ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل و مساوات
ایک سے زائد عوتوں(چار تک ) سے شادی کرنا جائز ہے ،لیکن ان میں عدل و مساوات ضروری ہے
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا (سورۃ النساء آیت 3)
ترجمہ :
جوعورتوں سے تمہیں پسند آئیں، دو، دو، تین، تین، چار، چار تک نکاح کرلو۔
لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔ یا پھر وہ کنیزیں ہیں جو تمہارے قبضے میں ہوں۔بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ بات قرین صواب ہے ۔"
مطلب واضح ہے کہ :
مرد چار بیویوں تک کی اجازت ہے ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان کے درمیان عدل کرے ، یعنی مادی و ظاہری حقوق کی مساویانہ ادائیگی ضروری ہے ۔ ورنہ ایک سے زائد شادی نہ کرے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور احادیث میں بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کی اہمیت واضح ہے ،
سنن ابوداود کی مشہور حدیث ہے کہ :
عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "من كانت له امراتان فمال إلى إحداهما، جاء يوم القيامة وشقه مائل".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس کی دو بیویاں ہوں پھر وہ بالکل ایک ہی کی طرف جھک جائے تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس طرح آئے گا کہ اس کا آدھا جسم ساقط (فالج زدہ )ہوگا۔ ''
سنن ابی داود 2133 ، سنن الترمذی/النکاح ۴۱ (۱۱۴۱)، سنن النسائی/عشرة النساء ۲ (۳۹۹۴)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۷ (۱۹۶۹)، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۹۵، ۳۴۷، ۴۷۱)، سنن الدارمی/النکاح ۲۴ (۲۲۵۲)
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: When a man has two wives and he is inclined to one of them, he will come on the Day of resurrection with a side hanging down.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2128
________________________
بیویوں کے درمیان مساوات و عددل کے بارے میں نامورائمہ کرام اور علماء کے
ارشادات دیکھئے :
الحمد لله
يجب على من له أكثر من زوجة العدل بين نسائه . ومن الأمور التي يجب العدل فيها القَسم وهو ـ العدل في أن يقسم لكل زوجة يوماً وليلة ـ ويجب أن يبقى معها في تلك الليلة .
(1)قال الشافعي رحمه الله : ودلت سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وما عليه عوام علماء المسلمين أن على الرجل أن يقسم لنسائه بعدد الأيام والليالي ، وأن عليه أن يعدل في ذلك ... "الأم" (5/158) . وقال : ولم أعلم مخالفا في أن على المرء أن يقسم لنسائه فيعدل بينهن .أ.هـ."الأم" (5/280).
الحمد للہ
خاوند پر ضروری ہے کہ وہ اپنی ایک سے زيادہ بیویوں کے مابین عدل وانصاف کرے ، جن امور میں اسے انصاف کرنا واجب ہے اس میں تقسیم اورباری بھی شامل ہے ۔
اس لیے اسے چاہیے کہ وہ ہر ایک بیوی کے لیے ایک دن اوررات مقرر کرے اورپھر اس دن رات میں اس کے پاس رہنا واجب ہے ۔
امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس شافعی (المتوفی 204 ھ)رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے اورمسلمان علماء کرام بھی اس پر ہیں کہ آدمی کو اپنی بیویوں کے مابین دن اوررات کی تعداد کوتقسیم کرکے باری مقررکرنی چاہیۓ ، اوراس میں اسے ان سب کے مابین عدل وانصاف سے کام لینا چاہیے ۔ دیکھیں کتاب الام للشافعی ( 1 / 158 ) ۔
اورایک دوسری جگہ پر کچھ اس طرح فرمایا :
آدمی پر واجب پر اور ضروری ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے مابین تقسیم کرنے میں عدل انصاف سے کام لے ، مجھے اس بارہ میں کسی بھی مخالفت کا علم نہيں ۔ ا ھـ ۔ دیکھیں کتاب الام للشافعی ( 5 / 280 ) ۔
اور چھٹی صدی ہجری کے عظیم محدث امام ابو محمد حسین بن مسعود البغویؒ (المتوفی 516ھ) فرماتے ہیں :
)2)
وقال البغوي رحمه الله : إذا كان عند الرجل أكثر من امرأة واحدة يجب عليه التسوية بينهن في القسم إن كُنَّ حرائر ، سواء كن مسلمات أو كتابيات .. فإن ترك التسوية في فعل القَسْم : عصى الله سبحانه وتعالى ، وعليه القضاء للمظلومة ، وروي عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل
" وفي إسناده نظر - (رواه : أبو داود (2/242) والترمذي (3/447) والنسائي (7/64) وابن ماجه (1/633) وصححه الحافظ ابن حجر في "بلوغ المرام" (3/310) والألباني "إرواء الغليل " (7/80) ) -
وأراد بهذا الميل : الميل بالفعل ، ولا يؤاخذ بميل القلب إذا سوى بينهن في فعل القسم . قال الله سبحانه وتعالى : ( ولن تستطيعوا أن تعدلوا بين النساء ولو حرصتم فلا تميلوا كل الميل ) معناه : لن تستطيعوا أن تعدلوا بما في القلوب ، فلا تميلوا كل الميل ، أي : لا تتبعوا أهواءكم أفعالكم .. .أ.هـ. "شرح السنة" (9/150-151).
امام بغوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
اگرمرد کے پاس ایک سے زيادہ بیویاں ہوں اوروہ آزاد عورتیں ہیں توان کے درمیان تقسیم میں برابری کرنا واجب ہے چاہے وہ بیویاں مسلمان ہوں یا پھر کتابی ، اوراگروہ تقسیم میں برابری اورانصاف کوترک کرتا ہے تواس نے اللہ تعالی کی معصیت کا ارتکاب کیا ، اوراس پر واجب ہے کہ وہ مظلوم بیوی کا حق ادا کرنے کے لیے قضاکرے ۔
سیدنا ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس کی دو بیویاں ہوں اوروہ ان میں سے کسی کی طرف مائل ہو توروز قیامت اس حالت میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب مائل ہوگی ) اس کی سند میں نظر ہے سنن ابوداود ( 2 / 242 ) سنن ترمذی ( 3 / 447 ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 633 ) ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے بلوغ المرام ( 3 / 310 ) میں اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 7 / 80 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
حدیث میں مذکوراس میلان سے میلان فعل ہے ، کیونکہ جب وہ تقسیم میں برابری اورعدل کرتا ہے تو میلان قلب کا مؤاخذہ نہيں ہوگا ۔یعنی قلبی محبت اور لگاؤ میں فرق ہوسکتا ہے ،تاہم عملی سلوک کے لحاظ سے بیویوں کے درمیان برابری کا معاملہ کرنا ضروری ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
تم سے یہ توکبھی نہیں ہوسکے گا کہ تم اپنی تمام بیویوں ہر طرح عدل کرو ، گو تم کتنی بھی خواہش اورکوشش کرلو اس لیے بالکل ہی ایک کی طرف مائل نہ ہوجاؤ کہ دوسری کومعلق کرکے چھوڑ دو ۔
اس کا معنی یہ ہے کہ :
جوکچھ دلوں میں ہے اس کے بارہ میں توانصاف نہیں کرسکتے ، توتم بالکل ہی ایک طرف مائل نہ ہوجاؤ ، یعنی تم اپنے افعال اورخواہش کے پیچھے نہ چل نکلو ۔۔۔ ا ھـ
دیکھیں شرح السنۃ للبغوی ( 9 / 150 - 151 ) ۔
(3)اورنامور محدث و فقیہ امام حافظ ابن حزم رحمہ اللہ تعالی کاکہنا ہے :
وقال ابن حزم رحمه الله : والعدل بين الزوجات فرض ، وأكثر ذلك في قسمة الليالي .أ.هـ. "المحلى" (9/175).
بیویوں کے مابین عدل انصاف اوربرابری کرنا فرض ہے ، اوریہ عدل شب باشی کی تقسیم میں سب سے زيادہ ہونا چاہیے ا ھـ ۔(المحلی لابن حزم ( 9 / 175 )
(4) اور ساتویں صدی کے عظیم مصلح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله : يجب عليه العدل بين الزوجتين باتفاق المسلمين، وفي السنن الأربعة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال "من كانت له امرأتان.." فعليه أن يعدل في القسم فإذا بات عندها ليلة أو ليلتين أو ثلاثا : بات عند الأخرى بقدر ذلك لا يفضل إحداهما في القسم .أ.هـ "مجموع الفتاوى" (32/269)
شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
مسلمانوں کااس پر اتفاق ہے کہ خاوند پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے مابین عدل وانصاف کرے ، اورسنن اربعہ میں ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس کی دو بیویاں ہوں ۔۔۔ )
اس پر واجب اورضروری ہے کہ وہ ان کے مابین تقسیم میں عدل وانصاف سے کام لے تواگر ایک کے پاس ایک رات یا دو یا تین راتیں بسر کرتا ہے تو دوسری کے پاس بھی اتنی ہی راتیں بسر کریں اورکسی ایک کوبھی دوسری پرتقسیم میں فضیلت نہ دے ا ھـ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 32 / 269 ) ۔
(5) اور امام موفق الدین عبداللہ بن احمد ابن قدامہ المقدسیؒ(المتوفی 620 ھ) لکھتے ہیں :
وقال ابن قدامة المقدسي رحمه الله : لا نعلم بين أهل العلم في وجوب التسوية بين الزوجات في القسم خلافا وقد قال الله تعالى وعاشروهن بالمعروف ، وليس مع الميل معروف .أ.هـ. "المغني" (8/138).
فعلى هذا الزوج أن يتقي الله وأن يعدل في القسمة ، وعلى الزوجة أن تعلمه بحكم الشرع في فعله وبوعيد الظُّلم وتذكرّه بالله واليوم الآخر فلعله أن يراجع نفسه ويعدل في القسمة وهذا خير من الفراق إن شاء الله .
والله أعلم.
اورابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :
بیویوں کے مابین تقسیم میں برابری اورعدل وانصاف کرنے کے بارہ میں ہمیں اہل علم کے مابین کسی اختلاف کا علم نہیں ، اوراللہ تعالی کا بھی فرمان ہے :
اوران عورتوں کے ساتھ اچھے احسن اندازمیں بود باش اختیار کرو ، اورمعروف میلان کے ساتھ نہیں ۔ ا ھـ دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 8 / 138 )۔
تواس بنا پر اس خاوند کے چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اورڈر اختیار کرتے ہوئے تقسیم میں عدل وانصاف اوربرابری سے کام لے ، اوربیوی کے ذمہ بھی یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کواس فعل میں شرعی حکم بتائے اوراس کے فعل پر جوکچھ وعید بیان ہوئي ہے اچھے اوراحسن انداز اورحکمت کے ساتھ اس کے سامنے رکھے۔
اوراسے اللہ تعالی اوریوم آخرت یاد دلائے ہوسکتا ہے وہ اپنے متعلق کچھ سوچے اوراپنے اس فعل سے باز آجائے اورتقسیم میں عدل وانصاف کرنے لگے ، یہ سب کچھ ان شاء اللہ علیحدگي اورجدائي سے بہتر ثابت ہوگا ۔ واللہ اعلم .
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن یاد رہے کہ :
ظاہری معاملات اور سلوک میں برابری کے باوجود قلبی میلان و محبت میں کمی بیشی ہونا انسان کے اختیار میں نہیں قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ :
﴿وَلَن تَستَطيعوا أَن تَعدِلوا بَينَ النِّساءِ وَلَو حَرَصتُم ۖ فَلا تَميلوا كُلَّ المَيلِ فَتَذَروها كَالمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصلِحوا وَتَتَّقوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ غَفورًا رَحيمًا ١٢٩﴾... سورة النساء''
تم سے یہ تو کبھی نہ سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں سے ہرطرح عدل کرو، گو تم اس کی کتنی ہی خواہش وکوشش کرلو۔ اس لئے بالکل ایک ہی کی طرف مائل ہو کر دوسری کو ادھر لٹکتی ہوئی نہ چھوڑو اوراگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بے شک اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے۔''
اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ اپنی بیویوں کے درمیان حتیٰ الامکان عدل وانصاف کرنا چاہیے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میاں ،بیوی کے حقوق و فرائض پر ایک مفید اور آسان کتاب "حقوق الزوجین " ضرور پڑھیں
https://d1.islamhouse.com/data/ur/ih_books/single/ur_zaujain_ke_huqooq.pdf
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اگر خاوند اپنی بیوی کے حقوق ادا نہیں کر رہا ،تو اسلام نے عورت کیلئے " خلع " کا راستہ رکھا ہے ،
اگر میاں بیوی میں موافقت نہ ہوتی ہو اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق کی ا دائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہوں اور شوہر طلاق بھی نہ دے رہا ہو یا شوہر تو پورے حقوق ادا کررہا ہے لیکن بیوی کو شوہر پسند نہیں تو اس صورت میں بیوی خلع کے ذریعے جدا ہو سکتی ہے۔
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ البتہ میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی۔ (کیونکہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت کو نہیں ادا کر سکتی)۔
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ثابت رضی اللہ عنہ سے) فرمایا کہ باغ قبول کر لو اور انہیں طلاق دے دو۔ ۔
(صحیح بخاری حديث نمبر ( 5273 )
" عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکید کی گئی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول عذر کے خاوند سے علیحدگی یعنی طلاق کا مطالبہ نہ کرے اگر ایسا کرے گی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی عورتوں کے لئے یہ سخت وعید بیان فرمائی کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورت بلا وجہ اپنے خاوند سے طلاق طلب کرے وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گی۔ (سنن الترمذی مسند احمد ، ابن کثیر وغیرہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔