شرح حدیث
نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعاء کی کہ:
...وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَةً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَيْرَ مَفْتُوْنٍ
...اور جب تو کسی قوم کو آزمائش میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر آزمائش کے فوت کر دے،،،
(مسند احمد، ج:36،ص:422، حدیث: 22109 صحیح)
١. بیوقوں کی حکومت، (إِمَارَةِ السُّفَهَاءِ،)
اس حدیث شریف میں بتایا گیا کہ : دورِ زوال میں بے وقوف لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو جائیں گے. حالانکہ وہ دین کے حوالے سے بالکل ناکارہ اور نا اہل ہوں گے. اور معاشرے میں کوئی انکا اچھا اور بڑا مقام نہ ہوگا ، لیکن اس نا اہلی کے باوجود وہ بڑے بڑے عہدوں تک رسائی حاصل کر لیں گے.اور واضح ہے کہ یہ صورتِ حال خالص شَر ہوگی.
یہ فتنے عام ہوتے ہیں اور ان سے بچنا نہایت مشکل ہوتا ہے.
عَنْ حذيفة بن اليمان قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلم"لا تقوم الساعة حتى يكون أسعد الناس بالدنيا لكع بن لكع" (رواه أحمد 22214 والأصبهاني 1749)
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
"قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک یہ صورت حال نہ آ جائے کہ اس دنیا میں سب سے بڑے عہدے پر وہ شخص فائز ہو جائے جو خود بھی کمینہ ہو اور اسکا باپ بھی کمینہ ہو."
تو ایسے لوگوں کا بڑے عہدوں پر فائز ہو جانا، قوموں کے لیے بربادی ہوتی ہے، فتنے ہوتے ہیں اور عوام مستقل اذیت میں رہتے ہیں، نفسیاتی اذیتیں، ظاہری اذیتیں. اور انکا شَر کسی نہ کسی طریقے سے لوگوں تک پہنچتا رہتا ہے. تو اس فتنے سے قبل موت کی تمنا کرو. اور اگر یہ وقت آ جائے تو صبر، استقامت، اور دین کے ساتھ چمٹے رہنا، تنہائی کی زندگی، بہت زیادہ اختلاط سے گریز، دعائیں، اپنی اصلاح، اپنے متعلقین کی اصلاح، اس پر بھرپور توجہ مرکوز کرنی چاہیے.
٢. پولیس کی کثرت، (وَکَـثْرَۃَ الشُّرَطِ)
جب پولیس زیادہ ہو جائے، اور پولیس کی تعداد بڑھ جائے، تو یہ بھی ایک فتنہ ہے. زیادہ پولیس کی ضرورت کب پڑتی ہے؟ جب امنِ عامہ دگرگوں ہو جائے. ہر طرف شَر ہو، فتنے ہوں. اسکی سَرکوبی کی ضرورت ہو، چوریاں ہوں، ڈکیٹیاں ہوں، قتل و غارت گَری ہو، زنا ہو، مختلف مفاسد ہوں، رشوت خوری ہو، تو پھر ان امور پر قابو پانے کے لئے، زیادہ بندوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے. اس قسم کے بندے سرکاری اعتبار سے "شُرط" یا "پولیس" کے لقب سے ملقب ہوتے ہیں. جب یہ وقت آ جائے کہ بہت زیادہ پولیس کی ضرورت ہو، تو یہ وقت اور دور بھی فتنوں کا دور ہوتا ہے. اور آج تو معاملہ ایسا ہے کہ سرکاری پولیس کے علاوہ بھی ہر شخص اپنے لیے علیحدہ گارڈ رکھنے پر مجبور ہے. اپنی یا اپنے مال کی حفاظت کے لیے، اپنی عزت کی حفاظت کے لیے، گھروں اور محلّوں کے چوکیدار، اور کاروباری مراکز کے گارڈز، رکھنے پر مجبور ہیں. اور یہ "کثرتِ شُرط" ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ بہت ہی بدامنی ہے، اور کوئی ایسا پروگرام نہیں جو سلامتی پر منتج ہو. فتنے ہیں، فسادات ہیں. مہالک ہیں. تو جہاں زیادہ پولیس کی حاجت ہو، وھاں اس اَمر کی غمازی ہوتی ہے کہ حالات مستقر نہیں، پرسکون نہیں ہیں. بلکہ فتن ہیں. تو پھر ان فتنوں سے پناہ ہی طلب کرنی چاہیے.
ہمارے اسلاف کے دور میں پولیس کے محکمے کا نام و نشان تک نہیں ہوتا تھا. وقت کا حاکم تنہا آ جا رہا ہے. آج تو معاملہ ایسا بن چکا ہے کہ ایک حاکم، ایک صدر جب حرکت کرتا ہے، تو اسکے ساتھ تقریباً دس ہزار پولیس حرکت میں آ جاتی ہے. اتنی بڑی تعداد!
تو یہ علاماتِ قیامت میں سے ہے.تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کثرتِ شُرط سے قبل تم موت کی تمنا کرو. اور ایسا دور اگر پا لو تو وہ ساری ہدایتیں جو فتنوں کے دور میں ضروری ہیں جو شریعت نے ہمیں دی ہیں، انہیں اپناؤ. ان پر عمل کرو تاکہ تمہیں دین، مال اور عزت کی سلامتی حاصل ہو. اور تم فتنوں سے محفوظ رہ سکو. اور فتنوں سے اپنا بچاؤ اختیار کر سکو.
٣. اور قطع رحمی، (وَقَطِیْعَۃَ الرَّحِمِ)
رشتوں کو کاٹنا، آپس کی ناراضگیاں، رنجشیں، اور جو ایک معاشرت ہے، صلہ رحمی کے جو راستے اور طرق ہیں، انہیں پامال کرنے کی کوشش کرنا. اور اب تو صورتحال ایسی ہے کہ ایک رشتہ دوسرے کو قتل تک کر دیتا ہے. حتی کہ باپ بیٹے کو، بیٹا ماں کو، بھتیجا اپنے چچا کو اور چچا اپنے بھتیجے کو، آئے دن یہ خبریں آتی ہیں. کہ قتل تک نوبت پہنچ چکی ہے. اس قدر قَطِیْعَۃَ الرَّحِمِ کا معاملہ عام ہو چکا ہے. اور یہ معاملہ خطرناک ہے. کیونکہ رشتہ قیامت کے دن آئے گا اور اللہ تعالیٰ نے رشتے کو عربی میں جو نام دیا ہے، وہ رحم ہے. ر، ح، م. حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نام الرحمن کو پھاڑ کر رحم کا لفظ بنایا ہے. اللہ تعالیٰ نے اپنے دو نام، الرحمن اور الرحیم سے رحم کا لفظ بنایا ہے. جس کا معنی رشتہ داری ہے. اور قیامت کے دن یہ آئے گا اور اللہ رب العزت کے حِکم کو تھام لے گا. حِکم، جسم کا ایک پہلو، جہاں عام طور پر ازار باندھتے ہیں. اس مقام کو حِکم کہتے ہیں. تو رشتہ، رحم اللہ تعالیٰ کے حِکم کو تھام لے گا اور کہے گا کہ "یا ربّ، جس نے دنیا میں مجھے جوڑا، اسے تُو اپنے ساتھ جوڑ لے اور جس نے مجھے توڑا، اسے تُو بھی توڑ دے."
یہ معاملہ جب اللہ رب العزت کے سامنے پیش ہو گا تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جوڑ دے گا، جن لوگوں نے دنیا میں رشتوں کو نبھایا، اور ان لوگوں کو توڑ دے گا جنہوں نے رشتوں کو توڑا. الّا یہ کہ رشتوں کو توڑنے کے شرعی اسباب نہ ہوں.
بعض اوقات دین اور دنیا کے بہت سے تقاضے رشتوں کو توڑنے کا باعث بن جاتے ہیں. تو وہ چیز ممدوح ہے، قابلِ تعریف ہے. رسول اکرم ﷺ کی حدیث ہے "جو اللہ کے لیے محبت کرے اور اللہ کے لیے دشمنی کرے، اللہ کے لیے دے اور اللہ کے لیے روک لے، اس نے ایمان پورا کر لیا"
اور ایک حدیث میں فرمایا کہ "ایمان کا سب سے مضبوط کنڈا یہ ہے کہ محبت بھی اللہ کے لیے ہو اور نفرت بھی اللہ کے لیے ہو."
رشتہ توڑنے کا کوئی شرعی سبب نہ ہو. بلاوجہ ہو، دنیوی اسباب ہو، تو پھر یہ رشتہ اللہ کے حِکم کو تھام کر، اللہ تعالیٰ سے استدعا کرے گا کہ یا اللہ، جنہوں نے مجھ کو توڑا، اسے تُو بھی توڑ دے. اور جنہوں نے مجھے جوڑا، اسے تُو بھی جوڑ دے. تو "قَطِیْعَۃَ الرَّحِمِ " بھی اس زمین پر بڑے فساد کا موجب ہے. تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت کے آنے سے قبل تم موت کی تمنا کرو. اور اگر یہ وقت پا لو تو تم اس میں ملوث ہونے سے بچو. کیونکہ یہ فتنہ ہے. اس ہلاکت سے تم اپنے آپ کو بچاؤ.
٤. انصاف کے بکنے،(وَبَیْعَ الْحُـکْمِ )
انصاف کو بیچنا. ایک قاضی یا ایک جج اگر رشوت خور ہو، اور اپنے فیصلوں کو بیچے اور فروخت کرے، اور لوگوں سے پیسے لے کر فیصلے کرے، اور یہ سارا نظام، جس میں وکالت، گواہ، جج اور وکیل، اور جو انکے متعلقین ہیں، سب کے سب، راشی بن جائیں، تو اس وقت کے آنے سے پہلے موت کی تمنا کرو. یا اللّٰہ ہمیں موت دے دے، ایسے ججوں کا ہمیں منہ نہ دیکھنا پڑے، ایسے وکیلوں سے ہمیں سابقہ نہ پڑے، جو سچکو جھوٹ کرنے کے لیے اور جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے لوگوں کا مال کھاتے ہیں، اور وہ جج جو انصاف کو فروخت کرتے ہیں اور فیصلوں کو بیچتے ہیں، انکی شکلیں دیکھنے سے پہلے ہمیں موت دے دے.
اور اگر یہ وقت آ جائے تو ان لوگوں کی جو تباہ کاریاں ہیں اور جو انکے مہالک ہیں، اور جو انکی ذات کی نحوستیں ہیں، ان سے ہمیں محفوظ اور بچا کر رکھ. ان لوگوں کا شَر ہر گھر میں داخل ہے. اور ان لوگوں کی نحوستیں تقریباً ہر شخص کو نقصان پہنچا رہی ہیں. اور جو لوگ اس میں مبتلا ہیں وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں. تو بَیْعَ الْحُـکْمِ ، یہ معاملہ جب آ جائے، تو اللہ تعالیٰ سے موت کی تمنا کرو. یہ شَر ایک متعدی شر ہے. اس سے بچاؤ انتہائی مشکل ہے. تنازعات، معاملات، ہر انسان کو لاحق ہیں. کسی کو خانگی امور لاحق ہیں، کسی کو تجارتی، کسی کو معاشرتی، کسی کو معاشی، اور کہیں نہ کہیں کوئی تنازعہ ہو جاتا ہے. تو ان حالات میں ان لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ لوگ بڑے ہی ظالم اوربے رحم ہوتے ہیں. جو لوگوں کا مال اس طرح لوٹتے ہیں. اور اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھرتے ہیں. اللہ تعالیٰ نے روکا ہے کہ تم لوگوں کا مال ناحق مت کھاؤ. اس طرح کھاؤ گے تو اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ ڈال رہے ہو. لیکن انہیں کوئی اللہ کا خوف نہیں ہے. تو جب یہ مرحلہ آ جائے کہ لوگ فیصلوں کو بیچیں، انصاف کو بیچیں، کسی کی سفارش کرنے کے لیے رشوت طلب کریں، ایک دستخط کرنے کے لیے پیسہ طلب کریں. تو اس وقت سے پہلے تم موت کی تمنا کرو. ایسے لوگوں کے شَر سے جو بچنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، توان فتنوں اور انکی تباہ کاریوں سے، بچاؤ کی اللہ پاک سے دعا کرو.