بھائی ہم تو اگر اِن بدعتیوں کو اپنے پرگراموں میں بلاتے ہیں تو وہ صرف اور صرف جہاد کی ضرورت کے لیے بلاتے ہیں کیوں کہ جب جہاد کے لیے ضرورت تھی تو ہمیں سیرت النبی سے یہی ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر یہودیوں کو بھی معاہدہ کرکے ساتھ شامل کیا! اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بھی ہوتا تھا نبی اکرم اُس کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتے تھے مشاورت میں۔۔۔۔۔ بھئی ہم تو سیرت النبی سے لیکر ہی یہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ اگر ہمیں جہاد کی وجہ سے اِن کو ساتھ ملانے پر لعن طعن اور برا بھلا کہا جاتا ہے تو کل کو یہ حضرات نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کریں گے کہ نبی اکرم نے منافقین اور یہودیوں سے معاہدے کیے ؟؟؟؟
محترم بھائی کی اس بات سے (جو جماعت کے کچھ ساتھیوں کا طریقہ بھی ہے) مجھے اختلاف ہے اور یہ اختلاف دلائل کی بنیاد پر ہے جب کوئی بھائی مجھے دلائل دے دیں گے تو میں اصلاح کر دوں گا مگر ابھی تک مجھے کسی جماعتی ساتھی نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی یا یوں کہ لیں کہ مجھے وہ ٹھوس نہیں لگی
جہاں تک منافقوں کی بات ہے تو محترم بھائی کسی موحد غیر بدعتی اہل حدیث منافق کو پروگرام میں بلانے پر مجھے اوپر محترم ارسلان بھائی کا کوئی اعتراض نہیں ملا پس جواب میں عبد للہ بن ابی کی مثال قیاس مع الفارق ہے
البتہ یہودیوں کی بات کے بارے نیچے بات کرتے ہیں
میثاق مدینہ
حضور ا اور صحابہ کرام ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں اوس اور خزرج کے قبیلے رہتے تھے، جو مسلمان ہوچکے تھے ،یہاں پر مدینہ کے قرب وجوار میں یہود کے تین قبائل بھی آباد تھے: بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ۔ اس لئے ۵/ماہ بعد آپ نے مہاجرین ، انصار اور یہود کو جمع کیا اور ایک معاہدہ تحریر کرایا ،جسے میثاق مدینہ کہتے ہیں اور یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے، مقصد یہ تھا کہ اہل مدینہ باہم حسن سلوک سے رہیں اور اسلامی ریاست کی دفاعی پوزیشن مضبوط ہوجائے، اس کی اہم دفعات حسب ذیل ہیں:
اس معاہدے سے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہوگئی، اس کا تحریری دستور وجود میں آگیا، تمام اختیارات سرور دوعالم ا کے دست مبارک میں آگئے۔
لیکن پھر بعد میں تینوں قبیلوں نے عہد شکنی کردی تھی اُس کا اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو مدینہ سے نکال دیا تھا۔دو قبیلوں کو نکالا تھا اور تیسرے قبیلے کو قتل کردیا تھا
محترم بھائی ایک ہوتا ہے کوئی انسان کسی کافر کو اپنے پروگرام میں بلائے مگر مسلمان یا کافر ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ کسی اور حیثیت سے- اس میں دنیاوی کوئی مشترکہ مفاد ہوتا ہے
1-مشترکہ دفاع کا معاہدہ (جیسے میثاق مدینہ) یہاں پر کبھی بھی یہودیوں کو یہ نہیں کہا گیا کہ ہم اکٹھے ہوں گے تو اسلام کو فائدہ ہو گا وغیرہ وغیرہ بلکہ یہ کہا گیا کہ تمھارے لئے تمھارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دین ہے مگر دنیاوی ضرورت کے تحت ہم آپس میں معاہدہ کر لیتے ہیں
2-کسی کی مدد کا مشترکہ نظریہ (جیسے حلف الفضول)
پس جہاد کے لئے بھی کافر حتی کہ طاغوت سے بھی مدد لی جا سکتی ہے لیکن اسکو کافر اور طاغوت سمجھتے ہوئے اور لوگوں کو بھی یہ بتاتے ہوئے اور اس کافر کو بھی یہ بتاتے ہوئے کہ تم کو اس مدد سے آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہو گا پس جب میں کسی کو مشرک سمجھتا ہوں اور میرا یہ بھی نظریہ ہے کہ مشرک چاہے کلمہ گو ہو وہ کافر ہوتا ہے تو پھر میرا سکو یہ کہنا حرام بن جاتا ہے کہ اسکو من جھد غازیا فقد غزا والی حدیث سنا کر اس سے چندہ مانگوں یا اپنے پروگرام میں مشرک کو مسلمانوں کا عالم ظاہر کر کے اس سے اسلام کے حق میں تقاریر کرواؤں
ایسی کسی کے پاس کوئی مثال ہے تو میری اصلاح کے لئے بیان کر دے اللہ جزائے خیر دے گا ورنہ دوسری مثالوں کی مجھے ضرورت نہیں
نوٹ: یہاں یہ بات یاد رکھ لیں کہ جو کلمہ گو مشرک کو بھی کافر سمجھتے ہیں انکا یہ نظریہ بیان کیا ہے ابتہ جو انکو کافر ہی نہیں سمجھتے بلکہ مسلمان سمجھتے ہیں اور اجتہادی غلطی پر سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں انکے اس نظریے پر اعتراض کرنا ہو گا کیونکہ ایسے نظریے کے ساتھ تو انکے لئے کسی مشرک یا بدعتی کو بلانے کی گنجائش نکل آئے گی واللہ اعلم