ویسے ہی پاکستان کے طول و عرض میں کہیں بھی خودکش حملہ ہو تو اس کا ذمہ دار ٹی ٹی پی کے علاوہ کوئی اور قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کسی بھی پلانٹڈ دھماکہ کو خودکش حملہ کہنا میڈیا کی چالاکی ہے ۔ بازاروں اور عوامی مقامات میں جو دھماکے ہوتے ہیں ان میں کافی سر مل جاتے ہیں کسی کو بھی اس میں نامزد کیا جاسکتا ہے ۔ ہر پلانٹڈ دھماکے کے فوراً بعد میڈیا کچھ اس طرح کے بیانات داغ دیتی ہیں ۔
خودکش حملہ آور کا سر مل گیا ۔ مرنے والوں میں زیادہ تر تعداد عورتوں اور بچوں کی ہیں ۔ تفتیش جاری ہے ۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے "سر" کو امریکہ بھیج دیا گیا ۔ طالبان نے نامعلوم مقام سے فون پر ذمہ داری قبول کرلی ہے ۔ یہ بزدلانہ حرکت ہے ۔ ہم ان کو دھماکوں کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے ۔ یہ مسلمان نہیں ، کفار کے ایجنٹ ہیں ۔ ہم ان سے مرعوب نہیں ہوں گے ۔ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے ۔
پھر ایک خودساختہ چشم دیدگواہ کو سامنے لاکراس سے یہ بیان دلوایا جاتا ہے "
میں اس وقت وہاں موجود تھا کہ ایک کم عمر لڑکا جس کی عمر تقریباً سولہ سے اٹھارہ سال کے درمیان معلوم ہوتی تھی، جس نے چادر اوڑھ رکھی تھی درمیان میں گھس کر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا جس کے بعد مجھے کچھ پتہ نہیں چلا، ہوش آنے پر دیکھا کہ ہر طرف قیامت برپا تھی اور لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوئی تھیں ۔
آپ کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ذرا غیر جانبداری سے تحقیق کرلے اگر واقعی جاننے کی نیت ہو تب ۔
طالبان کا جو ٹارگٹ ہے وہ معلوم ہے ، ایسے حملوں کی ویڈیو میں آپ واضح وہ فدائی حملہ آور دیکھ سکتے ہے ۔
پشاور خیبر بازار میں جو دھماکہ ہواتھا وہ پلانٹڈ تھا ایک موٹر کار میں ۔
مینا بازار میں بھی پلانٹڈ تھا ۔ اس طرح کے کئ عوامی مقامات میں جو دھماکے ہوئے وہ پلانٹڈ تھے ۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ کون کرتا ہے تو بقول آپ لوگوں کے کہ " جو چوری کرتا ہے وہ تھوڑی بولتا ہے کہ چوری میں نے کی ہے "
یہی بات یہاں پر آپ کفار کے آلہ کار بلیک واٹروغیرہ پر اپلائی کرے ۔