• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چھ فتنوں سے پہلے موت کی تمنا

شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
حدیث کا متن اور ترجمہ درست اور آسان کردیا ہے ؛

چھ فتنوں سے پہلے موت کی تمنا کرنا


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، ثنا ابْنُ الْأَصْبَهَانِيِّ ، أنا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ عَلِيمٍ الْكِنْدِيِّ ، عَنْ عَابِسٍ الْغِفَارِيِّ ، أَنَّهُ رَأَى قَوْمًا يَتَرَحَّلُونَ ، فَقَالَ : مَا لَهُمْ ؟ قَالُوا : يَفِرُّونَ مِنَ الطَّاعُونِ فَقَالَ : يَا طَاعُونُ خُذْنِي إِلَيْكَ ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَمٍّ لَهُ : أَتَتَمَنَّى الْمَوْتَ ؟ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : تَمَنَّوُا الْمَوْتَ عِنْدَ خِصَالٍ سِتٍّ : عِنْدَ إِمَارَةِ السُّفَهَاءِ ، وَبَيْعِ الْحُكْمِ ، واسْتِخْفَافٍ بِالدَّمِ ، وَكَثْرَةِ الشُّرَطِ ، وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ ، وَنَشْوٍ يَتَّخِذُونَ الْقُرْآنَ مَزَامِيرَ يُقَدِّمُونَ الرَّجُلَ لِيُغَنِّيَهُمْ وَلَيْسَ بِأَفْقَهِهِمْ زَادَ شَرِيكٌ فِي الْإِسْنَادِ عُلَيْمًا الْكِنْدِيِّ *
المعجم الكبير الطبراني ،حديث رقم 14003- باب العين - 18/37

علیم کہتے ہیں:( میں عابس غفاری ٍصحابی کے پاس چھت پر بیٹھا ہوا تھا ) سیدنا عابس نے دیکھا کہ لوگ شہر سے کوچ کر رہے ہیں ، انہوں نے پوچھا یہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ (کہ شہر چھوڑ کر جا رہے ہیں ) تو انہیں بتایا گیا کہ یہ لوگ طاعون سے بچنے کیلئے شہر سے بھاگ رہے ہیں؟ تو وہ کہنے لگے اے طاعون! مجھے اپنی گرفت میں لے لے۔ یہ سن کر ان کے چچازاد، جو صحابی تھے، نے انہیں (تعجب سے ) کہا: آپ موت کی تمنا کرتے ہیں ؟ (جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی تمنا کرنے سے منع فرمایا ہے ) تو سیدنا عابس نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: ”ان چھ فتنوں(سے بچنے کیلئے ) موت کی تمنا کرو !: بیوقوفوں کی حکومت، پولیس کی کثرت، قطع رحمی، عہدوں اور فیصلوں کی خرید و فروخت، انسانی خون کی ارزانی، ایسے نوجوانوں کے فتنہ سے جو قرآن مجید کو بانسری بنالیں گے (یعنی سر یلی آواز میں پڑھنے کا اہتمام کریں گے) وہ ایسے آدمی کو (امامت و خطابت کیلئے ) آگے کریں گے جو فقیہ ہو گا نہ عالم، صرف وجہ یہ ہو گی کہ وہ انہیں قرآن مجید گاگا کر سنائے گا۔“

------------------------------------------------------------

مکمل آڈیو درس
شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ

https://ia800301.us.archive.org/29/items/gdfgdf_513/11-06-2009Chhay6FitnooSePehleMautKiTamna.mp3
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
شرح حدیث
نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعاء کی کہ:
...وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَةً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَيْرَ مَفْتُوْنٍ
...اور جب تو کسی قوم کو آزمائش میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر آزمائش کے فوت کر دے،،،
(مسند احمد، ج:36،ص:422، حدیث: 22109 صحیح)

١. بیوقوں کی حکومت، (إِمَارَةِ السُّفَهَاءِ،)
اس حدیث شریف میں بتایا گیا کہ : دورِ زوال میں بے وقوف لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو جائیں گے. حالانکہ وہ دین کے حوالے سے بالکل ناکارہ اور نا اہل ہوں گے. اور معاشرے میں کوئی انکا اچھا اور بڑا مقام نہ ہوگا ، لیکن اس نا اہلی کے باوجود وہ بڑے بڑے عہدوں تک رسائی حاصل کر لیں گے.اور واضح ہے کہ یہ صورتِ حال خالص شَر ہوگی.
یہ فتنے عام ہوتے ہیں اور ان سے بچنا نہایت مشکل ہوتا ہے.

عَنْ حذيفة بن اليمان قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلم"لا تقوم الساعة حتى يكون أسعد الناس بالدنيا لكع بن لكع" (رواه أحمد 22214 والأصبهاني 1749)
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
"قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک یہ صورت حال نہ آ جائے کہ اس دنیا میں سب سے بڑے عہدے پر وہ شخص فائز ہو جائے جو خود بھی کمینہ ہو اور اسکا باپ بھی کمینہ ہو."
تو ایسے لوگوں کا بڑے عہدوں پر فائز ہو جانا، قوموں کے لیے بربادی ہوتی ہے، فتنے ہوتے ہیں اور عوام مستقل اذیت میں رہتے ہیں، نفسیاتی اذیتیں، ظاہری اذیتیں. اور انکا شَر کسی نہ کسی طریقے سے لوگوں تک پہنچتا رہتا ہے. تو اس فتنے سے قبل موت کی تمنا کرو. اور اگر یہ وقت آ جائے تو صبر، استقامت، اور دین کے ساتھ چمٹے رہنا، تنہائی کی زندگی، بہت زیادہ اختلاط سے گریز، دعائیں، اپنی اصلاح، اپنے متعلقین کی اصلاح، اس پر بھرپور توجہ مرکوز کرنی چاہیے.

٢. پولیس کی کثرت، (وَکَـثْرَۃَ الشُّرَطِ)
جب پولیس زیادہ ہو جائے، اور پولیس کی تعداد بڑھ جائے، تو یہ بھی ایک فتنہ ہے. زیادہ پولیس کی ضرورت کب پڑتی ہے؟ جب امنِ عامہ دگرگوں ہو جائے. ہر طرف شَر ہو، فتنے ہوں. اسکی سَرکوبی کی ضرورت ہو، چوریاں ہوں، ڈکیٹیاں ہوں، قتل و غارت گَری ہو، زنا ہو، مختلف مفاسد ہوں، رشوت خوری ہو، تو پھر ان امور پر قابو پانے کے لئے، زیادہ بندوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے. اس قسم کے بندے سرکاری اعتبار سے "شُرط" یا "پولیس" کے لقب سے ملقب ہوتے ہیں. جب یہ وقت آ جائے کہ بہت زیادہ پولیس کی ضرورت ہو، تو یہ وقت اور دور بھی فتنوں کا دور ہوتا ہے. اور آج تو معاملہ ایسا ہے کہ سرکاری پولیس کے علاوہ بھی ہر شخص اپنے لیے علیحدہ گارڈ رکھنے پر مجبور ہے. اپنی یا اپنے مال کی حفاظت کے لیے، اپنی عزت کی حفاظت کے لیے، گھروں اور محلّوں کے چوکیدار، اور کاروباری مراکز کے گارڈز، رکھنے پر مجبور ہیں. اور یہ "کثرتِ شُرط" ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ بہت ہی بدامنی ہے، اور کوئی ایسا پروگرام نہیں جو سلامتی پر منتج ہو. فتنے ہیں، فسادات ہیں. مہالک ہیں. تو جہاں زیادہ پولیس کی حاجت ہو، وھاں اس اَمر کی غمازی ہوتی ہے کہ حالات مستقر نہیں، پرسکون نہیں ہیں. بلکہ فتن ہیں. تو پھر ان فتنوں سے پناہ ہی طلب کرنی چاہیے.
ہمارے اسلاف کے دور میں پولیس کے محکمے کا نام و نشان تک نہیں ہوتا تھا. وقت کا حاکم تنہا آ جا رہا ہے. آج تو معاملہ ایسا بن چکا ہے کہ ایک حاکم، ایک صدر جب حرکت کرتا ہے، تو اسکے ساتھ تقریباً دس ہزار پولیس حرکت میں آ جاتی ہے. اتنی بڑی تعداد!
تو یہ علاماتِ قیامت میں سے ہے.تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کثرتِ شُرط سے قبل تم موت کی تمنا کرو. اور ایسا دور اگر پا لو تو وہ ساری ہدایتیں جو فتنوں کے دور میں ضروری ہیں جو شریعت نے ہمیں دی ہیں، انہیں اپناؤ. ان پر عمل کرو تاکہ تمہیں دین، مال اور عزت کی سلامتی حاصل ہو. اور تم فتنوں سے محفوظ رہ سکو. اور فتنوں سے اپنا بچاؤ اختیار کر سکو.

٣. اور قطع رحمی، (وَقَطِیْعَۃَ الرَّحِمِ)
رشتوں کو کاٹنا، آپس کی ناراضگیاں، رنجشیں، اور جو ایک معاشرت ہے، صلہ رحمی کے جو راستے اور طرق ہیں، انہیں پامال کرنے کی کوشش کرنا. اور اب تو صورتحال ایسی ہے کہ ایک رشتہ دوسرے کو قتل تک کر دیتا ہے. حتی کہ باپ بیٹے کو، بیٹا ماں کو، بھتیجا اپنے چچا کو اور چچا اپنے بھتیجے کو، آئے دن یہ خبریں آتی ہیں. کہ قتل تک نوبت پہنچ چکی ہے. اس قدر قَطِیْعَۃَ الرَّحِمِ کا معاملہ عام ہو چکا ہے. اور یہ معاملہ خطرناک ہے. کیونکہ رشتہ قیامت کے دن آئے گا اور اللہ تعالیٰ نے رشتے کو عربی میں جو نام دیا ہے، وہ رحم ہے. ر، ح، م. حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نام الرحمن کو پھاڑ کر رحم کا لفظ بنایا ہے. اللہ تعالیٰ نے اپنے دو نام، الرحمن اور الرحیم سے رحم کا لفظ بنایا ہے. جس کا معنی رشتہ داری ہے. اور قیامت کے دن یہ آئے گا اور اللہ رب العزت کے حِکم کو تھام لے گا. حِکم، جسم کا ایک پہلو، جہاں عام طور پر ازار باندھتے ہیں. اس مقام کو حِکم کہتے ہیں. تو رشتہ، رحم اللہ تعالیٰ کے حِکم کو تھام لے گا اور کہے گا کہ "یا ربّ، جس نے دنیا میں مجھے جوڑا، اسے تُو اپنے ساتھ جوڑ لے اور جس نے مجھے توڑا، اسے تُو بھی توڑ دے."
یہ معاملہ جب اللہ رب العزت کے سامنے پیش ہو گا تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جوڑ دے گا، جن لوگوں نے دنیا میں رشتوں کو نبھایا، اور ان لوگوں کو توڑ دے گا جنہوں نے رشتوں کو توڑا. الّا یہ کہ رشتوں کو توڑنے کے شرعی اسباب نہ ہوں.
بعض اوقات دین اور دنیا کے بہت سے تقاضے رشتوں کو توڑنے کا باعث بن جاتے ہیں. تو وہ چیز ممدوح ہے، قابلِ تعریف ہے. رسول اکرم ﷺ کی حدیث ہے "جو اللہ کے لیے محبت کرے اور اللہ کے لیے دشمنی کرے، اللہ کے لیے دے اور اللہ کے لیے روک لے، اس نے ایمان پورا کر لیا"
اور ایک حدیث میں فرمایا کہ "ایمان کا سب سے مضبوط کنڈا یہ ہے کہ محبت بھی اللہ کے لیے ہو اور نفرت بھی اللہ کے لیے ہو."
رشتہ توڑنے کا کوئی شرعی سبب نہ ہو. بلاوجہ ہو، دنیوی اسباب ہو، تو پھر یہ رشتہ اللہ کے حِکم کو تھام کر، اللہ تعالیٰ سے استدعا کرے گا کہ یا اللہ، جنہوں نے مجھ کو توڑا، اسے تُو بھی توڑ دے. اور جنہوں نے مجھے جوڑا، اسے تُو بھی جوڑ دے. تو "قَطِیْعَۃَ الرَّحِمِ " بھی اس زمین پر بڑے فساد کا موجب ہے. تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت کے آنے سے قبل تم موت کی تمنا کرو. اور اگر یہ وقت پا لو تو تم اس میں ملوث ہونے سے بچو. کیونکہ یہ فتنہ ہے. اس ہلاکت سے تم اپنے آپ کو بچاؤ.

٤. انصاف کے بکنے،(وَبَیْعَ الْحُـکْمِ )
انصاف کو بیچنا. ایک قاضی یا ایک جج اگر رشوت خور ہو، اور اپنے فیصلوں کو بیچے اور فروخت کرے، اور لوگوں سے پیسے لے کر فیصلے کرے، اور یہ سارا نظام، جس میں وکالت، گواہ، جج اور وکیل، اور جو انکے متعلقین ہیں، سب کے سب، راشی بن جائیں، تو اس وقت کے آنے سے پہلے موت کی تمنا کرو. یا اللّٰہ ہمیں موت دے دے، ایسے ججوں کا ہمیں منہ نہ دیکھنا پڑے، ایسے وکیلوں سے ہمیں سابقہ نہ پڑے، جو سچکو جھوٹ کرنے کے لیے اور جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے لوگوں کا مال کھاتے ہیں، اور وہ جج جو انصاف کو فروخت کرتے ہیں اور فیصلوں کو بیچتے ہیں، انکی شکلیں دیکھنے سے پہلے ہمیں موت دے دے.
اور اگر یہ وقت آ جائے تو ان لوگوں کی جو تباہ کاریاں ہیں اور جو انکے مہالک ہیں، اور جو انکی ذات کی نحوستیں ہیں، ان سے ہمیں محفوظ اور بچا کر رکھ. ان لوگوں کا شَر ہر گھر میں داخل ہے. اور ان لوگوں کی نحوستیں تقریباً ہر شخص کو نقصان پہنچا رہی ہیں. اور جو لوگ اس میں مبتلا ہیں وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں. تو
بَیْعَ الْحُـکْمِ ، یہ معاملہ جب آ جائے، تو اللہ تعالیٰ سے موت کی تمنا کرو. یہ شَر ایک متعدی شر ہے. اس سے بچاؤ انتہائی مشکل ہے. تنازعات، معاملات، ہر انسان کو لاحق ہیں. کسی کو خانگی امور لاحق ہیں، کسی کو تجارتی، کسی کو معاشرتی، کسی کو معاشی، اور کہیں نہ کہیں کوئی تنازعہ ہو جاتا ہے. تو ان حالات میں ان لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ لوگ بڑے ہی ظالم اوربے رحم ہوتے ہیں. جو لوگوں کا مال اس طرح لوٹتے ہیں. اور اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھرتے ہیں. اللہ تعالیٰ نے روکا ہے کہ تم لوگوں کا مال ناحق مت کھاؤ. اس طرح کھاؤ گے تو اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ ڈال رہے ہو. لیکن انہیں کوئی اللہ کا خوف نہیں ہے. تو جب یہ مرحلہ آ جائے کہ لوگ فیصلوں کو بیچیں، انصاف کو بیچیں، کسی کی سفارش کرنے کے لیے رشوت طلب کریں، ایک دستخط کرنے کے لیے پیسہ طلب کریں. تو اس وقت سے پہلے تم موت کی تمنا کرو. ایسے لوگوں کے شَر سے جو بچنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، توان فتنوں اور انکی تباہ کاریوں سے، بچاؤ کی اللہ پاک سے دعا کرو.
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
٥. خون کے کم قیمت ہو جانے، (وَاسْتِخْفَافً بِالدَّمِ )
دورِ زوال کے فتنوں میں ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ :
انسانی خون سستا ہو جائے. اور خون ارزاں ہو جائے.
انسانی خون بڑا محترم ہے. اور اس خون کی بڑی قیمت ہے. انسان کی ہیبت اور حرمت، بہت زیادہ ہے. رسول اللہ ﷺ نے ٍصاحبِ ایمان انسان کی جان کو محترم قرار دیا. فرمایا کہ :

فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام ، كحرمة يومكم هذا ، في بلدكم هذا ، في شهركم هذا "
(صحیح بخاری ،کتاب الحج )
بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں (مقرر کی گئی)ہے ۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ : مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا.

''حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔''(
ابن ماجه،السنن،کتاب الفتن،باب حرمةدم المؤمن وماله رقم : 39322 ،طبراني، مسند الشاميين، : 396، رقم : 15683.)​
نبی علیہ السلام کی حدیث ہے:
عن أبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَبَي هُرَيْرَةَ رضي الله عنهما عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : (لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَأَهْلَ الْأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَكَبَّهُمْ اللَّهُ فِي النَّارِ) رواه الترمذي (1398) ، وصححه الألباني في "صحيح الترمذي" .

سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا : اگر ایک مومن کے خون میں سارے آسمان والے اور تمام زمین والے شریک ہوں تو اللہ تعالی ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا "
"ایک مسلمان کے قتل میں پوری دنیا شریک ہو، کوئی سازش کر رہا ہے، کوئی پیسا دے رہا ہے، کوئی پروگرام میں شریک ہے، اور کوئی عملی طور پر قتل کر رہا ہے حملہ آور ہو رہا ہے. تو اس طرح پوری دنیا کی شراکت ایک شخص کے قتل میں ہو تو اللہ تعالیٰ اس ایک شخص کو جنت میں داخل کرے گا، اور پوری دنیا کو جہنم میں ڈال دے گا."

بلکہ نبی علیہ السلام نے فرمایا، " جو شخص کسی قاتل کو آنکھ کے اشارے سے بچانے کی کوشش کرے، وہ بھی جہنمی ہے. "
تو انسانی خون بڑا ہی محترم ہے. تو جب یہ خون ہلکا ہو جائے اور انسان کی جان بے قیمت ہو جائے، اس وقت کے آنے سے قبل تم موت کی تمنا کرو. بلکہ قتل و غارت گَری جو ہے، یہ تو قیامت کی علاماتِ قریبہ میں سے ہے.
نبی اکرم علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا کہ :

( وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيمَ قَتَلَ ، وَلَا الْمَقْتُولُ فِيمَ قُتِلَ ، فَقِيلَ : كَيْفَ يَكُونُ ذَلِكَ ؟ قَالَ : الْهَرْجُ ، الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ )
رواه مسلم (2908)

اور صحیح مسلم ،کتاب الفتن میں حدیث شریف ہے کہ :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِي أَيِّ شَيْءٍ قَتَلَ وَلَا يَدْرِي الْمَقْتُولُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ قُتِلَ
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!لوگوں پر ایک ایسا زمانے آئے گا کہ قاتل کو پتہ نہیں ہوگا کہ اس نے کیوں قتل کیا اور نہ مقتول کو پتہ ہوگا کہ اسے کس بات پر قتل کیا گیا۔"
" جب قتل و غارت گَری کی کیفیت یہ ہو، کہ قاتل کو معلوم نہ ہو کہ وہ کس کس کو اور کیوں قتل کر رہا ہے، اور مقتول کو معلوم نہ ہو، کہ وہ کیوں قتل ہو رھا ہے، میرا گناہ کیا ہے، میرا قصور کیا ہے. مجھے قتل کرنے والا کون ہے. جب یہ اندھا فتنہ عام ہو جائے تو پھر تم دجّال کا انتظار کرنا. وہ آج بھی آ سکتا ہے اور کل بھی آ سکتا ہے."

اور دجال کا ظہور قیامت کی علاماتِ قریبہ میں سے ہے. اتنا بڑا فتنہ ہے یہ. تو اسْتِخْفَافً بِالدَّمِ، جب انسانی خون سستا ہو جائے، ہلکا ہو جائے، بے قیمت ہو جائے، اتنی بے توقیری ہو انسانی جان کی، تو اس وقت کے آنے سے پہلے تم موت کی تمنا کرو. اور اگر یہ وقت تم دیکھ لو، تو ایسے ہر اقدام سے تم گریز کرو، جسکا راستہ انسانی خونکے استخفاف کی طرف جاتا ہے. اور اپنے آپ کو ان فتنوں میں ملوث ہونے سے بچاؤ. یہ بہت ہی تباہ کن فتنہ ہے. اور ایک انسان قیامت کے دن اپنی ساری نیکیوں سے محروم ہو سکتا ہے. وہ شخص جو اپنے بھائی کو تکلیف ہی پہنچا دے، اپنی زبان سے، اپنے ہاتھ سے، قتل کرنا تو انتہائی سنگدلی ہے. اور سب سے بڑا جرم ہے. غیبت کر دے، چغلی کردے، گالی دے دے، اس پر لعنت برسا دے. یا ایک تھپڑ مار دے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن قنطرہ پر کھڑا کر دے گا. انسان کی نیکیاں اگر بچی ہوئی ہوں گی، تو کھڑا کر دے گا تو وہاں نیکیوں اور گناہوں کی تقسیم سے اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا.
تو اسْتِخْفَافً بِالدَّمِ، بہت بڑی ہلاکت ہے. اس وقت کے آنے سے پہلے تم موت کی تمنا کرو. اور اگر یہ وقت مل جائے، تو پھر جو شرعی ہدایات ہیں، تم انکو اپناؤ اور ان پر عمل کرو. تاکہ تمہارا دین، تمہارا ایمان، تمہارا عقیدہ، محفوظ رہ سکے.

٦. اور قبل اس کے کہ لوگ قرآن مجید کو بانسریوں اور گیتوں کی طرح پڑھ کر کیف و سرور میں آئیں، (وَنَشْوًا یَتَّـخِذُوْنَ الْقُرْآنَ مَزَامِیْرَ)
ایک وقت آنے والا ہے، کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کو مزامیر بنا لیں گے. مزامیر کا معنی گانے کی چیز. بس قرآن کو گا گا کر پڑھنا، انکا مشن ہو گا. اور لوگ ایک شخص کو آگے بڑھائیں گے، اسکو مقام دیں گے، اسکو عزت دیں گے، اسکو کھڑا کریں گے، اسکو ترجیح اور فوقیت دیں گے کہ تم بیان کرو، تم وعظ کرو، اور تم تقریر کرو، حالانکہ وہ عالم نہیں ہوگا. یا بڑا عالم نہیں ہو گا. لیکن وہ گا گا کر لوگوں کو مسحور کرے گا. یہ وقت آنے سے قبل تم موت کی تمنا کرو. کیونکہ جب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں، منبر و محراب کی وراثت آئے گی، تو عالم تو وہ ہوں گے نہیں، تو پھر وہ ایسی ایسی باتیں بیان کریں گے جن کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو گا. اور لوگ ویسے ہی انکے سحر میں مبتلا ہوں گے. اور انکی باتوں کو مانیں گے. یہ فسادِ کبیر کا باعث ہے. فرمایا کہ ایسے لوگ جب پیدا ہو جائیں، جو قرآن کو محض مزامیر بنا لیں. اور گانے پر اکتفا کریں. راگ رنگ انکا منہج ہو. اور انکا مشن ہو. اور لوگ سن سن کر مسحور ہوں. جب لوگ انکو آگے کریں، انکو ترجیح اور تقدیم دیں، اسلیے نہیں کہ وہ عالم ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ گا گا کر پڑھتے اور سناتے ہیں اور لوگ اس میں مست ہیں. تو فرمایا کہ یہ ایک بڑا فتنہ ہے.

اس کی یلغار انسان کے دین پر ہو سکتی ہے. اور ایسے لوگ، ایسے ایسے مسائل بیان کریں گے، موضوعات (جھوٹی احادیث ) کا سہارا، اور باطل اور جھوٹے قصوں کا سہارا. شرکیہ باتیں. اور بدعت سے لبریز امور. تو پھر یہ لوگوں کی گمراہی کا باعث بن جائیں گے. قصیدے اور شرک سے بھرے ہوئے مختلف نعتیہ اشعار، بس گانا انکا منہج ہو گا. اور لوگ اسکے گانے اور سحر میں مبتلا ہوں گے.

جیسے پیغمبر علیہ السلام کی حدیث ہے، "کچھ بیان جادو ہوتے ہیں". یہ کوئی تعریف نہیں ہے. کیونکہ جادو کفر ہے. اور کفر شَر ہے. اور کچھ بیان، ان میں جادو ہوتا ہے. یعنی لوگ اسکے بیان کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں. یہ معرض عین میں سے ہے. ایسے بیان کے شَر سے اللہ بچائے. کہ ان میں جادو کی تاثیر ہوتی ہے. بلکہ جادوگر کا عمل شخصِ واحد پر ہوتا ہے. جادوگر کے جادو سے ایک شخص متاثر ہوتا ہے. اور ایسے بیان کرنے والے کے جادو سے، اسکے بیان کے سحر سے لاکھوں لوگ متاثر ہو سکتے ہیں. اور وہ اسکے شَر میں مبتلا ہو سکتے ہیں. وہ ایک ہی بات ایسے بیان کر دے جو شرعی اعتبار سے غلط ہو، اللہ کی وحی سے متناقض ہو، لوگ اسکو پکڑ لیں. اسکو اپنا لیں. اس پر عمل شروع ہو جائے. اور آج تو یہ فتنہ اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے. کہ میڈیا کے ذریعے پیغام، لمحات میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے. اور یہ سحر دنیا میں اس طریقے سے پھیل رہا ہے، جسکی یلغار انسان کی ذات پر نہیں، بلکہ انسان کے دین پر ہوتی ہے. اسی لیے پیارے پیغمبر ﷺ نے علاماتِ قیامت میں یہ بات فرمائی ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا. اور جہالت پھیل جائے گی. علم، اللہ تعالیٰ اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ علم کو لوگوں کے سینوں سے محو کر دے بلکہ اس طرح اٹھائے گا کہ اللہ تعالیٰ علماء کو اٹھا لے گا. علماء یکے بعد دیگرے اٹھتے جائیں گے اور موت کی وادیوں میں پہنچ جائیں گے. اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگ جہال کو اپنا مفتی اعظم بنا لیں گے. انکے فتوے چلیں گے. اور وہ لوگ بے علم ہوں گے، اپنے علم کی بناء پر فتویٰ دیں گے. خود بھی گمراہ اور لوگوں کو بھی گمراہ کر دیں گے. اور یہ وقت بہت بڑے فتنے کا باعث ہے. اور یہ موت ہے انسانوں کی. انسانوں کے دین کی، عقیدہ کی، منہج کی، اور انکے عمل کی. تو رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب ایسے لوگ پیدا ہوں، جو قرآن کو صرف راگ رنگ کی کتاب بنا لیں. جیسے آج کل حسنِ قرأت کی محفلیں ہوتی ہیں، ہونا چاہیے اچھا پڑھنا چاھیے،

پیغمبر علیہ السلام کی حدیث بھی ہے کہ "جو قرآن غنا کے ساتھ نہیں پڑھتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے." لیکن اسی پر اکتفا کرنا غلط ہے. قرآن صرف پڑھنے کی کتاب نہیں ہے بلکہ اسکو سمجھنا، اسکا فہم، اور قرآن کے بعد احادیث کو پڑھنا، تاکہ پیغامِ رحمان کو سمجھ سکیں. تو صرف حسنِ قرأت پر اکتفا نہ کی جائے.
یہ بھی معنی ہو سکتا ہے کہ لوگ فہم کی طرف توجہ نہیں دیں گے. صرف قرأت کیطرف توجہ دیں گے اور مختلف قرأ کی نقالی، لہجے کو اپنانا، اس طرح کی محافل قائم ہوں گی. ان میں دنیا شریک ہو گی. اور بس پڑھنا سننا، اس پر اکتفا کر لیں گے. حالانکہ قرآن کا جو سب سے اہم تقاضا ہے وہ فہم ہے. اس پر عمل کرنا ہے. تو رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب ایسے لوگ پیدا ہوں، جو قرآن کو صرف راگ رنگ کی کتاب بنا لیں گے، لوگ انکے سحر میں مست ہو جائیں گے، جس کی یلغار انسان کے دین پر ہو گی تو اسکو پیارے پیغمبر نے فتنہ قرار دیا ہے. فرمایا کہ اس فتنہ کے ظہور سے قبل تم موت کی تمنا کرو. اور اگر یہ وقت تم پا لو تو پھر تم ایسے لوگوں کے فتنہ میں ملوث ہونے سے اپنے آپ کو بچاؤ. ایسا نہ ہو کہ علم کے نام پر تمہیں جھل مل جائے، اور توحید کے نام پر تمہیں شرک مل جائے. اور سنت کے نام پر تمہیں بدعت مل جائے. اور یہ چیز مہلک ہو سکتی ہے.
ایک واعظ کو ہم نے سنا، جو بڑے دلچسپ انداز سے توبہ کے مضمون پر گفتگو کر رہا تھا. اور بات چلتے چلتے یہاں تک پہنچ گئی کہ اللہ نصف رات کے بعد، آسمان اول پر نزول فرماتا ہے، اور فجر کے طلوع ہونے تک پکارتا ہے، کہ ہے کوئی بخشش کا طالب؟ تو بیان کرتے کرتے وہ یہاں تک کہہ گئے کہ ایک بندہ رات کو اٹھے وضو کرے، توبہ کرے، استغفار کرے، اور کہے کہ یا اللّٰہ میں توبہ کرنے کے لیے، اپنا بستر چھوڑ کر آ گیا ہوں. تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں تمہیں معاف کرنے کے لیے اپنا عرش چھوڑ کر آ گیا ہوں. لاحول ولا قوۃ الا باللہ.
یہ تمہیں کس نے بتایا کہ اللہ عرش چھوڑ دیتا ہے؟ اللہ کا نزول حق ہے لیکن نزول کی کیفیت کوئی نہیں جانتا. اب اس پر لوگوں نے اتنا اونچا سبحان اللہ کہا.

یہ بات عقیدہ کے اعتبار سے غلط ہے. اللہ کے نزول سے اللہ کا عرش خالی نہیں ہوتا. یہ ہمارے نزول کی کیفیت ہے کہ ہم کرسی پر بیٹھے ہوں، نیچے اتر جائیں تو کرسی خالی ہو جاتی ہے. مگر خالقِ کائنات کا نزول ایسا نہیں ہے. کہ اسکے نزول سے اسکا عرش خالی ہو جائے. اسکے نزول کی کیفیت کوئی نہیں جانتا.
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
تو کچھ فتنے ایسے ہیں کہ جن کی یلغار انسان کے دین پر ہے. کچھ کی یلغار انسان کے منہج پر ہے. کچھ کی یلغار انسان کی ذات اور اسکے جسم پر ہے. اور یہ ساری چیزیں آخرت کی تیاری میں حائل ہو سکتی ہیں. اور دنیوی اعتبار سے انسان کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں. اس لیے رسولُ اللہ ﷺ نے ان فتنوں کی تباہ کاریاں واضح کرنے کے لیے یہ انداز اختیار فرمایا کہ انکے ظہور سے قبل تم موت کی تمنا کرو. تاکہ لوگ اپنے آپ کو اس قسم کے فتنوں سے بچا کر رکھیں.
اور فتنوں سے بچاؤ کا سب سے بڑا علاج جو ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے دور کے کسی ایسے شخص کا انتخاب کر لو، جو واقعتاً اللہ تعالیٰ کی شریعت کا علم رکھنے والا ہو. اور منہج کی معرفت رکھنے والا ہو. فتنوں کے دور میں بچاؤ کا سب قوی سہارا اللہ تعالیٰ کی ذات، کے بعد علماء ربانییین ہیں. جن کے دل میں خشیت ہو، جنکا اللہ کے ساتھ تعلق ہو. جن کا منہج قرآن و حدیث اور اسکے فہم سے مالا مال ہو.

ہر دور میں جب بھی فتنہ بپا ہوا، کوئی نہ کوئی مرجع شخصیت موجود رہی. ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں، مرتدین کا فتنہ، اور مانعین زکوٰۃ کا فتنہ، جسکی لپیٹ میں تقریباً سارے صحابہ آ گئے. مگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اکیلے استقامت کا مظاہرہ کیا. اور اللہ تعالیٰ نے آہستہ آہستہ بقیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سینوں کو کھول دیا. حتی کہ عمر رضی اللہ عنہ جیسے انسان تلوار نیام سے نکال کر کھڑے ہو گئے. اگر کسی نے کہا کہ اللہ کے رسول فوت ہو گئے، انکی شہ رگ کاٹ دوں گا. ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن کی آیتیں پڑھیں. اور کہا کہ عمر تم ان آیتوں کو نہیں جانتے؟
(إِنَّكَ مَیِّتࣱ وَإِنَّهُم مَّیِّتُونَ)
عمر، ان باتوں کو سنو کہ اللہ فرما رہا ہے، "یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں." یہ موت سب پر آنے والی ہے. عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت سن کر مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی نازل ہو رہی ہے. تو ایک مرجع شخصیت موجود تھی، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ.
کچھ لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ پیغمبر اگرچہ، وفات پاچکے ،لیکن دوبارہ زندہ ہو کر آئیں گے. اور کچھ امور آپ نے دوبارہ انجام دینے ہیں. کچھ کام ابھی باقی ہیں، وہ آپ نے کرنے ہیں. وہ کام کر کے آپ دوبارہ فوت ہوں گے. اس موقع پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی استقامت کام آئی. آپ نے پیغمبر علیہ السلام کے چہرے سے کپڑا ہٹایا. اور آپکی پیشانی کو بوسہ دیا. اور کہا "اللہ کی قسم، اللہ آپ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا. ایک موت جو آنی تھی وہ آ چکی."
اس میں ان لوگوں کی تردید کی، جن کا عقیدہ تھا کہ پیغمبر علیہ السلام، دوبارہ آئیں گے. ایک بار فوت ہو چکے، پھر آئیں گے، پھر فوت ہوں گے. دو موتیں اللہ کے پیغمبر پر آئیں گی.
پھر لوگوں سے فرمایا، "اے لوگو، تم میں سے جو ارادہ رکھتا ہو کہ پیغمبر کی عبادت کرے گا، تو دیکھ لو کہ اللہ کے پیغمبر فوت ہو چکے. آپ ﷺ کی میت سامنے موجود ہے، دیکھ لے آ کر. اللہ کے پیغمبر ﷺ فوت ہو چکے، اور معبود تو وہ ہوتا ہے جو حي لا يموت ہوتا ہے. جو ایسا زندہ، جس پر کبھی موت نہیں آتی. جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا. جو زندگی عطاء فرماتا ہے. اور زندگی چھینتا ہے. اور موت مسلط کرتا ہے. اللہ کی ذات حي لا يموت ہے. اور وہی معبود ہے. اگر کوئی اللہ کے پیغمبر کی عبادت کرتا ہے، جو آئندہ کرے گا، تو دیکھ لو کہ اللہ کے پیغمبر فوت ہو چکے. اور جس پر موت آ جائے وہ قطعاً معبود نہیں ہو سکتا. "
تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، اس وقت ایک مرجع کے طور پر سامنے آئے. جو سب سے بڑے عالم تھے. سب سے بڑے عامل تھے. اور سب سے بڑی معرفت اور منہج کی پہچان کے حامل تھے. عمر رضی اللہ عنہ جیسے انسان نے اعتراف کیا، کہ کاش میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سینے کا ایک بال ہوتا. تاکہ جو شعور اللہ تعالیٰ نے آپکو دیا، اس میں میرا بھی حصہ ہوتا.

امام مالک کے دور میں، فتنہ بپا ہوا. اور سارے اسکی لپیٹ میں آ گئے. جبری طلاق کا فتنہ. علماء نے سائن کر دیے. درباری ملاؤں سے سائن لینا کون سا مشکل کام ہے. چنانچہ سب نے سائن کر دیے. اکیلے امام مالک کٹ گئے. اس فتنے کے خلاف عملی طور پر جہاد کیا. اور اللہ تعالیٰ نے انہیں استقامت کا رنگ دکھایا. ورنہ پتہ نہیں آج، اس تعلق سے لوگوں کا کیا منہج ہوتا. "امام مالک کا پوری امت پر احسان ہے."

امام احمد بن حنبل کے دور میں، خلقِ قرآن کا فتنہ پیدا ہوا. تو مرجع شخصیت کے طور پر احمد بن حنبل سامنے آئے. امام اہل السنہ، نے اس فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا. دلائل کے ساتھ، بدزبانی کے ساتھ نہیں. تین چار، دربان سزا دیتے دیتے مر گئے. مگر وہ استقامت پر قائم رہے. اور استقامت انکا منہج تھا. مگر حکام کے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی نہیں کی. برسرِ عام ان پر تنقید نہیں کی. بلکہ امام احمد بن حنبل کا قول تھا،وہ امیر المومنین، جو انکو کوڑے مارتے تھے انکے بارے میں . "اگر مجھے ایک دعا کا اختیار ملے، کہ تم ایک دعا کر لو، وہ میں ضرور قبول کروں گا. تو وہ دعا میں خود نہیں کروں گا. اس دعا کا حق میں امیر المومنین کو دیتا ہوں." جو انکی پشت پر کوڑے مار رہا ہے.
جو اختلافی ایک مسئلہ تھا، وہ حق ہے. انکی استقامت بالکل واضح ہے. لیکن باقی امور میں سمع و طاعت اور فتنہ کھڑا نہ کرنا اور عَلمِ بغاوت بلند نہ کرنا. بلکہ امت میں جو ایک سکون کا جو ایک منہج ہے، اسکو قائم رکھنا. یہی امام احمد بن حنبل اور سلف صالحین کا وطیرہ تھا.

أمام مالک کا چہرہ سیاہ کیا گیا. انکو اونٹنی پر سوار کیا گیا. اور پورے شہر مدینہ منورہ کا گشت کرایا گیا. اور چکر لگایا گیا. پورا شہر انکے پیچھے ہے. کہ یہ کیا ماجرا ہے. جب ایک بڑا چوک آ گیا. جہاں پر دنیا جمع تھی. امام مالک کھڑے ہو گئے. اور فرمایا؛ "جو مجھ کو جانتا ہے، وہ جانتا ہے، جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ مالک بن انس ہوں، مسجد نبوی میں درسِ حدیث دینے والا، میرا منہج اور مسلک یہ کہ زبردستی کی طلاق واقع نہیں ہوتی، جبری طلاق واقع نہیں ہوتی"
اتنی سی بات کہی حالانکہ دنیا جمع تھی. موقع تھا کہ وقت کے حاکم کے خلاف زبان کھول دیتے. خوب بول سکتے تھے. اور اپنے حامی اور شاگردوں کی ایک تعداد کو برآندیختہ کر سکتے تھے. لیکن اس قسم کے عمومی مظاہر میں، حکام پر تنقید کرنا، یہ سلف صالحین کا مؤقف نہیں ہے.

مانا جب بھی فتنہ پھوٹا، کوئی نہ کوئی مرجع شخصیت موجود ہے. جس نے اس مرجع شخصیت سے رابطہ قائم کر لیا. اللہ تعالیٰ نے اسکو فتنے سے بچا لیا. تو علمِ نافع، یہ ایک نعمتِ کبری ہے. ہر دور سے فتنوں کے بچاؤ کے لیے، علم کی طلب ہونی چاہیے، علماء سے رابطہ ہونا چاہیے. ان پر ناحق تنقیدیں نہیں کرنی چاھییں. انکی غیبتیں، ان پر الزام تراشیاں، اس سے گریز کرنی چاہیے. انکی غیبتوں سے انکا ذاتی نقصان نہیں ہوتا بلکہ دین کا نقصان ہوتا ہے. منہج کو سمجھیے. اللہ تعالیٰ مجھے اور آہکو توفیق عطاء فرما دے. اللہ تعالیٰ ہمیں ہر فتنے کا ادراک عطاء فرما دے. اس سے بچاؤ کی توفیق عطاء فرما دے. اور وہ سارے اسباب جو فتنوں سے بچاؤ کے لیے شریعت نے مقرر کیے، اللہ تعالیٰ وہ ہمیں عطاء فرما دے.
و اقول قولی هذا.
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
@اسحاق سلفی
السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حدیث کے عربی متن، حوالہ اور ترجمہ پر نظر ثانی اور تدوین کر دیجیے.
 
Top