• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چھینک کا جواب

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

صحیح بخاری،کتاب الادب کی دسویں حدیث یہ ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا عطس أحدكم فليقل: الحمد لله، وليقل له أخوه أو صاحبه: يرحمك الله، فإذا قال له: يرحمك الله، فليقل: يهديكم الله ويصلح بالكم "
سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا
جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ الحمد للہ کہے اور اس کا بھائی اسے یرحمک اللہ کہے تو جب وہ اسے یرحمک اللہ کہے تو وہ اسے یوں کہے یھدیکم اللہ ویصلح بالکم
اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست کرے ۔
(صحیح بخاری ،سنن ابو داود ، سنن الترمذی )
 
Last edited by a moderator:

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
-السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

چھینک آنے پر کم از کم الحمد للہ کہنا واجب ہے ۔۔۔۔۔اگر اس کے ساتھ علی کل حال پڑھا جائے تو بہتر ہے۔۔۔ایک صحیح حدیث کے مطابق ابن عمر نے ایک آدمی کو بتایا کہ آپﷺ نے انھیں الحمد للہ علی کل حال کے الفاظ سکھائے تھے ،

حدیث شریف میں ہے کہ :
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ »
ترجمہ : سیدنانافعؒ کہتے ہیں کہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا' الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ'یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ ﷺ پر ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:کہنے کو تو میں بھی الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ کہہ سکتاہوں ۱؎ لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم ' الحمد للہ علی کل حال' (ہرحال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں) کہیں۔
نیز دیکھئے شیخ البانیؒ کی کتاب : إرواء الغليل - الصفحة أو الرقم: 3/245
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
 
Last edited by a moderator:

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
امام ابو عیسیٰ الترمذیؒ روایت کرتے ہیں :

حدثنا قتيبة قال: حدثنا رفاعة بن يحيى بن عبد الله بن رفاعة بن رافع الزرقي، عن عم أبيه معاذ بن رفاعة، عن أبيه، قال: صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فعطست، فقلت: الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه، مباركا عليه، كما يحب ربنا ويرضى، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف، فقال: «من المتكلم في الصلاة؟»، فلم يتكلم أحد، ثم قالها الثانية: «من المتكلم في الصلاة؟»، فلم يتكلم أحد، ثم قالها الثالثة: «من المتكلم في الصلاة؟» فقال رفاعة بن رافع ابن عفراء: أنا يا رسول الله، قال: «كيف قلت؟»، قال: قلت: الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه، كما يحب ربنا ويرضى، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده، لقد ابتدرها بضعة وثلاثون ملكا، أيهم يصعد بها»،

وفي الباب عن أنس، ووائل بن حجر، وعامر بن ربيعة،: " حديث رفاعة حديث حسن، وكأن هذا الحديث عند بعض أهل العلم أنه في التطوع لأن غير واحد من التابعين قالوا: إذا عطس الرجل في الصلاة المكتوبة إنما يحمد الله في نفسه ولم يوسعوا بأكثر من ذلك "

اسے دیگر کئی محدثین کے علاوہ امام ابو محمد محمد عبد الحق الإشبيلي (المتوفى سنة 581 ھ) نے اپنی کتاب الاحکام الصغری صفحہ: 261 میں نقل فرمایا ہے ،
خلاصة حكم المحدث: [أشار في المقدمة أنه صحيح الإسناد]
ترجمہ :
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ کے پیچھے صلاۃپڑھی ، مجھے چھینک آئی تو میں نے'الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ مُبَارَکًا عَلَیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضَی' کہا جب رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے توآپ نے پوچھا:نماز میں کون بول رہا تھا؟توکسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات دوبارہ پوچھی کہ نماز میں کون بول رہا تھا؟ اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا،پھرآپ نے یہی بات تیسری بار پوچھی کہ نماز میں کون بول رہا تھا؟
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں تھا اللہ کے رسول ! آپ نے پوچھا:تم نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا:یوں کہاتھا 'الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ مُبَارَکًا عَلَیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضَی' تونبی اکرمﷺ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے کون لے کر آسمان پر چڑھے ۔

امام ترمذی کہتے ہیں :۱- رفاعہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں سیدنا انس ، جناب وائل بن حجر اورعامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- بعض اہل علم کے نزدیک یہ واقعہ نفل کا ہے ۱؎ اس لیے کہ تابعین میں سے کئی لوگوں کا کہناہے کہ جب آدمی فرض صلاۃ میں چھینکے تو الحمدللہ اپنے جی میں کہے اس سے زیادہ کی ان لوگوں نے اجازت نہیں دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشریح : ۱؎ : حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں:' و أفاد بشر بن عمر الزهراي في روايته عن رفاعة بن يحيى أن تلك الصلاة كانت المغرب '(یہ مغرب تھی)یہ روایت ان لوگوں کی تردیدکرتی ہے جنہوں نے اسے نفل پر محمول کیاہے۔ مگر دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابی نے یہ الفاظ رکوع سے اٹھتے وقت کہے تھے اور اسی دوران اُنہیں چھینک بھی آئی تھی ، تمام روایات صحیحہ اور اس ضمن میں علماء کے اقوال کی جمع وتطبیق یہ ہے کہ اگردوران نماز میں چھینک آئے تو اونچی آواز سے 'الحمد للہ'کہنے کی بجائے جی میں کہے۔
٭٭٭:(سند حسن ہے ،لیکن شواہد کی بناپر حدیث صحیح ہے)

اس سے معلوم ہوا چھینک آنے پر یہ الفاظ کہے تو اور زیادہ ثواب ہوتا ہے
ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں چھینک آنے پر بھی الحمد للہ کہنا چاہیے۔۔۔البتہ نماز کے دوران کسی دوسرے کو جواب دینا جائز نہیں کیونکہ یہ دوسرے آدمی کا کلام ہے اور آپﷺ نے فرمایا (مفہوم)نماز میں لوگوں کے کلام میں سے کوئی چیز درست نہیں وہ تو صرف تسبیح‘ تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے(مسلم)
 
Last edited by a moderator:

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ

جو شخص چھینک آنے پر الحمد للہ نہ کہے تو اسے یرحمک اللہ نہیں کہنا چاہیے
آپﷺ نے فرمایا
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: عَطَسَ رَجُلاَنِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا وَلَمْ يُشَمِّتِ الآخَرَ، فَقِيلَ لَهُ، فَقَالَ: «هَذَا حَمِدَ اللَّهَ، وَهَذَا لَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ»(صحیح بخاری 6221 ،صحیح مسلم )
ترجمہ :
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو اصحاب چھینکے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کا جواب یرحمک اللہ ( اللہ تم پر رحم کرے ) سے دیا اور دوسرے کا نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ اس نے الحمد للہ کہا تھا ( اس لئے ا س کا جواب دیا ) اور دوسرے نے الحمد للہ نہیں کہا تھا ۔

چھینکنے والے کو الحمد للہ ضرور کہنا چاہئے اور سننے والوں کویرحمک اللہ ۔ ( سے جواب دینا اسلامی تہذیب ہے )
 
Last edited by a moderator:

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
غیر مسلم اگر چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ نہیں کہنا چاہیے۔۔۔۔۔ ابو موسی سے روایت ہے کہ یہودی آپﷺ کے پاس چھینکتے اور امید کرتے کہ آپﷺ انھیں الحمد للہ کہیں گے مگر آپﷺ انھیں یہی کہتے یھدیکم اللہ ویصلح بالکم
(صحیح ابو داؤد و صحیح ترمذی)
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
حدیث کے مطابق تین دفعہ چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا چاہیے۔۔۔۔اگر اس سے زیادہ آجائیں تو اسے زکام کا مرض لاحق ہے

يُشَمَّتُ العاطِسُ ثلاثًا ، فما زاد فهو مَزْكومٌ

ترجمہ : چھینکنے والے کو چھینک آنے پر تین بار جواب دیا جائے، اور جو اس سے زیادہ ہو ‘ تو پھر وہ زکام زدہ ہے ۔
الراوي: سلمة بن الأكوع المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 8094
خلاصة حكم المحدث: صحيح
 
Last edited by a moderator:

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
ابو ہریرۃ فرماتے ہیں کہ آپﷺ کو چھینک آتی تو اپنے منہ اپنا ہاتھ یا کپڑا وغیرہ رکھ لیتے اورچھینکتے ہوئے اپنی آواز کو پست کر لیتے (ابو داؤدو ترمذی)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
چھینک پر الحمد للہ کہنے کا جواب :


چھینک کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد لله کہے اس کا بھائی یا ساتھی اسے
يرحمك الله کہے جب وہ يرحمك الله کہے تو یہ کہے يهديكم الله ويصلح بالكم الله تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست کرے۔[بخاري عن ابي هريره رضی اللہ عنہ ]
چھینک آنے پر کم از کم الحمد للہ کہنا واجب ہے۔ اگر اس کے ساتھ على كل حال پڑھا جائے تو بہتر ہے ترمذی میں ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم م نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو یوں کہے الحمد لله على كل حال دیکھئیے [صحيح الترمذي۔ 2202]
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ کہے۔ الحمد لله رب العالمين جواب دینے والا کہےيرحمك الله اور وہ خود کہے يغفرالله لي ولكم [صحيح الاسناد موقوف صحيح الأدب المفرد 715 – 934] یہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
على رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو شخص چھینک سن کر کہے :
الحمد لله رب العالمين على كل حال ما كان اسے کبھی ڈاڑھ اور کان کا درد نہیں ہو گا۔ [الادب المفرد للبخاري 949]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا : اس کے رجال ثقات ہیں اور اس جیسی بات رائے سے نہیں کہی جا سکتی اس لئے یہ مرفوع کے حکم میں ہے۔ [فتح الباري]
مگر شیخ البانی نے فرمایا کہ یہ ضعیف ہے۔ کیونکہ یہ ابواسحاق سبیعی کی روایت سے ہے اور انہیں اختلاط ہو گیا تھا۔ اس لئے حافظ نے بھی اسے صحیح نہیں کہا۔ [ضعيف الادب المفرد 926/148]
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی مجھے چھینک آئی تو میں نے کہا:
الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى
”ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے تعریف بہت زیادہ پاکیزہ جس میں برکت کی گئی ہے جس پر برکت نازل کی گئی ہے۔ جس طرح ہمارا رب محبت کرتا ہے اور پسند کرتا ہے۔ “
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : نماز میں یہ الفاظ کس نے کہے ہیں- تین دفعہ پوچھا – میں نے عرض کیا۔ میں نے کہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تیس سے زیادہ فرشتے اس کی طرف جلدی سے بڑھے کہ ان میں سے کون اسے لے کر اوپر چڑھے۔
[ حسن، صحيح ابي داود 700 و صحيح ترمذي 331]
اس سے معلوم ہوا چھینک آنے پر یہ الفاظ کہے تو اور زیادہ ثواب ہے۔
نماز میں چھینک آنے پر بھی
الحمد لله ضرور کہنا چاہئیے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔ البتہ نماز کے دوران کسی دوسرے کو جواب دینا جائز نہیں کیونکہ یہ دوسرے آدمی سے خطاب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلم نے فرمایا نماز میں لوگوں کے کلام میں سے کوئی چیز درست نہیں وہ تو صرف تسبیح، تکبیر اور قرآن کی قرأت ہے۔ [مسلم]
جو شخص چھینک آنے پر الحمد للہ نہ کہے اسے يرحمك الله نہیں کرنا چاہئے۔ [بخاري باب لا يشمت العاطس اذا لم يحمد الله]
غیر مسلم اگر چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو اسے يرحمك الله نہیں کرنا چاہئیے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھینکتے اور امید کرتے کہ آپ انہیں يرحمك الله کہیں گے مگر آپ انہیں یہی کہتے : يهديكم الله ويصلح بالكم [صحيح ابي داود 4213 و صحيح الترمذي]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا قول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ اپنے بھائی کو تین دفعہ يرحمك الله کہو۔ اگر اس سے زیادہ ہو تو زکام ہے۔ [صحيح ابي داود۔ 4210]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھینک آتی تو اپنے منہ پر اپنا ہاتھ یا کوئی کپڑا رکھ لیتے اور چھینکتے وقت اپنی آواز کو پست رکھتے۔ [صحيح ابوداود 4207 و صحيح الترمذي]
چھینک آنے پر الحمد للہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ چھینک سے دماغ میں رکے ہوئے فضلات و بخارات خارج ہو جاتے ہیں اور دماغ کی رگوں اور اس کے پٹھوں کی رکا وٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ جس سے انسان بہت سی خوفناک بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ
الحمد لله کہے تو ہر اس مسلمان پر جو اسے سنے حق ہے کہ اسے يرحمك الله کہے اور جمائی شیطان سے ہے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جس قدر ہو سکے اسے روکے کیونکہ جب وہ ”ھا “ کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔ [بخاري كتاب الادب]
صحیح مسلم میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے وہ اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
چھینک آنے پر منہ پر ہاتھ یا کپڑا رکھنا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا عَطَسَ وَضَعَ يَدَهُ أَوْ ثَوْبَهُ عَلَى فِيهِ، وَخَفَضَ أَوْ غَضَّ بِهَا صَوْتَهُ» سنن ابی داود 5029
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چھینک آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منہ پر اپنا ہاتھ یا کوئی کپڑا رکھ لیتے اور اپنی آواز کو کم رکھتے ۔

تشریح : بعض لوگ چھینک آنے پر جان بوجھ کرزور دے کر آواز نکالتے ہیں۔جو خلاف ادب اور غیر مسنون ہے۔اضطراری کیفیت ان شاء اللہ معاف ہے۔
 

غرباء

رکن
شمولیت
جولائی 11، 2019
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
46
غیر مسلم اگر چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ نہیں کہنا چاہیے۔۔۔۔۔ ابو موسی سے روایت ہے کہ یہودی آپﷺ کے پاس چھینکتے اور امید کرتے کہ آپﷺ انھیں الحمد للہ کہیں گے مگر آپﷺ انھیں یہی کہتے یھدیکم اللہ ویصلح بالکم
(صحیح ابو داؤد و صحیح ترمذی)


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا یہ بات درست ہے کہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ سلام نے چھینک ماری تھی اور اس کا جواب اللہ تعالی نے دیا تھا ؟یرحمک اللہ ؟؟؟؟

اس طرح کی کوئی روایت ہے اور اگر ہے تو کیا وہ صحیح ہے؟؟؟؟
 
Top