تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۲۱۱۱، ومصباح الزجاجة: ۱۴۴۲) (ضعیف)
( سند میں ابوقلابہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ا س لئے یہ ضعیف ہے لیکن حدیث کا معنی ابن ماجہ کی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے، اس حدیث میں «فإنه خليفة الله المهدي» کا لفظ صحیح نہیں ہے، جس کی روایت میں ابن ماجہ یہاں منفرد ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ۸۵)
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف
الثوري عنعن (تقدم:90) ولبعض الحديث شواهد
قال الشيخ الألباني: ضعيف
سنن ابن ماجہ میں عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے حدیث رايات سود یعنی کالے جھنڈوں والی روایت مروی ہے-
4082 .
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَ فِتْيَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ فَلَمَّا رَآهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ وَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ قَالَ فَقُلْتُ مَا نَزَالُ نَرَى فِي وَجْهِكَ شَيْئًا نَكْرَهُهُ فَقَالَ إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ اخْتَارَ اللَّهُ لَنَا الْآخِرَةَ عَلَى الدُّنْيَا وَإِنَّ أَهْلَ بَيْتِي سَيَلْقَوْنَ بَعْدِي بَلَاءً وَتَشْرِيدًا وَتَطْرِيدًا حَتَّى يَأْتِيَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَعَهُمْ رَايَاتٌ سُودٌ فَيَسْأَلُونَ الْخَيْرَ فَلَا يُعْطَوْنَهُ فَيُقَاتِلُونَ فَيُنْصَرُونَ فَيُعْطَوْنَ مَا سَأَلُوا فَلَا يَقْبَلُونَهُ حَتَّى يَدْفَعُوهَا إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَيَمْلَؤُهَا قِسْطًا كَمَا مَلَئُوهَا جَوْرًا فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَلْيَأْتِهِمْ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ
حکم : ضعیف
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے فرمایا : ہم لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنوہاشم کے کچھ جوان آگئے ۔ جب نبی ﷺ نے انھیں دیکھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور (چہرہ مبارک کا)رنگ تبدیل ہوگیا۔ میں نے عرض کیا: ہمیں آپ کے چہرہ مبارک پر کچھ ایسے آثار نظر آئے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ۔ (ہم نہیں چاہتے کہ آپ کو غمگین دیکھیں۔) نبی ﷺ نے فرمایا :‘‘ ہم اس گھرانے کے افراد ہیں (جن کی یہ شان ہے)اللہ نے ہمارے لئے دنیا کی بجائے آخرت کو پسند فرمالیا ہے۔ میرے گھر والوں کو میرے بعد مصیبتوں ، دربدری اور وطن سے اخراج کاسامنا کرناپڑے گا حتی کہ مشرق سے کچھ لوگ آئیں گے ان کے پاس سیاہ جھنڈے ہوں گے ۔ اور وہ اچھی چیز مانگیں گے توانہیں نہیں دی جائے گی۔پھر وہ جنگ کریں گے توان کی مدد کی جائے گی (اور فتح حاصل ہوگی۔) تب جو کچھ انہوں نےمانگا تھا انھیں پیش کیاجائے گالیکن وہ قبول نہیں کریں گے حتی کہ وہ اس (حکومتی انتظام )کو میرے اہل بیت کے ایک آدمی کودیں گے ، چنانچہ وہ زمین کو انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح لوگوں نے اسے ظلم سے بھررکھا تھا ۔ تم میں سے جوان حالات کو پالے، اسے چاہیے کہ اس (مہدی )کے پاس آئے اگرچہ برف پر پھسل کرآنا پڑے ’’۔
اس روایت کو ابن کثیر وهذا إسناد قوي قرار دیتے تھے
كتاب الفتن والملاحم
البستوی اس کو حسن لغیرہ کہتے تھے
عبد المحسن بن حمد بن عبد المحسن بن عبد الله بن حمد العباد البدر اس کو اسناد قوی کہتے تھے
حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري کتاب
إتحاف الجماعة بما جاء في الفتن والملاحم وأشراط الساعة
میں ابن مسعود کی روایت پر کہا
رواه: ابن ماجه بإسناد، والحاكم في “مستدركه”، وقال: “صحيح على شرط الشيخين”، ووافقه الذهبي في “تلخيصه”
البانی نے اس روایت ابن ماجہ حدیث 4082 پر اپنے موقف بدلے ہیں مثلا
صحيح وضعيف سنن ابن ماجة میں اس کو ضعیف کہا ہے
حوالہ میں الروض النضير (647) لکھا ہے -
یہاں یہ روایت ضعیف ہے
لیکن کتاب
سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة میں اسی روایت کو حسن کہا ہے البانی وہاں حدیث رقم ٨٥ میں بحث میں لکھتے ہیں
فقد أخرجه ابن ماجه (2 / 517 ـ 518) من طريق علقمة عن ابن مسعود مرفوعا نحورواية ثوبان الثانية، وإسناده حسن بما قبله، فإن فيه يزيد بن أبي زياد وهو مختلف فيه فيصلح للاستشهاد به
ابن مسعود رضی الله عنہ کی روایت حسن ہے
اس کی تخریج ابن ماجہ نے کی ہے کے طرق سے جیسا کہ ثوبان کی روایت ہے ، اور اس کی اسناد حسن ہیں .. اور اس میں یزید بن ابی زیاد ہے جو مختلف فیہ ہے پس اس سے استشہاد کیا جا سکتا ہے
الضعیفہ رقم 5203 میں البانی اسی روایت کو ضعیف بھی قرار دیتے ہیں
قلت: وهذا إسناد ضعيف
میں البانی کہتا ہوں یہ اسناد ضعیف ہیں
aaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaa
اس روایت کو سلمان بن فهد العودة نے ضعیف کہا -
فالحديث لا يثبت لا من طريق ثوبان، ولا من طريق ابن مسعود – رضي الله عنه
اسی روایت کو الشريف حاتم بن عارف العونی حسن کہتے ہیں
.
أخرجه ابن ماجة (رقم 4082)، والبزار في مسنده (رقم 1556-1557)، والعقيلي في (الضعفاء) ترجمة يزيد بن أبي زياد (4/1494)، وابن عدي، ترجمة يزيد بن أبي زياد (7/276)، من طريق يزيد بن أبي زياد، عن إبراهيم النخعي، عن علقمة بن قيس النخعي، عن عبد الله بن مسعود به مرفوعاً.
وقال عنه ابن كثير في (البداية والنهاية 9/278):”إسناده حسن”، وحسنه الألباني أيضاً في (سلسلة الأحاديث الضعيفة رقم 85).
قلت: وهو كما قالا عن إسناده، في الظاهر قابل للتحسين.
عثمان سلفی بھائی نے اس کے بارے میں پوچھا تھا اور اس کا یہ جواب دیا گیا اسلامک بیلیف کے بلاگ میں-