کافروں سے موالات کا کفر اکبر ہونے کیلئے دل سے رضامندی شرط ہے یا نہیں ؟
کچھ لوگ کافروں سے موالات کا کفر اکبر ہونے کیلئے دل سے رضامندی شرط لگاتے ہیں جیسا کہ ایک کتاب "الولا و البرا اور عصر حاضر کی انتہا پسندی" از حاتم بن عارف بن ناصر الشریف نامی کتاب میں لکھا گیا ہے
اقتباس از کتاب "پیچھے گزر چکاہے کہ الولاء والبرا ء میں دل سے عمل کاہونا تکفیر کی شرط ہے مثلاً:کافر سے اس کے کفر کی وجہ سے محبت یامسلمانوں کے دین کے خلاف کفار کے دین کی مدد کرنے کی تمناکرنا کفر ہے رہی بات صرف عملی مدد کی، جومسلمانوں کے خلاف کفار کےلئے ہو تو اس اکیلی (عملی مدد)سےکافر قرار دینا ممکن نہیں ،اس احتمال کی وجہ سے کہ یہ کرنے والاہمیشہ دین اسلام سے محبت اور اس کی مدد کرنے کی دلی تمنا اور خواہش رکھتا ہو۔لیکن اس کے ایمان کی کمزوری نے اسے ایسا بنا دیا کہ وہ دنیا وی معاملے اور مصلحت کو آخرت پر مقدم رکھتا ہے"
اقتباس ختم ہوا
علمائے نجد میں سے فضیلۃ الشیخ حمد بن عتیق کا موقف
اب اس پر علمائے نجد میں سے فضیلۃ الشیخ حمد بن عتیق کا موقف سن لیں :کوئی شخص کافروں سے اگراوپر اوپر ہی موافقت کا اظہار کرتا ہو اور ہاں میں ہاں ملاتا ہو جب کہ اس کا دل ، ضمیر اور اندرون کافروں کی مخالفت میں ہی ہو ،حالانکہ وہ شخص کافروں کے تسلط اور کنٹرول میں بھی نہیں ہے کہ جبرواستبداد کی بناپر اس نے ایسا کیا ہو، بلکہ کسی حکومتی اور ریاستی لالچ یا کسی مالی مفاد یا وطن اور اہل و عیال کی محبت و جذبات سے بے بس ہو کر ، آنے والے حوادثات و خطرات سے خوف کھاتے ہوئے اس نے کافروں سے یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کیا ہو، بہر حال و بہر صورت ایسا شخص مرتد ہوگا۔ دل اور ضمیر سے ان کو ناپسند کرنے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔ یہ شخص ان لوگوں میں شامل ہو گا جن کے بارے میں اللہ نے سورۃ النحل(16)،آیت 107 میں فرمایا:
’’ یہ اس لیے کہ انھوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا ہے ۔یقیناً اللہ کافروں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔‘‘
جماعۃ الدعوۃ کے مانے ہوئے مفتی شیخ ابوالولید الانصاری حفظہ اللہ کا اس بارے میں موقف
اسی طرح جماعۃ الدعوۃ کے مانے ہوئے مفتی شیخ ابوالولید الانصاری حفظہ اللہ کا بھی اس بارے میں موقف سن لیں
مفتی ابو الولید الانصاری سے ایسے لوگوں کے بارے میں سوال ہوا جو مجاہدین کے خلاف جنگ میں صلیبیوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں ، یا جنگ میں اسلحہ یا کھانا بھیج کر ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں یا مسلمانوں کے خفیہ راز ان تک پہنچاتے ہیں یا مجاہدین کی سرحدوں ا ور معسکرات کے بارے میں ان کو اطلاع دیتے ہیں۔ کیا مسلمانوں کے لیے ایسے لوگوں سے قتال کرنا جائز ہے؟ ہم نے کئی علماء سے سنا ہے وہ ایسے لوگوں سے اس وقت تک قتال کے حرام ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں جب تک وہ مسلمان ہیں ،ان میں سے بعض تو مسلمان کے لیے ان افواج میں شامل اور بھرتی ہونے اور ان میں کام کرنے کے جواز کا بھی فتویٰ دیتے ہیں جب تک اس کا کام قتال کے علاوہ ہو، ہم پر یہ معاملہ مشکل ہو گیا ،خصوصاً مذکورہ علماء کے فتووں کی موجودگی میں ہم اس معاملے کی وضاحت چاہتے ہیں اور ہمیں اس مسئلے میں حق بات کا بیان مطلوب ہے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا.
جواب :اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، وَأَسْتَغْفِرُاللّٰہَ، أَمَّابَعْدُ:سلف صالحین اور ان کے بعد آج تک آنے والے ائمہ مسلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص کسی کافر دشمن کی طاقت اور قوت کے ساتھ مدد کرے، یا اس کے ساتھ شامل ہو کر مدد کرے، یا اس کافر کی حمایت اور طرف داری میں تعصب برتے، یا اس کے دفاع میں قتال کرے، یا ہتھیار اور اسلحہ سے اس کی مدد کرے ،یا اس تک خوراک اور کھانا وغیرہ پہنچائے ، یا ان تک ایسی کوئی بھی چیز پہنچائے جس کے ساتھ وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی جنگ میں مضبوط ہو سکیں، یا اس کافر دشمن کو مسلمانوں کے خفیہ راز پہنچائے تو یقینا وہ شخص ایسے گناہ کا مرتکب ہے جس کا شما ر اکبر الکبائر میں ہوتا ہے اور بے شک اس کلمہ گو کا حکم بھی وہی ہے جو اس کافر دشمن کا حکم ہے، یعنی جس طرح اس کافر دشمن کو قتل کرنا اور اس سے قتال کرنا جائز ہے ،اسی طرح اس کلمہ گو سے قتال کرنا اور اسے قتل کرنا جائز ہے۔ جس کلمہ گو کا یہ حال ہو اور مسلمان اس کو قتل کر دیں تو اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا ۔اس کی کوئی تکریم نہ کی جائے اور جو مسلمان ایسے شخص کو قتل کر دیتا ہے تو اس پر کوئی دیت ہے اور نہ کوئی کفارہ ہی ہے۔
مجاہدین کے لیے جس طرح اس کافر دشمن کو اپنا ہدف بنانا جائز ہے اسی طرح جو کلمہ گو اس کافر دشمن کی مدد کرے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ان کے ساتھ تعاون کرے، اسے بھی ہدف بنانا جائز ہے۔ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی رہنے والا ہو خواہ وہ دشمن کے ساتھ مل کر تعاون کرے یا علیحدہ بیٹھ کر اس کے ساتھ تعاون کرے، خواہ وہ اس مسلم علاقے کا باشندہ ہو جہاں دشمن نے حملہ کیا ہو یا وہ کسی دوسرے ملک کے رہنے والے ہوں جو اس کافر دشمن کی مدد کرتے ہوں، اس میں مکرہ )مجبور کیا جانے والا( اور غیر مکرہ کا کوئی فرق نہیں ہے جب تک وہ ان صفات کے ساتھ متصف ہے جو ہم نے ذکر کی ہیں………
مفتی صاحب آگے چل کر اس فتویٰ کے صفحہ 3 پر لکھتے ہیں(:ہم اس بات کو اللہ تعالیٰ کے لیے اپنا دین بناتے ہیں کہ جو شخص بھی مسلمانوں کے کسی بھی علاقے پر حملہ کرنے والے دشمن کا قوت و بازو بن کر اس کے ساتھ مل جائے گا اور اس کی مدد و نصرت کرے گا یا کسی بھی چیز کے ساتھ اس حملہ آور دشمن کا تعاون کرے جس سے وہ مضبوط ہو سکیں ،یعنی بذات خود لڑکر تعاون کرے یا ان کو اڈے مہیا کر کے تعاون کرے، یا اسلحے کے ساتھ تعاون کرے، یا رائے اور مشورے کے ساتھ ان کے ساتھ تعاون کرے، یا مجاہدین کے خفیہ راز ان تک پہنچائے، یا خوراک اور طعام وغیرہ ان تک پہنچائے تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو اس حملہ آور دشمن کا حکم ہے۔ جس طرح حملہ آور دشمن سے قتال کیا جائے گا اسی طرح اس سے بھی قتال کیا جائے گا جس طرح حملہ آور دشمن کو قتل کیا جائے گا اسی طرح اس کو بھی قتل کیا جائے گا وہ جو بھی ہو اور جدھر کا بھی رہنے والا ہو اگر چہ وہ نمازیں پڑھے اور روزے رکھے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے۔ الا کہ مجاہدین کے امراء و علماء میں سے اہل حل و عقد اور مسلمانوں کے دیانت دار علماء شریعت میں کسی معتبرمصلحت کی بنا پر کسی کو چھوڑ دیں۔
سرحد کے چھ جید سلفی علماء کا متفقہ فتویٰ
افغانستان پر امریکی حملے کے وقت پاکستان کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ)کے چوٹی کے چھ سلفی علماء نے متفقہ فتویٰ جاری کیا جو کہ بعد ازاں جماعۃ الدعوۃ کی ہفت روزہ اخبار غزوہ (موجودہ جرار)میں شائع بھی ہوا تھا۔ اس کا ایک اقتباس اور خلاصہ پیش خدمت ہے:
امریکہ کے افغانستان پر حملہ کی صورت میں تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے۔
افغانستان پر حملہ کی صورت میں کسی اسلامی حکومت پر امریکہ کے ساتھ تعاون اور اس کی نصرت وحمایت کرنا حرام ہے۔
افغانستان پر حملہ کی صورت میں جو شخص بھی امریکہ کے تعاون و نصرت و حمایت میں مرے گا ،اس کی موت کفر کی موت ہے۔
افغانستان پر حملہ کی صورت میں جو مسلمان امریکہ یا اس کے حمایتیوں کے ہاتھوں مرا ،وہ شہید ہے۔
اس فتوی پر درج ذیل علمائے کرام کے دستخط موجود ہیں:
شیخ القرآن عبدالسلام رستمی ﷾
مفتی امین اللہ پشاوری ﷾
شیخ غلام اللہ رحمتی ﷾
شیخ عبدالعزیز نورستانی ﷾
شیخ عبداللہ ہاشمی ﷾
شیخ سمیع اللہ نجیبی﷾
بتائیے اس میں دل سے رضامندی کی شرط کہاں لگائی گئی ہے ؟