• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کافروں سے موالات کا کفر اکبر ہونے کیلئے دل سے رضامندی شرط ہے یا نہیں ؟

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
کافروں سے موالات کا کفر اکبر ہونے کیلئے دل سے رضامندی شرط ہے یا نہیں ؟


کچھ لوگ کافروں سے موالات کا کفر اکبر ہونے کیلئے دل سے رضامندی شرط لگاتے ہیں جیسا کہ ایک کتاب "الولا و البرا اور عصر حاضر کی انتہا پسندی" از حاتم بن عارف بن ناصر الشریف نامی کتاب میں لکھا گیا ہے
اقتباس از کتاب "پیچھے گزر چکاہے کہ الولاء والبرا ء میں دل سے عمل کاہونا تکفیر کی شرط ہے مثلاً:کافر سے اس کے کفر کی وجہ سے محبت یامسلمانوں کے دین کے خلاف کفار کے دین کی مدد کرنے کی تمناکرنا کفر ہے رہی بات صرف عملی مدد کی، جومسلمانوں کے خلاف کفار کےلئے ہو تو اس اکیلی (عملی مدد)سےکافر قرار دینا ممکن نہیں ،اس احتمال کی وجہ سے کہ یہ کرنے والاہمیشہ دین اسلام سے محبت اور اس کی مدد کرنے کی دلی تمنا اور خواہش رکھتا ہو۔لیکن اس کے ایمان کی کمزوری نے اسے ایسا بنا دیا کہ وہ دنیا وی معاملے اور مصلحت کو آخرت پر مقدم رکھتا ہے"
اقتباس ختم ہوا

علمائے نجد میں سے فضیلۃ الشیخ حمد بن عتیق﷫ کا موقف


اب اس پر علمائے نجد میں سے فضیلۃ الشیخ حمد بن عتیق﷫ کا موقف سن لیں :کوئی شخص کافروں سے اگراوپر اوپر ہی موافقت کا اظہار کرتا ہو اور ہاں میں ہاں ملاتا ہو جب کہ اس کا دل ، ضمیر اور اندرون کافروں کی مخالفت میں ہی ہو ،حالانکہ وہ شخص کافروں کے تسلط اور کنٹرول میں بھی نہیں ہے کہ جبرواستبداد کی بناپر اس نے ایسا کیا ہو، بلکہ کسی حکومتی اور ریاستی لالچ یا کسی مالی مفاد یا وطن اور اہل و عیال کی محبت و جذبات سے بے بس ہو کر ، آنے والے حوادثات و خطرات سے خوف کھاتے ہوئے اس نے کافروں سے یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کیا ہو، بہر حال و بہر صورت ایسا شخص مرتد ہوگا۔ دل اور ضمیر سے ان کو ناپسند کرنے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔ یہ شخص ان لوگوں میں شامل ہو گا جن کے بارے میں اللہ نے سورۃ النحل(16)،آیت 107 میں فرمایا:
’’ یہ اس لیے کہ انھوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا ہے ۔یقیناً اللہ کافروں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔‘‘

جماعۃ الدعوۃ کے مانے ہوئے مفتی شیخ ابوالولید الانصاری حفظہ اللہ کا اس بارے میں موقف


اسی طرح جماعۃ الدعوۃ کے مانے ہوئے مفتی شیخ ابوالولید الانصاری حفظہ اللہ کا بھی اس بارے میں موقف سن لیں
مفتی ابو الولید الانصاری سے ایسے لوگوں کے بارے میں سوال ہوا جو مجاہدین کے خلاف جنگ میں صلیبیوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں ، یا جنگ میں اسلحہ یا کھانا بھیج کر ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں یا مسلمانوں کے خفیہ راز ان تک پہنچاتے ہیں یا مجاہدین کی سرحدوں ا ور معسکرات کے بارے میں ان کو اطلاع دیتے ہیں۔ کیا مسلمانوں کے لیے ایسے لوگوں سے قتال کرنا جائز ہے؟ ہم نے کئی علماء سے سنا ہے وہ ایسے لوگوں سے اس وقت تک قتال کے حرام ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں جب تک وہ مسلمان ہیں ،ان میں سے بعض تو مسلمان کے لیے ان افواج میں شامل اور بھرتی ہونے اور ان میں کام کرنے کے جواز کا بھی فتویٰ دیتے ہیں جب تک اس کا کام قتال کے علاوہ ہو، ہم پر یہ معاملہ مشکل ہو گیا ،خصوصاً مذکورہ علماء کے فتووں کی موجودگی میں ہم اس معاملے کی وضاحت چاہتے ہیں اور ہمیں اس مسئلے میں حق بات کا بیان مطلوب ہے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.
جواب :اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، وَأَسْتَغْفِرُاللّٰہَ، أَمَّابَعْدُ:سلف صالحین اور ان کے بعد آج تک آنے والے ائمہ مسلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص کسی کافر دشمن کی طاقت اور قوت کے ساتھ مدد کرے، یا اس کے ساتھ شامل ہو کر مدد کرے، یا اس کافر کی حمایت اور طرف داری میں تعصب برتے، یا اس کے دفاع میں قتال کرے، یا ہتھیار اور اسلحہ سے اس کی مدد کرے ،یا اس تک خوراک اور کھانا وغیرہ پہنچائے ، یا ان تک ایسی کوئی بھی چیز پہنچائے جس کے ساتھ وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی جنگ میں مضبوط ہو سکیں، یا اس کافر دشمن کو مسلمانوں کے خفیہ راز پہنچائے تو یقینا وہ شخص ایسے گناہ کا مرتکب ہے جس کا شما ر اکبر الکبائر میں ہوتا ہے اور بے شک اس کلمہ گو کا حکم بھی وہی ہے جو اس کافر دشمن کا حکم ہے، یعنی جس طرح اس کافر دشمن کو قتل کرنا اور اس سے قتال کرنا جائز ہے ،اسی طرح اس کلمہ گو سے قتال کرنا اور اسے قتل کرنا جائز ہے۔ جس کلمہ گو کا یہ حال ہو اور مسلمان اس کو قتل کر دیں تو اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا ۔اس کی کوئی تکریم نہ کی جائے اور جو مسلمان ایسے شخص کو قتل کر دیتا ہے تو اس پر کوئی دیت ہے اور نہ کوئی کفارہ ہی ہے۔
مجاہدین کے لیے جس طرح اس کافر دشمن کو اپنا ہدف بنانا جائز ہے اسی طرح جو کلمہ گو اس کافر دشمن کی مدد کرے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ان کے ساتھ تعاون کرے، اسے بھی ہدف بنانا جائز ہے۔ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی رہنے والا ہو خواہ وہ دشمن کے ساتھ مل کر تعاون کرے یا علیحدہ بیٹھ کر اس کے ساتھ تعاون کرے، خواہ وہ اس مسلم علاقے کا باشندہ ہو جہاں دشمن نے حملہ کیا ہو یا وہ کسی دوسرے ملک کے رہنے والے ہوں جو اس کافر دشمن کی مدد کرتے ہوں، اس میں مکرہ )مجبور کیا جانے والا( اور غیر مکرہ کا کوئی فرق نہیں ہے جب تک وہ ان صفات کے ساتھ متصف ہے جو ہم نے ذکر کی ہیں………
مفتی صاحب آگے چل کر اس فتویٰ کے صفحہ 3 پر لکھتے ہیں(:ہم اس بات کو اللہ تعالیٰ کے لیے اپنا دین بناتے ہیں کہ جو شخص بھی مسلمانوں کے کسی بھی علاقے پر حملہ کرنے والے دشمن کا قوت و بازو بن کر اس کے ساتھ مل جائے گا اور اس کی مدد و نصرت کرے گا یا کسی بھی چیز کے ساتھ اس حملہ آور دشمن کا تعاون کرے جس سے وہ مضبوط ہو سکیں ،یعنی بذات خود لڑکر تعاون کرے یا ان کو اڈے مہیا کر کے تعاون کرے، یا اسلحے کے ساتھ تعاون کرے، یا رائے اور مشورے کے ساتھ ان کے ساتھ تعاون کرے، یا مجاہدین کے خفیہ راز ان تک پہنچائے، یا خوراک اور طعام وغیرہ ان تک پہنچائے تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو اس حملہ آور دشمن کا حکم ہے۔ جس طرح حملہ آور دشمن سے قتال کیا جائے گا اسی طرح اس سے بھی قتال کیا جائے گا جس طرح حملہ آور دشمن کو قتل کیا جائے گا اسی طرح اس کو بھی قتل کیا جائے گا وہ جو بھی ہو اور جدھر کا بھی رہنے والا ہو اگر چہ وہ نمازیں پڑھے اور روزے رکھے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے۔ الا کہ مجاہدین کے امراء و علماء میں سے اہل حل و عقد اور مسلمانوں کے دیانت دار علماء شریعت میں کسی معتبرمصلحت کی بنا پر کسی کو چھوڑ دیں۔

سرحد کے چھ جید سلفی علماء کا متفقہ فتویٰ

افغانستان پر امریکی حملے کے وقت پاکستان کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ)کے چوٹی کے چھ سلفی علماء نے متفقہ فتویٰ جاری کیا جو کہ بعد ازاں جماعۃ الدعوۃ کی ہفت روزہ اخبار غزوہ (موجودہ جرار)میں شائع بھی ہوا تھا۔ اس کا ایک اقتباس اور خلاصہ پیش خدمت ہے:
امریکہ کے افغانستان پر حملہ کی صورت میں تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے۔
افغانستان پر حملہ کی صورت میں کسی اسلامی حکومت پر امریکہ کے ساتھ تعاون اور اس کی نصرت وحمایت کرنا حرام ہے۔
افغانستان پر حملہ کی صورت میں جو شخص بھی امریکہ کے تعاون و نصرت و حمایت میں مرے گا ،اس کی موت کفر کی موت ہے۔
افغانستان پر حملہ کی صورت میں جو مسلمان امریکہ یا اس کے حمایتیوں کے ہاتھوں مرا ،وہ شہید ہے۔
اس فتوی پر درج ذیل علمائے کرام کے دستخط موجود ہیں:
شیخ القرآن عبدالسلام رستمی ﷾
مفتی امین اللہ پشاوری ﷾
شیخ غلام اللہ رحمتی ﷾
شیخ عبدالعزیز نورستانی ﷾
شیخ عبداللہ ہاشمی ﷾
شیخ سمیع اللہ نجیبی﷾
بتائیے اس میں دل سے رضامندی کی شرط کہاں لگائی گئی ہے ؟
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم ۔۔۔۔

ابو بکر نے جو بھی لکھا بغیر حوالے کے لکھا ہے، لہذا پہلے اس سے التماس ہے کہ ان اقتباسات کا حوالہ فراہم کرے باقی باتیں بعد میں کی جائیں گی ، کہ اس نے کہاں کہاں اور کیا کیا تلبیس کی،۔۔۔
شکریہ
منتظر
عبدل​
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
آیت ولایت اور منہج سلف صالحین


(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَاء بَعْضُھُمْ اَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ) (المائدة : ٥١)
'' اے اہل ایمان! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ' وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی رکھے گا تو وہ بھی انہی میں سے ہے ۔''
ایک غلطی کا ازالہ :
اس آیت مبارکہ سے مسلم حکمرانوں اور اداروں کی تکفیر پر ظاہری استدلال بوجوہ ناقص ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت میں یہ بات بالکل واضح موجود ہے کہ یہ خطاب اعتقاد ی منافقین سے ہے۔
کیونکہ اگلی آیت مبارکہ کے الفاظ ہیں:
(فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة) (المائدة : ٥٢)
'' پس آپ ۖ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی یہود و نصاری میں گھستے چلے جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم پر کوئی گردش دوراں نہ آ جائے۔''
اسی طرح اس سے اگلی دو آیات میں بھی منافقین ہی کا تذکرہ ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھٰؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ اِنَّھُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ )۔(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافرِیْنَ)
(المائدة : ٥٣۔٥٤)

'' اور اہل ایمان(ایک دوسرے سے )کہتے ہیں: کیا یہ ہیں وہ لوگ( یعنی منافقین) جنہوں نے اللہ کے بارے میں سخت قسمیں کھاکر کہا تھا کہ وہ لازماً تمہارے (یعنی مسلمانوں) کے ساتھ ہیں۔ان(منافقین) کے اعمال ضائع ہو گئے اور وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگئے۔اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا(مثلاً منافق ہو جائے گا) تو اللہ تعالی ایسی قوم کو لائیں گے جو اللہ سے محبت کرتی ہو گی اور اللہ اس سے محبت کرتے ہوں گے اور یہ قوم اہل ایمان کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہو گی۔ ''

اسی لیے امام المفسرین' امام ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیات منافقین ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھیں۔
امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں:
'' غیر أنہ لا شک أن الآیة نزلت فی منافق کان یوالی یھودا أو نصاری خوفا علی نفسہ من دوائر الدھر لأن الآیة التی بعدہ ھذہ تدل علی ذلک وذلک قولہ : فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض یُسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة.'' (تفسیر طبری : المائدة : ٥١)
'' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایسے منافق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنے بارے میں آنے والے حالات کے خوف سے کسی یہودی یا عیسائی کو قلبی دوست بنا لیتا تھا۔
اس آیت مبارکہ کے بعد والی آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے اور وہ یہ آیت ہے:
"فتری الذین فی قلوبھم مرض یسارعون فیھم یقولون نخشی أن تصیبنا دائرة۔''

پس اب ہم اس آیت کے قطعی و ظنی مفہوم کی تنقیح(وضاحت و بیان) کی طرف آتے ہیں۔

پہلا نکتہ:

اعتقادی منافق کافر ہے لیکن ۔۔۔۔۔:

اگر تو ہمارے حکمران اعتقادی منافق ہیں یعنی وہ یہود و نصاری کے مذہب کو باطل نہیں سمجھتے یا اپنے مذہب کی حقانیت کا انہیں یقین نہیں ہے اور پھربھی یہود و نصاری سے دوستی لگاتے ہیں تو ان کی تکفیر جائز ہے ۔
لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ آپۖ کے زمانے کے اعتقادی منافقین کے عقیدے کے بارے تو بذریعہ وحی آپ کو علم ہو جاتا تھا لیکن آج کل کے اعتقادی منافقین کے نفاق کے بارے علم کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہ اور بعض سلف صالحین کا کہنا یہ ہے کہ اعتقادی نفاق صرف آپۖ کے زمانے میں ہی تھا اس کے بعد عملی نفاق ہے جس کا احادیث میں تذکرہ ہے۔
کیونکہ آپۖ کے زمانے میں عقیدے کا نفاق بذریعہ آیات قرآنیہ معلوم ہوتاتھا اور آج ہمارے پاس کوئی ایسا آلہ نہیں ہے کہ جس کے ساتھ ہم کسی کے باطن میں جھانک کر یا کسی کا دل چیر کر یہ معلوم کر سکیں کہ اس کے دل میں بھی نفاق ہے یا نہیں ۔

پس ظالم وفاسق مسلمان حکمرانوں پر عملی نفاق کا فتویٰ تولگے گا کیونکہ ان میں عملی نفاق کی ساری نشانیاں پائی جاتی ہیں لیکن اعتقادی نفاق کا نہیں۔

بلاشبہ آج بھی اعتقادی منافق ہو سکتے ہیں لیکن بحث یہ ہو رہی ہے کہ کسی کے اعتقادی نفاق کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے اِلا یہ کہ وہ شخص خود بتلائے کہ میں اعتقادی منافق ہو۔
پس جب کوئی حکمران یا عامی اپنے اسلام کا اظہار کر رہا ہو تو اس کو اعتقادی منافق قرار دینا ناممکن' ناقابل فہم اورخلاف نصوص ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا) (النساء:٩٤)
'' جو تمہارے سامنے اپنے سلام (یعنی السلام علیکم کہے یا کلمہ شہادت)کو ظاہر کرے تو اس کو یہ نہ کہو: تم مومن نہیں ہو''۔

یہ آیت مبارکہ ان مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں صریح ہے جو حربی یہود و نصاریٰ سے دوستی رکھتے ہیں اور وہ مسلمان عقیدے کے منافق بھی ہوں۔ اگر کوئی مسلمان حکمران حربی یہود و نصاریٰ سے دوستی تو رکھتا ہے لیکن ان کے مذہب کو باطل اور مذہب اسلام کو حق سمجھتا ہے تو ایسی دوستی اگرچہ حرام اورممنوع ہے لیکن اس کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایاجائے گا۔

امام رازی اور امام ابن عادل الحنبلی لکھتے ہیں:

'' موالاة الکافر تنقسم ثلاثة أقسام : الأول : أن یرضی بکفرہ، ویصوبہ،ویوالیہ لأجلہ،فھذا کافر،لأنہ راض بالکفر ومصوب لہ. الثانی : المعاشرة الجمیلة بحسب الظاھر، وذلک غیر ممنوع منہ. الثالث : المولاة : بمعنی الرکون ا لیھم والمعونة والنصرة امابسب القرابة واما بسبب المحبة مع اعتقاد أن دینہ باطل فھذا منھی عنہ ولا یوجبہ الکفر.'' (اللباب فی علوم الکتاب : آل عمران : ٢٨) (تفسیر الرازی : آل عمران : ٢٨)

'' کافر سے تعلق ولایت تین قسم پر ہے:
پہلی قسم تو یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس کے کفر پر راضی ہو اور اس کے کفر کی تصویب کرتا ہو اور اسی وجہ سے اس سے قلبی تعلق رکھتا ہو تو ایسا شخص بھی کافر ہے کیونکہ یہ کفر پر راضی بھی ہے اور کفر کی تصدیق بھی کرتا ہے۔
دوسری قسم اس تعلق کی یہ ہے کہ جس میں کسی کافر سے ظاہری طور پر اچھے طریقے سے معاشرت اختیار کرنا مقصود ہواور ایسا تعلق ممنوع نہیں ہے۔
تیسری قسم اس تعلق کی یہ ہے کہ جس میں کافروں پر اعتماد ' ان کی اعانت اور نصرت ہواور اس کا سبب یا تو قرابت داری ہو یا پھران کی محبت ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ عقیدہ بھی ہو کہ ان کا دین باطل ہے تو ایسا تعلق اگرچہ ممنوع ہے لیکن موجب کفر نہیں ہے۔''
دوسرا نکتہ :

مفاد کے تحت کفار سے دوستی :

یہ امر بالکل واضح ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی اکثریت یہود و نصاریٰ سے دوستیاں اس وجہ سے کرتی ہے کہ وہ ان سے ڈرتے ہیں۔
یعنی یہود و نصاریٰ کی ٹیکنالوجی کا ڈر' عیش پرستی' کاہلی و سستی ' موت کا خوف، مال اور عہدے کی محبت وغیرہ ایسے امور ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے حکمران حربی یہود و نصاری سے دوستی کرتے ہیں۔پس اس صورت میں یہ حکمران فاسق و فاجر اور عملی منافق تو قرار پائیں گے لیکن ایسے کافر نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہوں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے اپنے بچاؤ کی تدبیر کے طور پر ان سے ظاہری دوستی کی اجازت دی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاةً) (آل عمران : ٢٨)
''پس اہل ایمان' اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم (یعنی اہل ایمان) ان کافروں (کی اذیت)سے بچنا چاہو کچھ بچنا''۔
حکمرانوں کے دلوں میں کافروں اور یہود و نصاری کا جو خوف ، دبدبہ اور رعب بیٹھا ہوا ہے اس کے بارے میں یہ بحث تو ہو سکتی ہے کہ وہ ہونا چاہیے یا نہیں لیکن اس آیت مبارکہ کایہ استثناء بہر حال یہود و نصاریٰ سے دوستی کی بنیاد پر حکمرانوں کی تکفیر میں ایک صریح مانع ہے۔

اس آیت مبارکہ میں'تقاة'سے مراد سلف صالحین نے تقیہ اور خوف دونوں لیے ہیں۔
امام شنقیطی المالکی فرماتے ہیں:
کہ اگر دشمن کے خوف کے سبب سے کوئی مسلمان ان سے تعلق ولایت کا اظہار کرے تو یہ جائز ہے۔
وہ" یأیھا الذین آمنوا لا تتخذوا الیھود والنصاری أولیاء ' کے تحت لکھتے ہیں:
'' وبین فی مو ضع آخر : أن محل ذلک،فیماا ذا لم تکن الموالاة بسبب خوف وتقیة وإن کانت بسبب ذلک فصاحبھا معذور وھو قولہ تعالی : لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْتَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاة.'' (أضواء البیان : المائدة : ٥١)
'' ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہود و نصاری سے یہ تعلق ولایت کسی خوف یا بچاؤ کے سبب سے نہ ہو' اور اگر یہود و نصاری سے تعلق ولایت اس سبب( یعنی خوف یا ان کی اذیت سے بچاؤ) کے تحت ہو تو ایسا شخص معذور ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی کا قول ہے:''پس اہل ایمان' اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم (یعنی اہل ایمان) ان کافروں (کی اذیت )سے بچنا چاہو کچھ بچنا''۔
امام نسفی الحنفی نے بھی یہی معنی بیان فرمایا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
(اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاة) الا أن تخافوا من جھتھم أمرا یجب اتقاؤہ أی لا أن یکون للکافر علیک سلطان فتخافہ علی نفسک ومالک فحینئذ یجوز لک ا ظھار الموالاة وابطان المعاداة.'' (تفسیر نسفی : آل عمران : ٢٨)
(الا أن تتقوا منھم تقاة) کا معنی یہ ہے کہ تمہیں ان کی طرف سے کسی ایسے امر کا اندیشہ ہو کہ جس سے بچنا لازم ہویعنی یہ کہ کسی کافر کو تم پر غلبہ حاصل ہو اور تمہیں اس کافر سے اپنے جان اور مال کا خوف لاحق ہو تو اس وقت تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم کافر سے دوستی کا اظہار کرو اور اس سے دشمنی کو چھپا لو۔''
امام بیضاوی الشافعی نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے کہ خوف کے وقت دشمن کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
'' منع عن موالاتھم ظاھرا وباطنا فی الأوقات کلھا لا وقت المخافة فن اظھار الموالاة حینئذ جائز.'' (تفسیر بیضاوی : آل عمران : ٢٨)
'اللہ تعالیٰ نے جمیع حالات میں کفار سے ظاہری یا باطنی تعلق ولایت قائم کرنے سے منع فرمایا ہے سوائے خوف کی حالت کے ' کیونکہ اس حالت میں کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔''
تیسرا نکتہ :

آیت کریم میں مخاطب کون ؟

یہ واضح رہے کہ(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) میں اصلاً مراد اعتقادی منافقین ہیں جیسا کہ آیت کے ْسیاق و سباق سے واضح ہے اور اس آیت کا قطعی مفہوم یہی ہے۔
لیکن تبعاً اس خطاب میں مسلمان بھی شامل ہیں۔پس اگر اعتقادی منافق مسلمان، یہود و نصاری سے دوستی رکھے تو اس کی تکفیر ہو گی جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اور اگر کوئی ظالم وفاسق مسلمان حربی یہود و نصاری سے دوستی رکھے تو پھر(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)سے مراد تحذیر میں شدت(یعنی ڈرانے اور دھمکانے میں مبالغہ) ہے۔
جیسا کہ قرآن کی آیت(فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ)اور حدیث مبارکہ((مَنْ حمل عَلَیْنَا السَّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا)) میں اصل مقصود شدت تحذیر ہے نہ کہ ملت سے اخراج۔

امام رازی (وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ) قال ابن عباس : یرید کأنہ مثلھم وھذا تغلیظ من اللہ وتشدید فی وجوب مجانبة المخالف فی الدین ونظیرہ قولہ ( ومن لم یطعمہ فانہ منی).'' (تفسیر رازی : المائدة : ٥١)
و من یتولھم منکم فانہ منھم کا معنی حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہ بیان کیا ہے کہ گویا کہ وہ شخص انہی یعنی کفار کی مانند ہو گا۔اور یہ اللہ کی طرف سے دین اسلام کی مخالفت کرنے والے کفار سے کنارہ کشی کے وجوب کے بارے ایک سختی اور شدت کا اسلوب ہے اور اس کی مثال اللہ تعالی کا قول'ومن لم یطعمہ فانہ منی'ہے ۔''
امام بیضاوی نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے۔ (تفسیر بیضاوی : المائدة : ٥١)۔
امام نسفی الحنفی کا رجحان بھی اسی قول کی طرف ہے۔امام صاحب(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
'' من جملتھم وحکمہ حکمھم وھذا تغلیظ من اللہ وتشدید فی وجوب مجانبة المخالف فی الدین.'' (تفسیر نسفی : المائدة : ٥١)
'' یعنی وہ شخص من جملہ انہی میں سے ہے اور اس کا حکم وہی ہے جو ان کا حکم ہے اور یہ اللہ کی طرف سے دین اسلام کی مخالفت کرنے والے کفار سے کنار ہ کشی کے وجوب کے بارے میں ایک سختی اور شدت کا اسلوب ہے۔''
ابن عاشور المالکی نے تو اس بات پر امت کا اجماع نقل کیا ہے کہ
اگر کوئی شخص کسی کافر یا غیر مسلم سے تعلق ولایت رکھتا ہے، کفار سے محبت رکھتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے لیکن ان کے مذہب کو صحیح نہیں سمجھتااور اسلام کو دین حق سمجھتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور ضال تو ہے لیکن بالاتفاق کافر نہیں ہے۔
ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ) سے مراد یا تو تحذیر و تشدید ہے یا پھر کافر کے دین کو صحیح سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ ولایت کا تعلق قائم کرنے پر یہ وعید ہے اور مختلف علماء نے اس آیت کی ان دو میں سے کوئی ایک تاویل کی ہے۔
وہ فرماتے ہیں:
(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ) من شرطیة تقتضی أن کل من یتولاھم یصیر واحدا منھم...وقد تأولھا المفسرون بأحد تأویلین : ما بحمل الولایة فی قولہ ومن یتولھم علی الولایة الکاملة التی ھی الرضی بدینھم والطعن فی دین الاسلام ولذلک قال ابن عطیة : ومن تولاھم بمعتقدہ ودینہ فھو منھم فی الکفر والخلود فی النار وأما بتاویل قولہ : فنہ منھم علی التشبیة البلیغ أی فھو کواحد منھم فی استحقاق العذاب قال ابن عطیة : من تولاھم بأفعالہ من العضد ونحوہ دون معتقدھم ولا خلال بالیمان فھو منھم فی المقت والمذمة الواقعة علیھم... وقد اتفق علماء السنة علی أن ما دون الرضا بالکفر وموالاتھم علیہ من الولایة لا یوجب الخروج من الربقة السلامیة ولکنہ ضلال عظیم وھو مراتب فی القوة بحسب قوة الموالاة وباختلاف أحوال المسلمین.'' (التحریر والتنویر: المائدة : ٥١)
'' ومن یتولھم منکم فانہ منھم میں 'من' شرطیہ ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ جس نے بھی ان کفار سے تعلق ولایت قائم کیا وہ انہی میں سے ایک ہو گا...لیکن مفسرین نے اس آیت کی دو میں سے کوئی ایک تاویل کی ہے۔یا تو اللہ تعالی کے قول 'ومن یتولھم'میں ولایت سے مراد ولایت کاملہ یعنی کافروں کے دین پر راضی ہو جانا اور دین اسلام پر طعن کرناہے ۔
اسی لیے ابن عطیہ نے کہا ہے:
جس نے کفار سے تعلق ولایت اپنے عقیدے اور دین کی وجہ سے رکھاتو ایسا مسلمان کفر اور دائمی جہنمی ہونے کے اعتبار سے انہی کفار کی مانند ہے
۔
اس آیت کی دوسری تاویل یہ کی گئی ہے کہ یہ تشبیہ بلیغ ہے[تشبیہ بلیغ اس کو کہتے ہیں کہ جس میں حرف تشبیہ محذوف ہو] یعنی مراد یہ ہے کہ مسلمان عذاب کا مستحق ہونے میں انہی کفار جیسا ہے
۔
ابن عطیہ نے کہا ہے:
جس مسلمان نے ان کفار سے تعلق اپنے افعال مثلاً ان کی مدد ونصرت وغیرہ کے ذریعے رکھا لیکن انکے جیسا اس کا عقیدہ نہیں ہے اور نہ ہی ان افعال کی وجہ سے اس کا ایمان غائب ہوا ہو تو ایسا مسلمان اللہ کے اس غصے اور مذمت کا مستحق ہے جو ان کفار کے بارے میں وارد ہوئی ہے
...علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب تک کفر پر رضامندی کے بغیر اور کفار سے کسی معاہدے کی بنا پر اس سے تعلق ولایت صادر ہوتو ایسا تعلق اسلام کے دائرے سے اخراج کا باعث نہیں ہے لیکن ایک بڑی گمراہی ضرور ہے اور اس گمراہی کے مراتب بھی کفار سے تعلق ولایت کی شدت اور مسلمانوں کے احوال و ظروف کے اعتبار سے مختلف ہوں گے۔
''
تولی موالات بارے میں سے سلف صالحین سے صرف چند اقتباسات پیش کیئے ہیں ، باقی انشاء اللہ ابو بکر کے اوپر بیان کردہ غیر مصدقہ اور بغیر حوالے کے اقتباسات کے حوالہ جات آنے کے بعد پیش کئے جائیں گے
الحمد اللہ رب العالمین​
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
بی بی سی اردو:
آخری وقت اشاعت: منگل 11 ستمبر 2012 ,‭ 11:09 GMT 16:09 PST

فاکس نیوز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اس انٹرویو میں شکیل آفریدی نے کہا کہ انہیں یہ ضرور معلوم تھا کہ ایبٹ آباد کے اس مکان میں چند دہشت گرد مقیم ہیں تاہم ان کی شناخت سے وہ ناواقف تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے جو کام دیا گیا تھا اس کے علاوہ کسی مخصوص ہدف کا علم نہیں تھا۔ مجھے دھچکا لگا اور یقین نہیں آیا کہ میں اس(اسامہ) کی ہلاکت سے جڑا ہوا تھا‘۔

ڈاکٹر آفریدی کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگا تھا کہ انہیں اسامہ کی ہلاکت کے بعد پاکستان چھوڑنے کی ضرورت ہے لیکن پھر انہیں آئی ایس آئی نے اغوا کر لیا۔’

ان کے مطابق سی آئی اے نے انہیں افغانستان چلے جانے کو کہا تھا۔ تاہم وہ سرحدی علاقوں کی صورتحال کی وجہ سے خدشات کا شکار تھے اور ان کے خیال میں چونکہ وہ بن لادن کی ہلاکت میں ملوث نہیں تھے اس لیے انہیں ملک چھوڑنے کی ضرورت نہیں تھی۔

شکیل آفریدی نے بات چیت کے دوران اسلام آباد کے علاقے آبپارہ میں واقع آئی ایس آئی کے حراستی مرکز میں ہونے والے تشدد کا بھی ذکر کیا جہاں انہیں ابتدائی تفتیش کے لیے رکھا گیا تھا۔

ان کے مطابق تفتیش کے دوران ان کے جسم پر سگریٹ بجھائے گئے، انہیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور انہیں پرانے بوسیدہ کپڑے پہنا کر زمین پر پڑی پلیٹ سے ’کتے‘ کی طرح کھانے پر مجبور کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ تفتیش کے دوران آئی ایس آئی کے اہلکار انہیں کہتے رہے کہ
’امریکی ہمارے بدترین دشمن ہیں، بھارتیوں سے بھی برے دشمن‘۔
پشاور سنٹرل جیل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ
آئی ایس آئی بلاشبہ حقانی نیٹ ورک کی مالی امداد کرتی ہے۔ امریکہ کافی عرصے سے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اس کے قبائلی علاقوں خاص کر شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کیا جائے۔
ڈاکٹر آفریدی نے الزام عائد کیا کہ،
پاکستانی خفیہ ادارہ اکثر امریکہ کو حراست میں لیے گئے بہت سے اہم مسلح شدت پسندوں سے تفتیش نہیں کرنے دیتا اور اکثر ان شدت پسندوں کو افغانستان میں نیٹو افواج پر حملے کرنے کے لیے رہا بھی کر دیتا ہے۔
ماضی میں پاکستان ان الزامات کی کئی بار تردید کر چکا ہے۔

ڈاکٹر آفریدی کا کہنا تھا کہ
پاکستان کی شدت پسندی کے خلاف جنگ ایک ڈھونگ اور امریکہ سے پیسے نکلوانے کا ایک طریقہ ہے۔
اس انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ،
آئی ایس آئی بہت سے مسلح شدت پسندوں کو امریکی تفتیشی افسران سے جھوٹ بولنے اور غلط معلومات فراہم کرنے کی ہدایات دیتا ہے۔
تجزیہ کار شوکت قادر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ سکیورٹی اداروں میں ایسے لوگ ہوں جو اس موقف کے حامی ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اکثریت ایسا ہی سوچتی ہے۔

القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد دینے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کہنا ہے کہ
پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے حکام امریکہ کو اپنا ’بدترین دشمن‘ مانتے ہیں۔
ڈاکٹر آفریدی کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بیس دن بعد گزشتہ برس بائیس مئی کو پشاور کے علاقے حیات آباد سے حراست میں لیا گیا تھا۔ انہیں بعدازاں ایک شدت پسند تنظیم کی حمایت اور مالی امداد کے جرم میں تینتیس برس قید کی سزا سنائی گئی اور اب وہ پشاور کی جیل میں قید ہیں۔
نجی امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کے مطابق حراست میں لیے جانے کے بعد پہلی مرتبہ جیل سے دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر آفریدی نے یہ بھی بتایا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ امریکی آپریشن کا ہدف کون ہے۔
ڈاکٹر آفریدی نے مزید بتایا کہ آبپارہ جیل میں کئی مغربی سیاہ فام باشندے بھی قید ہیں جو کہ اسلام قبول کرنے کے بعد افغانستان میں جہاد کے مقاصد سے آئے تھے اور ایسے افراد کو خاص طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے
جبکہ عرب قیدیوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔

یہ باور کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی نے یہ انٹرویو موبائل فون کی مدد سے دیا ہے۔

پشاور جیل کے حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ انٹرویو کی اطلاعات پر حیران ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر شکیل کو ان کے قید خانے میں موبائل فون پہنچایا گیا ہو۔

شکیل آفریدی کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر پاکستانی حکام کی جانب سے تاحال کوئی سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے
لنک۔۔۔۔۔۔بی بی سی اردو: آئی ایس آئی امریکہ کو بدترین دشمن مانتی ہے
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
رہنے دیجئے عبداللہ عبدل بھائی۔ یہ لوگ نہیں ماننے والے۔
پہلے کہتے ہیں کہ دجالی میڈیا اپنے دوستوں کے بارے میں درست خبر دے گا اور مجاہدین کے بارے ہمیشہ غلط خبر دے گا۔
ادھر بی بی سی نے پوری ڈاکومنٹری بنا کر رکھ دی کہ پاکستان خفیہ طور پر امریکہ سے امداد لے کر اسی کے ہاتھ کاٹنے میں لگا ہوا ہے، درج بالا بی بی سی کی خبر سمیت ایسی سب خبریں ان کی نظر میں دجالی میڈیا کا دجل قرار پا جاتی ہیں۔
دجل تو ان کا اپنا ہی ہے کہ مسلمانوں سے اور پاکستان سے دشمنی میں ایسے اندھے ہوئے جاتے ہیں، تعصب نے ان کے دل ایسے سیاہ کر دئے ہیں کہ سفید جھوٹ بولتے بھی نہیں شرماتے۔ رائی کا پہاڑ کر دکھاتے ہیں اور پہاڑ کو ناک کی مکھی کی طرح اڑا دیتے ہیں۔

عام مسلمان شہریوں کی زندگیوں سے آئے دن کھیلتے ہیں اور اسے جہاد قرار دیتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو قتل کرنے اور امت میں فساد پھیلانے والے جہاد کے نتیجہ میں بس جنت کا واحد ٹھیکہ انہی کو ملا رہے۔
کمال ہے کہ یہ لوگ کفار سے موالات کے لئے دل کی رضامندی تک کی شرط نہیں لگاتے۔ جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دوران جنگ موت کو سامنے دیکھ کر کلمہ پڑھ لینے والے کافر کو قتل کرنے پر صحابی سے فرماتے ہیں کہ کیا تونے اس کے دل میں جھانک کر دیکھ لیا تھا؟

کاش یہ لوگ ظالم حکمرانوں کو ان کے ظلم سے روکنے کے لئے کوئی مؤثر حکمت عملی بناتے۔ کروڑوں عوام ان ظالم حکمرانوں سے نجات پانے کے لئے ان کے ساتھ ہوتے۔
لیکن ان کی حکمت عملی کے تحت تو ایسا لگتا ہے کہ اربوں مسلمانوں کی آبادی میں سے بس یہی چند ہزار لوگوں کا گروہ مسلمان رہ گیا ہے۔ جن کی بات ہی مسلمانوں پر کفر کے فتوے اور ان کو قتل کرنے سے ہوتی ہو، ان سے کوئی کیا اور کیسے تعاون کرے۔ اللہ ہی ہدایت دے انہیں بھی اور ہمیں بھی۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
راجا بھائی بجا فرمایا آپ نے ، بس مسئلہ "انا" کا بنا چکے ہیں یہ بھائی لوگ۔ جو بھی کہتے رہیں ،مگر میں ان کے مکروہ چہروں اور نظر یات کی حقیقت اسی طرح کھولتا رہوں گا اور ان سے اسی طرح مجادلہ کرتا رہوں گا۔ ان شاء اللہ÷۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
راجا بھائی بجا فرمایا آپ نے ، بس مسئلہ "انا" کا بنا چکے ہیں یہ بھائی لوگ۔ جو بھی کہتے رہیں ،مگر میں ان کے مکروہ چہروں اور نظر یات کی حقیقت اسی طرح کھولتا رہوں گا اور ان سے اسی طرح مجادلہ کرتا رہوں گا۔ ان شاء اللہ÷۔۔
اللہ تعالیٰ توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین۔
 
Top