس قسم کی تمام آیات کفار ومشرکین کے ساتھ خاص ،میں بات تو صحیح ہے کہ یہ کفار کے ساتھ خاص ہیں لیکن یہ بھیانک غلطی ہوگئی اور ان آیات ایسا مفہوم لے لیاجائے کہ جو مسلمانوں کو قرآن سے الگ تھلگ کرکے رکھ دے ۔اس طرح وہ وعید پر مشتمل ہر آیت کا مخاطب یہود ونصاریٰ اور مشرکین کو قرار دینے لگے ہیں (۱) یہی وجہ سے کہ آج کل کا مسلمان قرآن سے درس عبرت حاصل کرنے کی بجائے اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ کلمہ کے تقاضے پورے کئے بغیر اس کا محض زبان سے لاالہ الااﷲکہہ دینا ہی آخرت میں نجات کے لئے کافی ہے حالانکہ بہت سے کفار ومنافقین بھی زبان سے یہ کلمہ ادا کرتے ہیں تو کیا ان کی نجات ہوجائے گی؟اﷲتعالیٰ نے قرآن حکیم میں شرک کی انواع واقسام اور کفار کے احوال وصفات کاذکر محض اس لیے کیا ہے کہ اہل ایمان اس سے عبرت حاصل کریں تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ روش اختیار کرکے تباہ وبرباد ہوجائیں ۔

لیکن تقلید کے سرپنجوں نے مسلمانوں اور ان کے رب کی نازل کردہ کتاب کے درمیان دیوار حائل کردی ہے کہتے ہیں کہ قرآن سے براہِ راست رہنمائی حاصل کرنے کی استعداد رکھنے والے گزرچکے اب ان جیسے لوگ ناپید ہیں ۔اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس مرتبہ تک پہنچنے کے لئے جن اوصاف کی شرط ہے اب کسی میں جمع نہیں ہوسکتے اور اس کے لئے فلاں فلاں فن میں مہارت ضروری ہے ۔حالانکہ سلف صالحین صحابہ وتابعین رضی اﷲعنہم کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ دین کے سلسلہ میں کسی کے قول پر اس کی دلیل جانے بغیر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔تاہم بعد میں مقلد علماء نے ان پڑھ جاہل کے حق میں مفتی کے قول کو دلیل کا رتبہ دے دیا۔ان کے بعد ایس ناخلف لوگوں کا دور آیا جو تقلید میں اس طرح غرق ہوئے کہ انہوں نے تمام لوگوں کے لیے قرآن وسنت سے کوئی حکم اخذ کرنا ممنوع قرار دے دیا ۔اور کتاب وسنت کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے کو گمراہ قرار دیا (۲) اور یہ انتہائی درجہ کی بے توفیقی اور کھلا خسارہ ہے ۔بلکہ دین کے ساتھ عداوت کا مظاہرہ ہے ۔اس پر طرہ یہ کہ لوگوں نے ان کی باتوں پر یقین کرلیا ہے اور اﷲتعالیٰ کے سواء یہ علماء لوگوں کے معبود بن بیٹھے ہیں اور عنقریب آپس میں ایک دوسرے سے نفرت بیزاری ظاہر کریں گے جیسا کہ مذکورہ آیت میں اﷲتعالیٰ نے خبر دی ہے ۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں میں نے ’’البرھان الساطع فی تبرؤ المتبوع من التابع‘‘کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے جو اﷲتعالیٰ ںکی توفیق واعانت سے مصر میں طبع ہوچکا ہے ۔جسے مزید معلومات حاصل کرنا ہو اس رسالہ کی طرف رجوع کرے اﷲتعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): حالانکہ قرآن اہل ایمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا : وَالَّذِیْنَ ھُمْ مِنْ عَذَابِ رَبِّھِمْ مُشْفِقُوْنَ اِنَّ عَذَ ابَ رَبِّھِمْ غَیْرُ مَأمُوْن ۔ اور جو لوگ اپنے پروردگار کے عذاب سے سہمے رہتے ہیں ۔بے شک ان کے رب کا عذاب ہی ایسا ہے کہ اس سے بے خوف نہ ہوا جائے۔ (المعارج:۲۷-۲۸) ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جب یہ آیت پڑھتے اِنَّ لَدَیْنَا اَنْکَالًا وَّ جَحِیْماً وَطَعَامًا ذَا غصَّۃٍ وَعَذَابًا اَلیْمًا ۔کچھ شک نہیں کہ ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی آگ ہے اور گلوگیر کھانا ہے اور درد دینے والا عذاب ہے ۔تو ان کی چیخ نکل جاتی نیز وعظ وانذار میں کبھی تفہیم کی خاطر اور کبھی انجام کار سے خبردار کرنے کے لئے یہ اسلوب اختیار کرنا رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کے عمل سے ثابت ہے چنانچہ ایک سفر میں کچھ لوگوں نے ’’ذات انوط ‘‘ مقرر کردینے کوکہا تو فرمایا ۔اﷲ اکبر انھا السنن ۔قلتم والّذی نفسی بیدہ کما قالت بنوا اسرائیل لموسیٰ اجعل لنا الٰھا اﷲاکبر ۔اﷲکی قسم تم نے وہی بات کہی جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ اے موسیٰ !ہمارے لئے بھی ایسا ہی معبود بنادے جیسا کہ ان لوگوں کے معبود ہیں ۔حضرت موسیٰ نے کہا تم لوگ بڑے نادان ہو۔(ترمذی)
اسی طرح سنن بہیقی (۱۰/۲۱۲) میں ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا گزر ایسے گروہ پر ہوا جو شطرنج کھیلنے میں محو تھا تو فرمایا : مَا ھٰذِہِ التَمَاثِیْلُ الَّتِی أَنْتُمْ لَھَا عَاکِفُوْن ۔(الانبیاء) یہ کیامورتیاں ہیں جن پر تم جھکے بیٹھے ہو؟ لہٰذا قرآن کے حوالوں سے شرک بدعت سے منع کئے جانے پر یہ کہنا کہ یہ آیات مشرکین وکفار کے لیے نازل ہوئی تھیں ۔مشہور قاعدہ العبرۃ بعموم اللفظ لا بخوص السبب ۔ اصل اعتبار لفظ کے عام ہونے کا ہے ۔سبب کے خاص ہونے کا نہیں ۔سے بے خبری کا ثبوت ہی نہیں سنت وھدی مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بے بہرہ ہونے کا شاخسانہ ہے ۔ونسال اﷲ التوفیق ۔
(۲): شیخ احمد الصاوی مالکی متوفی ۱۲۴۱ھ جن کا حاشیہ جلالین احناف مقلدین کے ہاں بہت مقبول ہے۔سورۃ کہف کی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :’’مذاہب اربعہ کے سوا کسیی مذہب کی تقلید جائز نہیں ہے خواہ وہ اقوال صحابہ یا سنت صحیحہ کے مطابق ہی کیوں نہ ہو ۔بلکہ اگر قرآن کی آیت کے بھی مطابق ہو تو بھی اس کی اتباع جائز نہیں ہے ۔مذاہب اربعہ سے تجاوز کرنے والا خود گمراہی کا شکار اور دوسروں کا گمراہ کرنے والا ہے بہت ممکن ہے کہ یہ راستہ اسے کفر تک پہنچا دے ۔کیوں کہ کتاب وسنت کے ظاہر پر عمل کرنا کفر کے بنیادی اصولوں میں سے ہے ‘‘ والعیاذ باﷲ ۔نقل کفر کفر نباشد
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
علامہ فخرالدین رازی دین وشریعت سے علماء کے انحراف کا مرثیہ کہتے ہیں

علامہ فخرالدین رازی دین وشریعت سے علماء کے انحراف کا مرثیہ کہتے ہیں

اب میں گزری ہوئی صدیوں میں رونما ہونے والے اس تغیر وتبدل اور انحراف کاایک نمونہ پیش کرنا چاہتا ہوں جس کا میں نے اوپر ذکر کیا تھا ۔
فخرالدین رازی اپنی تفسیر’’مفاتح الغیب‘‘میں آیت کریمہ :
اِتَّخِذُوْا أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اﷲ ۔ (التوبۃ:۳۱) انہوں نے اپنے علماء ومشائخ کو اﷲ کے سوا معبود بنالیا کی تفسیر کے ضمن میں لکھتے ہیں :
’’ایک مرتبہ مقلدین فقہاء کی ایک جماعت سے میری ملاقات ہوئی ۔میں نے بعض مسائل کے متعلق قرآن حکیم کی کئی آیات انہیں سنائیں ۔ان کے مسالک ان آیات کے خلاف تھے لیکن وہ انہیں سن کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے بلکہ حیران ہوکر میری جانب تکتے رہے ۔گویا کہہ رہے ہوں کہ ان آیات کے ظاہری مفہوم پر عمل کیوں کر ممکن ہے جب کہ ہمارے ائمہ سے ان کے خلاف مروی ہے اگر آپ بہ نظر غائز دیکھیں گے تو محسوس کرلیں گے کہ یہ مہلک مرض دنیا میں بیشتر لوگوں میں سرایت کرچکا ہے۔‘‘ (۱)
اس قسم کا واقعہ امام محی السنہ علامہ بغوی ؒ نے بھی اپنی تفسیر ’’معالم التنزیل ‘‘میں ذکر فرمایا ہے ۔

لہٰذا دورِ حاضر کے ان مسلمانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو عقائد،عبادات اور حلال وحرام میں موروثی مذاہب کے پیشواؤں کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں حالانکہ ان مذاہب کا ثبوت کسی قطعی الدلالۃ آیت یا متواتر سنت سے تو کجا کسی واضح مفہوم کی حدیث سے بھی نہیں ملتا ۔بلکہ اس کے برعکس وہ قرآن وسنت کی نصوص اور خود ان کے ائمہ کے اصو ل کے مخالف ہیں ۔بلکہ آج کے زمانہ میں توان سے بھی بدتر لوگ پائے جاتے ہیں جن کاتذکرہ فخرالدین رازی نے کیا ہے۔

علامہ رشید رضا مصری نے اپنی تفسیر ’’المنار‘‘میں اس بات پر تنبیہہ کی ہے ۔(۲) میں نے اپنی تالیف ’’اوضح البیان فی تفسیر ام القرآن‘‘میں اسے مکمل اور واضح طور پر بیان کیا ہے ۔جو مکہ مکرمہ سے ام القریٰ پریس سے چھپ کر شائع ہوچکی ہے لہٰذا اس کا مطالعہ ضرور فرمالیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): تفسیر رازی ۴/۴۳۱
(۲): علامہ رشید رضا فرماتے ہیں ۔مجھے ایک ہم عصر مدعی تصوف کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ اپنے ایک ملنے والے سے جو خرافات وبدعات میں اعتقاد نہیں رکھتا تھا ۔کہہ رہا تھا میرے معتقدین یہ سمجھتے ہیں کہ میں علم غیب رکھتا ہوں تو میں کیا کرسکتا ہوں ؟اس جعلی پیر کے متعلق مجھے دوافراد نے بتایا کہ اس کا ایک مرید حرم پاک میں نماز کی نیت باندھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔میں فلاں پیر کے لیے دورکعت نماز کی نیت کرتا ہوں۔’’تفسیر المنار‘‘ ۱۰/۳۲۱۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
امام اعظم صرف رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم ہیں اور کوئی نہیں

امام اعظم صرف رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم ہیں اور کوئی نہیں

علامہ مرتضی زبیدی (۱)نے احیاء علو م الدین (۲) کی شرح میں لکھا ہے :
’’مُقلَّد (۳) درحقیقت صاحبِ شریعت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں ۔آپؐ ہی کے فرامین واجب الاطاعت ہیں۔‘‘
مزید کہتے ہیں:
’’صحابہ رضی اﷲ عنہم کی تقلید صرف اس لیے کی جاتی ہے کہ ان کا عمل دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہوگا ۔ہمیںصرف آپ کے فرمان کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ کی ن ہیں ۔چنانچہ حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہ فرمایا کرتے تھے :
ما من احدٍ الا ویوکذ من علمہ ویترک الا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ۔
ہر شخص کے علم میں سے بعض پر عمل کیا جاتا ہے اور بعض کو چھوڑاجاسکتا ہے سوائے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے ۔
عراقی نے اس اثر کے متعلق کہا ہے کہ اسے طبرانی نے ’’امعجم الکبیر‘‘میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے ۔
مذہبی تقلید لاعلاج مرض اور بلائے بے درماں بن کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔کم ہی ایسے لوگ ملتے ہیں جو کتاب اﷲاور سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی کتابوں میں موجود آراء اور اپنے مشائخ کے اقوال پر ترجیح دیتے ہوں لیکن اﷲکا شکر ہے کہ آج ہم اپنے درمیان خالص موھدین کی ایک ایسی جماعت کو دیکھ رہے ہیں جو دعوت توحید،اﷲکی راہ میں جہاد کا حق ادا کررہی ہے اور دغابازوں ‘اوھام پرستوں اورمقلدوں کے خلاف مسلسل برسرپیکار ہے ۔توحید کی نشرواشاعت کے لیے منظم ومربوط کوششیں کرنے کے لیے حجاز ،مصر سوڈان اور عراق کے شہرسنجار میں کئی تنظیمیں تشکیل پاچکی ہیں ۔

اے اﷲجب تک یہ تنظیمیں تیرے دین کی سربلندی کے لیے کوشاں ہیں ان کی نصرت فرما اور مزید توفیق سے نواز۔آمیں ثم آمین۔

نواب صدیق حسن خانؒ اپنی تفسیر ’’فتح البیان فی مقاصد القرآن ‘‘میں آیت کریمہ :
اِتَّخِذُوْا أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اﷲ ۔ (التوبۃ:۳۱)
انہوں نے اپنے علماء ومشائخ کو اﷲ کے سوا معبود بنالیا کی تفسیرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’یہ آیت قلب سلیم اور گوش نیوش رکھنے والے کو اﷲکے دین میں تقلید اور علماء کے اقوال کو کتاب وسنت کی نصوص پر فوقیت دینے سے باز رکھنے کے لئے کافی ہے اس لیے کہ مقلد کا نصوص اور اﷲتعالیٰ کے قائم کردہ دلائل وبراہین کے خلاف ہونے کے باوصف اپنے امام کے قول پر اصرار کرنا یہود ونصاریٰ کے عمل کی مانند ہے جنہوں نے اﷲتعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے علماء اورمذہبی پیشواؤں کو اپنا معبود بنالیا تھا ۔اس لیے کہ یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ یہود ونصاریٰ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی غیر مشروط اطاعت ہی کیا کرتے تھے (انبیاء نیز توراۃ وانجیل کی تصریحات سے قطع نظر )ان کی حلا کردہ اشیاء کو حلال اور ان کی حرام کردہ اشیاء کو حرام سمجھ لیتے تھے اور اس امت کے مقلدین کا طرز عمل بھی یہی ہے ۔دونوں کے طریقوں کے مابین ۔انڈے کی انڈے سے ،کھجور کی کھجور سے اور پانی کی پانی کے ساتھ مشابہت سے بڑھ کر مماثلت پائی جاتی ہے ۔
تو اے اﷲکے بندو! اے محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کی فرمانبرداری کا دم بھرنے والوں ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ کتاب وسنت کو ایک طرف چھوڑ تے ہوئے اپنے جیسے غیر معصوم افراد کی آراء پر جمے بیٹھے ہو جو تمہاری طرح کتاب وسنت کی فرمانبرداری کرنے کے مکلف اور ان کے معنی ومفہوم کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں ۔لیکن تم نے ایسی آراء پر عمل کرنے کو ترجیح دی جو حق پر مبنی نہیں ہے اور جن کی تائید شرعی دلائل سے ممکن نہیں ہے ۔کتاب وسنت پکار پکار کر ان آراء کے خلاف شہادت دیتی ہے لیکن تم نے ان سے اپنے کانوں کو بہرہ ،دلوں کو مقفل ،عقلوں کو بیمار ،دماغوں کو ماؤف اور ضمیروں کو مردہ کرلیا ہے اور اپنی زبان حال سے کہہ رہے ہو۔
وما انا الا من غزیۃ ان غوت غویت وان ترشد غزیۃ ارشد​
(میں تو بس اپنی محبوبہ کے پیچھے ہوں اگر وہ گمراہی اختیار کرے گی تومیں گراہ ہوں گا اور اگر وہ راہ ہدایت پر ہوگی تو میں بھی ہدایت پالوں گا)

اﷲتعالیٰ تمہیں اورمجھے ہدایت نصیب فرمائے ۔اپنے اسلاف (جو فانی مخلوق تھے )کی کتابیں چھوڑو ان کے بدلے اپنے اور ان کے خالق ،آقا ومولا اور معبود کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو ۔ان لوگوں کے اقول وآراء چھوڑ دو جنہیں تم اپنا امام کہتے ہو اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرامین کو حرزجاں بناؤ جو تمہارے اور تمہارے اماموں کے امام ہیں ۔تمہارے اور تمہارے اماموں کے مقتدا ہیں
دعوا کل قول عند قول محمدٍ فما آمن فی دینہ کمخاطر
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے ہوتے دوسروں کے قول وکردار کی طرف مت دیکھو پر امن راہ پر چلنے والا پر خطر راہ پر چلنے والے کی مانند نہیں ہے۔​
اے پروردگار کہ توگمراہوں کو ہدایت سے نواتا ہے اور اندھیروں میں بھٹکنے والوں کو راہ راست دکھاتا ہے ۔حق وراستی کی طرف ہماری بھی رہنمائی فرما۔اور ہمارے لیے طریق ہدایت کو واضح فرما ۔
محکم اور قطعی الدلالۃ آیات سے ثابت ہوچکا ہے کہ صرف اﷲتعالیٰ ہی شارع ہے اور حضرت رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم پیغامبر ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنْ عَلَیْکَ اِلَّا الْبَلَاغ ۔ آپ کے ذمہ تو صرف پہنچادینا ہے ۔ (الشوریٰ ۴۸)
وما علی الرسول الاالبلاغ ۔ رسول کے ذمہ تو صرف تبلیغ ہے (المائدہ:۹۹)
فانما علیک البلاغ ۔ آپ کے ذمہ پیغام پہنچادینے کے سوا کچھ نہیں۔ (آل عمران:۲۰)
اس طرح قوی ترین دلالت یعنی حصر کے مختلف اسالیب کے ساتھ یہ حقیقت بیان کی گئی ہے ۔

دین کے وہ ارکان جو صرف قرآن کی تصریحات اور رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کے ارشادات سے ہی ثابت ہوسکتے ہیں۔تین ہیں:
۱۔ عقائد
۲۔ عبادات خواہ مطلق ہوں (۴) یا زمان ومکان یا تعداد واوصاف کے ساتھ مقید ہوں (۵)
۳۔ حرمت شرعی (۶)
اس کے علاوہ جو شرعی احکام ہیں نص کی عدم موجودگی کی صورت میں اجتہاد سے بھی ثابت ہوجاتے ہیں ۔ان کا مدار مصالح کے حصول اور مفاسد کے سدباب پر ہے اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لو ۔غفلت کا شکار نہ ہوجاؤ۔اس سلسلے میں کتاب وسنت کی نصوص اور سلف صالح کے اعمال وارشادات وافر مقدار میں موجود ہیں ۔

آئمہ اسلافؒ کے کلام کے یہ چند اقتباسات ہیں جو مشتے از خروارے کے طور پر پیش کئے گئے ہیں ان سے مقصود اپنی دعوت کے لیے پیش کئے گئے دلائل ونصوص کی تائید ہے ۔ہماری دعوت یہ ہے کہ :
: قرآن کو سمجھا اوراس پر عمل کیا جائے ۔
: عبادات ،اوراد وظائف میں صرف انہی دونوں پر اکتفا کیا جائے ۔
: تکلف ،جد اور مبالغہ آرائی کی روش ترک کردیں اور کتاب وسنت کے سوا تمام (خود ساختہ )ماخذوں سے بے نیاز
ہوجائیں۔
: تمام جھگڑے ختم کرنے کے بعد تمام مسلمانوں کی متحدہ قوت کو اسلام کے دفاع اس کی عزت وشوکت قائم کرنے ،
اہل اسلام کو غیروں کی غلامی اور ظلم واستبداد سے نجات دلانے کا فریضہ ادا کرنے کے لیے صرف کیا جائے ۔
: امت مسلمہ کو بدعی اوراد وظائف میں مشغول کرنے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ مسلمانوں کی قوت ودولت کو منظم اور ۔آئینی طریقہ سے اﷲکی راہ میں کام میں لایا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): محمد بن محمد بن عبدالرزاق الزبیدی ۔حدیث ،لغت اور انساب میں ماہر تھے وفات مصر ۱۲۰۵ھ ہے
(۲):امام غزالی کی تصنیف ہے اس کی شرح کانام اتحاف السادۃ المتقین ہے۔
(۳):’تقلید‘مصدر سے اسم مفعول ۔یعنی جس کی تقلید کی جائے۔
(۴): مثلاً نفل نماز ۔نفلی روزے ،عام صدقات وخیرات وغیرہ۔
(۵): مثلاً سورج کے طلوع وغروب ہوتے وقت نماز ادا کرنا ۔
(۶):مثلاً سورج کے طلوع وغروب ہوتے وقت نماز ادا کرنا ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
جادہ ٔ حق

جادہ ٔ حق

اﷲتعالیٰ نے ہمیں اس دارفانی میں وہ صراطِ مستقیم اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جس کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے اس نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا کتابیں نازل فرمائیں اور یہ بھی بتادیا کہ باغ بہشت تک لے جانے والا راستہ یہی ہے ۔دنیا میں ہم جس قدر اس ’’صراط‘‘پر ثابت قدم رہیں گے اسی قدر پل’’صراط‘‘پر ثابت قدم ہوں گے جو جہنم کے اوپر نصب کیا جائے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاَنَّ ھٰذا صِرَاطِی مُسْتَقِیْمًافَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُل فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذَالِکُمْ وَصّٰکُم بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون۔ (الانعام:۱۵۳)
اور یہ میرا سیدھا رستہ یہی ہے تم اس پر چلنا اور رستوں پر نہ چلنا ان پر چل کر تم اﷲکے راستہ سے ہٹ جاؤگے۔ان باتوں کا حکم تمہیں اﷲتعالیٰ دیتا ہے تاکہ تم پرہیز گار بنو ۔

چونکہ صراط مستقیم کا متلاشی ایسی چیزکا طالب ہے کہ جس سے اکثرلوگ منہ موڑے ہوئے ہوتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس راہ پر گامزن تنہائی کی وجہ سے وحشت محسوس کرنے لگے اس لیے اﷲتعالیٰ اس راہ پر چلنے والے رفیقانِ سفر کے متعلق بتادیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :
فَاؤلٰئِکَ مَعَ الَّذِ یْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِییِنَ وَالصِّدِ قِیْنَ وَالشُھَدَاء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰئِِکَ رَفِیْقًا۔
تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اﷲتعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے یعنی انبیاء ،صدیق ،شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت ہی خوب ہے ۔

یہ خبر اس لیے دی تاکہ صراط مستقیم کے راہی اور ہدایت کے طلبگار دل سے وحشت اور اپنے اہل زمانہ سے الگ تنہا ہونے کا احساس جاتا رہے ۔اور اسے یہ جان کر اطمینان ہوکہ اس کے رفقاء سفر وہ مقدس گروہ ہیں جو اﷲتعالیٰ کے انعام ونعمت سے سرفراز ہیں اور راہِ حق سے بھٹک جانے والوں کی مخالفت اسے کسی کسی پریشانی میں مبتلا نہ کردے ۔اس لیے کہ یہ لوگ اگرچہ تعداد میں اگر زیادہ ہیں لیکن مقام ومرتبہ کے اعتبار سے بہت ہی پست ہیں اسی لیے سلف میں سے کسی نے فرمایاہے:
علیک بطریق الحق ولا تستوحش لقلۃ السالکین وایاک وطریق الباطل ولا تغتربکثرۃالمھالکین۔
راہ حق پر جمے رہو اور اس پر چلنے والوں کی قلت تعداد کے سبب وحشت کا شکار نہ ہوجاؤ ۔باطل کی راہ سے دور رہو اور اس پر چل کر ہلاک ہونے والوں کی کثرت تعداد دیکھ کر دھوکہ نہ کھاؤ۔
اور جب کبھی تنہائی کا احساس باعثِ وحشت ہونے لگے تو اسلاف کی طرف دیکھو اور ا ن کے ساتھ جاملنے کی دھن میں مگن ہوجاؤاور ان کے سوا تمام لوگوں سے نظریں پھیرلو۔اس لیے کہ وہ اﷲتعالیٰ کے ہاں تمہارے کسی کام نہیں آسکیں گے ۔اگر اس راہ میں چلتے ہوئے تم پر آوازیں کسے جائیں تو انہیں خاطر میں نہ لاؤاس لیے اگرتم نے مڑ کر ان کی طرف دیکھ لیا تو وہ تمہیں اس راہ پر چلنے سے روک دیں گے اور تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے اسی وجہ سے دعائے قنوت میں آیا ہے۔

اللھم اھد نا فیمن ھدیت یعنی مجھے اس قافلہ کے افراد میں سے بنا مجھے ان کی رفاقت نصیب فرما

ہر شخص کو چاہیے کہ ’’مغضوب علیہم‘‘اور ’’الضالین‘‘کے مذہب سے بچ کررہے مغضوب علیہم وہ لوگ ہیں جن کے عمل اور نیت میں فساد در آیا ہے اور وہ حق کو پہچان لینے کے باوجود اس سے اعراض کرتے ہیں ۔اور ’’الضالین‘‘وہ لوگ ہیں جن کے علم میں بگاڑ پیدا ہوا اور وہ جہالت کا شکار ہوکر حق کی معرفت سے محروم ہوگئے ۔

حق صرف رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اﷲ عنہم کا طریقہ ہے ،اس کے مخالف غیر معصوم افراد کی آراء ،اطوار اور اصطلات نہیں لہٰذا ہر وہ علم ‘عمل ،حقیقت ،حال اور مقام جس کا رشتہ انوارِ نبوت سے استوار ہے وہ سراطِ مستقیم ہے اور جو اس اتصال سے عاری ہے وہ مغضوب علیہم اور ضالین کی راہ ہے جو جہنم تک جاتی ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اﷲعنہم احکام دین اور رموز شریعت کو اوروں کی بہ نسبت زیادہ اچھی طرح سمجھتے تھے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ وہ تو حق ناآشنارہ جائیں اور رافضی اور دوسرے بدعتی حق آشنائی سے بہرہ ور ہوجائیں ۔فریقین کے اعمال پر ایک نظر ڈال لو تو اہل حق کا طریقہ واضح اور ممتاز دکھائی دیتا ہے ۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے کفر کی سلطنتوں کو فتح کرکے اسلامی قلمرو میں شامل کیا دوسری طرف انہوں نے قرآن ،علم اور اپنی عظمت کردار سے لوگوں کے دل جیت لیے ۔ان کے یہ کارنامے دلیل ہیں کہ وہ صراط مستقیم پر گامزن تھے ۔جب کہ رافضیوں بدعتیوں اور مخصوص مذاہب کے مقلدین نے ہردور اور ہر علاقے میں اس کے برعکس اثرات چھوڑے ہیں۔

دس رمضان المبارک ۱۳۹۰؁ ھ بروز جمعۃ المبارک کو میں طائف میں جامع عبداﷲ ابن عباس رضی عنہما میں تلاوت قرآن میں مشغول تھا جب میں نے سورۃ القصص کی یہ آیت :
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الأَرْضِ وَجَعَلَ أَھْلَھَا شِیَعًا یَسْتَضْعِفُ طَائِفَۃً مِنْھُمْ ۔
بے شک فرعون نے زمین نے سرکشی اختیار کی اور اپنے ملک کے باشندوں کو دوگروہوں میں تقسیم کردیا ۔ان میں سے ایک گروہ کو کمزور سمجھ کر اس کی تذلیل کرنا تھا ۔ (سورۃ القصص :۴)

اور سورۃالروم کی یہ آیت :
وَلَا تَکُونُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ الَّذِ یْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکانُوْا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَ یْھِمْ فَرِحُوْن ۔
اور ان مشرکین کے مانند مت ہوجاؤجنہوں نے اپنا دین بانٹ لیا اور فرقے فرقے بن گئے ۔ہر گروہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے ۔ (الروم:۳۲)

تلاوت کی تو میرا ذہن فوراً اس طرف متوجہ ہوا کہ لوگوں کو جماعتوں سلسلوں اور پارٹیوں میں تقسیم کرنا فرعون کا شیوہ تھا ۔لہٰذا گروہ بندی اورمذاہب کی بدعت فرعون کی سنت اور اس کا مذموم ہتھکنڈا ہے۔اور اسی پالیسی پر مغرب کی شیطانی حکومتیں گامزن ہیں کہ ’’پھوٹ ڈالو ،حکومت کرو ‘‘

اچھی طرح جان لو کہ تمام انبیاء علیہم السلام پر بلاتفریق ایمان لانا ۔ان کو اور ان کی لائی ہوئی شریعتوں کو تسلیم کرنا اور ان کی عزت وتوقیر کرنا ہدایت پر کاربند لوگوں کی لازمی صفات میں سے ہے۔اسی طرح ان کے ورثاء یعنی صحابہ کرام ؓ تابعین ،ائمہ اور ان جیسے دیگرفقہاء ومحدثین کا احترام کرنا ضروری ہے ۔کسی ایک امام کے اقوال پر عمل کرنا اور باقی تمام آئمہ کے اقوال کو ردّ کردینا یا ان میں سے ایک سے محبت کرنا اور باقی آئمہ سے بغض وعداوت رکھنا ،جیسا کہ مقلدین مذاہب کا شیوہ ہے ۔ہدایت سے بہرہ ور لوگوں کو طریقہ نہیں ہے اور نہ اہل تقویٰ کی صفات میں سے ہے ۔مختلف فقہی مذاہب کی طرف نسبت رکھنے والوں کی آپس میں نفرت وعداوت کی بنیاد یہی ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک مسلک کے ماننے والے دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا روادار نہیں ہے ۔تعصب اور تقلید نے ان کے دلوں کو اندھا اور آنکھوں کو بے نور کردیا ہے ۔

بعض گمراہ لوگوں نے تو اپنے مسلک کو ہی اصل دین بنادیا ۔قرآن کو اسی پر محمول کرتے ہیں ۔اسے تاویل یا تحریف کے ذریعہ اپنے مسلک کے موافق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

خود بدلتے نہیں قرآں کو بل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق​

جب کہ حق یہ ہے کہ قرآن کو اصل ماناجائے اور اپنے مسلک کو اس کے مطابق بنایا جائے مذاہب اور آراء کو اسی کسوٹی پرپرکھا جائے جو اس کے موافق ہو مقبول اور جو مخالف ہو مردود قرار پائے ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
المغضوب علیہم کا امتیازی وصف

المغضوب علیہم کا امتیازی وصف

اﷲتعالیٰ کے غضب کے مستوجب المغضوب علیہم کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ حق کو صرف اس صورت میں قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں جب کہ وہ اس گروہ کی جانب پیش کیا جائے جس کی طرف وہ خود کو منسوب کرتے ہیں ۔حتیٰ کہ بعض ایسی چیزیں بھی نہیں مانتے جو ان کے اپنے عقائد کی رو سے علماء وصوفیاء کی ہے ۔وہ بھی صرف اسی روایت یا رائے کو قبول کرتے ہیں جو ان کی جماعت نے پیش کی ہو۔حالانکہ دین اسلام کی روسے حق کی غیر مشروط اتباع واجب ہے روایت ہورائے رسول اﷲاﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی شخص کی تعیین روا نہیں ۔اس لیے کہ :
الحکمۃ صالۃ المومن فاینما وجدھا فھو احق بھا ۔
حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے جہاں بھی پائے وہ اس کا زیادہ حق دار ہے ۔
مقلد کے دل میں اپنے امام کی عظمت اس طرح بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اس کے اقوال کی بے سوچے سجھے اور اپنے آباء واجداد اور اہل وطن کی تقلید کرتے ہوئے اتباع کرنے لگتا ہے یہی بات گمراہی کا پیش خیمہ ہے ۔اس لیے انسان کی نظر قول پر ہونی چاہیے نہ کہ قائل پر ۔چنانچہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ فرمایا کرتے تھے:
الحق لا یعرف بالرجال اعرف الحق تعرف أھلہ
’’حق کی شناخت اشخاص کی معرفت نہیں ہوتی حق کو پہچانو ۔اہل حق کو خود جان جاؤگے۔‘‘
رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمودات وافعال کی اتباع کرنے والے اور صحابہؓ وسلف صالحین کے طریقے کو اپنانے میں ہی بھلائی ہے اس کے بالمقابل دین میں متاخرین کے ایجاد کردہ امور میں بربادی وگمراہی کے سوا کچھ نہیں ۔اس حقیقت میں ادنیٰ شبہ نہیں کہ فقہی مذاہب دین میں نوا یجاد بدعت ہیں جسے امراء وسلاطین نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول ،اپنی خواہشات کی تکمیل اور اپنے منصب وجاہ کے تحفظ کی خاطر رواج دیا ۔اس طرح اپنے اساتذہ ومشائخ سے تعصب آمیز عقیدت بھی اسی اسباب میں سے ہے ۔جیسا کہ تاریخ کامطالعہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں ۔
شاہ ولی اﷲدہلویؒ تفہیمات الٰہیہ میں لکھتے ہیں:
’’آج کے دور میں خاص طور پر ہر ملک کے عوام متقدمین آئمہ کے مذاہب کے کسی مذہب کی پابندی ضروری خیال کرتے ہیں اورامام مذہب کی ایک مسئلہ میں بھی مخالفت کو ملت سے خروج کے مترادف سمجھتے ہیں گویا وہ امام نبی ہو اور اس کی اطاعت فرض کردی گئی ہو۔آئمہ سلف اور چوتھی صدی سے قبل خیرون القرون میں کسی ایک مذہب کی پابندی کا تصور تک نہ تھا ۔‘‘
ابوطالب مکی ’’قوت القلوب ‘‘میں فرماتے ہیں:
’’مذاہب کی کتابیں اور مسائل کے مجموعے نوایجاد ہیں ۔زمانہ سلف میںکے علماء کے قول پر فتویٰ دینے ،کسی ایک مذہب کی پابندی کرنے ،اور ہرمسئلہ میں صرف ایک امام کے قول پر عمل کرنے اور اسی کو پڑھنے پڑھانے کا دستور نہ تھا بلکہ اس وقت لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ وضو ،غسل ،نماز ،روزہ ،زکوٰۃ ،حج ،نکاح ،اور کاروبار وغیرہ روز مرہ پیش آنے والے مسائل اپنے والدین اور اپنے شہر کے معلموں سے سیکھ لیتے تھے ۔جب کوئی خاص مسئلہ پیش آجاتا تو اہل فتویٰ سے رجوع کیاجاتا ۔مفتی مدینہ سے ہے یا کوفہ سے سائل کو اس سے کوئی سروکار نہ ہوتا تھا خواص میں سے اصحاب الحدیث ،کسی مسئلہ میں واضح احادیث وآثار کی موجودگی میں شارع کے سوا کسی کی’’ تقلید ‘‘نہیں کرتے تھے اور اہل تخریج نص کی عدم موجودگی کی صورت میں فقہاء میں سے کسی فقیہ کی تصریحات یا اس کے وضع کردہ قواعد کی روشنی میں مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی سعی کرتے تھے ۔‘‘
بعض کبار علماء تو عمل کرتے ہوئے یا فتویٰ دیتے وقت کسی معین مذہب کے مقید نہیں رہتے تھے ۔مثال کے طور پر ہم امام محمد الجوینی ؒ کانام لے سکتے ہیں انہوں نے ’’المحیط‘‘کے نام سے کتاب تالیف کی ۔اس میں انہوں نے کسی ایک مذہب کی پابندی نہیں کی ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ناقابل تردید حقیقت

ناقابل تردید حقیقت


یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوںکو آئمہ میں سے کسی ایک مذہب کی پیروی کا پابند نہیں کیا ۔آپ نے تو اپنی اتباع کو واجب قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت ثابت ہوجانے کے باوجود اس کی مخالفت کرتا ہے تو اس کا عمل مردود ہوگااور اس کے پاس قطعی طور پر کوئی عذر نہیں ہوگا ۔البتہ اگر کسی کو حدیث کا علم نہیں ہوا تو وہ شخص حدیث معلوم نہ ہونے کے سبب معذور ہوسکتا ہے ۔تاہم خود کو مسلمان کہنے والے کسی فرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ یہ کہہ دے میں اس حدیث پر عمل نہیں کرسکتا میں صرف اپنے امام کے قول پر عمل کروں گا ۔اس لیے کہ یہ بات اسے ارتداد تک لے جانے والی ہے ۔والعیاذ باﷲ۔

لہٰذا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ صحیح اور ثابت شدہ احادیث پر غورکرے انہیں ہمیشہ مدِنظر رکھے ان پر سختی سے کاربند رہے ۔دل وجان سے اس پر عمل پیرا رہے مخالفت کرنے والوں کی باتوں کو قابل التفات ہی نہ سمجھے ۔یہی صراطِ مستقیم ہے ۔اسی کو مذہب بنالو اور اس سے سرِمو انحراف نہ کرو،وضو میں پاؤں کا مسح نکاح متعہ کو حلال سمجھنا نشہ آور مشروب کی قلیل مقدار کو حلال کہنا (۱) ۔گدھوں کے گوشت کو حلال سمجھنا (۲) اور یہ کہنا کہ ظہر کی نماز سایہ دومثل ہوجانے تک ہے باقی رہتا ہے (۳) ۔صراط مستقیم اور جادہ حق سے بھٹکنے کی علامات ہیں ۔

برادران ِاسلام ! اگر حصول علم کے لیے بلند ہمت اور جادۂ تقویٰ پر چلنے کا عزم صمیم رکھتے تو کتاب وسنت کے صریح وظاہر احکام ،سلف میں سے اکثر اہل علم کے عمل کو جاننے کی کوشش کرو ۔بظاہر مختلف احادیث میں مطابقت وجمع کی صورت پیدا کرو ۔اور کتب احادیث میں مروی صحیح اور حسن احادیث تلاش کرو اور ان میں سے سند کے اعتبار سے قوی تر اور قیاس اور احتیاط کے تقاضوں کے قریب تر حدیث پر عمل کرو ۔یہ طریقہ نہایت سہل ہے ۔اس میں صحیحین ،موطا امام مالک ،سنن ابی داؤد،جامع الترمذی ،اور سنن النسائی سے زیادہ کتابوں کی ضرورت نہیں ۔یہ تمام کتابیں معروف ومتداول ہیں باآسانی دستیاب ہوسکتی ہیں ۔لہٰذا اولین فرصت میں انہیں ھاصل کرکے پڑھئے ۔اگر آپ عربی زبان نہیں جانتے تو کسی پڑھے ہوئے بھائی سے آپ اپنی زبان میں سمجھ سکتے ہیں ۔بہرحال حدیث معلوم ہوجانے کے بعد آپ کاکوئی عذر قابل سماعت نہیں۔

شاہ ولی اﷲ تفہیمات (۱/۳۰۹)میں لکھتے ہیں :
’’ایک طرف جامد مقلدین ہیں جنہیں صحیح سند کے ساتھ حدیث پہنچتی ہے جس پر متقدمین فقہاکی ایک جماعت عمل بھی کرچکی ہوتی ہے ۔لیکن یہ مقلدین صرف اس لیے حدیث چھوڑ دیتے ہیں کہ ان کے امام نے ا س پر عمل نہیں کیا ہے۔‘‘

’’دوسری طرف وہ اہل ظاہر ہیں جو حاملین علم اور آئمہ دین کو بُرا بھلا کہتے ہیں (۴) یہ دونوں فریق نادانی اور حماقت بلکہ گمراہی کا شکار ہیں اور حق ان کے بین بین ہے ۔میں حلفیہ گواہی دیتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ کی شان اور اس کا عدل اس سے کہیں زیادہ بلند ہے کہ لوگوں کو تا قیامت ایک شریعت کا پابند کرے ۔پھر اسے ایسے اندھیرے میں رکھے کہ وہ حق وباطل اور صحیح وغلط میں تمیز کرنے سے عاجز ہوں ۔اﷲتعالیٰ نے حق کو اس قدر واضح اور صاف کردیا ہے کہ صرف انتہائی مغرور اور سرکش لوگ ہی باطل کے گڑھے میں گر کر ہلاک ہوسکتے ہیں ۔اسی غرض سے اﷲتعالیٰ نے اپنی محکم کتاب کو عام انسانی کلام سے ممتاز کیا اور اسے ہر قسم کی تحریف سے مھفوظ رکھا اور اسے تواتر کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا کہ اس کے قرآن ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔اور اسی مقصد کے لیے اﷲتعالیٰ نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نطق مبارک سے احکام وحکمت جاری فرمائے جن کی ایک بڑی تعداد یا کم ازکم معنی کے اعتبار سے مستفیض ہے لفظی اعتبار سے مستفیض روایت سے میری مراد وہ حدیث ہے جسے تین یا تین سے زیادہ صحابہ کرام نے روایت کیا ہو ۔ان کی صداقت وپرہیزگاری محتاج دلیل نہیں ۔نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم نے انہیں خیرون القرون قرار دیا ۔لوگوں پر ان کا احترام لازم کیا اور ان پر حرف گیری سے منع فرمایا ۔اس اعتبار سے مستفیض احادیث متواتر یا اس کے قریب قریب ہیں ۔فقہ وسیرت کے بے شمار ابواب میں اس قسم کی احادیث الفاظ میں تھوڑے بہت تفاوت کے ساتھ بکثرت موجود ہیں۔‘‘

’’معنوی طور پر مستفیض روایات سے میری مراد وہ احادیث ہیں جن سے ثابت ہونے والے مسائل پرتمام مکاتب فکر متفق ہیں اور ان سے اختلاف رائے رکھنے والا بدعتی بھی اپنی جان کے خوف سے اظہار نہیں کرتا ۔‘‘

’’ان کے بعد وہ احادیث جو عوام میں اگرچہ مشہور نہیں ہیں لیکن علمائے حدیث نے ان کے صحیح ہونے کی شہادت دی ہے۔ان کی بھی تلاش کے بعد اتباع ضروری ہے ۔

اس طرح بعض مسائل میں صحابہ وتابعین کے زمانہ سے اختلاف چلا آتا ہے تو ایسے مسائل میں یہ نہیںہوسکتا کہ ایک قول کو مردود اور ناقابل التفات قرار دیا جائے زیادہ سے زیادہ ایک کو راحج افضل اور دوسرے کو مرجوح کہا جاسکتا ہے اسی طرح وہ مسائل جن میں قیاس واستنباط کی بناء پر اختلاف پایاگیا تو ان میں قوی وجلی قیاس کے سوا کسی کو لازم قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

ان تمام امور میں فرق مراتب کرنا ضروری ہے۔پہلی قسم (مستفیض اور صحیح احادیث)پر عمل کرنا اور ان پر سختی سے کاربند ہونا لازمی اور اس کی مخالفت کی بناپر کسی کو گنہگار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔جو شخص اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا جاہل اور گمراہ ہے ۔‘‘

’’میں حلفیہ گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی حاکم نہیں حکم کرنا اسی کو سزاوار ہے اور یہ کہ اس نے عرش پر سے واجب،مندوب ،مباح ،مکروہ ،اور حرام کا فیصلہ فرمایا ہے۔پھر ان تما م کو ملاء اعلیٰ اور اپنی تجلی اعظم کے گرد قائم شعاع میں ثابت کیا ۔اور پھر اسے لوگوں کے لیے اس ہستی کی زبان پر نازل کیا جسے اﷲتعالیٰ نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے منتخب فرمایا۔لہٰذا جو شخص بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو حرا م یا واجب قراردیتا ہے تو وہ اﷲتعالیٰ پر افتراء پروازی کرتا ہے ۔

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ ألْسِنَتُکُمْ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلَالٌ وَھٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوْا عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ اِنَّ الَّذِ یْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ ۔ اور یوں ہی جھوٹ جو تمہاری زبانوں پر آجائے تومت کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اﷲتعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو ۔جو لوگ اﷲتعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں ان کا بھلا نہیں ہوگا۔ (النحل:۱۱۶)

لہٰذا ہم پہلے مرتبہ (مستفیض احادیث)کے متعلق تو قطعیت سے کہہ سکتے ہیں لیکن دوسرے مرتبہ کے دلائل (کہ جن میں صحابہ وتابعین کے مابین بھی اختلاف ہے)میں صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں صحابہ سے دو قول مروی ہیں ۔زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں رائے ہمیں زیادہ پسند اور سنت کے قریب تر ہے۔

میں اﷲکو گواہ بناکر حلفیہ کہتا ہوں کہ جو شخص امت کے کسی بھی فرد کے کے متعلق یہ اعتقاد رکھے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی اتباع فرض کردی ہے۔فرض وہی ہے جسے وہ (فرد)فرض کہے ۔تو وہ شخص کافر ہے ۔شریعت حقہ اس (فرد)کے پیدا ہونے سے بہت پہلے مکمل ہوچکی ۔اہل علم نے اسے محفوظ کیا اور راویوں نے اسے نقل کیا ۔فقہانے اس پر عمل کیا ۔لوگوں نے علماء کی تقلید پر اتفاق کیا توبایں معنی کہ وہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے شریعت کی روایت کرنے والے ہیں ۔انہیں ان چیزوںکا علم ہے جنہیں ہم نہیں جانتے ۔علم سے جو تعلق اور شغف انہیں تھا ہمیں نصیب نہیں ۔

لیکن اگر کوئی حدیث ہم کو صحیح سند کے ساتھ پہنچے ،محدثین اس کے صحیح ہونے کی شہادت بھی دیں ۔گروہ علماء کا اس پر عمل بھی مخفی نہ رہا ہو تو محض یہ کہہ کر اس پر عمل نہ کرنا کہ اس کا امام اس حدیث کا قائل نہ تھا ۔نری حماقت اور سراسر ضلالت ہے۔
شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ مزیدفرماتے ہیں :
’’میں اﷲ کو گواہ بناکر حلفیہ کہتا ہوں کہ احکام شریعت کے دودرجے ہیں۔پہلا درجہ فرائض کی ادائیگی ،محرمات قطعیہ سے اجتناب اور دینی شعائر کا قیام ہے۔یہ انسانی معاشرہ کے تمام طبقات پر لازم ہے اس کے دائرہ سے کوئی بھی خارج نہیں ۔ادنیٰ واعلیٰ ،امیر وغریب ،شاہ وگدا امیر وفقیر ،مزدور وکسان ،تاجر وسپاہی کو یہ درجہ محیط ہے ۔یہ انتہائی آسان اور سہل بھی ہے اس میں کسی قسم کی دشواری یا سختی نہیں ہے۔

’’دوسرا درجہ کمال عبودیت واحسان کا ہے جو شخص اسے اختیار کرے گا صحیح معنوں میں عابد اور حسن ہوگا ۔یہ درجہ سنن ،آداب اور ورع کے تقاضوں پر مشتمل ہے جو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور سلف امت سے مروی یا اس پر قیاس کئے گئے ہیں ان دونوں درجوں کے درمیان بہت فرق ہے جسے نظرانداز کرنا نری جہالت اور خسارے کوموجب ہے ۔علماء کے بیشتر اختلافات اس فرق سے ے توجہی کا نتیجہ ہیں۔‘‘

نیز فرمایا ’’میں طالب علموں سے کہتا ہوں ،’’سے خود کو عالم سمجھنے والے بیوقوفو! تم یونانی علوم کے حصول میں دن رات ایک کیے ہوئے اور اسی کو اصل علم باور کئے ہوئے ہو۔صرف اور نحو اورمعانی کوہی منزل مقصود بنابیٹھے ہو۔حالانکہ علم تو یہ ہے کہ کتاب اﷲکی محکم آیت سیکھو،اس کے غریب الفاظ کی تفسیر اسباب نزول اورمشکل جملوں کی توجیہہ معلوم کرو ۔یاپھر علم یہ ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کو محفوظ کرو مثلاً یہ کہ آپ نماز کس طرح پڑھتے تھے۔وضو کیسے کرتے تھے ۔روزہ و حج کا طریقہ کیا تھا جہاد کیسے کرتے تھے ؟گفتگو کیسے فرماتے تھے ؟فضول باتوں سے زبان کو کیسے محفوظ رکھتے ۔آپ کے اخلاق عالیہ کیسے تھے؟یہ معلوم کرکے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی کرو سنت کا اتباع کرو ،نیز جو کام سنت ہیں انہیں سنت سمجھو انہیں فرض کا درجہ نہ دو یا پھر یہ علم ہے کہ شریعت کے ازرہ عدل بیان کردہ فرائض مثلاً وضوء ،نماز کے ارکان ،زکاۃ کا نصاب ترکہ میں وارثوں کے حصے معلوم ہوں ۔البتہ مغازی اور آخرت میں ترغیب دلانے والی حکایات فضل ہیں ۔لیکن جس چیز کو تم اوڑھنا ،بچھونا بنائے بیٹھے ہو یہ آخرت کے نہیں دنیا کے علوم ہیں ۔تم فقہاء کے استحسانات وتفریعات میں پھنسے رہتے ہو۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اصل فیصلہ تو وہی ہے جو اﷲاور اس کے رسول چاہیں ۔تمہاری یہ حالت ہے کہ بعض لوگوںکو حدیث رسول پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہمارا عمل حدیث پر نہیں فلاں مذہب پر ہے ،پھر بہانہ یہ بناتا ہے کہ حدیث کو سمجھنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا تو کامل اورماہر ترین فن کاکام ہے نیز یہ کہ آئمہ پر یہ حدیث مخفی تو نہیں ہوگی انہوں نے کسی خاص سبب کی بنا پر ہی اس پر عمل نہیں کیا۔یہ منسوخ یا مرجوح بھی ہوسکتی ہے ۔

اچھی طرح جان لیں یہ طرز عمل دین سے لاتعلقی کا نتیجہ ہے ۔اگرتمہارا نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان ہے تو ان کی اطاعت بھی کرو ۔قطع نظر اس سے کہ تمہارے امام کا مسلک کیا ہے ۔اتباع حق کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے پہلے کتاب اﷲاور سنت رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے ۔اگر باآسانی سمجھ سکو تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے؟اگر سمجھنے میں کوئی دقت پیش آتی ہے تو علماء سلف کی حق وصواب اور راہ سنت سے قریب تر آراء کی روشنی میں حق تک پہنچنے کی کوشش کرو ۔علوم اٰلیہ (صرف ونحوبیان منطق)کی تحصیل میں اس طرح مشغول نہ ہو جیسے وہی اصل مقصود ہوں ‘‘۔

شاہ ولی اﷲ مزید فرماتے ہیں:
’’ جو شخص آئمہ میں کسی ایک کی تقلید کرتا ہے اور اسے کسی مسئلہ میں کوئی حدیث مل جائے اور اس کے امام کا قول حدیث کے خلاف ہو تو اس صورت میں حدیث کو چھوڑتے ہوئے امام کے قول پر عمل کرتے رہنے کی کوئی وجہ جواز نہیں ہے اور نہ ایسا کرنا کسی مومن کو زیب دیتا ہے بلکہ ایسا کرنے سے یہ ڈر ہے کہ کہیں اس کا ایمان نفاق ہی میں نہ بدل جائے۔

رسو ل اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرا بشبر وذراعا بذراع حتی لو دخلوا حجر ضب لتبعتموہ قلنا یا رسول اﷲ الیھود والنصاری ؟ قال : فمن ‘‘
تم پہلوں کے طریقہ پر قدم بقدم چلو گے ۔یہاں تک کہ اگر وہ کسی جانور کی بل میں گھسے ہوں تو تم بھی ایسا کرکے ہی دم لوگے۔ہم نے پوچھا آپ کی مراد یہود ونصاریٰ سے ہے ؟ فرمایا اور کون؟‘‘

ہم نے کئی ایسے ضعیف الایمان مسلمان دیکھے ہیں جو بزرگوں کو اﷲتعالیٰ کے سوا معبود کا درجہ دیتے ہیں اور یہود ونصاریٰ کی طرح ان کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیتے ہیں ۔

سچ پوچھو تو ہر طبقہ میں تحریف کی وبا سرایت کرچکی ہے ۔صوفیاء ایسی عجیب وغریب باتیں کرتے ہیں جن کی کتاب وسنت کے ساتھ مطابقت تلاش کرنا کارِ بے سود ہے۔فقہاء نے ایسے عمل ایجاد کرلئے ہیں کہ ان کا ماخذ معلوم کرنا محال ہے (جیسے وہ دردہ اور کنویں کے مسائل )

فلاسفہ ،شعراء اور طبقہ امراء وعوام نے طاغوت کی پرستش شروع کردی ہے بزرگوں کے مزارات کو سجدہ گاہ بنادیا گیا ہے اور وہاں عرس کے نام سے میلے لگائے جاتے ہیں ۔ان خرافات کا کہاں تک ذکر کروں ۔
علامہ ابن قیم رحمہ اﷲ ’’اعلام الموقعین‘‘(۴/۴۷۶) پر لکھتے ہیں ۔
’’یہ مسئلہ کہ ان پڑھ جاہل کے لیے مشہور فقہی مذاہب میں سے کسی ایک کو اپنانا لازم ہے کہ نہیں؟تو اس سلسلے میں درست اور قطعی بات یہ ہے کہ لازم نہیں ہے ۔اسی لیے کہ لازم وہی چیز ہے جسے اﷲاور اس کے رسول نے لازم ٹھہرایا ہے۔جب کہ اﷲتبارک وتعالیٰ نے اور نہ ہی اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی پر امت کے کسی فرد کے مسلک کو اپنا نالازم کیا ہے ۔کہ وہ اسی کے مسلک کی پیروی کرے اس کے علاوہ کسی کی نہیں ،صحابہ وتابعین کا پورا دور گزرگیا اور ان میں سے کسی نے بھی اپنی نسبت کسی کی طرف نہیں کی درحقیقت ان پڑھ کی کسی مذہب سے نسبت صحیح ہوہی نہیں سکتی ۔وہ کسی مذہب سے اپنی نسبت کرے بھی تو اسے اس مذہب کا متبع نہیں شمار کیاجائے گا ۔اس لئے اگر کوئی اپنے آپ کو حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی کہے تو صرف کہنے سے نہیں ہوجائے گا ۔جس طرح صرف کہنے سے کوئی فقیہ یا نحوی یا قلمکار نہیں ہوجاتا ،اور اپنے آپ کو حنفی یا شافعی یا مالکی کہنے والا اگر یہ سمجھے کہ وہ اس امام کا متبع اور اس کے مسلک پر چلنے والا ہے تو اس کی یہ بات اسی وقت صحیح ہوسکتی ہے جب کہ وہ علم ومعرفت اور استدلال میں اس امام کے طریقے پر چلے لیکن اگر وہ اس امام کے علم وطریقے سے بیگانہ ہو اور اس امام کی زندگی وسیرت کی کوئی چھاپ بھی اس موجود نہ ہو تو صرف کھوکھلے دعوے کی بنیاد پر اس کی اس امام سے نسبت کیسے درست ہوسکتی ہے ؟اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کسی جاہل وان پڑھ کی کسی مذہب سے نسبت درست نہیں ہوسکتی ،اور اگر مان بھی لیا جائے تب بھی کسی کے لیے امت کے کسی فرد کے مسلک کو اس طرح اپنانا لازم نہیں کہ اس کے تمام اقوا ل پر عمل کرے اور دیگر علماء کے اقوال کو چھوڑ دے ،مذاہب کی پابندی ایک بڑی ہی خطرناک بدعت ہے جو اس امت میں رواج پاگئی ہے۔آئمہ اسلام میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں تھا ۔ان آئمہ کا مقام اس سے کہیں اونچا ہے اوران کا رتبہ اس سے کہیں بلند ہے کہ وہ لوگوں پر اسے لازم ٹھہرائیں ،اور ان لوگوں کا قول حقیقت سے اور ببھی زیادہ دور ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کسی ایک عالم کے مسلک کی پیروی ضروری ہے یایہ کہ آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کے مذہب کو اپنانا لازم ہے۔
انتہائی تعجب وافسوس کا مقام ہے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے مذاہب فنا ہوگئے ،تابعین وتبع تابعین کے مسالک کا کوئی پوچھنے والا نہیں اسی طرح تمام آئمہ وفقہاء کے مذاہب مٹ گئے لے دے کے صرف چار اشخاص کے مذاہب برحق رہ گئے باقی سب باطل ٹھہرے ۔کیا کسی بھی امام نے اپنے مسلک کی دعوت دی ہے؟یا اس کی تقلید کے جواز کا فتویٰ دیا ہے؟ان کے کلام کا کوئی ایک حرف بھی اس پر دلالت کرتا ہے ؟اﷲتبارک وتعالیٰ اورنبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے جن چیزوں کو صحابہ کرام تابعین وتبع تابعین رضی اﷲ عنہم پر فرض کیا تھا انہیں چیزوں کوقیامت تک آنے والے لوگوں پر بھی فرض کیا ہے جو چیز فرض ہے وہ فرض ہی رہے گی وہ بدل نہیں سکتی اگرچہ زمان ومکان اور قدرت وعجز کے اعتبار سے اس کی کیفیت ومقدار مختلف ہوجائے لیکن یہ تبدیلی بھی اﷲاور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی تصریحات کے مطابق ہی ہوگی۔

معین مذہب مذہب کی پابندی کو جائز کہنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم اپنے مذہب کے بارے میں برحق ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں تو اس اعتقاد کو نبھاتے ہوئے ہر مسئلہ میں اسی کی پیروی کرنی چاہیے۔

لیکن اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو اپنے مذہب کے علماء کے سوا کسی سے مسئلہ پوچھنا ،فتویٰ طلب کرنا حرام ہوگا ،اسی طرح اپنے امام جیسے عالم یا اس سے بھی زیادہ علم رکھنے والے امام کا مذہب اختیار کرنا حرام ٹھہرے گا۔اس کے علاوہ بھی بہت سے امور لازم ؤئیں گے جس کا فاسد ہونا محتاج بیان نہیں لہٰذا امر اوّل بھی فاسد ہے۔بلکہ اس سے تو یہ بھی لازم آئے گا کہ مقلد،حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور قول خلفاء راشدین رضی اﷲ عنہم کے بالمقابل بھی اپنے امام کے قول کو ترجیح دے ۔

لہٰذا عام آدمی کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ آئمہ اربعہ کے اتباع یا کسی دوسرے عالم دین سے مسئلہ دریافت کرے ۔تمام امت اس امر پر متفق ہے کہ فتویٰ لینے والے یا فتویٰ دینے والے پر آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کا پابند رہنا ضروری نہیں ہے جس طرح کسی عالم پر یہ واجب نہیں کہ وہ اپنے شہر یا کسی دوسرے خاص شہر کی احادیث کو مداربنائے بلکہ حدیث جب درجہ صحت کو پہنچ جائے تو اس پر عمل کرناواجب ہے۔قطع نظر اس سے کہ وہ حجازی ہے یا عراقی ،شامی ہے،یا مصری اور یمنی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱):احناف کا خیال ہے کہ انگور سے بنائی ہوئی شراب کے سوا باقی نشہ آور مشروبات صرف اس مقدارمیں پینا حرام ہیں جن سے نشہ آجائے ۔ان کا یہ موقف صریح اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ۔حدیث کی رو سے ہر نشہ آور شے ’’خمر ‘‘ہے اور ہر خمر حرام ہے (متفق علیہ)ایک اور حدیث میں ہے ما اسکرمنہ الفرق فملأ الکف منہ حرام (ترمذی،ابوداؤد) جس چیز کا ایک مٹکا نشہ پیدا کرتا ہے اس کا ایک چلو بھی حرام ہے۔
(۲): بعض مالکیہ کے نزدیک گدھا حرام نہیں یہ قول متفق علیہ حدیث کے خلاف ہے۔
(۳):جیسا کہ احناف کا مذہب ہے۔
(۴): شاہ صاحب کا اشارہ غالبًا ان عوام کی جانب ہے جو آئمہ اربعہ رحمہم اﷲکو اختلاف امت کا ذمہ دار سمجھ کر مورد الزام ٹہراتے ہیں ۔ورنہ آئمہ اہل ظاہر رحمہم اﷲاجمعین نے ایسا کبھی نہیں کہا ۔امام ابن حزم رحمۃ اﷲعلیہ کی درشتی کا ایک خاص پس منظر ہے وہ تمام آئمہ کا احترام کرتے ہیں اور انہیں معذور وماجور سمجھتے ہیں ۔شاہ صاحب پر ان کا موقف مخفی نہیں الانصاف کاماخذ الاحکام فی اصول الاحکام کا ایک باب اور شیخ الاسلام کی رفع الملام عن آئمہ الاعلام ہی تو ہے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مذہب کی ترویج کے اسباب

مذہب کی ترویج کے اسباب

اس موقع کی مناسبت سے میں مذاہب کی ترویج واشاعت کے چند اسباب ذکر کروں گا ۔تاکہ ارباب دیدۂ عبرت نگاہ اور اصحابِ گوش نصیحت نیوش عبرت حاصل کریں ۔

احمد بن مقری اپنی مشہور کتاب’’نفخ الطیب من غصن الاندلس الرطیب ‘‘(۲/۱۵۸) پر لکھتے ہیں کہ:
اہل مغرب واہل شام واہل اندلس پہلے امام اوزاعی کے مسلک پر تھے لیکن حکم بن ھشام ابن عبدالرحمن الداخل کے زمانہ میں جو امویوں کی جانب سے اندلس کا تیسرا حاکم تھا ،حکم جاری کیا گیا اور امام مالک بن انس رحمہ اﷲاور اہل مدینہ کے اقوال پر فتویٰ دیا جانے لگا اور یہ سب حَکَم کی رائے سے ہوا تھا جس نے سیاسی مصلحت کے پیش نظر اسے اختیار کیا تھا ،وہ سیاسی مصلحت کیا تھا اس کے سلسلے میں لوگوں کا اختلاف ہے ،جمہور کی رائے میں اس کا سبب یہ تھا کہ بعض علماء نے مدینہ کا سفر کیا ،پھر جب اندلس لوٹ کر آئے تو ان علماء نے امام مالک کے فضل ،جلالت قدر اور وسعت علم کا ذکر کیا جس سے لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت بیٹھ گئی اور لوگوں نے انہی کے مسلک کو اختیار کیا لیکن کچھ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ امام مالک نے کسی اندلسی سے حاکم اندلس کی سیرت دریافت کی تو انہی نے اپنے حاکم کی جو سیر ت بیان کی اسے سن کر امام مالک کو بڑا تعجب ہوا اس لیے کہ ان دنوں بنی عباس کی سیرت اچھی نہیں سمجھی جاتی تھی ،امام ملک ؒ نے اس سے کہا کہ ہم اﷲ تعالیٰ سے یہ دعاکرتے ہیں کہ وہ ہمارے حرم کو تمہارے حاکم سے زینت بخشے ‘پھر اس واقعہ کو حاکم اندلس سے بیان کیا گیا اور اما م مالک ؒ کے علم وفضل کا شہرہ پہلے سے تھا ہی ،لہٰذا اس نے لوگوں کو امام مالک کے مسلک پر چلنے کی ترغیب دی اور امام اوزاعی کے مسلک کو چھوڑ دینے کاحکم دیا ۔واﷲ اعلم
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مغرب کے امراء کا یہ اتفاق کہ ابن قاسم کے مسلک پر عمل ہوا اور انہیں کے مسلک پر فیصلہ کیا جائے گا ۔خلاصہ یہ کہ یہ مذاہب اُمراء وملوک کے کھیل کا ذریعہ اور ان کی سیاست کا حصہ ہیں ۔

اگر آپ مذاہب اور سلسلہ ہائے تصوف کے حدوث وانتشار کے اسباب جاننا چاہیں تومقدمہ ابن خلدون کا مطالعہ کریں،اس میں انہوںنے ان اسباب کا بحسن و خوبی مفصل ذکرکیا ہے اور یہ بتلایا ہے کہ مجرمانہ سیاست اور سلطنت پر ہوا پرستوں کا قتدار وغلبہ ہی ان مذاہب کی تدوین واشاعت کا باعث بنے ۔

علامہ ابن قیم رحمہم اﷲ’’اغاثہ اللہفان من مصائد الشیطٰن ‘‘(۲/۴۵)پر فرماتے ہیں:
’’مخصوص صورت وہیئت اپنانا ،خاص قسم کالباس پہننا ،مخصوص انداز سے چلنا ،معین شیخ ومعین مذہب کی اتباع کرنا یہ تمام چیزیں شیطان کے جال ہیں ،شیطان ہی ان کے دلوں میں یہ باتیں ڈالتا ہے اور ان پر ان چیزوں کے لزوم کو اس طرح فرض کردیتا ہے کہ وہ فرائض کی طرح انہیں لازم سمجھتے ہیں اور کسی بھی صورت میں ان سے باہر نہیں آسکتے بلکہ جولوگ ان چیزوں کو نہیں اپناتے ان کی مذمت وطعن وتشنیع کرتے ہیں ،جیساکہ بیشتر مقلدین اور صوفیاء کے مختلف فرقوں نقشبندی ،قادری سہروردی ،شاذلی اور تیجانی وغیرہم کا عام طریقہ ہے لہٰذا ہمیں اس تعصب وتقلید سے جو کہ ان لوگوں کا طریقہ ہے بچے رہنا چاہیے ،لوگ عادات ورسوم میں پھنس گئے ہیں اور اصل شریعت سے غافل ہوگئے ہیں ۔یہ لوگ من گھڑت رسومات کو فروغ دینے والے ہیں ان کاشمار علماء اور اہل حق کے زمرے میں نہیں،جو شخص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے طور طریقے کا مطالعہ کرے گا وہ ان سے ان لوگوں کے طور طریقے سے مختلف پائے گا۔
اگر آپ ان مذاہب کا حدوث جن سے مسلمانوں کی جمعیت میں تفرقہ پڑا اور جو اسلام سے بالکل دور ہیں ،جاننا چاہیں تو علامہ ابن قیم کی کتاب ’’اغاثۃ اللفھان من مصائد الشیطان ‘‘خصوصاً اس کے آخری حصے کا مطالعہ کریں ،اس میں صاحب کتاب نے ابن سینا اور نصیر طوسی کی دسیسہ کاریوں اورفاطمیوں اور اسماعیلیوں کی سازشوں کو بے نقاب کیاہے۔

شہاب الدین عبدالرحمن جو ابوشامہ کے لقب سے مشہور ہیں۔اپنی کتاب ’’المؤمل للردالیٰ الاوّل‘‘(۳/۱۰)پر لکھتے ہیں:
لوگوں نے قرآن کے جملہ علوم میں سے صرف اس کی سورتوں کے حفظ اورمحض قرأت کے نقل کرنے پرا کتفا کرلیا ہے،اس کی تفسیر کے علم اور اس سے احکام مستنبط کرنے سے غافل ہوگئے ہیں ،اسی طرح علوم حدیث میں اسی قدر پر اکتفاء کرتے ہیں کہ بعض کتابوں کو ایسے اساتذہ سے سن لیتے ہیں جو ان سے بھی بڑے جاہل ہوتے ہیں اور بعض لوگ صرف اپنے امام ہی کے اقوال نقل کرتے ہیں اور لوگوں کی ردی آراء اور گھٹیا خیالات ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ،کسی عارف سے مذہب کا معنی دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کا معنیٰ تبدیل شدہ دین ہے۔
اﷲتعالیٰ نے فرمایا :
وَلَا تَکُوْنُوا مِنَ المُشْرِکِیْنَ مِنَ الَّذِ یْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوا شِیَعًا ۔
اس کے باجود بھی انہیں کبار علماء میں شمار کیا جاتا ہے حالانکہ اﷲتعالیٰ اورعلماء دین کے نزدیک اس سے بڑا جال اور کوئی نہیں۔
اسی کتاب کے صفحہ پندرہ پر فرماتے ہیں:
’’یہ چاروں مذاہب پھیل چکے ہیں اور ان کے علاوہ کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہے،سو معدودے چند کے علاوہ ان مذاہب کے سبھی متبعیین کے حوصلے پست ہوچکے ہیں لہٰذا وہ غیر انبیاء کی تقلید کے حرام ہوتے ہوئے بھی اپنے ائمہ کی تقلید کرتے ہیں بلکہ ان کی نظر میں ائمہ کے اقوال کتاب وسنت کے دچرجہ میں ہیں اور یہی مصداق ہے ۔فرمان الٰہی:
اِتَّخِذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اﷲ۔
یہ امید کرتے ہوئے کہ تقلید مذاہب کا مسئلہ واضح ہوچکا ہوگا ۔اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔اﷲ سے دعا ہے کہ میری اس کوشش کو اخلاص سے مزین فرماتے ہوئے شرف قبولیت بخشے اور اسے اپنے بندوں کے لیے مفید اور نافع بنائے نیز لکھنے ،پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے دنیا وآخرت میں فوز وفلاح اور دخول جنت نعیم کا سبب بنائے ،
واخر دعوانا سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون
وسلام علی المرسلین والحمد ﷲ رب العالمین

ابوعبدالکریم ، ابوعبدالرحمن محمد سلطان المعصومی
زقاز بخاری ۔جوار مسجد حرام ۱۵ محرم ۱۳۵۸ ہجری

بشکریہ : الموحدین ویب سائٹ
 
Top