- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
جی میری بہن! مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ یہ دُنیا اللہ تعالیٰ نے اسباب کے ذریعے رواں دواں رکھی ہے، اور کسی کو گھر بیٹھ روٹیاں توڑنے اور ہاتھ ہلائے بغیر توکّل کرنے سے منع فرمایا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں انس بھائی کہ اللہ جسے چاہتا ہے کشادہ رزق عطا فرماتا ہے وہ رب العالیمن ہے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں پر اللہ نے یہ دنیا اسباب کے ذریعے رواں دواں رکھی ہے اور اسی کا فرمان ہے کہ
"اوریہ کہ انسان کے لےبس وہی کچھ ہے جس کی اس نے سعی کی"(سورۃ النجم:39)
لیکن ۔۔۔
اس بارے لوگ افراط وتفریط کا شکار ہیں!
تفریط یہ ہے کہ اسباب اختیار کرنے کی کوئی حیثیت نہیں، بس سارا اعتماد اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہئے، ایسے ’کاہل‘ لوگ در اصل اپنی کاہلی کیلئے شریعت سے جواز تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔
جامع ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ میں اونٹ کو باندھوں اور توکل کروں یا کھلا چھوڑ کر توکل کروں، نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« اعقلها وتوكل » ۔۔۔ صحيح الترمذي للألباني: 2517
کہ اسے باندھو اور اللہ پر توکل رکھو۔
تَوکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر اس کی تیزی کو مقدّر کے حوالے کر
اس کے بارے میں افراط یہ ہے سب کچھ اسباب کو ہی سمجھ لیا جائے اور اللہ پر اعتماد نہ کیا جائے تو یہ ایک دوسری انتہا ہے (جیسے آج کل دہریوں اور اہل مغرب کا خیال ہے)
حق ان دونوں کے درمیان ہے۔
انسان کو حتی الوسع اپنی پوری کوشش کرنی ہے، اور اس کوشش کا انجام سو فیصد اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا ہے، اور بہتر نتیجے کی اللہ سے دُعا کرنی ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ دو لوگ بالکل ایک جیسے اسباب اختیار کریں لیکن نتیجہ میں زمین وآسمان کا فرق ہو، اور اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔
ہمیں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے، جب سیدنا یعقوب نے اپنے بیٹوں کو سیدنا یوسف کے پاس مصر غلّہ لینے کیلئے بھیجا تو چونکہ وہ سارے خوبصورت وتوانا جوان تھے تو نظرِ بد سے بچنے کیلئے انہیں یہ تدبیر بتائی کہ شہر میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا، لیکن ساتھ ہی وضاحت کر دی کہ یہ میری تدبیر ہے، آخری حکم تو اللہ کا ہی ہے، میرا اصل اعتماد اور توکل تو اللہ پر ہی ہے:
﴿ وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ٦٧ ﴾ ۔۔۔ سورة يوسف
اللہ تعالیٰ نے سیدنا اسرائیل کے اس توکل کی بہت تعریف فرمائی کہ وہ علم والے تھے اور یہ علم (توکل والا ودیگر) انہیں ہم نے سیکھایا تھا:
﴿ وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ٦٨ ﴾
جہاں تک آپ نے سورہ نجم کی جس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے "اور یہ کہ انسان کے لےبس وہی کچھ ہے جس کی اس نے سعی کی" (سورۃ النجم:39)
تو یہ آیت کریمہ نیک اعمال سے متعلق ہے کہ روزِ آخرت انسان کو اگر جہنم سے نجات ملے گی تو دنیا میں کیے گئے اپنے نیک اعمال کی بناء پر! کسی دوسرے کے نیک عمل کا فائدہ اسے نہیں پہنچے گا، اگر سیاق وسباق مد نظر رکھیں تو یہ مفہوم بالکل واضح ہے اور تمام مفسرین نے اس کا یہی مفہوم بیان فرمایا ہے::
﴿ أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَىٰ ٣٦ وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ ٣٧ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ٣٨ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ٣٩ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ ٤٠ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ ﴾ ۔۔۔ سورة النجم
پہلے برے اعمال کے متعلق بتایا کہ کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا، پھر نیک اعمال کی متعلق وضاحت فرمائی کہ کسی کو دوسرے کے نیک اعمال کا صلہ نہیں مل سکتا، اس کیلئے بذاتِ خود نیک اعمال کرنے ہوں گے۔ اور آیت نمبر 40، 41 تو معاملے کو بالکل واضح کر دیتی ہیں کہ یہ روزِ محشر کو ہوگا۔
فائدہ کی غرض سے واضح کر دوں کہ چونکہ یہ صحف ابراہیمی اور موسوی کے حوالے سے بات ہو رہی ہے کہ اس لئے سیدنا ابن عباس وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ یہ پہلی شریعتوں میں تھا لیکن ہماری شریعت میں منسوخ ہے اور ہماری شریعت میں بعض اوقات مؤمنوں کو دوسروں کے اعمال کا فائدہ بھی پہنچ جاتا ہے، انہوں نے اس فرمانِ باری سے استدلال کیا ہے:
﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ٢١ ﴾ ۔۔۔ سورة الطور
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے، ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے (21)
گویا مؤمن ماں باپ کی مؤمن اولاد کا عمل اگر ماں باپ سے کم بھی ہوگا تو جنت میں انہیں کسی کا عمل کم کیے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ایک بلند درجے میں اکٹھا کر دیں گے۔
لیکن یہ صرف مؤمنوں کیلئے ہے، ایک مؤمن (خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو) اس کا فائدہ اس کی کافر اولاد کو نہیں پہنچ سکتا۔
جبکہ دیگر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ امتِ محمدیہ کیلئے بھی ہے۔ اور ہر شخص کو اُسی کے نیک اعمال کا فائدہ ہوگا سوائے ایسے خاص اعمال کے، جن کے متعلّق شریعت میں صراحت ہو، مثلاً صدقہ وخیرات اور حج وغیرہ میت کی طرف سے کیا جا سکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!