یورپ میں سائنس اور کلیساء کے درمیان طویل تاریخی تصادم کے بعد لوگوں کےاندر مذہب کے خلاف نفرت پیدا ہوچکی تھی صہونی یہودی نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایسے فلسفے پیش کرنے شروع کردیے جن میں مذہبی اقدار اور تعلیمات ختم کرکے لادین و لامذہبی روایات کو معاشرے کی بنیاد بنانے کی کوشش کی گئی۔
دوسری طرف حالات ایسے بن چکے تھے کہ ان ملحدانہ نظریات کو اپنی ترویج میں کوئی خاص دقت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ ایک طرف تو کلیساء کی بے جا سختیوں کی وجہ سے مذہب بیزاری کا رجحان تقویت پاچکا تھا دوسری طرف صنعت و حرفت کا نظام بھی معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا۔
یورپ کی اس تاریک ترین تاریخ کا تیسرا کردار جاگیردارانہ نظام تھا۔جس میں صورت حال یہ تھی کہ ایک ہی زمین میں ایک ہی مالک کے ماتحت لوگ نسل بعد نسل کام کرتے تھے۔اور یہ لوگ جاگیردار کی ملکیت ہوا کرتے تھے۔جب وہ زمین فروخت کرتا تو ان کی قیمت بھی ساتھ لگائی جاتی۔
ایسے حالات میں جب کلیسائی اور جاگیرداری نظام ختم ہوا تو لوگوں کوجہاں بےدینی کی فضاء میں سانس لینے کا موقع ملا وہاں نقل مکانی کا حق بھی ملا۔چناچہ لوگ کام کی تلاش میں گروہ در گروہ شہروں کی طرف ہجرت کرکے آنے لگے۔ شہر میں کچھ دن آرام کی گزرے پھر مہنگائی، تنحواہوں کی کمی، ڈیوٹی ٹائم میں اضافے اور جاب نہ ملنے جیسے خوف ناک مسائل پیدا ہونے لگٰے۔ہڑتالوں کاسلسلہ شروع ہوا سرمایہ داروں اور فیکٹری مالکان نے مزدوروں کے سامنے سرنڈر کرنے کی بجائے نصف اجرت پر عورتوں کو کام پر لگا لیا۔وقت گزرنے کے ساتھ مزدور ہتھیار پھینک دیا کرتے۔اور پہلے سے بھی سخت شرائط پر کام پہ لگ جاتے۔اس کے بعد اگر عورت پھر کام کے لئے آتی تو اسے نصف اجرت پہ رکھا جاتا۔ یہ سلسلہ ایک وقت تک چلتا رہا۔پھر وقت آیا کہ عورتوں نے بھی ہڑتالیں شروع کردیں اور مطالبہ کیا کہ جب کام ایک جیسا ہے تو پھر اجرت میں کمی کیوں کی جاتی ہے چناچہ یہ ناقابل تر داشت ہے۔یہ تحریک ایک عرصہ تک چلتی رہی آخر کار مطالبات تسلیم کرلئے گئے۔ پھر اس تحریک نے ایک نیاموڑ لیا یا کسی خفیہ ہاتھ(یہود) نے اسے اس طرف موڑ دیا اور سیاست میں بھی برابری کا مطالبہ کیاجانے لگا۔ اس طرح کر کے زندگی کے ہر شعبہ میں قدم بقدم یہ تحریک موڑ لیتی رہی یا اسے موڑا گیا۔جب فیکٹریوں،سیاست کے ایوانوں، تعلیمی درسگاہوں، کھیل کے میدانوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں عورت مساوات کا مطالبہ کرتے ہوئے مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ آملی تو اختلاط کے مواقع بڑھ گئے اور اوپر سے مذہب بھی رخصت ہو چکا تھا جس کی وجہ سے بےحیائی نے فروغ پایا۔اور مذہبی و دینی اقدار کو ایک ایک کر کے نیست و نابود کیا گیا۔ایسےہی امور خانہ داری یا گھر کی ذمہ داری کا مسلہ تھا جس میں سوچ پروان چڑھائی گئی کہ مذہب جو عورت کو گھر بیٹھنے کی تلقین کرتا ہے اس میں عورت شعوری طور پر گھٹن کا شکار ہوجاتی ہے۔وہ مرد کے رحم کرم پر ہوتی ہے۔جس وجہ سے اسے کئی قسم کے ظلم وستم کانشانہ بننا پڑھتا ہے۔لہذا اپنا روز گار تلاش کرو۔چناچہ جب عورت کام کی غرض سے گھر سے نکلی تو بچوں کی پرورش کا مسلہ پیدا ہوا اس کے لئے پھر چائلڈ ہاؤس یا نرسری جیسے ادارے کھولے گئے۔المختصر یہ ایک لمبی تاریخ ہے اللہ نے وقت دیا تو اس پر ایک مسلسل کتاب لکھوں گا۔ ان شاءاللہ