- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
چند جھوٹے نبیوں کی ''کرامات''
ان کرامتوں کے برخلاف احوال شیطانی ہوتے ہیں۔ جس کی ایک مثال عبداللہ بن صیاد کا حال ہے، جس کا خروج جناب محمد رسول اللہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ہوا۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کا گمان تھا کہ وہ دجال ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کے معاملے میں پہلے توقف فرمایا اور بعد میں آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ وہ دجال نہیں بلکہ وہ کاہنوں میں سے ایک ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے سورہ الدخان کو پوشیدہ رکھ کر اس سے فرمایاکہ بتائو میں نے کیا چھپایا ہے۔ تو وہ کہنے لگا الدخ الدخ، اس پر نبیﷺنے فرمایا ذلیل ہو تو اپنے درجہ سے ہرگز آگے نہ بڑھ سکے گا۔
(بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا اسلم الصبی فمات، رقم: ۱۳۵۴)
آپ کی مراد یہ تھی کہ تو ایک کاہن ہی تو ہے اور کاہنوں کا ساتھی شیطان ہوتا ہے، اسے وہ بہت سی غیب کی خبریں جو کہ وہ چوری سے سنا کرتا ہے، بتا دیتا ہے اور شیاطین کا طریقہ ہے کہ سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کر ڈالا کرتے ہیں۔
جیسا کہ بخاری اور دیگر ائمہ کی روایت کردہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبیﷺنے فرمایا کہ فرشتے بادلوں میں اترتے ہیں اور آسمان میں جو فیصلہ کیا گیا ہو۔ اس کا ذکر کرتے ہیں تو شیاطین چوری چھپے اسے سن لیتے ہیں اور اسے کاہنوں تک پہنچا دیتے ہیں اور وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ اپنے پاس سے ملا دیتے ہیں۔
(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، رقم: ۳۲۱۰، مسلم کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ، رقم: ۵۸۱۹)
مسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ انصار کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے کہ ناگہاں ایک ستارہ ٹوٹا اور چمک پیدا ہوئی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم اس طرح کا واقعہ دیکھتے تھے تو اس کے متعلق زمانہِ جاہلیت میں کیا کہا کرتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم کہا کرتے تھے کہ یا تو کوئی بڑا آدمی مرے گا یا کوئی بڑا آدمی پیدا ہوگا۔ نبیﷺنے فرمایا کہ وہ کسی کی زندگی یا کسی کی موت کے لیے نہیں ٹوٹتا بلکہ جب ہمارا پروردگار تبارک و تعالیٰ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو عرش کے فرشتے تسبیحیں کہتے ہیں۔ پھر ساتھ والے آسمان کے فرشتے تسبیحیں کہتے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ والے آسمان کے فرشتے حتیٰ کہ تسبیح کا سلسلہ اس آسمان والوں تک پہنچتا ہے۔ پھر ساتوں آسمان والے فرشتے حاملینِ عرش سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے پروردگار نے کیا فرمایا تو وہ انہیں بتاتے ہیں علیٰ ہذا القیاس ہر آسمان والے فرشتے پوچھتے ہیں حتیٰ کہ خبرآسمانِ دنیا تک پہنچ جاتی ہے۔ شیاطین اس بات کو چوری سے سن لیتے ہیں، ان شیاطین کو کھدیڑنے کے لیے جب شہاب ٹوٹتا ہے تو وہ بھاگ کر اپنے دوستوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے پاس بات کو اگر بے کم وکاست بیان کر دیں تو سچ ہوتی ہے لیکن وہ اس میں اضافہ کرتے ہیں۔
(مسلم کتاب السلام، باب تحریم الکہانۃ واتیان الکھان رقم: ۵۸۱۹)
ایک روایت میں ہے معمر کا بیان ہے کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ زمانۂ جاہلیت میں بھی ستارے ٹوٹا کرتے تھے؟ کہا ہاں لیکن جب نبیﷺمبعوث ہوئے تو ستارے شدت سے ٹوٹے۔
اسود عنسی مدعی نبوت کا بعض شیاطین سے تعلق تھا جو اسے بعض غیب کی باتیں بتا دیا کرتے تھے۔ جب مسلمانوں نے اس سے لڑائی کی تو وہ ڈرتے تھے کہ اس کے متعلق ہم جو بات کریں گے۔ اسے شیاطین اس تک پہنچا دیں گے، آخر کار اس کی بیوی کو اس کا کفر معلوم ہوا اور اس نے ان کو اس کے خلاف مدد دی۔ اور انہوں نے اس کو قتل کر ڈالا۔
مسیلمہ کذاب کے ساتھ بھی شیاطین تھے جو اسے غیب کی خبریں پہنچایا کرتے تھے اور بہت سے کاموں میں اس کی مدد کیا کرتے تھے۔ اس طرح کے لوگ بہت ہیں۔
مثلاً حارث دمشقی کا خروج عبدالملک بن مروان کے زمانے میں بلادِ شام میں ہوا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ شیاطین اس کے پائوں کو بیڑیوں سے نکال دیا کرتے تھے اور ہتھیاروں کو اس کے جسم میں پیوست ہونے سے روک لیتے تھے۔ سفید پتھروں پر ہاتھ پھیرتا تھا تو وہ تسبیحیں کہنے لگتے تھے۔ وہ لوگوں کو ہوا میں گھوڑوں پر سوار اور پیادہ چلتے دکھایاکرتا اور کہتا تھا کہ یہ فرشتے ہیں حالانکہ وہ جن ہوتے تھے۔ جب مسلمانوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے قتل کرنے کے ارادے سے ایک شخص نے اسے نیزہ مارا تو نیزہ اس کے جسم میں پیوست نہ ہوا۔ عبدالملک نے اس سے کہا کہ تو نے اللہ کا نام نہیں لیا۔ پھر مارنے والے نے اللہ کا نام لے کر اسے مارا تو اسے ہلاک کر دیا۔
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ