• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈر کی نفسیات

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
میں نے ہیپی برتھ ڈے کا موضوع یہاں فورم اور فیس بک پر شیئر کیا تھا اور دونوں جگہ دونوں طرح کے کمنٹس ملے۔ لیکن ایک بات جو میں نے یہ موضوع شیئر کرنے کے بعد بھائیوں کے جوابات میں شدت سے محسوس کی، تو وہ ڈر کی نفسیات ہے۔ ہمارا ایک بڑا مذہبی طبقہ ڈر کی نفسیات کا شکار ہے۔ مجھ سمیت وہ شرعی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے دماغ کے کسی کونے کھدرے میں یہ خوف رکھتے ہیں کہ اگر اس کام کی اجازت دین سے نکل آئی تو یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے، لوگ یہ بھی کرنا شروع کر دیں، وہ بھی کر لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لہذا اس کی اجازت نہ ہونا ہی بہتر ہے اور ممانعت ہی کی دلیل تلاش کرو۔

اس ڈر کی نفسیات کو اگر میں ایک دنیاوی مثال سے سمجھانا چاہوں تو وہ یہ ہے کہ اگر سڑک پر نکلیں گے تو ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔ بھائی، یہ تو ہے۔ ایکسیڈنٹ تو سڑک پر ہی ہوتا ہے، گھر بیٹھے نہیں ہو گا۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز بھی یہ نہیں ہے کہ کاروبار دنیا چھوڑ دیں، گھر سے باہر نکلنا کم کر دیں۔ بعض لوگ کوئی ایکسیڈنٹ وغیرہ دیکھ کر گاڑی چلانا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ اسی قسم کے خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک سڑک پر کتنی گاڑیوں کے ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں؟ ہزار میں سے ایک کا؟ یا کوئی بھی نسبت وتناسب ہو؟ تو یہ خوف اس قابل نہیں ہے کہ اس کا اعتبار کیا جائے۔ بعض خوف ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا اعتبار کیا جانا چاہیے، اور یہ وہ ہوتے ہیں جو غالب گمان کے درجے میں ہوں۔ دنیا میں زندگی گزاریں، لگے کہ آپ زندگی گزار رہیں ہیں نہ کہ اس طرح کہ زندگی آپ کو گزار رہی ہو۔

دنیاداروں کی طرف سے دیندار طبقے پر عموما جو ایک اعتراض سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ جیسے اس طبقے میں کوئی زندگی یا حیات نام کی شیء ہی نہیں ہے۔ پس ہر طرف پژمردگی سی چھائی ہے، زندگی میں کوئی حرکت یا انجوائے منٹ نہیں ہے۔ یہ بھی نہ کرو، وہ بھی نہ کرو۔ زندگی کیا ہے، بس بیڑیوں اور زنجیروں کا نام ہے؟ لائف کہاں ہے؟

ٹھیک ہے شادی بیاہ کے موقع پر فضول خرچی نہ ہو، ڈانس پارٹی نہ ہو، مخلوط معاشرت سے اجتناب کرنا چاہیے لیکن کیا یہ دین کا تقاضا ہے کہ شادی والا گھر بس دل میں تو چاہے جتنی مرضی خوشی محسوس کر لے لیکن اس قلبی خوشی کے اظہار کے لیے اسے صرف اتنی ہی اجازت ہے کہ کم از کم اس کے گھر میں ماتم ہونے کا شبہہ نہ ہو۔

اسی طرح دین میں آپ اگر ایک چیز کی گنجائش پر بحث کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اسے غلط رخ پر لے جائیں تو غلط رخ پر لے جانے والے اس غلطی کے ذمہ دار ہیں لیکن اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ جس کی اجازت نکلتی ہے، اس پر بھی قدغن لگا دو۔ بلکہ ہمارے مولانا حضرات میں تو باقاعدہ ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو خود تو دین کی رخصتوں سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن عوام کو اس لیے نہیں بتلاتے ہیں کہ عوام میں چونکہ اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہے لہذا وہ اس رخصت کو معلوم نہیں کیا سے کیا بنا دیں گے؟ اور تو اور چھوڑیں ہم نے تو اسکول کے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بجائے جانے والی تالیوں کو بدعت قرار دے دیا؟ کیا یہ زندگی ہے؟

کیا ہم شریعت کا ایسا تصور تو نہیں پیش کر رہے جو زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں بندھ جانے کا نام ہو۔ تو ایسے تصور دین سے عام لوگ اسلام سے خائف ہی رہیں گے، کونسا دین کے نزدیک آئیں گے؟ یہ باتیں اسی کو سمجھ آ سکتی ہیں، جس نے معاشرے میں نکل کر عام لوگوں میں دعوت کا کام کیا ہو، یا کر رہا ہو۔ باقی رہے مدارس کے علماء، یا دار الافتاء کے مفتی حضرات تو وہ ایسی ذہنی کیفیت اور ماحول میں رہتے ہیں کہ ان دونوں کی حد تک ان کے فتاوی وآراء قابل احترام ہوتے ہیں، باقی رہے عوام الناس، تو ان کے لیے یہ فتاوی اور آراء ایک مذاق سے کم حیثیت نہیں رکھتے۔

سنن ترمذی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک غزوہ سے واپسی پر ایک کالی کلوٹی لونڈی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو فتح دی تو آپ کے سامنے کھڑے ہو کر گیت بھی گاوں گی اور دف بھی بجاوں گی۔ آپ نے کہا: اگر نذر مانی ہے تو کر لو۔ اس نے ایسا کر لیا۔ کیا کوئی فقیہ اپنے شاگردوں سے بھری مجلس میں کسی لونڈی کو اپنے سر پر کھڑے ہو کر دف بجانے اور گیت گانے کی اجازت دے سکتے تھے، اور وہ بھی مسجد نبوی میں؟ سچ ہے، ایک فقیہ اور نبی کے ظرف میں بہت فرق ہے؟ ہمارے علماء کو فقیہانہ کی بجائے نبوی ظرف پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہو سکتا ہے کچھ لوگ اب یہ بھی کہیں کہ زبیر صاحب، ابھی دف اور گیت سے شروع ہوئے ہیں، میوزک تک پہنچیں گے۔ اس پر میں وہی تبصرہ کروں گا جو اس پوسٹ کا عنوان ہے کہ ہم در اصل ڈر کی نفسیات کا شکار ہیں۔ باقی میں میوزک کو جائز نہیں سمجھتا لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہمیں اس ڈر کی نفسیات سے نکل کر دین اسلام کی وسعتوں میں ان کے متبعن کے لیے جو گنجائشیں موجود ہیں، وہ انہیں دینی چاہییں۔ اور یہ ان کا دینی حق ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہم ڈر کی نفسیات کی بنا پر لوگوں کا دینی حق انہیں نہ دے رہے ہوں اور اس وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے دین کی طرف آنے میں رکاوٹ بن رہے ہوں؟ واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ بھی مکالمہ کی غرض سے ہے۔ ہر قسم کے کمنٹس کو ویلکم کیا جاتا ہے کیونکہ مقصود اصلاح ہے، نہ کہ اپنی بات منوانا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
مجھ سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ میلاد منانے کے قائل ہیں تو میں نے کہا: ہاں، لیکن اس طرح جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منائی۔ ہر سوموار کو روزہ رکھ کر اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالی عز وجل نے ہمیں ایسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمائے ہیں۔ تو آپ سال میں میلاد منانے کی بات کرتے ہیں، ہم تو ہر ہفتے منانے کے قائل ہیں۔ بس ہم جھنڈیاں لگا کر منانے کو پسند نہیں کرتے بلکہ عبادت کے ذریعے منانے کو پسند کرتے ہیں۔

انسان کی پیدائش یا نبی کی پیدائش ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے نعمت ہونے سے انکار ناممکن ہے۔ اور اللہ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرنا بھی لازم ہے۔ اب شکر کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کچھ طریقے ایسے ہو سکتے ہیں جو واقعتا شکر ادا کرنے میں شمار ہوتے ہوں اور کچھ ایسے ہو سکتے ہیں جو شکر ادا کرنے کی بجائے ناشکری کی طرف لے جاتے ہوں تو ایسے طریقوں سے بچنا چاہیے نہ کہ اس تصور سے ہی کہ ہمیں نہ تو اپنی پیدائش کی خوشی ہونی چاہیے نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ جس دن میں اللہ نے آپ کو پیدا کیا ہے تو اس دن شکر کے طور روزہ رکھ لیں۔ یا کوئی صدقہ خیرات کر دیں۔ یہ تو اللہ کے لیے ہے۔

اور اگر دوستوں کو کچھ مٹھائی بھی کھلا دیں تو کیا حرج ہے؟ کیونکہ جنم کے پہلے دن ہمارے والدین نے تو ہماری پیدائش کی خوشی میں مٹھائی کھلائی تھی، وہ کون سی سنت سے ثابت تھی؟ تو اللہ کے لیے شکر میں شاید کسی کو اختلاف نہ ہو اور دوستوں کو اپنی خوشی میں شریک کرنے میں شاید کچھ لوگ اختلاف کریں کہ یہ انگریز سے مشابہت ہے۔ تو چلیں دوسری صورت میں اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ نہ کریں، کم از کم پہلی صورت تو اختیار کریں ناں کہ جنم دن میں روزہ رکھ کر یا دو نفل پڑھ کر یا صدقہ خیرات کر کے اللہ کا شکر ادا
کریں کہ اس نے آپ کو زندگی جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
استاد محترم بارک اللہ فیکم
میرے ناقص خیال کے مطابق جس چیز کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اس کے لیے ’’ ڈر کی نفسیات ‘‘ لفظ مناسب معلوم نہیں ہوتا ، کیونکہ بندہ مومن سے یہ مطلوب ہے کہ اس کا دل ’’ تقوی اللہ ‘‘ سے معمور ہو ۔
لوگ اس طرح کے کاموں سے ڈرتے ہیں تو اچھا ہی کرتے ہیں ، اس میں کیا خرابی ہے ، تقوی کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ مباح چیزوں کو بھی ادنی شبہ کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے ۔
استفدنا منکم و نستفید ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
استاد محترم بارک اللہ فیکم
میرے ناقص خیال کے مطابق جس چیز کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اس کے لیے ’’ ڈر کی نفسیات ‘‘ لفظ مناسب معلوم نہیں ہوتا ، کیونکہ بندہ مومن سے یہ مطلوب ہے کہ اس کا دل ’’ تقوی اللہ ‘‘ سے معمور ہو ۔
لوگ اس طرح کے کاموں سے ڈرتے ہیں تو اچھا ہی کرتے ہیں ، اس میں کیا خرابی ہے ، تقوی کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ مباح چیزوں کو بھی ادنی شبہ کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے ۔
استفدنا منکم و نستفید ۔
آپ کا نکتہ اچھا ہے اور مجھے اس سے اتفاق ہے۔ لیکن اختلاف صرف اتنا ہے کہ تقوی اپنی ذات کے لیے ہوتا ہے نہ کہ دوسروں کے لیے۔ میں اگر خود سے مباح چیزوں کو ادنی شبہ کی وجہ سے چھوڑ دوں تو یہ تقوی میں شامل ہو گا لیکن تقوی یہ نہیں ہے کہ میں ادنی شبہ کی وجہ سے دوسروں کو مباح امور سے روکوں۔ ایک ڈر وہ ہے جو ہمیں اپنے بارے میں محسوس ہو اور ایک وہ جو دوسروں کے بارے لگے۔ تو دونوں میں فرق ہے۔ تقوی اور شیء ہے اور نہی عن المنکر اور چیز ہے۔ جلال الدین عمری صاحب کی معروف ومنکر کے نام سے کتاب کافی اچھی اور جامع ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
آپ کا نکتہ اچھا ہے اور مجھے اس سے اتفاق ہے۔ لیکن اختلاف صرف اتنا ہے کہ تقوی اپنی ذات کے لیے ہوتا ہے نہ کہ دوسروں کے لیے۔ میں اگر خود سے مباح چیزوں کو ادنی شبہ کی وجہ سے چھوڑ دوں تو یہ تقوی میں شامل ہو گا لیکن تقوی یہ نہیں ہے کہ میں ادنی شبہ کی وجہ سے دوسروں کو مباح امور سے روکوں۔ ایک ڈر وہ ہے جو ہمیں اپنے بارے میں محسوس ہو اور ایک وہ جو دوسروں کے بارے لگے۔ تو دونوں میں فرق ہے۔ تقوی اور شیء ہے اور نہی عن المنکر اور چیز ہے۔ جلال الدین عمری صاحب کی معروف ومنکر کے نام سے کتاب کافی اچھی اور جامع ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
ہمارے شیخین جس چیز کو بیان کر رہے ہیں ،اس اندیشہ اور ڈر کو قرآن الحذر ۔و ۔التحذیر ۔کے عنوان سے بیان کرتا ہے۔
ذیل کی آیات دیکھیئے :
2-* أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْياهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَشْكُرُونَ (243) «2»
3- لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكافِرِينَ أَوْلِياءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ (28) قُلْ إِنْ تُخْفُوا ما فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَيَعْلَمُ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (29) يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ
سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَها وَبَيْنَهُ أَمَداً بَعِيداً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَاللَّهُ رَؤُفٌ بِالْعِبادِ
(30) «3»
4- وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ ما أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّما يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ النَّاسِ لَفاسِقُونَ (49) أَفَحُكْمَ الْجاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْماً لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (50) «4»
 
Top