ابو بصیر
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 30، 2012
- پیغامات
- 1,420
- ری ایکشن اسکور
- 4,198
- پوائنٹ
- 239
آپ کا منہج یہ ہے کہ بغاوت نہیں دعوت اور ہمارا منہج ہے دعوت اور پھر قتال فی سبیل اللہ۔۔ تب تک جب تک اللہ کا کلمہ سر بلند نہ ہو جائے اور دین سارے کا سارا اللہ کے لئے ہو جائے۔
چلیں آپ کے منہج بغاوت نہیں دعوت پر ہی ایک سوال اُٹھا لیتے ہیں۔آج سے آٹھ دس سال قبل آپ کی تنظیم کے ایک فعال رکن محترم جناب "امیر حمزہ" صاحب نے دعوت الی اللہ کا ایک بہترین کام شروع کیا، موجودہ دور کے اصنام جو مزاروں کی صورت میں پائے جاتے ہیں، اُن کو توڑنے کی سعی کی اور ان کے خلاف اپنے قلم کو استعمال کیا، الحمدللہ لوگوں میں شعور اُجاگر ہونے لگا اور لوگ عقیدہ توحید کو سمجھنے لگے اور ان بدعات و خرافات کی تباہ کاریوں سے واقف ہونے لگے، اور اس بات کا تذکرہ خود امیر حمزہ صاحب نے بھی اپنی کتابوں میں کیا، اور ایک طارق صاحب کا واقعہ بھی انہوں نے نقل کیا جو مجاور سے موحد بنے تھے۔ الحمدللہ
لیکن اب وہی بغاوت نہیں دعوت کے منہج کو اختیار کرنے والے صاحب ہمیں مزاروں پر گدی نشینوں کے جھرمٹ میں نظر آتے ہیں، کل تک جولوگ اِن کی نظر میں کلمہ گو مشرک تھے آج اتحاد امت کے لئے مسلم بن گئے ہیں۔
یہی صاحب کبھی "حسین(رضی اللہ عنہ) سب کا " کانفرنس کرتے نظر آتے ہیں، اور خمینی کے دیس کی حفاظت کے لئے جماعت کے بچے بچے کی تیاری کرتے نظر آتے ہیں۔کیوں؟ کیا خمینی اس لائق ہے؟ کیا خمینی حضرات ابوبکر عمر و عثمان و معاویہ رضی اللہ عنھم اجمعین اور امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا دشمن نہیں تھا؟
اب بتائیے وہ دعوت توحید کا سماں کہاں گیا، وہ آپ کا اپنا ہی منہج بغاوت نہیں دعوت کہاں گیا۔۔۔ بغاوت تو آپ نے کی نہیں دعوت کہاں کھو گئی۔
دارالاندلس سے شائع ہونے والی"عقیدہ الولاء والبراء" کے موضوع پر کتاب آج کس نام نہاد حکمت کے تحت اُس کی اشاعت بند ہو گئی، کس کا خوف ہے، کس کا ڈر ہے۔کیا اللہ کی راہ میں لڑنے والے مجاہد اور داعی الی اللہ ایسے ہوتے ہیں؟
کیا اِن باتوں سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے اپنے منہج میں ہی خرابی آگئی ہے؟
آنکھوں پر جو پٹی بندھی ہوئی ہے اسے کچھ لمحوں کے لیے کھول دو۔۔۔۔۔۔۔اور دھیان سے پڑھ لو
اللہ سمجھنے کی توفیق دے
بھائی ہم تو اگر اِن بدعتیوں کو اپنے پرگراموں میں بلاتے ہیں تو وہ صرف اور صرف جہاد کی ضرورت کے لیے بلاتے ہیں کیوں کہ جب جہاد کے لیے ضرورت تھی تو ہمیں سیرت النبی سے یہی ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر یہودیوں کو بھی معاہدہ کرکے ساتھ شامل کیا! اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بھی ہوتا تھا نبی اکرم اُس کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتے تھے مشاورت میں۔۔۔۔۔ بھئی ہم تو سیرت النبی سے لیکر ہی یہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ اگر ہمیں جہاد کی وجہ سے اِن کو ساتھ ملانے پر لعن طعن اور برا بھلا کہا جاتا ہے تو کل کو یہ حضرات نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کریں گے کہ نبی اکرم نے منافقین اور یہودیوں سے معاہدے کیے ؟؟؟؟
میثاق مدینہ
حضور ا اور صحابہ کرام ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں اوس اور خزرج کے قبیلے رہتے تھے، جو مسلمان ہوچکے تھے ،یہاں پر مدینہ کے قرب وجوار میں یہود کے تین قبائل بھی آباد تھے: بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ۔ اس لئے ۵/ماہ بعد آپ نے مہاجرین ، انصار اور یہود کو جمع کیا اور ایک معاہدہ تحریر کرایا ،جسے میثاق مدینہ کہتے ہیں اور یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے، مقصد یہ تھا کہ اہل مدینہ باہم حسن سلوک سے رہیں اور اسلامی ریاست کی دفاعی پوزیشن مضبوط ہوجائے، اس کی اہم دفعات حسب ذیل ہیں:
۱:...مسلمان اور یہود آپس میں ایک دوسرے کے خیر خواہ اور ہمدرد رہیں گے۔
۲:... کسی شر پسند کی حمایت نہیں کریں گے۔
۳:...قتل پر شہادت قائم ہو تو قصاص لیا جائے گا، لیکن مقتول کے ورثاء اگر خون بہا معاف کردیں تو قاتل کی جان بچ جائے گی۔
۴:... یہود اور مسلمانوں میں سے کسی فریق کو اگر کسی تیسرے فریق سے جنگ کی نوبت آئے تو دوسرا فریق اس کی مدد کرے گا۔
۵:...کوئی فریق قریش مکہ اور ان کے مددگاروں کو اپنے پاس نہیں ٹھہرائے گا۔
۶:...مدینہ پر حملہ ہوا تو یہود مسلمانوں کی جان ومال سے مدد کریں گے یعنی مشترکہ دفاع کیا جائے گا۔
۷:... یہود کو مذہبی آزادی ہوگی، ان کی مذہبی رسوم کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
۸:...ہر قبیلہ خود ہی اپنے قاتل کی طرف سے خون بہا ادا کرے گا، اسی طرح اپنے قیدی کو خود ہی فدیہ دے کرچھڑائے گا۔
۹:...جو یہود مسلمانوں کے تابع ہوکر رہیں گے ان کے جان ومال کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی۔
۱۰:...کوئی فریق اپنے دشمن سے صلح کرلے تو دوسرا فریق بھی اس صلح کا پابند ہوگا۔
۱۱:...کوئی فریق حضور ا کی اجازت کے بغیر کسی سے جنگ نہ کرے گا۔
۱۲:...اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اس کا فیصلہ آنحضرت افرمائیں گے۔
اس معاہدے سے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہوگئی، اس کا تحریری دستور وجود میں آگیا، تمام اختیارات سرور دوعالم ا کے دست مبارک میں آگئے۔
لیکن پھر بعد میں تینوں قبیلوں نے عہد شکنی کردی تھی اُس کا اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو مدینہ سے نکال دیا تھا۔دو قبیلوں کو نکالا تھا اور تیسرے قبیلے کو قتل کردیا تھا