• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈپریشن، اسلام اور علاج

شمولیت
نومبر 05، 2020
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
5


ڈپریشن، اسلام اور علاج

از قلم: ام محمد

؎اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں

مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ اسلام ہماری ہر طرح کی نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کجا کہ اس کا تعلق ہماری زندگی کے شعبےسے ہو یا ہمیں پیش آنے والے مسائل و بیماریوں سے ہو، اسلام احسن طریقے سےہماری رہنمائی کرتا ہے۔اسلام ہی وہ دین ہے جو ہمیں درپیش آنے والے مسائل سے پرہیز بتاتا ہے اور اگر ہماری غفلت یا تقدیر کے غالب ہونے کی وجہ سے ہم کسی پریشانی کا سامنا کرتےہیں تو اس کا حل بھی بتاتا ہے۔اسلام کے علاوہ ہم کوئی بھی طریقہ علاج اپنا لیں اس میں ہمیں کم یا زیادہ مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسلام ہی جس پر عمل پیرا ہونے سے ہمیں کوئی عارضہ لاحق نہیں ہوسکتا الا یہ کہ حکمت الٰہی پوشیدہ ہو،جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

"یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہے مومنوں کے لئے سراسر شفاء اور رحمت ہے"۔(الاسرا#82)

"آپ کہہ دیجئے ! کہ یہ تو ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفاء ہے۔"(حم السجدہ#44)

آئیےذرا !ہم ڈپریشن کے بارے میں جان لیتے ہیں ، ڈپریشن ایک نفسیاتی عارضہ ہے جسےیوں سادہ الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا مرض ہےجس میں فرد پر افسردگی (depression)کی کیفیت نمایاں طور پر چھا جاتی ہے۔ اس میں انسان بے حد اداس ، مضمحل(anxious) اور ناامید(hopeless) ہو جاتا ہے۔مزید برآں کہ ڈپریشن کے مریض کو جسمانی تکالیف کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے مثلا سر درد، معدے یا جسم کے مختلف حصوں میں درد رہنا۔ماہر نفسیات نے ڈپریشن کی نشاندہی کے لئے کچھ علامات بتائی ہیں ضروری نہیں ہر بندے میں ساری علامات موجود ہوں ۔ کم از کم چار علامات دو ہفتوں تک موجود ہوں اور ان کی وجہ سے معمولاتِ زندگی متاثر ہو رہے ہوں تو فرد کو ڈپریشن کا مسئلہ ہے۔علامات میں ہر وقت یا زیادہ تر اداس اور افسردہ رہنا، بھوک نہ لگنا، نیند نہ آنا،جسمانی یا ذہنی کمزوری و تھکن ہونا،کسی کام میں دل نہ لگنا،خود کو کم تر سمجھنا اور خود اعتمادی ختم ہونا، ماضی میں ہوئی غلطی کا خود کو مورد الزام ٹھہرانا اورخود کشی کا سوچنا اور عمل کی کو شش کرنا، شامل ہیں۔ میرے مختصر و محدود علم کے مطابق ہر دس بندوں میں سے آٹھ افراد ایسے ہیں جو اس موذی مرض کا شکار لگتے ہیں۔خواہ مؤجب ِ بیماری کچھ بھی ہومثلا کسی قریب و عزیز کا انتقال، نا قابل تلافی نقصان ہونا،کسی کا طلاق ہونا، یا اس قسم کے کوئی بھی تجربات کیوں نہ ہوئے ہوں۔ مندرجہ بالا حادثات میں دکھ، غم یا اداسی کا ہونا ایک فطری اور قدرتی ردعمل ہے ، لیکن ہر وقت ہی یاسیت اور غم میں مبتلا رہنا اور معمولات زندگی متاثر ہونا ڈپریشن کو ظاہر کرتا ہے ۔

آیئے!اب اسلام کی نظر میں ڈپریشن کو دیکھتے ہیں۔سب سے پہلی بات کہ ایک مومن کبھی depress ، اللہ کی رحمت سے نا امید و مایوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اللہ کی رحمت سے تو مایوس کافر لوگ ہی ہوتے ہیں۔جبکہ مومن کا معاملہ ہی الگ ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث نبویﷺ میں ہے۔

"مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ اس کے ہر کام میں اس کے لئے خیر و بھلائی ہے اور یہ مومن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے ، اگر اسے آسودگی(خوشحالی) حاصل ہو تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، یہ بھی اس کے لئے خیر ہے،اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہےیہ بھی اس کے لیے بہتر ہے"۔(مسلم)

جب ماضی و مستقبل کے غموں کا دور دورہ ہو ، زندگی غموں میں لپٹی دکھائی دے اور کوئی راہ فرار بھی نہ ملے تو یہ وہ مقام ہے جب بندہ اللہ کا شکر ان انعامات پر کرے تو اللہ حوصلہ بھی عطا کرتے ہیں اور مزید عطا کرنے کی نوید بھی دیتے ہیں جیسا کہ:

"اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گااور ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی شدید ہے۔"(ابراہیم:07)

ایک حدیث کے مطا بق ہر بچہ فطرت اسلام پہ پیدا ہوتا ہے۔ جب ہم فطرت سے ہٹ کر چلتے ہیں تو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جب ہم اسلام کے وضع کردہ اصول سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو مسئلہ اس وقت نمودار ہوتا ہے جب یہاں خلل واقع ہوتا ہے۔اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ:

"تمہیں جو کچھ بھی مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرماتا ہے۔" (الشوریٰ: 30)

اسلام کے ذریعے ہی ہم خوشیاں اور قلبی اطمینان حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ چاہنا کہ انسان کی زندگی دکھوں، تکلیفوں اور غموں سے مبرا ہو تو ایسی چاہت ما فوق الفطرت کے سوا کچھ نہیں۔اللہ نے ہمیں ان سے نبٹنے کے طریقے بھی سیکھائے ہیں بس ہمیں ان کو عملی جامہ پہنانا ہے۔جیسے کسی بہت پیارے کی وفات پہ ہمارا کیا ردعمل ہونا چاہئیے؟ رسول اللہﷺ نےاس کا بہترین نمونہ دیا۔

"سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ابو یوسف لوہار کے گھر گئے ۔وہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کی انا کا خاوند تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ابراہیم کو گود میں لیا اور ان کو پیار کیااور سونگھا۔ پھر اس کے بعدہم ابو یوسف کے پاس گئے تو دیکھا ابراہیم دم توڑ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر رسول اللہﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ بھی لوگوں کی طرح بے صبری کرنے لگے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عوف کے بیٹے یہ بے صبری نہیںرحمت ہے۔ پھر دوسری بار روئے اور فرمایا آنکھ تو آنسو بہاتی اور دل کو رنج ہوتا ہے پر زبان سے ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے پروردگار کوپسند ہے۔بے شک ابراہیم ہم تیری جدائی سے غمگین ہیں"۔(بخاری، کتاب الجنائز : 1225)

جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ:

"صبر تو صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے"۔(بخاری:1283)

کوئی بھی تکلیف ملے تو بجائے اس پہ واویلا کرنے کے ہمیں خاموشی اختیار کرنی چاہئے۔ اور کوئی بھی منفی سوچ کو اپنے پاس پھٹکنے بھی نہیں دینا چاہئے مثلا میں ہی رہ گیا تھا ؟ ایسا میرے ہی ساتھ ہونا تھا؟ یا میں تھا ہی اسی قابل ۔۔۔ وغیرہ بلکہ تقدیر کا فیصلہ مانتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے۔شیطان کا کام ہی انسانی دماغ کو وسوسوں سے بھرنا ہے اور اللہ کی رحمت سے دور و نا امید کرنا ہے۔جبکہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

جب انسان کی روحانی طاقت کمزور پڑتی ہے تو شیطان کا وار اور آسان ہو جاتا ہے۔ وہ ہمیں ہر طرح سے خوف و ناامیدی میں مبتلا کی کوشش کرتا ہےجبکہ اللہ فرماتے ہیں:

"کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟"۔(الزمر:36)

جب لگ رہا ہو کہ ہمارے لئےکچھ نہیں اس دنیا میں ، ہمارا کوئی نہیں جسکو ہماری فکر ہو ، جسے ہم سے محبت ہو تو جان لیں ایک عظیم ہستی ایسی بھی ہے جو ہمیں کبھی نہیں بھولتا ، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:

"اور تمہارا رب( تمہیں) بھولنے والا نہیں"۔ (المریم:64)

قارئین ! اگر ہماری سستی و غفلت یا خطا و نسیان کی وجہ سے ہم اس مرض کے شکار ہو چکے ہیں تو ہمارا علاج کیا ہو سکتا ہےاس کے بارے میں جانتے ہیں۔ ماہر نفسیات اس کا علاج دو طریقوں سے کرتے ہیں

1) psychotherapy ، ماہر نفسیات کلائنٹ کو جانچنے کے بعد اپنے طریقہ علاج کا خاکہ تیار کر لیتا ہے ۔

2) antidepressant ادویات سے ۔ دماغ میں متعدد کیمیائی مواد موجود ہوتے ہیں اور ڈپریشن میں دو خاص مادوں سیروٹونن اور نار ایڈرینلین(serotonin & nor adrenaline )کی کمی واقع ہوتی ہے ۔ جن کی مقدار کو دوائی کے ذریعے بڑھایا جاتا ہے اور کچھ سکون آور ادویات (tranquilizers) فرد کو سکون کے لئے دی جاتی ہیں۔

میں اس طریقہ علاج کو غلط نہیں کہتی بلکہ میں ایک ماہر نفسیات کی بات سے متفق ہوں جن کے مطابق کلائنٹ کی بات کو توجہ سے سن لینا ہی میرے کلائنٹ کے آدھے مسئلے حل ہو جاتےہیں۔ آج کی افراتفری میں ہمیں اچھے سامع اورتسلی وتشفی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام ماہر نفسیا ت بخوبی سر انجام دیتے ہیں۔

لیکن میرے محدود و مختصر علم کے مطابق اسلام سے بہتر و مؤثر تھراپی ہو ہی نہیں سکتی۔ہمیں اسلام کو اپنی زندگیوں سے ظاہر کرنا ہے، ہمیں اسلام کی تعلیمات کو من و عن قبول کرنا چاہیے۔اسلام ہمیں آداب معاشرت بھی سیکھاتا ہے اور حقوق العباد پر بھی زور دیتا ہے، جب ہم اسلامی اخوت و بھائی چارے پر عمل کریں گے تو ہمارے مسائل کے لئے اچھے سامع بھی ملیں گے اور ہماری تسلی و تشفی بھی ہوجائے گی۔ اگر ہم سے کوئی کسی معاملے میں پریشان ہے اور حل بھی نظروں سے اوجھل ہے تو دعا کریں۔کہا جاتا ہے کہ دعا تو ہوتی ہی قبول ہونے کے لیے ہے، دعا تو عبادت کا مغز ہےلہٰذا دعا کو چھوٹا نہ جانیئے ۔اور پھر نماز اور صبر سے مدد مانگیں جیسا کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے سورہ بقرہ میں فرمایا ہے نماز اور صبر سے مدد مانگو۔اپنا ٹارگٹ دنیا کی بجائے آخرت کو بنائیں ، ہر کام میں اللہ کی رضا و خشنودی کو اولیت دیں۔ انسانوں سے بلاوجہ امیدیں لگائیں بلکہ ہر امید اللہ سے باندھیں دنیوی مسائل کا کم شکار ہوں گے۔ ماضی کی پریشانیوں اور مسقبل کے خوف کی بجائے حال پر نظر رکھیں جو ہونا تھا ہو گیا اب ہم بدلنے سے قاصر ہیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں ۔ اللہ ہمیں خود سے مضبوط تعلق بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

وما علینا الا البلاغ مبین
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
لیکن میرے محدود و مختصر علم کے مطابق اسلام سے بہتر و مؤثر تھراپی ہو ہی نہیں سکتی۔
جزاک اللہ۔میں بھی اس مرض کا شکار تھا۔میرے گھر والوں نے بھی یہ میندرجہ ذیل تھراپی دو سال کرائی۔مجھے کچھ سمج نہیں آتا تھا کے میں کیا کروں یا کیا نہ کروں۔ڈاکٹر مجھے مشورہ دیتے کے ایسے کر لیا کرو یا ایسے مسلہ حل ہو جائے گا میں انہی کی ہدایت پے چلتا تھا لیکن کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔مگر مجھے مطالعے کا بڑا شوق تھا اور ہے۔اللہ نے میرے دل میں ڈالا کہ مجھے اللہ کا کلام سمجھ کر تفسیر کے ساتھ پرھنا چاہیے۔جیسے جیسے کلام سمجھتا جاتا ویسے ویسے الجھنوں کی گٹھان کھلتی جاتی۔یہاں تک کے اللہ نے مجھے مکمل شفاؑ دیدی۔آج بھی اگر کوئی مایوسی آتی ہے قرآن سمجھ کر پڑتا ہوں کونفیڈنس آجاتا ہے۔میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کے آج اللہ کی وحی میرے آگے آگے ہے اور میں اس کے پیچھے پیچھے۔
اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق دے:آمین
 
Top