ابن تیمیہ کی کتاب
منهاج السنة النبوية میں یہ حدیث لکھی ہے
ما ثبت في الصحيحين من قول النبي صلى الله عليه وسلم في حديث الأسارى لما استشار أبا بكر ، وأشار بالفداء ، واستشار عمر فأشار بالقتل . قال : " سأخبركم عن صاحبيكم ن ، م ، س : عن صاحبكم . . مثلك يا أبا بكر كمثل إبراهيم إذ قال: ( فمن تبعني فإنه مني ومن عصاني فإنك غفور رحيم ) ( سورة إبراهيم : 36 ) ، ومثل عيسى إذ قال: ( إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحكيم ) ( سورة المائدة : 118 ) ، ومثلك يا عمر مثل نوح إذ قال: ( رب لا تذر على الأرض من الكافرين ديارا ) ( سورة نوح : 26 ) ، ومثل س ، ب : أو مثل . موسى إذ قال: ( ربنا اطمس على أموالهم واشدد على قلوبهم فلا يؤمنوا حتى يروا العذاب الأليم ) ( سورة يونس : 88 ) سبق هذا الحديث فيما مضى 6 \ 133 .
فقوله لهذا : مثلك كمثل ن ، م : مثل . إبراهيم ، وعيسى ، ولهذا : مثل نوح ، وموسى - أعظم من قوله : أنت مني بمنزلة هارون من موسى ; فإن نوحا ، وإبراهيم ، وموسى ، وعيسى أعظم من هارون
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?bk_no=108&ID=1&idfrom=1&idto=917&bookid=108&startno=793#docu
اور اس کے بارے میں ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ یہ صحیحین کی حدیث ہے جبکہ اس طرح کی کوئی روایت نہ صحیح بخاری میں ہے نہ صحیح مسلم میں ہاں اس طرح کی ایک روایت مسند احمد میں ہے جس پر احمد شاکر نے
إسناده ضعيف کا حکم لگایا ہے احمد شاکر صاحب کے بارے میں البانی کہتے ہیں کہ
قال عنه الألباني: إنه عندي من المتساهلين في التوثيق والتصحيح.
جب ایک متساہل محدث کسی روایت کی اسناد کو ضعیف کہئے اس کے ضعوف کا کیا عالم ہوگا
یہ ایک غلطی ہے جو میرے علم میں ہے
اس کے علاوہ ابن تیمیہ نے اسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ
وقد ثبت في صحيح البخاري ن ، م : وفي صحيح البخاري .
عن ابن عمر - رضي الله عنهما - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال : " أول جيش يغزو القسطنطينية مغفور لهم
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?bk_no=108&ID=1&idfrom=1&idto=917&bookid=108&startno=548
ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں اس حدیث کو اپنے استاد کے ان ہی الفاظ میں بیان کیا ہے
صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث میں نہ الفاظ
القسطنطينية ہے نہ یہ حدیث ابن عمر سے روایت کردہ ہے جب اس بارے میں معلوم کیا گیا تو کہا گیا کہ
اوربخاری میں قسطنطینیہ کا لفظ نہیں ہے بلکہ مدینہ قیصر کا لفظ ہے ۔ لیکن چونکہ مدینہ قیصر سے قسطنطنیہ ہی مراد ہے اس لئے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے معنوی طور پر اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے مدینہ قیصر کی جگہ قسطنطنیہ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اور ایساہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے۔لہٰذا یہ نقل بالمعنی ہے اسے حدیث میں تحریف ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔
http://forum.mohaddis.com/threads/ابن-تیمیہ-کا-سہو؟.9480/
یہ بہت ہی عجیب و غریب استدلال ہے کہ اغلاط کو غلطی نہ مانا ۔