(۲) ہمارا مذھبی نشان ڈاڑھی اور تلوار اور کھجور کا درخت ہےاور سبز رنگ ہمارا مذھبی رنگ ہے ۔کتنے لوگ اس کو پناتے ہیں ،ذرا دل میں جگہ دیں تو بات سمجھ میں آئے گی۔
داڑھی کا ثبوت قرآن شریف سے
سورہ طٰہٰ ملاحظہ فرمائیں حضرت موسٰی اور حضرت ھارون علیہما السلام کا واقعہ۔
(۱)قال یا بنؤم لا تاخذ بلحیتی ولا براسی
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا
( فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللہ)
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
یا یھا الذین اٰمنو اطیعو اللہ واطیعو الرسول و الوالامر منکم
پہلی آیت شریفہ ڈاڑھی کا واضح ثبوت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ داڑھی کو پکڑا گیا اور ہر سمجھ دار انسان جانتا ہے کہ پکڑا اسی چیز کا جا تا ہے جو گرفت میں اچھی طرح سے آجائے۔یہی اشارہ اس واقعہ میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی کو پکڑا نہ کہ تھوڑی کو اگر داڑھی نہ ہو تی وہ بھی قبضہ بھر تو اللہ تعالیٰ داڑھی کا ذکر نہ فرماکر تھوڑی کا ذکر فرماتے۔
باقی وضاحت میں سابقہ مضمون میں کرچکا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے نہ کہ نکتہ چینی کی ۔کسی کو کوئی تکلیف پہونچی ہو تو معاف فرمائیں
فقط واللہ اعلم باصواب
عابد الرحمٰن مظاہری بجنوری
مدنی دارالافتاء بجنور
یوپی (انڈیا)
محترم عابدالرحمان صاحب،
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ محض اپنے مروجہ عقائد کو درست ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم میں تحریف کر رہے ہیں، قرآن میں ذکر تو بہت سی ناپاک اور پلید چیزوں کا بھی ہے، تو کیا اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ درست ہیں، سورۃ طہ کی جو آیت آپ نے قرآن کریم سے بطور ثبوت پیش کی ہے ، اس میں ڈاڑھی کا ذکر تو ہے، لیکن اس کا ذکر کن الفاظ میں ہے اور اس آیت کا سیاق و سباق کیا ہے، وہ پیش کرنے کی ہمت نہیں کی آپ، اور نہ ہی اس سے آپکا مروجہ عقیدہ درست ثابت ہوتا ہے، ملاحظہ کیجیے اس آیت کا سیاق
قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا ٢٠:٩٢
أَلَّا تَتَّبِعَنِ ۖ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي ٢٠:٩٣
قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي ٢٠:٩٤
ترجمہ : (پھر موسیٰ نے ہارون سے) کہا کہ ہارون جب تم نے ان کو دیکھا تھا کہ گمراہ ہو رہے ہیں تو تم کو کس چیز نے روکا ٢٠:٩٢
(یعنی) اس بات سے کہ تم میرے پیچھے چلے آؤ۔ بھلا تم نے میرے حکم کے خلاف (کیوں) کیا؟ ٢٠:٩٣
کہنے لگے کہ بھائی میری ڈاڑھی اور سر (کے بالوں) کو نہ پکڑیئے۔ میں تو اس سے ڈرا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کو ملحوظ نہ رکھا ٢٠:٩٤
ملاحظہ فرمایا آپ نے ، حضرت موسی اپنے بھائی پر اس بات پر برہم ہورہے تھے کہ انہوں نے بجائے قوم کی اصلاح کرنے کے، انہیں یوں ہی کیوں چھوڑ دیا، اس بات پر غصہ میں آکر انہوں نے اپنے بھائی ہارون کی ڈاڑھی پکڑی تھی، اس سے ڈاڑھی کا رکھنا کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟
اب آپ کی پیش کردہ دوسری آیت
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ٤:٥٩
ترجمہ : مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب ارباب اختیار ہیں انکی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو یہ تمہارے لیے (حکومتی تشکیل کی) بہترین تاویل و تشریح ہے۔
اس آیت میں اگر ہم محدب عدسہ لگا کر بھی دیکھیں تو کہیں سے بھی ڈاڑھی کا رکھنا یا اسکا سنت رسول ہونا ثابت نہیں ہے؟آپ کہاں سے قرآن کی بات کررہے ہیں،ان دونوں آیتوں میں تو ڈاڑھی رکھنے کا کوئی جواز موجود نہیں، ہاں کوئی اور ثبوت ہو تو پیش کریں