بالکل مجھے پہلے سے خدشہ تھا کہ آپ اصل ایشوز پر بات کرنے سے ویسے ہی انکار فرمادیں گے، مجہول آئی ڈیز پر آپ کا مراسلہ میں کل دیکھ چکا ہوں، اس حسن ظن اور حسن کلام کا شکریہ! یہ مجہول اور مبلغ علم کی باتیں تبھی کی جاتی ہیں جب اور کوئی بات بن نہ رہی ہو۔ کسی کو اگر اپ نہیں جانتے تو وہ مجہول نہیں ہوتا آئندہ کے لیے اس بات کو ذہن نشین فرما لیں! میرا مجہول وغیرہ ہونا صرف آپ کے اس فورم کی حد تک بھی نہیں ہے یہاں بھی لوگ مجھے جانتے ہیں ، فیس بک پر بھی اور آپ کے لاہور میں بھی،شاید اب آئی ڈی کارڈ دکھا کر اور سکونتی پتہ درج کروا کر فورمز کا رٰخ کرنا پڑا کرے گا !! نیز اس فورم پرمیرا تعارف دیکھنا بھی افاقہ مند ہو سکتا ہے۔۔
اب بجا طور پر آپ کی کوشش یہی ہے ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا، کہ بات کو "لب و لہجے" اور "طنز و تشنیع" سے آگے جانے ہی نہ دیا جائے ۔۔۔۔۔ اور جو اصل مدعا خط میں بیان ہوئے ہیں ان پر بات ہی نہ ہو سکے۔ طنز و تشنیع کے لیے البتہ آپ کی کل کی پوسٹ ہی کافی ہے۔ کتاب کی طنز و تشنیع کے لیے میں کہہ چکا ہوں کہ الگ تھریڈ لگا لیں ،یہاں خط کے مندرجات پر بات کرتے ہوئے آپ کو کاہے کا ڈر ہے ، ویسے بھی اس کا تفصیلی جواب بقول آپ کے آپ عسکری صآحب کو بھجوا چکے ہیں، ذرا ہم بھی مستفید ہو لیں اس تفصیلی جواب سے !
ایک بھائی نے کہا ہے کہ اس پوسٹ میں واقعی ان حوالوں کی وضاحت ہونی چاہیے جو خط میں اجمالا موجود ہیں ، اگرچہ مذکورہ مقامات دیکھنے سے باتیں بالکل واضح ہو جاتی ہیں لیکن اپ کے بقول بھی میرا طریقہ کار آپ کی تحریر کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کا ہے اور اس پر مستزاد کہ میرا فہم آپ کی تحریر کے حوالےسے غلط ہے!۔ اس لیے ایک مثال سے ابتدا کرتا ہوں، میں نے خط میں لکھا:
:""مفسر طبری رحمہ اللہ کی عبارت کو جس طرح سیاق سباق سے یکسر ہٹا کر پیش کرتے نظر آتے ہیں (ص113)""
تفصیل اس اجمال کی ملاحظہ ہو کہ سورہ المائدہ کی آیت 51 ،جو آیت ولایت کے نام سے مشہور ہے، کے اطلاق کی بات ہو رہی ہے اور اس سلسلے میں حافظ زبیر صاحب سب سے پہلے مفسر طبری سے دلیل لائے ہیں :
حقیقت یہ ہے کہ امام طبری کی عبارت جس مقام سے "اچکی" گئی ہے وہ کچھ یوں ہے:
"
" فإذ كان ذلك كذلك فـالصواب أن يُحْكم لظاهر التنزيـل بـالعموم علـى ما عمّ، ويجوز ما قاله أهل التأويـل فـيه۔۔۔۔۔ غرہ أنہ لا شک أن الآیة نزلت فی منافق کان یوالی یھودا أو نصاری خوفا علی نفسہ۔۔۔۔۔ الخ ""
ترجمہ: ""
درست بات یہی ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو جو عام حکم دیا گیا اس کو عام ہی سمجھا جائے،اگرچہ یہ بات اپنی جگہ بجاہے کہ یہ آیت ایک منافق کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔وہ منافق یہودیوں اور عیسائیوں سے دوستیاں کرتا تھا۔اس کے دل میں یہ خوف سوار تھا کہ کہیں یہودیوں وعیسائیوں کی طرف سے مجھے ناگفتہ بہ اور ناساز گار حالات کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔یہی وجہ ہے کہ سورۃ المائدہ کی آیت :۵کے بعد والی جو اگلی آیت ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی وضاحت بھی فرمائی ہے ۔""
اب پہلا ہائی لائٹ کردہ جملہ علوی صاحب نے چھوڑ کر باقی عبارت لے لی!اور یہ بھی دیکھ لیں کہ ایک ایک جملے کو کاٹ پھینکنا کلام کا مفہوم کیا سے کیا کر سکتا ہے۔اب یہ تصویر سامنے آتی ہےکہ امام صاحب اس آیت کو سب مسلمانوں کے لیے جانتے ہیں اور قیامت تک اسے حکم عام بتلاتے ہیں۔
امام طبری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
""والصواب من القول فـي ذلك عندنا أن يقال: إن الله تعالـى ذكره
نهى الـمؤمنـين جميعاً
أن يتـخذوا الـيهود والنصارى أنصاراً وحلفـاء علـى أهل الإيـمان بـالله ورسوله، وأخبر أنه من اتـخذهم نصيراً وحلـيفـاً وولـياً من دون الله ورسوله والـمؤمنـين، فإنَّه منهم فـي التـحزّب علـى الله وعلـى رسوله والـمؤمنـين، وأن الله ورسوله منه بريئان. وقد يجوز أن تكون الآية نزلت فـي شأن عُبـادة بن الصامت وعبد الله بن أبـيّ ابن سلول وحلفـائهما من الـيهود، ويجوز أن تكون نزلت فـي أبـي لُبـابة بسبب فعله فـي بنـي قريظة، ويجوز أن تكون نزلت فـي شأن الرجلـين اللذين ذكر السدّيّ أن أحدهما همّ بـاللـحاق بدهلك الـيهودي والآخر بنصرانـي بـالشأم، ولـم يصحّ بواحد من هذه الأقوال الثلاثة خبر يثبت بـمثله حجة فـيسلـم لصحته القول بأنه كما قـيـل.
’’ہمارے نزدیک یوں کہنا درست ہے کہ اللہ رب العزت نے تمام مسلمانوں کومنع کیا ہے ۔اس بات سے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے آخری رسول جناب محمد ﷺپر ایمان رکھنے والے مومنوں کے خلاف اپنے حمایتی ،مددگار اور حلیف بنائیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان ۔اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول ﷺکو اور مومنوں کو چھوڑ کر ان کافروں کو اپنا حمایتی ،مددگار اور دوست بنائے گا پھر وہ ان یہودیوں اور عیسائی کافروں کی پارٹی کا ہی فرد گردانا جائے گا ۔گویایہ شخص اللہ رب العالمین ،رسول اللہﷺاور مومنوں کے مدمقابل کافروں کی پارٹی اور جماعت کا ایک کارکن اور ورکر (worker)ہوگا۔اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺاس سے کلیتاً بیزار اور لاتعلق ہوں گے۔""
http://altafsir.com/Tafasir.asp?tMadhNo=1&tTafsirNo=1&tSoraNo=5&tAyahNo=51&tDisplay=yes&Page=3&Size=1&LanguageId=1
علوی صاحب نے اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد اگلا پورا صفحہ اس کی "روشنی" میں آیت ولایت کو محض منافقین اور پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر "اعتقادی منافقین" تک محدود کرنے پر صرف فرمایا ہے۔احباب(ص 113،112) ملاحظہ فرمائیں۔
اب حضرات خود دیکھ سکتے ہیں کہ امام طبری رحمہ اللہ تویہ کہیں کہ اس آیت کے مخاطب سارے ہی مسلمان ہیں اور اس کا حکم قیامت تک ہے اور ہمارے امام علوی صاحب ان کی تفسیر سے کیا دکھا رہے ہیں!
یہ خط کے محض ایک "اجمال"تفصیل ہے! خالصتا علمی امور پہلے ڈسکس ہو جائیں تو پھر تحقیق اور اصول تحقیق کے حوالے سے بعد میں ان شاء اللہ۔
والسلام