کاروان اہلحدیث کی برصغیر میں آمد
مقالہ نگار: محمد زکریا شاہد
یہ بات مسلمہ ہے کہ جانباز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہر قول و فعل حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم آہنگ تھا۔ وہ جہاں بھی رخت سفر باندھتے ، تجارت کی غرض سے جاتے غرضیکہ زندگی کے تمام نشیب و فراز میں فرامین رسول عربی صلی اللہ علیہ سے ہی رہنمائی لیتے۔ جب محدثین کی برصغیر آمد ہوئی تو احادیث مبارکہ کا ایک روح پرور ذخیرہ بھی ان کے ساتھ آیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد15 ھ میں اس خطہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پہنچنا شروع ہو گئی تھیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی منزلیں آپ صلی اللہ علیہ کے فرامین و ارشادات کی روشنی میں ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے طرز معاشرت کا ہر گوشہ اور اسلوب زندگی کا ہر پہلو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا وہ گھر میں ہوں یا باہر سفر میں ہوں یا حضر میں ، حالت امن میں ہوں یا جنگ میں ، الغرض زندگی کے تمام نشیب و فراز میں فرامین رسول صلی اللہ علیہ کا گلستان پر بہار ان کے سامنے لہلہاتا رہتا تھا اور اسی کے سائے انہیں روحانی اور جسمانی سکون حاصل ہوتا تھا۔ یہی ان کا مقصد حیات اور سرمایہ زندگی تھا۔ وہ جس ملک میں گئے حدیث رسول صلی اللہ علیہ اپنے ساتھ لے کر گئے۔ برصغیر میں آئے تو یہ انمول خزانہ بھی ساتھ لے کر آئے۔
کاروان اہلحدیث :
برصغیر میں اسلام کے یہ اولین نقوش 15 ھ میں اس خطہ ارضی پر ابھرے اور پھر تاریخ کے ایک خاص تسلسل کے ساتھ پوری تیزی سے لمحہ بہ لمحہ ابھرتے اور نمایاں ہوتے چلے گئے۔ یہ اولین نقوش و آثار اس پر عظمت کارواں کے ہیں جنہیں اصحاب حدیث اور ” اہلحدیث “ کے عظیم الشان لقب سے پکارا جاتا ہے۔ یہی وہ پہلا کارواں تھا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے صرف چار سال بعد برصغیر میں وارد ہوا۔ دوسرا کارواں حدیث تابعین کا ، تیسرا محمد بن قاسم اور ان کے رفقائے عالی قدر کا اور چوتھا کارواں تبع تابعین کا تھا۔
یہ پاکباز لوگ جہاں قدم رکھتے گئے حدیث رسول صلی اللہ علیہ ان کے ہمرکاب رہی یہی ان کی زندگی کا حاصل یہی ان کا اوڑھنا بچھونا اسی کے احکام ان کے شب و روز کا معمول تھا اور یہی ان کا مقصد زیست اور یہی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ یہ چار جلیل القدر کارواں جنہوں نے اپنے دور میں برصغیر کے مختلف علاقوں میں مساعی جمیلہ سر انجام دیں۔ یہی وہ ذی مرتبت حضرات ہیں جنہوں نے یہاں پہلے قال اللہ وقال الرسول صلی اللہ علیہ مسرت انگیز اور بہجت افزا صدائیں بلند کیں۔
ایک اشکال اور اس کا جواب :
بعض حضرات کہتے ہیں کہ برصغیر میں سب سے پہلے حنفی مسلک آیا ، اہلحدیث کی عمر اس ملک میں صرف ڈیڑھ دو سو سال ہے۔ یہ بالکل بے وزن اور حقیقت کے خلاف بات ہے اور ان لوگوں کی ذہنی اختراع ہے جو برصغیر کی اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور سے واقفیت نہیں رکھتے یا اس کا اظہار نہیں کرنا چاہتے بلکہ انہوں نے اپنی اس خواہش کا نام تاریخ رکھ لیا ہے۔
تاریخی واقعات بیان کرنے کیلئے تاریخ کو سمجھنے اور اس کے مختلف گوشوں کو فہم کی گرفت میں لانے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ پچیس جانباز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو یہاں آئے تھے وہ حنفی تھے؟ کیا وہ کسی ذی الحرام امام فقہ کے مقلد تھے؟ کیا ان کے بعد ان کے زمانے میں برصغیر تشریف لانے والے 42 بیالیس تابعین کسی لائق صد احترام شخصیت کے حلقہ تقلید سے وابستہ تھے؟ ہر گز نہیں! وہ براہ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر عمل پیرا تھے اور آپ صلی اللہ علیہ کے فرامین اقدس پر عامل اور ان کے اولین مبلغ تھے اور اسی متاع گراں بہا کی رفاقت میں انہوں نے اس نواح کا رخ فرمایا۔ ان کا مرکز عمل اور نقطہ نظر صرف قرآن و حدیث تھے۔ اس کے علاوہ کوئی بات کبھی بھی ان کے حاشیہ خیال میں نہیں آئی۔
یہ وہ دور ہے جب فقہی مسالک کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور نہ ہی کسی قابل تکریم امام فقہ کا کوئی وجود تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا پہلا کارواں برصغیر میں 15 ھ میں آیا حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس سے 65 سال بعد 80 ھ میں پیدا ہوئے۔ 150 ھ میں انہوں نے رخت سفر باندھا۔ امام مالک رحمہ اللہ 93 ھ میں پیدا ہوئے اور 179 ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ امام شافعی رحمہ اللہ 150 میں اس جہاں ہست و بود میں نمودار ہوئے۔ اور204 ھ میں یہ آفتاب غروب ہو گیا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ولادت 164 ھ ہے اور261 ھ میں مالک حقیقی سے جا ملے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے زمانہ اقدس میں نہ کوئی حنفی تھا نہ کوئی شافعی تھا نہ مالکی نہ ہی حنبلی تھا۔ خالص فرامین پیغمبر اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ کا سکہ چلتا تھا۔ کسی امام فقہ کی تقلید کا ہر گز کوئی تصور نہ تھا جب آئمہ فقہ کی پاکباز ہستیاں دنیا میں موجود ہی نہ تھیں تو تقلید کیسی؟ اور کس کی؟
تقلید کے سلسلے ان کے کئی سو سال بعد پیدا ہوئے پہلے صرف قرآن و حدیث اور فقط کتاب و سنت کی بنیاد پر عمل کی دیواریں استوار کی جاتی تھیں اور اسی پر اسلام کا قصہ رفیع الشان قائم تھا اور اسی کا نام اہلحدیث ہے اور اسی کو ماننے اور حرز جان بنانے والے لوگ سب سے پہلے وارد برصغیر ہوئے ، جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کے پراعزاز لقب سے پکارا جاتا ہے۔ اور جن کے بارے میں قرآن ناطق ہے : ” رضی اللہ عنہم ورضواعنہ “ اللہ تعالیٰ کی خوشنودیاں ان کے حصہ میں آئیں اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
کیا اہلحدیث نیا مذہب ہے؟
جو حضرات گرامی قدر اہلحدیث کو برصغیر میں نیا مذہب قرار دیتے ہیں۔ ہم نہایت ادب و احترام سے ان کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اگر اس خطہ ارضی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیت نئی ہے تو یہ مذہب بھی نیا ہے اگر آپ کی حدیث پاک کا وجود 14 سو سال پہلے سے ہے تو اہلحدیث کا وجود بھی چودہ سو سال سے ہے۔ اور اسی کا نام قدامت اہلحدیث ہے۔
تاریخی حقائق ہمیں بتاتے ہیں اور واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں کہ مسلک اہلحدیث اصل دین اور اسلام کی صحیح ترین تعبیر ہے۔ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی محنت و کاوش سے برصغیر میں آیا اور یہاں کے لوگ اس سے آشنا ہوئے۔ اس کے علاوہ باقی سب فقہی مذاہب یا مسالک ہیں جو بہت بعد میں عالم وجود میں آئے۔ اس وقت حنفیت ، مالکیت ، شافعیت اور حنبلیت کا تصور تک نہ تھا۔
امام ابن تیمیہ کی شہادت :
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقم فرماتے ہیں کہ اہل حدیث کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ آئمہ اربعہ سے پہلے کا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اسی کے مطابق عمل کرتے تھے۔ امام موصوف اس ضمن میں رقم طراز ہیں : ” اہل سنت کا یہ معروف مذہب ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت سے بہت پہلے کا ہے۔ اور یہی مذہب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا ہے جس کی تعلیم انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی جو لوگ اس کے خلاف دوسری راہ اپنائیں گے ان کا شمار اہل بدعت میں ہو گا۔ “ (منہاج السنۃ)
اہل حدیث کے اوصاف بیان کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ لوگ ہر رسول اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ تمام کتب پر ایمان رکھتے ہیں یہ اللہ کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان فرق کرتے ہیں اور نہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو دین میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ (نقض المنطق)
امام صاحب اپنی اسی تصنیف میں اہل حدیث کے بارے میں امام اسماعیل بن عبدالرحمن صابونی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں : ” اہل حدیث کا شیوہ یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت سے تمسک کرتے ہیں۔ اللہ کی وہی صفات بیان کرتے ہیں جو اس نے خود اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمائی ہیں۔ اور جن کا ذکر اس کے رسول صلی اللہ علیہ نے کیا ہے جو احادیث عادل و ثقہ راویوں سے مروی ہیں وہ اس کی صفات کو اس کی مخلوقات کی صفات سے تشبیہ نہیں دیتے نہ ان کی کیفیات بیان کرتے ہیں اور نہ ہی وہ معتزلہ وجہمیہ کی طرح کلام میں تحریف کرتے ہیں۔
اہل حدیث کا منہج :
مسلک اہلحدیث کے اصول و ضوابط اور فروع و اصول قرآن و سنت کے قصر رفیع پر استوار ہیں۔ یہی ان کے حاملین کی روح کی غذا اور یہی ان کے قلب و ضمیر کی صدا ہے۔ زمانہ ہزاروں لاکھوں کروٹیں لے چکا ہے اور ہر صبح نئے سے نئے انقلاب کو اپنے دامن پرُ رونق میں لپیٹ کر لباس شب زیب تن کرتی ہے لیکن قرآن و سنت کے احکام و اوامر اور قوائد و قوانین اپنی جگہ اٹل ہیں۔ ان کے رنگ و روغن میں وہی سج دھج ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے اس کا طرہ امتیاز تھی۔ اس کے حسن و جمال میں وہی نکھار ہے وہی رعنائی وہ زیبائی وہی دلآویزی ہے جو دور نزول میں اس کے ساتھ مختص تھی۔
زمانہ جس نہج پر چل رہا ہے اور یہ عالم رنگ و بو ترقی کی جن منازل پر گامزن ہیں۔ اس کی روشنی میں غور کیا جائے تو وہ وقت دور نہیں جب پوری دنیا صرف قرآن و سنت کو ہی مرکز اطاعت قرار دینے لگے گی اور نبض عالم کی دھڑکنیں اس میں مرکوز ہو کر رہ جائیں گی۔ (ان شاءاللہ)
اہل حدیث کی وسعت قلبی :
یہاں ہم یہ حقیقت بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اہل حدیث کے قلب و ذہن کا کوئی گوشہ فقہ اور آئمہ فقہ کے متعلق قطعاً غبار آلود نہیں۔ وہ آئمہ کرام کی وسعت پذیر مساعی اور گرانقدر خدمات کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو انہوں نے مختلف حالات و ظروف کی روشنی میں اپنے انداز میں سر انجام دی ہیں۔ وہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فراست فقہی ، فطانت علمی اور اجتہادی صلاحیتوں کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اعتراف کرتے ہیں۔
لیکن جو حضرات امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی وراثت کے مدعی بنے بیٹھے ہیں وہ ان کے علم و فضل کو ایک ہی گوشے اور ایک ہی مسلک میں محدود کر رہے ہیں یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توقیر نہیں بلکہ ان کے فیض رسانیوں کی حد بندی ہے۔ ہم امام شافعی رحمہ اللہ کی ان فقید المثال علمی و فقہی خدمات کو بھی کھلے دل سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں جن کی بدولت پہلی بار استناد حدیث کے متعدد گوشے نکھر کر سامنے آئے۔ اور فکر و نظر کی طراوت کا باعث بنے۔
اس طرح اہلحدیث کے نزدیک امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی خدمات جلیلہ اور مساعی جمیلہ بھی از حد لائق تعریف ہیں کہ انہوں نے حفاظت اور صیانت سنت رسول صلی اللہ علیہ کی ذمہ داریوں کو بھی بطریق احسن پورا کیا۔ اور تعلیم و تدریس کی مسانید کو بھی زینت بخشی یہ تمام حضرات صرف کتاب و سنت پر عمل پیرا تھے اور ان کا فرمان ہے کہ اگر ہماری کوئی بات قرآن و حدیث کے ساتھ مطابقت نہ رکھتی ہو تو اسے بالکل نہ مانو۔
یہی اہل حدیث کا عقیدہ بھی ہے یعنی دور صحابہ رضی اللہ عنہ سے لے کر اب تک اہلحدیث کا یہی طرز عمل اور یہی طریق ہے کہ براہ راست قرآن و حدیث کو مانو کیونکہ یہی اسلام کا اصل ماخذ ہے اور وہ اس کیلئے ہر آن کوشاں ہیں۔ گزشتہ دنوں امام کعبہ سماحۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس (حفظہ اللہ) پاکستان کے دورے پر تشریف لائے مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کی طرف سے فقید المثال علماءکنونشن کا انعقاد کیا گیا۔
علماءکنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امام کعبہ نے کہا کہ تمام تر فرقے اور مسالک کو اگر کوئی چیز متحد کر سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف کتاب و سنت ہے۔ مسلمان قرآن و سنت کا اور سلف صالحین کا منہج اختیار کر کے ہر قسم کے چیلنج سے نمٹ سکتے ہیں۔ انہوں نے دلائل کی روشنی میں اہل حدیث کو فرقہ ناجیہ (کامیاب جماعت) قرار دیا۔
راقم السطور کہتا ہے کہ بشری کمزوریوں کی بناءپر ان میں بہت سی خامیاں دیکھی جا سکتی ہیں لیکن جہاں تک ان کے مسلک اور ان کی دعوت کا تعلق ہے اس کے ڈانڈے صحابہ رضی اللہ عنہ کی جماعت سے ملتے ہیں۔
احب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا محمد وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین۔