• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر عثمانی کی کتاب وفات ختم الرسل کی تحقیق درکار ہے

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
ویسے آپ کی اس وضاحت سے یہ مسئلہ کافی حد تک سلجھ جاتا ہے محل نزاع صرف اتنا ہے کہ ہمارے نزدیک وہ حیات دنیا کی سی ہے
یہ’’اتنا‘‘کافی زیادہ ہے؛بریلوی احباب نے اس پر جو پوری عمارت کھڑی کر لی ہے ،عثمانی دراصل اسی کا رد عمل ہے؛آپ لوگوں نے افراط سے کام لیا اور اس نے تفریط سے؛آپ اگر شریعت کی حدود میں رہتے تو شاید یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا؛شرک کا سارا بازار اسی سے تو گرم کیا ہے؛اس ’’اتنا‘‘ سے؛خدا ہدایت نصیب کرے؛آمین
 

farooqsher2100

مبتدی
شمولیت
فروری 20، 2020
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
میرے بھائی یہ تحقیقی فورم ہے - لیکن مجھے بین ہونے کی دھمکی دی جا چکی ہے - ہو سکتا ہے کہ بین کر بھی دیا جا ے لیکن میرے لئے بین ہونے یا نہ ہونے کی کوئی اہمیت نہیں -

آپ ان باتوں کا جواب دیں - آپ کی باتوں کا یہ جواب دیا گیا ہے -

--------------

حیات النبی فی القبر بہت عرصے سے متفقہ عقیدہ ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ صحابہ کا عقیدہ نہیں تھا اور اس پر صحابہ کا اجماع
ہے
لیکن یہ لوگ کہتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی ختم ہو گئی پھر ان کی قبر میں زندگی مانتے ہیں جس کی کوئی دلیل قرآن و احادیث صحیحہ میں نہیں

ڈاکٹر صاحب کی کتاب میں وفات النبی پر بحث ہے آپ اس میں دیکھ سکتے ہیں

یہ بخاری کی حدیث ہے جس کو اہل حدیث دیوبندی پریلوی سب مانتے ہیں لیکن اس کے بعد ضعیف روایات کی بنیاد پر قبر میں مانتے ہیں
اب وہابیوں اور کچھ اہل حدیث علماء نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ نبی جنت میں ہیں قبر میں نہیں لیکن جب ان
سے حیات النبی پر سوال ہوتا ہے تو قبر کی برزخی زندگی کہتے ہیں لیکن یہ بندہ ایجاد ہے

اہل حدیث قبر میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے ایک ایسے جسد کے قائل ہیں جو سن نہیں سکتا نہ دیکھ سکتا ہے مثلا درود و سلام والے روایات کو ان کا ایک طبقہ رد کرتا ہے تو بھلا سوچنے جب آپ علامات زندگی ہی نکال دیں تو وہ زندگی کیسی رہی -جس پر یہ لوگ فلسفہ بھگارتے ہیں- لوگ سوال نہ کریں تو کہتے ہیں کہ دین میں زیادہ سوال منع ہیں وغیرہ

متقدمین علماء کے جن کے یہ خوچہ چین ہیں ان کے نزدیک نبی کی روح قبر و جنت میں اتی جاتی رہتی ہے اور نبی سنتے ہیں یہ عقیدہ امام ابن تیمیہ اور ابن قیم اور وہابیوں کا ہے اور یہ دیوبند کے عقیدہ کے زیادہ قریب ہے لہذا اس مسئلہ میں ابن تیمیہ کو دیوبندی حیاتی کہنا غلط نہ ہو گا

--------

کیا جواب دیں گے آپ ان لوگوں کو جن پر عثمانی ہونے کا فتویٰ ہے -
زبردست

Sent from my Infinix NOTE 3 using Tapatalk
 

farooqsher2100

مبتدی
شمولیت
فروری 20، 2020
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
میں نے اوپر حدیث بیان کردی ہے کہ انبیا علیھم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں،نمازیں پڑھتے ہیں۔
یہ صحیح حدیث ہے؛اس کے بعد بحث کی گنجایش نہیں رہ جاتی ایک مسلمان کے نزدیک؛جو احادیث کو نہیں مانتا ؛اس کا کوئی علاج نہیں۔
بخاری کی حدیثوں میں تو عذاب قبر کا بھی ذکر ہے؛ان کو کیوں نہیں مانتے یہ لوگ؟؟؟
اصل میں یہ صرف اپنی عقل کے پجاری ہیں؛جو ان کی عقل میں سما جائے ،اسے مانتے ہیں اور جو ان کی عقل نارسا میں نہ آئے ،اس کا بے دھڑک انکار کر دیتے ہیں اور یہ بات لا تعداد مباحثوں اور بے شمار مرتبہ سمجھانے کے باوجود روز روشن کی طرح عیاں ہے؛ اس موضوع پر دسیوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں جو ہر وقت اور ہر جگہ دست یاب ہیں؛ان کے ہر ہر شبہہے کا جواب ہو چکا ہے؛خود آپ سے بارہا بات ہو چکی ہے لیکن آپ حیلوں بہانوں سے پھر اسے چھیڑتے رہتے ہیں جس سے مجھے یہ یقین ہو گیا ہے کہ آپ کا مقصد نیک نہیں ،محض فتنہ پردازی ہے؛اگر آپ واقعی مخلص ہیں اور صرف ان کے جواب دینا چاہتے ہیں تو انھیں علما کی طرف ریفر کریں؛خود کیوں ان سے الجھتے ہیں جب کہ آپ جاہل محض ہیں؟؟! میں اپنی تحریر میں سخت الفاظ استعمال کرنے سے ہمیشہ اجتناب کرتا ہوں لیکن آپ کی روش دیکھ کر میں برملا طور پر کہتا ہوں کہ آپ ایک جاہل ،جھگڑالو اور مفسد آدمی ہیں جو لا یعنی بحثوں میں الجھا رہتا ہے؛میں گزارش کروں گا کہ آپ اہل حدیث و سنت علما سے علم حاصل کریں؛صحیح عقیدہ اختیار کریں اور مثبت دعوت کا کام کریں۔والسلام
آپ کے جواب میں وزن نہیں... جہاں تک احادیث کا سوال ہیں تو وہ تو صرف فرد واحد کے لئے تھا.... اور خود نبی علیہ سلام نے اپنے دست مبارک سے وہ عمل کیےیا بتاءے

Sent from my Infinix NOTE 3 using Tapatalk
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
یہ’’اتنا‘‘کافی زیادہ ہے؛بریلوی احباب نے اس پر جو پوری عمارت کھڑی کر لی ہے ،عثمانی دراصل اسی کا رد عمل ہے؛آپ لوگوں نے افراط سے کام لیا اور اس نے تفریط سے؛آپ اگر شریعت کی حدود میں رہتے تو شاید یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا؛شرک کا سارا بازار اسی سے تو گرم کیا ہے؛اس ’’اتنا‘‘ سے؛خدا ہدایت نصیب کرے؛آمین
محترم دنیا کی سی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ دنیا کے احکامات کے مکلف ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء اپنی قبور میں اپنے جسموں کے ساتھ حیات ہیں ۔۔۔اسے ہی دنیا کی سی کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اس پہ باقاعدہ دلائل موجود ہیں
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم : أَکْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَـلَاءِکَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتّٰی يَفْرُغَ مِنْهَا. قَالَ : قُلْتُ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اﷲِ حَيٌّ يُرْزَقُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ الْمُنَاوِيُّ : قَالَ الدَّمِيْرِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ : حَسَنٌ.

2 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 524، الرقم : 1637، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 328، الرقم : 2582، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 515، 4 / 493، والمناوي في فيض القدير، 2 / 87، والعجلوني في کشف الخفائ،1 / 190، الرقم : 501.
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن) ہے۔ اِس دن فرشتے (خصوصی طور پر کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اُس کے فارغ ہونے تک اُس کا درود میرے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) اور آپ کے وصال کے بعد (کیا ہو گا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں (میری ظاہری) وفات کے بعد بھی (میرے سامنے اسی طرح پیش کیا جائے گا کیوں کہ) اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیائے کرام علیھم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اُسے رزق بھی عطا کیا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا : اِسے امام ابن ماجہ نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام مناوی نے بیان کیا کہ امام دمیری نے فرمایا : اِس کے رجال ثقات ہیں۔ امام عجلونی نے بھی اسے حدیثِ حسن کہا ہے۔
جہاں اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ انبیاء کے اجسام مقدسہ محفوظ ہیں ایسے یہ بات بھی پائیہ ثبوت کو پہنچی کہ انبیاء اپنی قبور میں زندہ ہیں اور ان کو رزق سے نوازا جاتا ہے ۔ایسے ہی کتب میں احادیث میں موجود ہے :۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَتَيْتُ، (وفي رواية هدّاب : ) مَرَرْتُ عَلٰی مُوْسٰی لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْکَثِيْبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَاءِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَاءِيُّ.

4 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسی عليه السلام، 4 / 1845، الرقم : 2375، والنسائي في السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب ذکر صلاة نبي اﷲ موسی عليه السلام، 3 / 215، الرقم : 161.1632، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 419، الرقم : 1328.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت کے مطابق) سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، نسائی، اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔اس سے بھی انبیاء کی قبور میں زندگی اور نماز پڑھنا ثابت ہوا
 
Last edited:
Top