یہ کہ رہے ہیں کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے شمارہ نمبر 26 صفحہ نمبر 18 پر کہا ہے.
رہنمائی فرمائیں.
شیخ زبیر رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں ایک جملہ بوالا ہے کہ ’ موضوع ہے ‘ اور حوالہ علامہ ذہبی علیہ الرحمہ کی سیر اعلام النبلاء کا دیا ہے ۔ گویا شیخ کا اعتماد ذہبی کی سیر ہے ، دیکھتے ہیں ذہبی کیا کہتے ہیں ۔
علامہ ذہبی امام احمد بن حنبل کا خط ذکر کرنے کے بعد جو امام صاحب نے حاکم وقت کے استفسار پر لکھا تھا ، اس کو باسانید صحیحہ ذکر کرنے کے بعد ، اور اس میں امام صاحب کے موقف کے بیان کے بعد لکھتے ہیں :
سير أعلام النبلاء ط الرسالة (11/ 286)
فهذه الرسالة إسنادها كالشمس، فانظر إلى هذا النفس النوراني، لا كرسالة الإصطخري (1) ، ولا كالرد على الجهمية الموضوع على أبي عبد الله ، فإن الرجل كان تقيا ورعا، لا يتفوه بمثل ذلك ۔
اس خط کی سند سورج کی طرح واضح ہے ، اس نورانی انداز کی طرف دیکھنا چاہیے ، نہ کہ ان باتوں کی طرف جو رسالۃ اصطخری یا الرد الجہمیۃ میں ہے ، جو کہ امام صاحب کی طرف نسبت کرکے گھڑ لیا گیا ہے ، ان دونوں رسالوں میں ایسی باتیں ہیں ، کہ امام صاحب جیسے متقی پرہیز گار ایسی باتیں نہیں کرسکتا ۔
سیر اعلام النبلاء کے محقق دکتور بشار عواد معروف نے بھی نیچے حاشیہ میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ ایک تو اس کتاب کی سند میں مجہول راوی ہے ، دوسرا اس کتاب کی نسبت امام صاحب کی طرف مشکوک ہونے کو اس وجہ سے بھی تقویت ملتی ہے کہ اس دور کے ائمہ جنہوں نے اس موضوع پر لکھا ہے جیسا کہ امام ابن قتیبہ ، عثمان الدارمی وغیرہ نے اس کتاب کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔
لیکن کتاب الرد علی الجہمیۃ کے محقق صبری شاہین نے اس کتاب کی نسبت کو درست کہا ہے ، اس سلسلے میں ان کے دلائل کیا ہیں ، اگلی پوسٹ میں ذکر کرتا ہوں ۔