سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
کام اور نام
شاعری کرنی تو میں نے چوتھی جماعت ہی میں بند کردی تھی ۔ افتخار امام صدیقی کا ایک مضمون پڑھ کر۔ لیکن جب فیض عام میں داخلہ لیا تو مئو کا ادبی ماحول دیکھ شاعری کا چسکا دوبارہ جاگ اٹھا۔ مئو کی شعری مجلسوں تک رسائی کا صرف ایک ذریعہ تھا۔ "یعقوب فلک" یعقوب فیض عام کا چپراسی ۔ٹیپیکل قسم کا شاعر۔ ادب کے پست معیار کی وجہ سے اس کا شمار بھی شاعروں میں ہوتا تھا۔ میں نے ایک غزل لکھی اور یعقوب کو چیک کرنے کے لیے دی ۔ مقصد تھا مئو کی ادبی مجلسوں تک رسائی حاصل کرنا ۔ بندے نے پوری غزل کاٹ کر واپس کردی ۔ کہا:" اس طرح کی شاعری آپس میں دوستوں کو سن سنا کر خوش ہولیا کرو۔ ایک شعر ایسا نہیں جو کسی ادبی مجلس میں پڑھا جا سکے "
میں یعقوب کی شاعرانہ اوقات جانتا تھا۔ بڑا غصہ آیا ۔ دوسرے دن میر تقی میر کی ایک خوبصورت سی غزل مقطع کاٹ کر "اصلاح " کے لیے دے دی۔ یعقوب کمرے بیٹھ کر میر کی اصلاح کرنے لگا۔ مولانا عبد الحمید فیضی جامعہ فیض عام کے سینئر اساتذہ میں سے ہیں ۔ اردو اب کا اچھا مطالعہ رکھتے ہیں ۔ ان کا گذر کمرے سے ہوا تو یعقوب سے پوچھا :
"کیا کررہے یعقوب؟"
یعقوب نے بتایا:
" یہ "لڑکے"کے غزل کی اصلاح کررہا ہوں۔ اس کو بھی کوئی غزل کہتے ہیں ۔ نہ ردیف قافیہ کا کچھ پتا ہے ۔ نہ بحر کا ٹھکانہ ۔ کوئی مصرعہ نہیں جو غلطی سے خالی ہو"
مولانا نے کہا دکھاؤ کیا اصلاح کی ہے ۔ غزل دیکھی تو کہا:
" بے وقوف ! یہ میر تقی میر کی غزل ہے جس کی اصلاح تم کررہے ہو"
یہ واقعہ مجھے شیخ کفایت کی ایک حکایت سے یاد آیا۔ شیخ کفایت سنابل کے زمانہ میں عربی میں شاعری کرتے تھے ۔ ان کے ایک دوست صاحب ان کے ہر شعر پر تنقید کرتے ۔ ایک مرتبہ شیخ نے "معلقات" سے "امرؤ القیس" کی وہ شاعری لکھ کر اصلاح کےلیے دے دی جو ابھی سبق میں پڑھائی نہیں گئی تھی۔ دوست صاحب نے اس غزل کی بھی اصلاح فرما ڈالی ۔
تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں اکثر لوگ "کام" دیکھ کر نہیں "نام" دیکھ کر بات کرتے ہیں ۔