- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
میں نے ہیپی برتھ ڈے کا موضوع یہاں فورم اور فیس بک پر شیئر کیا تھا اور دونوں جگہ دونوں طرح کے کمنٹس ملے۔ لیکن ایک بات جو میں نے یہ موضوع شیئر کرنے کے بعد بھائیوں کے جوابات میں شدت سے محسوس کی، تو وہ ڈر کی نفسیات ہے۔ ہمارا ایک بڑا مذہبی طبقہ ڈر کی نفسیات کا شکار ہے۔ مجھ سمیت وہ شرعی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے دماغ کے کسی کونے کھدرے میں یہ خوف رکھتے ہیں کہ اگر اس کام کی اجازت دین سے نکل آئی تو یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے، لوگ یہ بھی کرنا شروع کر دیں، وہ بھی کر لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لہذا اس کی اجازت نہ ہونا ہی بہتر ہے اور ممانعت ہی کی دلیل تلاش کرو۔
اس ڈر کی نفسیات کو اگر میں ایک دنیاوی مثال سے سمجھانا چاہوں تو وہ یہ ہے کہ اگر سڑک پر نکلیں گے تو ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔ بھائی، یہ تو ہے۔ ایکسیڈنٹ تو سڑک پر ہی ہوتا ہے، گھر بیٹھے نہیں ہو گا۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز بھی یہ نہیں ہے کہ کاروبار دنیا چھوڑ دیں، گھر سے باہر نکلنا کم کر دیں۔ بعض لوگ کوئی ایکسیڈنٹ وغیرہ دیکھ کر گاڑی چلانا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ اسی قسم کے خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک سڑک پر کتنی گاڑیوں کے ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں؟ ہزار میں سے ایک کا؟ یا کوئی بھی نسبت وتناسب ہو؟ تو یہ خوف اس قابل نہیں ہے کہ اس کا اعتبار کیا جائے۔ بعض خوف ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا اعتبار کیا جانا چاہیے، اور یہ وہ ہوتے ہیں جو غالب گمان کے درجے میں ہوں۔ دنیا میں زندگی گزاریں، لگے کہ آپ زندگی گزار رہیں ہیں نہ کہ اس طرح کہ زندگی آپ کو گزار رہی ہو۔
دنیاداروں کی طرف سے دیندار طبقے پر عموما جو ایک اعتراض سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ جیسے اس طبقے میں کوئی زندگی یا حیات نام کی شیء ہی نہیں ہے۔ پس ہر طرف پژمردگی سی چھائی ہے، زندگی میں کوئی حرکت یا انجوائے منٹ نہیں ہے۔ یہ بھی نہ کرو، وہ بھی نہ کرو۔ زندگی کیا ہے، بس بیڑیوں اور زنجیروں کا نام ہے؟ لائف کہاں ہے؟
ٹھیک ہے شادی بیاہ کے موقع پر فضول خرچی نہ ہو، ڈانس پارٹی نہ ہو، مخلوط معاشرت سے اجتناب کرنا چاہیے لیکن کیا یہ دین کا تقاضا ہے کہ شادی والا گھر بس دل میں تو چاہے جتنی مرضی خوشی محسوس کر لے لیکن اس قلبی خوشی کے اظہار کے لیے اسے صرف اتنی ہی اجازت ہے کہ کم از کم اس کے گھر میں ماتم ہونے کا شبہہ نہ ہو۔
اسی طرح دین میں آپ اگر ایک چیز کی گنجائش پر بحث کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اسے غلط رخ پر لے جائیں تو غلط رخ پر لے جانے والے اس غلطی کے ذمہ دار ہیں لیکن اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ جس کی اجازت نکلتی ہے، اس پر بھی قدغن لگا دو۔ بلکہ ہمارے مولانا حضرات میں تو باقاعدہ ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو خود تو دین کی رخصتوں سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن عوام کو اس لیے نہیں بتلاتے ہیں کہ عوام میں چونکہ اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہے لہذا وہ اس رخصت کو معلوم نہیں کیا سے کیا بنا دیں گے؟ اور تو اور چھوڑیں ہم نے تو اسکول کے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بجائے جانے والی تالیوں کو بدعت قرار دے دیا؟ کیا یہ زندگی ہے؟
کیا ہم شریعت کا ایسا تصور تو نہیں پیش کر رہے جو زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں بندھ جانے کا نام ہو۔ تو ایسے تصور دین سے عام لوگ اسلام سے خائف ہی رہیں گے، کونسا دین کے نزدیک آئیں گے؟ یہ باتیں اسی کو سمجھ آ سکتی ہیں، جس نے معاشرے میں نکل کر عام لوگوں میں دعوت کا کام کیا ہو، یا کر رہا ہو۔ باقی رہے مدارس کے علماء، یا دار الافتاء کے مفتی حضرات تو وہ ایسی ذہنی کیفیت اور ماحول میں رہتے ہیں کہ ان دونوں کی حد تک ان کے فتاوی وآراء قابل احترام ہوتے ہیں، باقی رہے عوام الناس، تو ان کے لیے یہ فتاوی اور آراء ایک مذاق سے کم حیثیت نہیں رکھتے۔
سنن ترمذی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک غزوہ سے واپسی پر ایک کالی کلوٹی لونڈی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو فتح دی تو آپ کے سامنے کھڑے ہو کر گیت بھی گاوں گی اور دف بھی بجاوں گی۔ آپ نے کہا: اگر نذر مانی ہے تو کر لو۔ اس نے ایسا کر لیا۔ کیا کوئی فقیہ اپنے شاگردوں سے بھری مجلس میں کسی لونڈی کو اپنے سر پر کھڑے ہو کر دف بجانے اور گیت گانے کی اجازت دے سکتے تھے، اور وہ بھی مسجد نبوی میں؟ سچ ہے، ایک فقیہ اور نبی کے ظرف میں بہت فرق ہے؟ ہمارے علماء کو فقیہانہ کی بجائے نبوی ظرف پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ہو سکتا ہے کچھ لوگ اب یہ بھی کہیں کہ زبیر صاحب، ابھی دف اور گیت سے شروع ہوئے ہیں، میوزک تک پہنچیں گے۔ اس پر میں وہی تبصرہ کروں گا جو اس پوسٹ کا عنوان ہے کہ ہم در اصل ڈر کی نفسیات کا شکار ہیں۔ باقی میں میوزک کو جائز نہیں سمجھتا لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہمیں اس ڈر کی نفسیات سے نکل کر دین اسلام کی وسعتوں میں ان کے متبعن کے لیے جو گنجائشیں موجود ہیں، وہ انہیں دینی چاہییں۔ اور یہ ان کا دینی حق ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہم ڈر کی نفسیات کی بنا پر لوگوں کا دینی حق انہیں نہ دے رہے ہوں اور اس وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے دین کی طرف آنے میں رکاوٹ بن رہے ہوں؟ واللہ اعلم بالصواب
یہ پوسٹ بھی مکالمہ کی غرض سے ہے۔ ہر قسم کے کمنٹس کو ویلکم کیا جاتا ہے کیونکہ مقصود اصلاح ہے، نہ کہ اپنی بات منوانا۔
اس ڈر کی نفسیات کو اگر میں ایک دنیاوی مثال سے سمجھانا چاہوں تو وہ یہ ہے کہ اگر سڑک پر نکلیں گے تو ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔ بھائی، یہ تو ہے۔ ایکسیڈنٹ تو سڑک پر ہی ہوتا ہے، گھر بیٹھے نہیں ہو گا۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز بھی یہ نہیں ہے کہ کاروبار دنیا چھوڑ دیں، گھر سے باہر نکلنا کم کر دیں۔ بعض لوگ کوئی ایکسیڈنٹ وغیرہ دیکھ کر گاڑی چلانا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ اسی قسم کے خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک سڑک پر کتنی گاڑیوں کے ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں؟ ہزار میں سے ایک کا؟ یا کوئی بھی نسبت وتناسب ہو؟ تو یہ خوف اس قابل نہیں ہے کہ اس کا اعتبار کیا جائے۔ بعض خوف ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا اعتبار کیا جانا چاہیے، اور یہ وہ ہوتے ہیں جو غالب گمان کے درجے میں ہوں۔ دنیا میں زندگی گزاریں، لگے کہ آپ زندگی گزار رہیں ہیں نہ کہ اس طرح کہ زندگی آپ کو گزار رہی ہو۔
دنیاداروں کی طرف سے دیندار طبقے پر عموما جو ایک اعتراض سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ جیسے اس طبقے میں کوئی زندگی یا حیات نام کی شیء ہی نہیں ہے۔ پس ہر طرف پژمردگی سی چھائی ہے، زندگی میں کوئی حرکت یا انجوائے منٹ نہیں ہے۔ یہ بھی نہ کرو، وہ بھی نہ کرو۔ زندگی کیا ہے، بس بیڑیوں اور زنجیروں کا نام ہے؟ لائف کہاں ہے؟
ٹھیک ہے شادی بیاہ کے موقع پر فضول خرچی نہ ہو، ڈانس پارٹی نہ ہو، مخلوط معاشرت سے اجتناب کرنا چاہیے لیکن کیا یہ دین کا تقاضا ہے کہ شادی والا گھر بس دل میں تو چاہے جتنی مرضی خوشی محسوس کر لے لیکن اس قلبی خوشی کے اظہار کے لیے اسے صرف اتنی ہی اجازت ہے کہ کم از کم اس کے گھر میں ماتم ہونے کا شبہہ نہ ہو۔
اسی طرح دین میں آپ اگر ایک چیز کی گنجائش پر بحث کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اسے غلط رخ پر لے جائیں تو غلط رخ پر لے جانے والے اس غلطی کے ذمہ دار ہیں لیکن اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ جس کی اجازت نکلتی ہے، اس پر بھی قدغن لگا دو۔ بلکہ ہمارے مولانا حضرات میں تو باقاعدہ ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو خود تو دین کی رخصتوں سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن عوام کو اس لیے نہیں بتلاتے ہیں کہ عوام میں چونکہ اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہے لہذا وہ اس رخصت کو معلوم نہیں کیا سے کیا بنا دیں گے؟ اور تو اور چھوڑیں ہم نے تو اسکول کے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بجائے جانے والی تالیوں کو بدعت قرار دے دیا؟ کیا یہ زندگی ہے؟
کیا ہم شریعت کا ایسا تصور تو نہیں پیش کر رہے جو زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں بندھ جانے کا نام ہو۔ تو ایسے تصور دین سے عام لوگ اسلام سے خائف ہی رہیں گے، کونسا دین کے نزدیک آئیں گے؟ یہ باتیں اسی کو سمجھ آ سکتی ہیں، جس نے معاشرے میں نکل کر عام لوگوں میں دعوت کا کام کیا ہو، یا کر رہا ہو۔ باقی رہے مدارس کے علماء، یا دار الافتاء کے مفتی حضرات تو وہ ایسی ذہنی کیفیت اور ماحول میں رہتے ہیں کہ ان دونوں کی حد تک ان کے فتاوی وآراء قابل احترام ہوتے ہیں، باقی رہے عوام الناس، تو ان کے لیے یہ فتاوی اور آراء ایک مذاق سے کم حیثیت نہیں رکھتے۔
سنن ترمذی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک غزوہ سے واپسی پر ایک کالی کلوٹی لونڈی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو فتح دی تو آپ کے سامنے کھڑے ہو کر گیت بھی گاوں گی اور دف بھی بجاوں گی۔ آپ نے کہا: اگر نذر مانی ہے تو کر لو۔ اس نے ایسا کر لیا۔ کیا کوئی فقیہ اپنے شاگردوں سے بھری مجلس میں کسی لونڈی کو اپنے سر پر کھڑے ہو کر دف بجانے اور گیت گانے کی اجازت دے سکتے تھے، اور وہ بھی مسجد نبوی میں؟ سچ ہے، ایک فقیہ اور نبی کے ظرف میں بہت فرق ہے؟ ہمارے علماء کو فقیہانہ کی بجائے نبوی ظرف پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ہو سکتا ہے کچھ لوگ اب یہ بھی کہیں کہ زبیر صاحب، ابھی دف اور گیت سے شروع ہوئے ہیں، میوزک تک پہنچیں گے۔ اس پر میں وہی تبصرہ کروں گا جو اس پوسٹ کا عنوان ہے کہ ہم در اصل ڈر کی نفسیات کا شکار ہیں۔ باقی میں میوزک کو جائز نہیں سمجھتا لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہمیں اس ڈر کی نفسیات سے نکل کر دین اسلام کی وسعتوں میں ان کے متبعن کے لیے جو گنجائشیں موجود ہیں، وہ انہیں دینی چاہییں۔ اور یہ ان کا دینی حق ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہم ڈر کی نفسیات کی بنا پر لوگوں کا دینی حق انہیں نہ دے رہے ہوں اور اس وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے دین کی طرف آنے میں رکاوٹ بن رہے ہوں؟ واللہ اعلم بالصواب
یہ پوسٹ بھی مکالمہ کی غرض سے ہے۔ ہر قسم کے کمنٹس کو ویلکم کیا جاتا ہے کیونکہ مقصود اصلاح ہے، نہ کہ اپنی بات منوانا۔