@ابن داود ، صاحب بندہ حاضر ہے۔
مزید برآں ، خادم برصغیر کی اکثریتی آبادی سے تعلق رکھتا ہے (یعنی حلقہِ بے روزگارانِ ہند و پاک سے) سکونت کراچی میں ہے - سکون کہیں نہیں ہے - جامعہ کراچی سے سیاسیات میں فاضل کی سند جس طرح حاصل کی ، خدا دشمن کو بھی ایسے نہ دلوائے
مخفی نہ رہے ، خدا وندِ عالم نے ہر انسان کو ابتدائی طور پر بے روزگار ہی پیدا فرمایا ہے ، راقم القصور اسی ابتدائی حالت کو گزشتہ کئی ماہ سے اپنے لیے سرمایہِ افتخار سمجھتا ہے - جہاں تک سندِ فاضلِ سیاسیات کا تعلق ہے تو اس قصے میں فقط بدنامی کچھ ہاتھ آنے کی توقع نہیں - جامعہ کو کوئےِ یار یا کوچہِ دلدار بھی نہیں کہہ سکتے مباداء جامعہ میں اگلے سال داخلے کے لئے لمبی لمبی قطاریں نظر آنے لگیں - دوسرا اور اہم خوف یہ ہے کہ کہیں جامعہ کی انتظامیہ ہمارے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا آغازنہ کردے بدلے میں یہ سند بھی جاتی رہے–
گزراوقات اس طرح ہے کے صبح اٹھنے کے بعد کچھ دیر آرام فرمایا جاتا ہے ، پھر باورچی خانے کے چکر لگائے جاتے ہیں کہ کوئی ناشتے کی سبیل ہو - عموماََ ناشتہ مل ہی جاتا ہے - ناشتہ کرنے سے جو تھکاوٹ ہوتی ہے تو اس سے نجات کا واحد ذریعہ آرام ہے تا آنکہ قیلولے کا وقت ہو جائے - تین پہر میں قیلولہ سے فراغت کے بعد کچھ دیر سستا لیتے ہیں کیونکہ سنا ہے بعض وقتوں کا سستانا بھی صحت کیلئے مفید ہوتا ہے الغرض شام کی چائے آذانِ مغرب سے متصل دستیاب ہو جاتی ہے - مغرب کے بعد گھر سے باہر نکلنے کو درست نہیں سمجھا جاتا لہٰذا ذرا دیر کمر سیدھی کر لیتے ہیں - محاورے کے دو وقت کا کھانا جو ابتداءِ جوانی میں فقط محاورے تک محدود تھا اب زندگی میں داخل ہوچکا ہے تو اس طرح رات کا کھانا کھانے کے بعد مقدور بھر آرام کر لیتے ہیں کہ اسکے بعد رات بھر کا سونا ہے آرام کی کوئی صورت نہیں-
تو صاحب یہ ہے بے روزگاری کی گزر اوقات
علاوہ اس کے ادب سے جو علاقہ ہے توکبھی شاعری سے دل بھلا لیا ، کبھی نثر سے شغل فرما لیا - کبھی خود بھی طبع آزمائی کی ، یعنی غزل ہوئی تو غزل نہیں تو نظم وہ بھی ہر قبیل کی ، مخمس کیا مسدس کیا مثنوی کیا - علاوہ اس کے ، نثر میں بھی ہاتھ صاف کیا ، افسانہ کیا ، خاکہ کیا ، مضامین اور افسانچوں تک کو نہیں بخشتے - نہ کہیں چھپتے ہیں نہ کوئی سنتا ہے تو مجھے کس بات کا ڈر ہو ؟ جو دل میں آئے کر گزرتا ہوں