- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
شروع سے ہی گزارش ہے کہ یہ تھریڈ بالکل جذباتی ہوگا ، کیونکہ آج ہمارے احساسات مردہ اور جذبات ماند ہوچکے ہیں ، کبھی کردار کی باتیں ہوتی تھیں ، آج ہماری گفتار اور سوچ بھی شکست خوردہ ہے ۔
دنیا کے سیم و زر سے والہانہ محبت ، جان سے اس قدر پیار کہ گویا ازل تا ابد یہاں رہنا ہے ۔ دینی دنیاوی کوئی بھی مرحلہ ہو ، سب سے پہلے جان کی پرواہ اور دنیاوی آسائشوں کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔
ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ ’ فکر و دانش ‘ اور ’ مصلحت کیشی ‘ کے اس دور میں ہمیں یہ باتیں بالکل عجیب سے لگنا شروع ہوگئی ہیں کہ ہمارا تعلق اس قوم سے جن کی ٹھوکر سے درایا صحرا اور ہیبت سے پہاڑ کپکپاتے تھے ، ہماری پست ہمتی اور بزدلانہ ذہنیت نے ہمیں یہاں لا کھڑا کیا ہے کہ ہمیں ان باتوں پر مومنانہ ایمان و یقین تو ہے کہ فرد واحد سے شروع ہونے والی اسلام کی اکائی ، جب دہائیوں اور چند سیکڑوں تک پہنچی ، تو اس نے ہزاروں کا مقابلہ کیا تھا ، مد مقابل لاکھوں میں بھی آگیا تو ہم ہزاروں میں ہی اس کے سامنے ڈٹ گئے ، جی ان باتوں کا ہمیں یقین تو ہے ، لیکن ساتھ ہماری دانش ہمیں یہ بھی باور کرواتی ہے کہ یہ اس دور کے قصے کہانیاں تھے ، جب فرشتے مدد کو اترا کرتے تھے آج کے دور میں اس طرح کی باتیں کرنا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں ۔
ہمارے حالات یہی رہے تو کوئی بعید نہیں کہ ہماری غلامانہ ذہنیت اور بزدلانہ پستی کی ترقی ان جرات و بہادری کی داستانوں کے انکار پر منتج ہو ۔
تاریخ سے دوری ، سلف صالحین کے واقعات سے ناگواری ، اسلامی غزوات کے تابناک کرداروں سے لاشعوری زہد کو کم کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ ہم قرآن وسنت ، احکام و مسائل کےساتھ ساتھ سیرت نبوی ، سیرت صحابہ و تابعین ، اسلامی جنگوں کے واقعات کو باقاعدگی سے پڑھیں ، ایک دوسرے کو سنائیں ، ان پر غور و فکر کریں ، ان کی جرات و بہادری ، ان کی جنگجویانہ حکمت عملی سمجھیں ، پھر کبھی امید رکھی جاسکتی ہے کہ امت مسلمہ کو اس کی کھوئی ہوئی عزت و سطوت اور قدر ومنزلت مل سکتی ہے ۔
وہ امت جس کا کچھ ’ طاؤس و رباب ‘ میں مست ہے ، کچھ جو اس میں غرق ہوکر ہلاکت کے دھانے پر ہے ، کچھ جو ابھی اس رنگ رلیوں کی حسرت میں دن رات ایک کرر ہے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے انہیں ’ شمشیر و سناں ‘ کی سمت سفر شروع کرنے پر آمادہ کیا جائے ۔
اس تھریڈ میں ہم نے نہ تو کسی جگہ حملہ پلان کرنا ہے ، نہ کسی حکمران کے کشتے کے پشتے لگانے ہیں ، کسی بندوق بردار کی حمایت کرنی ہے نہ اس کی سرکوبی کی دہائی دینے والے کو یہاں جگہ دینی ہے ۔
الغرض یہاں ’ عملی بات ‘ کوئی نہیں ہوگی ، یہاں صرف ’ جذبات ‘ گرمائے جائیں گے ، یہاں مجاہدین اسلام کی مختلف غزوات ، اور جنگوں میں ، معرکہ کے دوران ، یا معرکہ سے پہلے یا بعد کی تقریروں کے اقتباس نقل کیے جائیں گے ، تاکہ ہمیں ان کی سوچ و فکر کا انداز معلوم ہو ، اورایمان کا کم ترین درجہ یہ ہے کہ اگر کچھ کر نہیں سکتے تو سوچ تو درست رہنی چاہیے ۔
دنیا کے سیم و زر سے والہانہ محبت ، جان سے اس قدر پیار کہ گویا ازل تا ابد یہاں رہنا ہے ۔ دینی دنیاوی کوئی بھی مرحلہ ہو ، سب سے پہلے جان کی پرواہ اور دنیاوی آسائشوں کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔
ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ ’ فکر و دانش ‘ اور ’ مصلحت کیشی ‘ کے اس دور میں ہمیں یہ باتیں بالکل عجیب سے لگنا شروع ہوگئی ہیں کہ ہمارا تعلق اس قوم سے جن کی ٹھوکر سے درایا صحرا اور ہیبت سے پہاڑ کپکپاتے تھے ، ہماری پست ہمتی اور بزدلانہ ذہنیت نے ہمیں یہاں لا کھڑا کیا ہے کہ ہمیں ان باتوں پر مومنانہ ایمان و یقین تو ہے کہ فرد واحد سے شروع ہونے والی اسلام کی اکائی ، جب دہائیوں اور چند سیکڑوں تک پہنچی ، تو اس نے ہزاروں کا مقابلہ کیا تھا ، مد مقابل لاکھوں میں بھی آگیا تو ہم ہزاروں میں ہی اس کے سامنے ڈٹ گئے ، جی ان باتوں کا ہمیں یقین تو ہے ، لیکن ساتھ ہماری دانش ہمیں یہ بھی باور کرواتی ہے کہ یہ اس دور کے قصے کہانیاں تھے ، جب فرشتے مدد کو اترا کرتے تھے آج کے دور میں اس طرح کی باتیں کرنا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں ۔
ہمارے حالات یہی رہے تو کوئی بعید نہیں کہ ہماری غلامانہ ذہنیت اور بزدلانہ پستی کی ترقی ان جرات و بہادری کی داستانوں کے انکار پر منتج ہو ۔
تاریخ سے دوری ، سلف صالحین کے واقعات سے ناگواری ، اسلامی غزوات کے تابناک کرداروں سے لاشعوری زہد کو کم کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ ہم قرآن وسنت ، احکام و مسائل کےساتھ ساتھ سیرت نبوی ، سیرت صحابہ و تابعین ، اسلامی جنگوں کے واقعات کو باقاعدگی سے پڑھیں ، ایک دوسرے کو سنائیں ، ان پر غور و فکر کریں ، ان کی جرات و بہادری ، ان کی جنگجویانہ حکمت عملی سمجھیں ، پھر کبھی امید رکھی جاسکتی ہے کہ امت مسلمہ کو اس کی کھوئی ہوئی عزت و سطوت اور قدر ومنزلت مل سکتی ہے ۔
وہ امت جس کا کچھ ’ طاؤس و رباب ‘ میں مست ہے ، کچھ جو اس میں غرق ہوکر ہلاکت کے دھانے پر ہے ، کچھ جو ابھی اس رنگ رلیوں کی حسرت میں دن رات ایک کرر ہے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے انہیں ’ شمشیر و سناں ‘ کی سمت سفر شروع کرنے پر آمادہ کیا جائے ۔
اس تھریڈ میں ہم نے نہ تو کسی جگہ حملہ پلان کرنا ہے ، نہ کسی حکمران کے کشتے کے پشتے لگانے ہیں ، کسی بندوق بردار کی حمایت کرنی ہے نہ اس کی سرکوبی کی دہائی دینے والے کو یہاں جگہ دینی ہے ۔
الغرض یہاں ’ عملی بات ‘ کوئی نہیں ہوگی ، یہاں صرف ’ جذبات ‘ گرمائے جائیں گے ، یہاں مجاہدین اسلام کی مختلف غزوات ، اور جنگوں میں ، معرکہ کے دوران ، یا معرکہ سے پہلے یا بعد کی تقریروں کے اقتباس نقل کیے جائیں گے ، تاکہ ہمیں ان کی سوچ و فکر کا انداز معلوم ہو ، اورایمان کا کم ترین درجہ یہ ہے کہ اگر کچھ کر نہیں سکتے تو سوچ تو درست رہنی چاہیے ۔
Last edited: