محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ کا مذہب کتا ب وسنت پر عمل کرنا ہے
روضۃ العلماء الزندویسیۃ میں مولف الہدایۃ سے روایت منقول ہے :
علامہ ابن القیم رحمہ اﷲ اعلام الموقعین (۱/۷۱) میں فرماتے ہیں:
اگر کوئی یہ عذر پیش کرے کہ وہ حدیث کا مطلب نہیں سمجھ پاتا تو اس کا یہ عذر قطعًا ناقابل قبول ہے ۔اسے کیوں کر تسلیم کیا جاتا سکتا ہے جب کہ اﷲتعالیٰ نے اپنی کتاب کو صرف اس لیے نازل فرمایا ہے کہ اس کے معنی ومطالب کو اچھی طرح سمجھا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے مزید برآں اﷲتعالیٰ نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ تمام انسانوں کے لیے اس کی تفسیر وتوضیح فرمادیں۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لِتُبیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ ۔ ہم نے قرآن کو آپ پراس لئے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کلام کی تفسیر کردیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے ۔ (النحل:۴۴)
لہٰذا یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کاکلام جو لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہے سوائے فردِ واحد(امام )کے تمام انسانوں کے لیے ناقابل فہم ہے۔مقلدین کے اس دعویٰ کو اگر تسلیم کرلیا جائے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے دنیا میںکوئی مجتہد پیدا ہی نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آج کی دنیا میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی توضیح کو سمجھنے والا سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔
اس طرح کی باتیں اوّل اوّل شاید ان لوگوں کی زبانی سے نکلی تھیں جو اپنے مسلک کا خلافِ کتاب وسنت ہونا عام لوگوں سے مخفی رکھنا چاہتے تھے ۔اس مقصد کے حصول کے لیے ذریعہ یہ تلاش کیا گیا کہ کتاب وسنت کا وہ فہم جس سے مسائل کا تعلق ہے ’’مجتہدین ‘‘تک محدود کردیا گیا اور اس کے بعد دنیا سے مجتہدین کے وجود ہی سے انکار کردیا گیا اور پھر اس قسم کے جملے عام ہوگئے ۔واﷲاعلم
شاید بعض لوگوں نے مجتہد کے وجود کو ناممکن اس لیے قرار دیا کہ کہیں کوئی کسی مسلک کے کتاب وسنت کے ظواہر سے مطابقت رکھنے والے مسائل کو ترجیح دے کر اختیار ہی نہ کرے کچھ لوگوں نے اس پر مزید اضافہ کردیا اور فتویٰ دے دیا کہ ایک مسلک کو چھوڑ کر دوسرامسلک اپنانے اور تلفیق (۳)ناجائز ہے تاکہ لوگوں کو مختلف مسالک کے دلائل میں موازنہ کی کوئی صورت ہی نظر نہ آئے اور نہ کوئی اس کی خواہش رکھے اصحابِ بصیرت کے لیے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ایسی باتوں کی دینِ حنیف میں کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ ان میں سے پیشتر عقل ونقل دونوں کے مخالف ہیں اس کے باوجود کتنے ارباب علم ودانش ہیں جو رسو ل اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت سے اس کے فرض ہونے کے باوصف روگرانی کرتے ہیں اور ثقہ راویوں کے صحیح سندوں کے واسطہ سے روایت کئے گئے فرامین رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی پرواہ نہیں کرتے اور پوری توجہ مذکورہ مذاہب کے اماموں کے اقوال پر مرکوز کئے رہتے ہیں جو ان کی کتابوں میں مروی ہیں جن کی صحت کا یہ عالم ہے کہ سرے سے سند کا ہی سراغ نہیں ملتا ۔
بایں ہمہ ارباب مذاہب کی جسارت کا یہ حال ہے کہ جب کسی کو امام کے قول کے بالمقابل قرآن وحدیث کی طرف ما ئل دیکھتے ہیں تو فوراً اسے گمراہ اور بدعتی کے القاب دینے لگتے ہیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
ہر مسلمان کا فرض تو بس یہ ہے کہ ثابت شدہ احادیث پر عمل کرے ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت کرنا خوفناک اور سنگین فعل ہے ۔اس لیے کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
فَلْیَحْذَرِ الَّذِ یْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖ اَنْ تُصِیبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَ ابٌ اَلِیْمٌ ۔
رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ میں گرفتار نہ ہوجائیں یا ان پر دردناک عذاب مسلط نہ ہوجائے ۔ (النور:۶۳)
اعتماد کے قابل حدیث سامنے آجانے کے باوجود تقلید پر جمے رہنا مسلمان کا شیوہ نہیں ہے پھر بھی اگر کوئی اس پر ڈٹا رہتا ہے تو اس کی یہ حالت ان لوگوں سے کس قدر مشابہت رکھتی ہے جن کے متعلق قرآن کہتا ہے :
وَلَئِنْ اَتَیْتَ الَّذِ یْنَ اُوتُوْا الْکِتَابَ بَکُِلّ آیَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ ۔ (البقرہ:۱۴۵)
اے نبی ! اگر تم ان اہل کتاب کو ہر ہر معجزہ بھی دکھادو تو ممکن نہیں کہ تمہارے قبلہ کی پیروی کرنے لگیں ۔
لہٰذا حدیث رسول پر عمل ہر مسلمان پر فرض ہے ۔اس کی راہ میں یہ چیز ہرگز رکاوٹ نہیں بننی چاہیے کہ وہ فلاں مکتبِ فکر سے منسلک ہے اس لیے کہ اﷲتعالیٰ کا فرمان ذی شان ہے ۔
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ ۔
پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پیدا ہوجائے تو اسے اﷲاور رسول کی طرف لوٹادو۔
آپ کی طرف لوٹانے کا معنی یہ ہے باہم اختلاف کی صورت میں آپ صلی ا ﷲعلیہ وسلم کے فرمان پر عمل کیا جائے ۔اب جبکہ ائمہ کرام کے مابین اختلاف رونما ہوچکا ہے لہٰذا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنا فرض ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): سنن بہیقی۔
(۲): امام عبدالملک بن عبداﷲالجوینی ۔ابولمعالی ۔متاخرین شافعیہ میں سب سے بڑے عالم سمجھے جاتے ہیں ۔تمام مکاتب فکر میں ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں برسوں درس وتدریس وافتاء میں مشغول رہے اور اما م الحرمین کے لقب سے شہرت پائی ۔وفات ۴۷۸ھ
(۳): تلفیق کے دومفہوم ہیں ۔ایک تو یہ کہ انسان ہر مذہب کی رخصتیں تلاش کرے اور اپنی خواہشات نفسانی کا پیرو ہوکر ان سے فائدہ اٹھاتا رہے ۔مثلاً مشروبات میں حنفیہ کا مذہب پسند کرے اور ماکولات میں مالکیہ کا یہ تلفیق بالاتفاق حرام ہے ۔دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کتاب وسنت اور ان کے علوم میں دسترس رکھنے والا شخص ہر مذہب کے ان مسائل پر عمل کرے جوکتاب وسنت کے قریب تر ہوں ۔یہ اتباع کے مترادف ہے اس مقام پر مولف کی مراد اسی سے ہے ۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ کا مذہب کتا ب وسنت پر عمل کرنا ہے
روضۃ العلماء الزندویسیۃ میں مولف الہدایۃ سے روایت منقول ہے :
’’الکافی‘‘ میں ہے کہ اگر کوئی مجتہد مفتی ایک فتوی صادر کردے اور اس کے خلاف حدیث ثابت ہوجائے تو اس صورت میں حدیث پر عمل کرنا واجب ہوگا ۔اس لیے حدیث رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کا مقام مفتی کے قول سے کمتر نہیں ہوسکتا ۔مفتی کا قول (عامی کے حق میں )دلیل شرعی ہوسکتا ہے تو فرمان رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے بدرجہا اولیٰ ہے ۔امام ابوحنیفہ سے دریافت کیاگیا جب آپ کا کوئی قول ایسا ہو کہ کتاب اﷲ اس کے خلاف ہو ؟(تو اس صور ت میں ہم کیا کریں) امام ؒ نے فرمایا کتاب اﷲکے ہوتے ہوئے میراقول ترک کردو ۔پھر پوچھا گیا :اگر رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم سے کوئی روایت اس کے خلاف ہو تو (پھر اس صور ت میں ہم کیا کریں )فرمایا :میرا قول چھوڑ دو اور حدیث ِ رسول پر عمل کرو ۔پھر دریافت کیا گیا اگر صحابہ کاقول اس کے خلاف ہو تو پھر ؟اس پر بھی فرمایا :صحابہ رضی اﷲ عنہم کے قول پر عمل کرو اور میرا قول چھوڑ دو۔
امام بہیقی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اﷲ نے فرمایا : جب میں ایک بات کہوں اور رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم سے اس کے خلاف مروی ہو تو اس صورت میں صحیح حدیث پر عمل کرنا ہی حق ہے ۔اس صورت میں میری تقلید نہ کرو ۔(۱)
امام الحرمین (۲)نے اس امر کو امام شافعی سے بصراحت نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ : ھـذ ا لا خلاف فیہ ۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
علامہ ابن القیم رحمہ اﷲ اعلام الموقعین (۱/۷۱) میں فرماتے ہیں:
لہٰذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس پر حدیث کے مطابق عمل کرنا واجب نہیں یا اس کے لیے جائز نہیں تو ہم صرف یہی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ محض ظن وتخمین کی بناپر اﷲکی حجت ردّ کرنا چاہتا ہے ایسا کرنا مسلمان کے شان نہیں ہے ۔’’امام ابوحنیفہ ؒ کے اصحاب کا اس امر پر اجماع ہے کہ ضعیف حدیث بھی قیاس ورائے پر مقدم ہے اور اسی قاعدے پر امام کے مذہب کی بنیاد ہے۔‘‘
اگر کوئی یہ عذر پیش کرے کہ وہ حدیث کا مطلب نہیں سمجھ پاتا تو اس کا یہ عذر قطعًا ناقابل قبول ہے ۔اسے کیوں کر تسلیم کیا جاتا سکتا ہے جب کہ اﷲتعالیٰ نے اپنی کتاب کو صرف اس لیے نازل فرمایا ہے کہ اس کے معنی ومطالب کو اچھی طرح سمجھا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے مزید برآں اﷲتعالیٰ نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ تمام انسانوں کے لیے اس کی تفسیر وتوضیح فرمادیں۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لِتُبیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ ۔ ہم نے قرآن کو آپ پراس لئے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کلام کی تفسیر کردیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے ۔ (النحل:۴۴)
لہٰذا یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کاکلام جو لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہے سوائے فردِ واحد(امام )کے تمام انسانوں کے لیے ناقابل فہم ہے۔مقلدین کے اس دعویٰ کو اگر تسلیم کرلیا جائے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے دنیا میںکوئی مجتہد پیدا ہی نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آج کی دنیا میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی توضیح کو سمجھنے والا سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔
اس طرح کی باتیں اوّل اوّل شاید ان لوگوں کی زبانی سے نکلی تھیں جو اپنے مسلک کا خلافِ کتاب وسنت ہونا عام لوگوں سے مخفی رکھنا چاہتے تھے ۔اس مقصد کے حصول کے لیے ذریعہ یہ تلاش کیا گیا کہ کتاب وسنت کا وہ فہم جس سے مسائل کا تعلق ہے ’’مجتہدین ‘‘تک محدود کردیا گیا اور اس کے بعد دنیا سے مجتہدین کے وجود ہی سے انکار کردیا گیا اور پھر اس قسم کے جملے عام ہوگئے ۔واﷲاعلم
شاید بعض لوگوں نے مجتہد کے وجود کو ناممکن اس لیے قرار دیا کہ کہیں کوئی کسی مسلک کے کتاب وسنت کے ظواہر سے مطابقت رکھنے والے مسائل کو ترجیح دے کر اختیار ہی نہ کرے کچھ لوگوں نے اس پر مزید اضافہ کردیا اور فتویٰ دے دیا کہ ایک مسلک کو چھوڑ کر دوسرامسلک اپنانے اور تلفیق (۳)ناجائز ہے تاکہ لوگوں کو مختلف مسالک کے دلائل میں موازنہ کی کوئی صورت ہی نظر نہ آئے اور نہ کوئی اس کی خواہش رکھے اصحابِ بصیرت کے لیے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ایسی باتوں کی دینِ حنیف میں کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ ان میں سے پیشتر عقل ونقل دونوں کے مخالف ہیں اس کے باوجود کتنے ارباب علم ودانش ہیں جو رسو ل اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت سے اس کے فرض ہونے کے باوصف روگرانی کرتے ہیں اور ثقہ راویوں کے صحیح سندوں کے واسطہ سے روایت کئے گئے فرامین رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی پرواہ نہیں کرتے اور پوری توجہ مذکورہ مذاہب کے اماموں کے اقوال پر مرکوز کئے رہتے ہیں جو ان کی کتابوں میں مروی ہیں جن کی صحت کا یہ عالم ہے کہ سرے سے سند کا ہی سراغ نہیں ملتا ۔
بایں ہمہ ارباب مذاہب کی جسارت کا یہ حال ہے کہ جب کسی کو امام کے قول کے بالمقابل قرآن وحدیث کی طرف ما ئل دیکھتے ہیں تو فوراً اسے گمراہ اور بدعتی کے القاب دینے لگتے ہیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
ہر مسلمان کا فرض تو بس یہ ہے کہ ثابت شدہ احادیث پر عمل کرے ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت کرنا خوفناک اور سنگین فعل ہے ۔اس لیے کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
فَلْیَحْذَرِ الَّذِ یْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖ اَنْ تُصِیبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَ ابٌ اَلِیْمٌ ۔
رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ میں گرفتار نہ ہوجائیں یا ان پر دردناک عذاب مسلط نہ ہوجائے ۔ (النور:۶۳)
اعتماد کے قابل حدیث سامنے آجانے کے باوجود تقلید پر جمے رہنا مسلمان کا شیوہ نہیں ہے پھر بھی اگر کوئی اس پر ڈٹا رہتا ہے تو اس کی یہ حالت ان لوگوں سے کس قدر مشابہت رکھتی ہے جن کے متعلق قرآن کہتا ہے :
وَلَئِنْ اَتَیْتَ الَّذِ یْنَ اُوتُوْا الْکِتَابَ بَکُِلّ آیَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ ۔ (البقرہ:۱۴۵)
اے نبی ! اگر تم ان اہل کتاب کو ہر ہر معجزہ بھی دکھادو تو ممکن نہیں کہ تمہارے قبلہ کی پیروی کرنے لگیں ۔
لہٰذا حدیث رسول پر عمل ہر مسلمان پر فرض ہے ۔اس کی راہ میں یہ چیز ہرگز رکاوٹ نہیں بننی چاہیے کہ وہ فلاں مکتبِ فکر سے منسلک ہے اس لیے کہ اﷲتعالیٰ کا فرمان ذی شان ہے ۔
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ ۔
پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پیدا ہوجائے تو اسے اﷲاور رسول کی طرف لوٹادو۔
آپ کی طرف لوٹانے کا معنی یہ ہے باہم اختلاف کی صورت میں آپ صلی ا ﷲعلیہ وسلم کے فرمان پر عمل کیا جائے ۔اب جبکہ ائمہ کرام کے مابین اختلاف رونما ہوچکا ہے لہٰذا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنا فرض ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱): سنن بہیقی۔
(۲): امام عبدالملک بن عبداﷲالجوینی ۔ابولمعالی ۔متاخرین شافعیہ میں سب سے بڑے عالم سمجھے جاتے ہیں ۔تمام مکاتب فکر میں ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں برسوں درس وتدریس وافتاء میں مشغول رہے اور اما م الحرمین کے لقب سے شہرت پائی ۔وفات ۴۷۸ھ
(۳): تلفیق کے دومفہوم ہیں ۔ایک تو یہ کہ انسان ہر مذہب کی رخصتیں تلاش کرے اور اپنی خواہشات نفسانی کا پیرو ہوکر ان سے فائدہ اٹھاتا رہے ۔مثلاً مشروبات میں حنفیہ کا مذہب پسند کرے اور ماکولات میں مالکیہ کا یہ تلفیق بالاتفاق حرام ہے ۔دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کتاب وسنت اور ان کے علوم میں دسترس رکھنے والا شخص ہر مذہب کے ان مسائل پر عمل کرے جوکتاب وسنت کے قریب تر ہوں ۔یہ اتباع کے مترادف ہے اس مقام پر مولف کی مراد اسی سے ہے ۔